"Layalpur Post" Global News, Views and Current Affairs. Daily News Updates
 
 

ANALYSIS OF BAKER V. CANADA: A LANDMARK CASE IN CANADIAN IMMIGRATION LAW 

by Harshran Singh Bhangu

Introduction: Baker v. Canada is a landmark case in Canadian jurisprudence, particularly in the realm of immigration and administrative law. Heard by the Supreme Court of Canada in 1999, the case fundamentally shaped the legal framework surrounding immigration decision-making and set significant precedents regarding the duty of procedural fairness owed by administrative decision-makers. This article provides an overview and analysis of the Baker v. Canada case, examining its background, key issues, legal arguments, and lasting impact on Canadian immigration law.                                                        Background: The case revolves around the immigration application of Hadassah Ruth Baker, a Jamaican citizen seeking permanent residency in Canada on

فیض آباد دھرنا کیس، سچ بولیں ڈر کیسا: چیف جسٹس

اسلام آباد (وقائع نگار)عدالت عظمی میں '' فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دینے '' کے خلاف ازخود نوٹس کیس کے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کئے گئے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت سمیت مختلف فریقین نے اپنی اپنی نظر ثانی کی درخواستیں واپس لینے کے حوالے سے متفرق درخواستیں جمع کروادی ہیں تاہم عدالت نے سردست انہیں زیر التوا رکھتے ہوئے تمام درخواست گزاروں کو اپنا موقف پیش کرنے کا ایک اور موقع دے دیا ہے ، عدالت نے آئندہ سماعت پر تمام درخواست گزاروں کے وکلا کو اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ اٹارنی جنرل اور درخواست گزاروں کے وکلا اگر کوئی معروضات جمع کروانا چاہیں تو 27اکتوبر تک جمع کرو اسکتے ہیں،دوران سماعت اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کی اجازت دینے کی استدعا کرتے ہوئے عدالت کے مرکزی فیصلے پر عملدرآمد اور پیشرفت رپورٹ جمع کرانے کے لیے مہلت دینے کی استدعا کی تو عدالت نے اسے منظو رکرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پرمشتمل تین رکنی بینچ جمعرات کے روز تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)کی جانب سے 2017 میں راولپنڈی، اسلام آباد کو ملانے والی مرکزی شاہرہ پر واقع'' فیض آباد انٹر چینج ''پر دیے گئے دھرنا کے خلاف ازخود نوٹس کیس کے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کئے گئے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ، پیمرا، آئی بی ،پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور شیخ رشید وغیرہ کی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کی تو وزارت دفاع ،انٹیلی جنس بیورو،پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی،پاکستان تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستوں کی پیروی نہ کرنے اور اپنی اپنی درخواستیں واپس لینے کی اجازت دینے کی استدعا کی گئی،فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے تو کہا جاتا تھا کہ یہ فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے۔

کیا اب اس فیصلے میں سے غلطیاں ختم ہوگئی ہیں، نظرثانی کی درخواستیں واپس لینے کی کوئی اور وجہ ہے؟انہوںنے کہا کہ عدالت کا قیمتی وقت ضائع کیا گیا ہے ، ملک وقوم کو بھی پریشان کیے رکھا ہے، اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے کے اجرا میں کوئی غلطی ہو گئی ہو؟ ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں، کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے، یہاں عدالت میں تو سب خاموش ہیں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر کہیں گے کہ عدالت نے ہمارا موقف ہی نہیں سنا ہے ،انہوںنے کہاکہ جو اتھارٹی میں رہ چکے ہیں، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریرکرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا ہے، اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، کل کوئی یہ نہ کہے کہ نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ہمیں سنا نہیں گیا تھا،فاضل چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ اگراس فیصلے پر عمل درآمد ہوچکا ہوتا تو فیصلے کے بعدمذہبی انتہا پسندی کے جو واقعات ہوئے وہ وقوع پزیر نہ ہوتے ،دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے عدالت سے نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کی اجازت دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن کمیشن نے خود سے نظر ثانی کی یہ درخواست دائر کی تھی یا کہا گیا تھا؟انہوںنے کہاکہ پاکستان میں وہ سب کچھ ہوتا ہے ؟جو کہیں نہیں ہوتا ہے،کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم آیا ہے، نعوز اباللہ اوپر سے حکم اللہ کا نہیں کسی اور کا ہوتا ہے؟

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن کمیشن تب ٹھیک تھا یا اب ٹھیک ہے؟ کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا؟ الیکشن کمیشن نے تب کس کے کہنے پر نظرثانی کی یہ درخواست دائرکی تھی؟فاضل چیف جسٹس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ آرکیسٹرا میں سب اپنا اپنا میوزک بجاتے ہیں لیکن کمانڈ ڈنڈا لیے سامنے کھڑا شخص دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہورہا تھا ؟یااب ہورہا ہے یا یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے؟فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ خود احتسابی بھی کوئی چیز ہے ؟پہلے سچائی تسلیم کر کے اعتراف جرم تو کرلیں؟مان لیں کہ ایک آئینی ادارہ فرد واحد کے حکم پر چل رہا تھا ،اس نے حکم دیا اور ہم نے تعمیل کی تھی،انہوںنے کہا کہ ڈر خوف کس کا ہے ؟سچ کہنے کی جرات تو کرلیں، لمبی لمبی تقرریں کرلیں گے،ٹی وی پر بات کر لیتے ہیں تو یہاں پر بھی جرات کرلیں،چیف جسٹس نے ریما رکس د یے کہ ا لیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، ایک آئینی ادارہ اتنی ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟آپ لکھ کر کہیں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی کی درخواست دائر کریں، یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا؟ جزا سزا بعد میں ہوگی، اعتراف جرم تو کریں، مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فرد واحد کے حوالے کیا گیا تھا، آج الیکشن کمیشن آزاد ہوگیا ہے، ہمت ہے تو کہیں تب کون یہ سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا، پورے پاکستان کو منجمد کیا گیا تھا،فاضل چیف جسٹس نے کہا 2017میںملک کے معاملات کیسے چل رہے تھے؟

کون تھا جو یہ سب کچھ کروارہا تھا ،پورا ملک رک گیا تھا ، اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ''مٹی پاﺅ،، نظر انداز کرو'' تو وہ بھی لکھ دیں،انہوںنے کہاکہ 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے، کراچی کی سڑکوں پر 55لوگ مرے تھے لیکن کیا ہواہے، کچھ بھی نہیں؟ اس پر بھی مٹی پاو؟انہوںنے کہا کہ آج بھی جتھے طاقتور ہیں، جتھے کی طاقت کی نفی نہیں کی گئی ہے،ہجوم کی طاقت سے آج بھی وہی کررہے ہیں،ہم نے سبق نہیں سیکھا ہے ،انہوںنے (مولوی طاہر القادری) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کدھر ہے وہ صاحب، کینیڈاسے یہاں جمہوریت کے لیے آئے تھے، وہ اپنے ملک میں یہ سب کچھ کرکے تو دکھائے، کینیڈا سے واپس کیوں نہیں آتے ہیں؟انہوںنے کہا 12مئی کے واقعات نے پہلی مرتبہ پاکستان کی سیاست میں کنٹینرز کو متعارف کرایاتھا،کنٹینرز کیوں لگا دیتے ہیں ؟یہ کیا ذہنیت ہے کہ آج کا دن خیریت سے گزار، بہت ہے،آگے دیکھیں گے ؟زندہ معاشروں اور قوموں میں ایسا نہیں ہوتا ہے،زندہ قومیں اسی اسی سال بعد بھی اپنے مجرموں کو ارجنٹائن سے لاکر ان کا احتساب کرتی ہیں،لاکر بی بمبنگ کے مجرموں کا کیا ہواتھا ؟چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہورہی ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان تو غلطیاں بھی تسلیم نہیں کرتا ہے، مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے، احتساب سے کسی کو انکارنہیں ہونا چاہیے، یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتاکہ نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت، حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو، الیکشن کمیشن بھی سابقہ یا موجودہ نہیں ہوتاہے ، یہ ادارہ ہے، ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے، ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں ، سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں،جرمنی میں فسطائیت تھی انھوں اعتراف جرم کیا، جو ہوا اس کا اعتراف تو کرلیں؟چیف جسٹس نے کہا میں ایک اور جانب سے بھی یہ فیصلہ چیلنج کرنے کی توقع کررہا تھا لیکن خادم رضوی مرحوم نے تو فیصلہ تسلیم کیا ہے۔

آپ لوگ تو وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتے،بڑا پن یہ ہے کہ غلطی تسلیم کرلیں ،ہم سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اسی لیے نظر ثانی کی جاتی ہے، دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ درخواستیں تاخیر سے سماعت کے لئے مقرر کرنے کی وجہ سے بہت سے معاملات غیر موثر ہوگئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو الزام آپ سپریم کورٹ پر بالواسطہ لگا رہے ہیں؟ وہ براہ راست لگائیں ،کون تھا جس نے معاملات کو غیر مو ثر کردیاہے ،ہم اس کو دیکھیں گے،کوئی تو ذمہ دار ہے ،کسی کو تو ذمہ داری لینے پڑے گی، چیف جسٹس نے حضرت عمر فاروق کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک شخص تھا جس نے کہا تھا کہ اگر دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوک سے مرا تو میں ذمہ دار ہوں گا ،انہوںنے کہاکہ سب کو جوابدہ ہونا چاہیے،انہوںنے کہا کہ ہم نے اپنے فیصلے میں کسی کا اختیار نہیں لیا تھا بلکہ انھیں ان کا اختیار استعمال کرنے کا کہا تھا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی 17ہدیات پر عمل درآمد کرنے سے بھی ہم آگے جائیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب یہ فیصلہ درست تھا تو آپ نظرثانی میں یہاںکیوں آئے ہیں؟ عدالت کا وقت ضائع کرنے پر تو آپ کوہرجانہ عائد ہونا چاہیے،جسٹس اطہر من اللہ نے استسفار کیا کہ کیا تمام سرکاری اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا تھا؟ وہ ٹھیک ہے،انہوںنے کہاکہ فیض آباد دھرنا سے متعلق فیصلہ ایک لینڈ مارک فیصلہ ہے، شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ جج صاحب کا بڑا پن ہے، لیکن خود احتسابی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا ،پاکستان میں ری کنسلیشن کمیشن نہیں بنا ہے،فاضل چیف جسٹس نے سور توبہ کی آیت کا حوالہ دیا کہ'' اے ایمان والوسچے لوگوں کا ساتھ دو اور کہا کہ ہم امتحان میں کامیاب ہوگئے ہیں،اب آپ کا امتحان شروع ہوگیا ہے قبل ازیں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار ،شیخ رشید کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے اور التوا کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے موکل کے وکیل امان اللہ کنرانی صوبائی وزیر قانون بن گئے ہیں۔

جس پر عدالت نے متبادل وکیل مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اگر اگلی سماعت پر متبادل وکیل پیش نہ ہوا توآپ خود( ایڈوکیٹ آن ریکارڈ) کیس کی پیروی کریںگے ،سابق وفاقی وزیر اعجا زالحق کے وکیل نے فیصلے کا ایک پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس آبزرویشن سے ان کا مو کل متاثر ہورہاہے ،انہوںنے عدالت کی ہدایت پر متعلقہ پیرا گراف پڑھ کر سنایا تو چیف جسٹس نے کہا یہ ہماری آبزرویشن نہیںہے ، ہم نے تو آئی ایس آئی کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے،اگر وکیل سمجھتا ہے کہ رپورٹ غلط ہے تو اپنے موکل کا بیان حلفی جمع کرائے، چیف جسٹس نے کہا پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ،یہ ریگولر بینچ ہے، خصوصی بینچ نہیں ہے، سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواستیں فوری طور پر سماعت کے لئے مقرر ہوتی ہیں، لیکن یہ درخواستیں چار سال تک مقرر ہی نہیں ہوئیں، مرکزی کیس کا فیصلہ دینے والے ایک جج (جسٹس مشیر عالم)ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، اس لیے کیس اسی بینچ کے سامنے نہیں لگ سکا ہے ،دوران سماعت اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کی جانب سے پیش ہوکر بتایا کہ نظر ثانی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے ہیں،جس پر عدالت نے سوالات اٹھائے ۔

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ جب نظر ثانی کی یہ درخواست دائر کی گئی تھی ،اس وقت ملک میں کوئی اورحکومت ،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی ہے ،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا میں عدالت میںاپنا بیان دے رہا ہوں،دوران سماعت پیمرا کی جانب سے وکیل نے درخواست واپس لینے کی اجازت دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کس کی ہدایات پر یہ درخواست واپس لے رہے ہیں، یوٹیوب چینلز پر تبصرے کئے جاتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ جو اتھارٹی میں رہ چکے، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریرکرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کے لیے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، ہم پیمرا کی درخواست کو زیر التو رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے کہ ہمیں سنا نہیں گیاتھا۔

،پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر ایڈوکیٹ پیش ہوئے اور بتایا کہ ان کی موکل جماعت تھی نظر ثانی کی درخواست واپس لینا چاہتی ہے ،توچیف جسٹس نے کہا کہ اگر بھی آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں، ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے کہا گیا تھا یہ فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، کیا اب اس فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئی ہیں، کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی اور وجہ ہے؟دوران سماعت یم کیوں یم کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے بتایا کہ ان کا اپنے مو کل سے رابطہ نہیں ہورہا ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایم کیو ایم کا تو ایک وزیر وہوا کرتا تھا ،بعد ازاں عدالت نے درج بالا احکامات کے ساتھ کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی زیر صدارت اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق سپریم کورٹ کے زیادہ تر کیسز میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں فریق ہوتی ہیں۔ چیف جسٹس نے لاءافسروں سے سپریم کورٹ کا نظام بہتر بنانے سے متعلق تجاویز طلب کیں۔ لاءافسران نے سپلیمنٹری کاز لسٹ تاخیر سے جاری ہونے کی شکایت کی اور کہا کہ کاز لسٹ تاخیر سے جاری ہونے سے مقدمے کی تیاری کا وقت نہیں ہوتا۔ لاءافسران کو مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی گئی۔ لاءافسران نے اکتوبر کی کاز لسٹ جاری کرنے کے اقدام کو سراہا اور کچھ تجاویز دیں جن پر غور کیا جائے گا۔ لاءافسران نے چیف جسٹس کی جانب سے اس نوعیت کے پہلے اجلاس بلانے کے اقدام کو سراہا۔