شاید ہم زرعی ایمرجنسی کا شکار ہوجائیں۔ ایک ایسا ملک جس کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہو، وہ پانی کی اس کمیابی والے مسئلے کی وجہ سے بہت تیزی سے نیچے کی طرف جاسکتا ہے۔ اس سے بے چارہ کسان تو مرے گا ہی لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ اس مسئلے کی وجہ سے بڑے بڑے شہروں کے پوش ایریاز میں رہنے والے لوگ بھی بھوکے مریں گے جب انہیں وقت پر اناج نہیں ملے گا۔ اس بات پر حد درجہ حیرانی ہے کہ وسطی پنجاب کے بہت سے اضلاع میں خریف کی فصل ابھی تک کاشت نہیں ہوئی لیکن کسی کے بھی کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسان تو شاید اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر بیٹھے ہیں لیکن ان علاقوں کے سیاستدان اس پر احتجاج کیوں نہیں کررہے؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پانی کی کمی کی وجوہ میں بھارتی آبی جارحیت والا رونا ضرور رویا جائے لیکن اس کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کے چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر بھی عمل کیا جائے تاکہ کم از کم ہم مون سون میں ہونے والی بارشوں کا پانی ممکنہ حد تک ذخیرہ کرسکیں جو ہر سال ہمیں سیلاب کی صورت میں نظر آتا ہے یا پھر یہ پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ جو حضرات خیبر پختونخواہ کے چھوٹے ڈیم والے منصوبوں کا مذاق اڑاتے ہیں ان کےلیے نوید ہے کہ ان چھوٹے ڈیموں کی اہمیت کا اندازہ ان شاء اللہ اگلے پانچ سال میں انہیں ہوجائے گا۔ ملک بھر کے کسانوں کو اب سنجیدگی سے جدید زرعی آلات کا استعمال سیکھنا ہوگا، ڈرپ اریگیشن سسٹم اس علاقےکےلیے اب ناگزیز ہوچکا ہے۔ محکمہ زراعت اس کےلیے چھوٹے کسانوں کو ہر ممکن سہولت جلد از جلد فراہم کرے۔ اگر ہمارا کسان خوشحال ہوگا تو ملک کی معیشت خوشحال ہوگی۔ اگر ملکی معیشت بہتر ہوگی تو پوش علاقوں میں بسنے والی زندگیاں بھی چہک سکیں گی۔