Daily "Layalpur Post"
 

عمران خان ناکام کیوں ہوئے؟

بلوچستان کے اصل مسائل کا ادراک کریں

روضہ رسولؐ کے سامنے اذیت ناک سیاسی مظاہرہ

 ”ہماراکلچر توبس ایگری کلچرہے“

احتساب اور اعتماد۔نجم سیٹھی

اساتذہ کرام کے نام۔سلیم صافی

میرے قابلِ صد احترام، معزز اساتذہ کرام۔ آپ کی خدمت میں چند گلے شکوے اور چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ میرے احباب جانتے ہیں کہ میں اساتذہ کرام کا کتنا احترام کرتا ہوں۔ میرے ٹی وی پروگرام کے لیے اگر کبھی کسی استاد یا کسی پروفیشنل ڈاکٹر نے آنا ہو تو ان کو ریسیو کرنے کے لیے میں خود نیچے جاتا ہوں۔

میری شادی کی تقریب کے مہمان خصوصی بھی ایک استاد تھے اور میری والدہ کے جنازہ کی امامت بھی میں نے اپنے ایک استاد سے کرائی۔ میری نظر میں کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ لائق احترام آپ لوگ ہیں کیونکہ آپ پیغمبرانہ پیشے سے وابستہ ہیں۔ گستاخی کی پیشگی معذرت کہ آج آپ کی خدمت میں چند گلے شکوے رکھنا چاہتا ہوں اور ان شکووں کا تعلق براہ راست میری ذات سے نہیں بلکہ اس قوم کی نئی نسل کی تعلیم وتربیت، ان کے سیاسی اور سماجی شعور اور اس ملک و ریاست کے مستقبل سے ہے۔

اس ملک کی آبادی کا 66 فی صد یعنی ایک تہائی بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد پبلک اور پرائیویٹ اسکولوں اور مدارس میں زیر تعلیم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ملک کی آبادی کا ایک تہائی حصہ آپ کی نگرانی میں ہے۔ پاکستان میں جامعات کی تعداد اب کم وبیش دو سو ہے جن میں لاکھوں نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ دینی مدارس، کالج اور اسکول الگ ہیں۔ نوجوانوں کو آپ یقیناً ریاضی، انگریزی اور سائنس بھی پڑھا رہے ہونگے لیکن چند مضامین اسلامک اسٹڈیز، مطالعہ پاکستان، تاریخ، ادب اور سماجیات کے بھی ہونگے۔

 مجھے گلہ یہ ہے کہ اس نئی نسل کو زندگی کا شعور، اختلاف کرنے کا سلیقہ، مکالمے کے بنیادی اصول اور اس کا طریقہ کار، ریاست اور حکومت کا فرق، حکومتوں کے اقتدار میں آنے کے آئینی اور قانونی طریقہ کار اور حکومت سے جانے کے طریقہ کار، آئین اور قانون کی حرمت، لاقانونیت سے جنم لینے والے مسائل، خانہ جنگی کے اسباب اور ان کا تدارک، عالمگیریت کے اس دور میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کی ضرورت اور اہمیت، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور اس کی اہمیت، آدابِ سفارت کاری علی ھذاالقیاس، یہ سب اور اس نوعیت کے دیگر موضوعات سکھانے اور ان کا شعور پیدا کرنے پر آپ کیوں توجہ نہیں دیتے؟ کیا ایک استاد کی ذمہ داری ریاضی کا مضمون پڑھانے اور انگریزی سکھانے کے بعد ختم ہو جاتی ہے؟

ماضی قریب کے چند واقعات ایسے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر پاکستان کی نئی نسل نے ایک ایسے طریقے سے حصہ لیا کہ تنقید کا رخ فطری طور پر اساتذہ کی طرف ہوجاتا ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں بچوں کی کیا تعلیم و تربیت ہورہی ہے۔ ظاہر ہے میرے کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ والدین اور دیگر ادارے ذمہ دار نہیں ہیں، وہ بھی یقیناً ہیں بلکہ بنیادی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ لیکن اس وقت میرے مخاطب اپنے جلیل القدر اساتذہ ہیں۔ ولی خان یونیورسٹی میں طالب علم مشال خان کو بے دردی سے قتل کیا گیا.

 واقعے میں براہ راست ملوث سارے طالب علم ہی تھے۔ اسی طرح کسی جذباتی مذہبی اور مسلک پرست لیڈر کی کال آتی ہے تو نوجوانوں کا ہی ایک بڑا طبقہ سوچے سمجھے بغیر لبیک کہتا ہوا آگے نکلتا ہے، نہ وہ لگائے جانے والے نعروں کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، نہ اس کے نتائج پر سوچتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ نئی نسل کو جذباتی تقریروں اور ایک سنجیدہ بات چیت کے درمیان فرق نہیں سمجھایا گیا۔

طالب علموں کو یہ نہیں سکھایا گیاکہ وہ جب کوئی بات سنیں یا کوئی تحریر پڑھیں تو اس کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور اس کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے۔ سوات، دیر، سیالکوٹ، مردان، راوالپنڈی میں بعض جذباتی مقررین کی وجہ سے کتنا خون بہا، کتنے گھرانے اجڑ ے اور پاکستان کی سیاست اور سماج پر اس کے کتنے بھیانک اثرات مرتب ہوئے۔

اگر کوئی لیڈر یا رہنما نوجوان طالب علموں سے یہ کہتا ہے کہ میں تیس دن میں نظام انصاف بدل دونگا، بیس دن میں ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردونگا تو نئی نسل اور طالب علموں میں یہ صلاحیت ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اس جذباتی تقریر کا تجزیہ کرسکیں اور اپنی تنقیدی جائزہ کی صلاحیت کو استعمال کرکے یہ فیصلہ کرسکیں کہ اتنے دِنوں میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔مذہب اور مذہبی اصطلاحات کو اس بدقسمت ملک میں پہلے دن سے سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہاہے اور اس کے کئی خمیازے ہم بھگت چکے ہیں۔ لیکن میں اس میں بھی فرق کرتا ہوں۔

 اگر کوئی مذہبی سیاسی جماعت جیسے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی، ایک باقاعدہ نظریے کے طور پر سیاست میں حصہ لیتی ہے، ایک پرامن لائحہ عمل پیش کرتی ہے اور اس جماعت کا پورا کلچر اس مذہبی نظریے کاثبوت ہو تو میں شاید پھر بھی اختلاف کروں، لیکن اپنے اختلاف کے باوجود، میں اس کو یہ حق دیتا ہوں کہ وہ دیگر سیاسی نظریات کی طرح مذہبی سیاست بھی کرے۔

 لیکن اگر کوئی جماعت یا لیڈر جزوقتی مشغلہ اور قلیل المدتی نتائج کے لیے مذہبی اصطلاحات کو بے دریغ استعمال کرتا ہے تو میرے اندر یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریات کے فرق اور اس طرح کے خودغرضانہ مقاصد کے لیے مذہب کی مقدس اصطلاحات اور شخصیات کے نام کواستعمال کرنے والوں کے درمیان امتیاز کرسکوں۔ لیکن یہاں بھی میری مایوسی اور پریشانی یہ ہے کہ جدید تعلیمی نظام نئی نسل کو یہ فرق سمجھانے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ تعلیمی ادارے اور اساتذہ کرام اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور نئی نسل کو تنقیدی سوچ کا حامل بنائیں، ریاست اور حکومت کا فرق سمجھائیں، آئین اور قانون کی اہمیت سمجھائیں بھی اور اس پر عمل کرنے کی عملی صورتوں سے وضاحت بھی کرائیں، جذباتی تقریروں اور سنجیدہ مکالمے کا فرق بتائیں، شہریت کی بنیادی باتوں کے بارے میں ایجوکیٹ کریں، پر امن اور مہذب گفتگو کا سلیقہ سکھائیں۔

 یہ ایک ایسا کام ہے کہ اگر اساتذہ کرام اور تعلیمی ادارے کر گزرینگے تو حقیقی معنوں میں ایک نیا پاکستان بن سکے گا اور ایک فلاحی ریاست وجود میں آسکے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

احتساب اور اعتماد

نجم سیٹھی

شریف گھرانے میں پڑنے والی دراڑ اب نمایاں دکھائی دے رہی ہے۔ نواز اور مریم ، شہباز شریف اور حمزہ سے فاصلے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اوّل الذکر ریاست اور حکومت کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے سامنے مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔ ثانی الذکر اس ’’محاذ آرائی ‘‘ کو سیاسی خود کشی سے تعبیر کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی طے کردہ حدود کے اندر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس اختلاف کا پہلا عوامی اظہار این اے 120 کے ضمنی انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آیا جب حمزہ شہباز سامنے سے ہٹ گئے اور مریم نواز کو انتخابی مہم چلانی پڑی۔ اس سے پہلے یہ حلقہ حمزہ شہباز، جو پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی انتخابی مشینری چلارہے ہیں، کی نگرانی میں تھا۔ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں فتح کے مارجن نے شہباز شریف کے موقف کو درست ثابت کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصاد م کی راہ سے گریز بہتر ہے ۔ باپ اور بیٹی سیاسی طور پر ’’شہادت اور مظلومیت ‘‘ کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے بھاری انتخابی کامیابی کی امید لگائے ہوئے تھے ، لیکن ایسا نہ ہوا۔
پی ایم ایل (ن) کے ووٹ کو سہ رخی پیش رفت نے نقصان پہنچایا۔ ایک ، اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکائو رکھنے والی دو مذہبی جماعتیں سیاسی اکھاڑے میں اترتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کا کم از کم دس فیصدووٹ بنک لے اُڑیں۔ دوسری، پی ایم ایل (ن) کے اہم کارکنوں، جو الیکشن کے مواقع پر ووٹروں کو تحریک دے کر گھروں سے باہر نکالنے کی مہارت رکھتے ہیں، کی اچانک ’’گمشدگی‘‘ ، اور تیسری، دودرجن کے قریب ایسے امیدواروں کا الیکشن میںحصہ لینا جن کے ووٹ چند ہزار سے زیادہ نہیں تھے لیکن اگر وہ نہ ہوتے تو یہ ووٹ مجموعی طور پر پی ایم ایل (ن) کے امیدوار کو ملتے ۔
اب حمزہ نے ٹی وی پر آکر شریف خاندان میں نمایاں ہونے والے اختلافات کا اعتراف کیا ہے ۔ تاہم وہ اور مریم اب ہونے والے نقصان کی تلافی کی کوشش کررہے ہیں۔ حمزہ کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات ایسی خلیج نہیں جسے پُر نہ کیا جاسکے ، نیز اُنہیں اور ان کے والد صاحب (شہباز شریف ) کو امید ہے کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں نوازشریف اور مریم کو تصادم اور محاذآرائی کے راستے سے گریز پر قائل کرلیں گے ۔ دوسری طرف مریم کا کہنا ہے کہ اُنھوںنے اپنے چچا، شہباز شریف اور کزن، حمزہ کے ساتھ چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک شاندار سہ پہر گزاری ، نیز خاندان میں اختلاف کی خبریں مخالفین کی خواہش تو ہوسکتی ہیں لیکن ان میںحقیقت کا کوئی عنصر موجود نہیں۔
اس دوران اسٹیبلشمنٹ کا موڈ جارحانہ ہے ۔ نوازشریف کو عہدے سے ہٹانے کے بعد اب یہ ان ٹی وی اینکروں اور چینلوں کی آواز خاموش کرارہی ہے جو نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یا ریاسست کے بیانیے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے ۔ کیبل آپریٹروں پر دبائو ڈالنے سے لے کر پریشانی پیدا کرنے والے چینلوں کی نشریات روکنے تک، ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جارہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوںکی حب الوطنی کو مشکوک بناتے ہوئے اُنہیں غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے ۔
حالیہ دنوں ایک غیر معمولی مداخلت بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔ آرمی چیف نے عوامی سطح پر دئیے جانے والے ایک بیان میں ’’بیمار معیشت ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا کہ اس سے ’’نیشنل سیکورٹی ‘‘ کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ معیشت کی خراب صورت ِحال کوئی نئی بات نہیں، کئی عشروں سے ہمیں اسی ’’بیماری ‘‘ کا سامنا ہے ۔ تاہم آج معیشت کی صورت ِحال اتنی خراب نہیں جتنی ماضی میں کئی ایک مواقع پر تھی۔ شریف حکومت اور اس کے فنانس منسٹر اسحاق ڈار پر اسٹیبلشمنٹ کے توپچیوں کا لگا یا جانے والا ایک الزام یہ بھی ہے۔
پی ایم ایل (ن) کو فخر ہے کہ اس نے نہ صرف معیشت کی حالت بہتر کی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے بھی امکانات پیدا کیے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے انچارج، وزیر ِد اخلہ احسن اقبال نے دوٹوک انداز میں ان الزامات کو مسترد کردیا، جبکہ وزیر ِاعظم عباسی نے فوراً ہی آرمی چیف سے ملاقات کی اور اُنہیں حقیقی صورت ِحال کے متعلق بریفنگ دی اور معیشت کے بارے میں اُن کے خدشات رفع کیے ۔ تاہم ایک بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت چند سال پہلے کی جانے والی مداخلت سے کم اہم نہیں جب سندھ کی سیاسی اشرافیہ پر کئی بلین ڈالر بدعنوانی کے الزامات تھے ( جو ثابت نہ ہوسکے ) اور اس بدعنوانی کا تعلق دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے نتیجے میںآصف زرداری کے کچھ اہم معاونین کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ، ایک چیف منسٹر کو عہدہ چھوڑنا پڑا اور صوبے پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔
لیکن اگر نوازشریف کے لیے سیاسی موسم خراب ہے تودوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی براہ ِراست مارشل لا لگانے کی پوزیشن میں نہیں۔ تمام تر افواہیں اپنی جگہ پر ، لیکن اب اسلام آباد میں ’’ماہرین ‘‘ کی حکومت مسلط کرنا کسی کے بس میں نہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس بات کو یقینی بنائے بغیر کہ کیا پی ٹی آئی اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے گی، دونوں مرکزی جماعتوں، پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی ناراضی مول لے رکھی ہے ۔ درحقیقت یہ دومرکزی دینی جماعتوں، جماعت ِاسلامی اور جے یو آئی پر بھی مکمل طور پر تکیہ نہیں کرسکتی ۔ پی ایم ایل (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی اس کی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہورہیں۔ نہ ہی یہ براہ ِراست مداخلت کے لیے موجودہ عدلیہ کی تائید پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرسکتی ہے ۔ انتہائی کھولتے ہوئے عالمی حالات میں اقتدار کی سیج کانٹوں کا بستر ہے ۔ چنانچہ مارشل لا کو خارج ازامکان سمجھیں۔
موجودہ حالات میںٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ آئین میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ تھیوری کے اعتبار سے صرف ایک صورت میں ایسا ہوسکتا ہے جب پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا جائے اور ایک نگران حکومت قائم کی جائے جس کی توثیق عدلیہ کردے ۔ لیکن آج کے ماحول میں اس کی کوشش وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلق کو نقصان پہنچائے گی،اور یہ اقدام ریاست، معاشرے اور معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ قوم کا المیہ یہ ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کا احتساب کرنے والے خود احتساب سے ماورا ہیں ۔ چنانچہ اعتماد کا فقدان اپنی جگہ پر موجود ہے ۔