- حکومت کا آصف زرداری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ - لاڈلے کے پھٹے ڈھولوں سے ڈرنے والے نہیں ان کا مقابلہ کریں گے، آصف زرداری - بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے 6 رکنی کمیٹی قائم - پاکستان دنیا کے 10 بہترین سیاحتی ممالک کی فہرست میں شامل - العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھانے کیلئے نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے - چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب حکومت پر میرٹ کے خلاف ڈاکٹرکی تقرری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ ہے نئی حکومت کا میرٹ اور یہ ہے نیا پاکستان - سال 2018 ؛ گرین شرٹس ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں چھائے رہے - اسلام آباد میں قطر کے پہلے ویزا سینٹر کا افتتاح کردیا گیا - بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، مستحق خواتین کیلئے ہر 3 ماہ بعد 5ہزار
Logo Design by FlamingText.com
Logo Design by FlamingText.com
Logo Design by FlamingText.com
Logo Design by FlamingText.com

زرداری صاحب جوش خطابت میں میاں صاحب سے پنجاب چھیننے کی بات کرگئے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

سلیکٹڈ سے نہیں ہوگا

اسپین پر مسلمانوں کی گرفت کمزور ہوچکی تھی، ملک چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکا تھا، غرناطہ واحد ریاست بچی

تھی جس پر مسلمانوں کا اقتدار تھا۔ غرناطہ کو ڈوبتے دیکھ کر آخری مسلمان حکمران ابوعبد اللہ اپنی ماں سے مخاطب تھا اور روتا جارہا تھا، اپنی بے بسی پر ماتم کناں تھا۔ ماں تو ماں ہوتی ہے، اپنے بیٹے کو بلبلاتے ہوئے دیکھ کر بولی ’’جب وقت تھا تم نے اپنی سلطنت بچانے کی کوشش نہیں کی، اب بچوں کی طرح رونے کا کیا فائدہ؟ اب تو تمہاری سلطنت کا سورج ڈوب چکا ہے۔

‘‘ دنیا کی طرح ملک بھر میں ہلچل جاری ہے۔ ملک میں وائرس کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، روز بروز ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، پہلے کی نسبت یہ تعداد زیادہ ہے۔ اچانک اضافہ ہوا، سب سے زیادہ پنجاب میں کورونا کے مریض ہیں، دوسرا نمبر سندھ کا ہے۔ تفتان سے آنے والوں کے بعد رائیونڈ تبلیغی اجتماع میں شریک لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس مرکز میں کیسوں کی تعداد زیادہ ہونے پر پورے رائیونڈ شہر کو بند کردیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر لاہور کہتے ہیں کہ تبلیغی مرکز میں ہم نے 1200 افراد کو لاک ڈاؤن میں رکھا ہوا ہے۔

تما م افراد کے ٹیسٹ ہوئے، اجتماع میں 500 غیرملکی افراد بھی شریک تھے۔ گجرات میں چار مریضوں میں سے ایک مریض سے ملنے والے 40 افراد کا ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں سے 27 افراد میں مثبت پایا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ وائرس کتنی تیزی سے پھیلتا ہے۔ ننکانہ صاحب میں 2 افراد میں کورونا پایا گیا جو سعودی عرب سے آئے۔ حیدرآباد، بھارہ کہو، بونیر کی بستی منگا، اور لیہ سمیت دیگر علاقوں میں بھی تبلیغی اجتماع سے جانے والوں میں وائرس پایا گیا۔ اب پنجاب کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جو جو رائیونڈ اجتماع میں شریک رہا، ان سب کی فہرستیں بنائی جائیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت اننچاس فیصد مریض زائرین ہیں، 10 فیصد وہ ہیں جن کی کوئی ٹریول ہسٹری ہے، 30 فیصد ان کے میل جول رکھنے والے ہیں، 10 فیصد وہ لوگ ہیں جو تبلیغی اجتماع سے لوٹے۔ اس اجتما ع میں اندرون ملک سے ڈھائی لاکھ اور بیرون ممالک سے سیکڑوں افراد شریک ہوئے جنہیں لاہور کی مختلف جگہوں پر ٹھہرایا گیا۔ تبلیغی مرکز میں موجود 800 افراد کو لاہور کے کالا شاہ کاکو سینٹر منتقل کیا گیا ہے۔ حیدرآباد کی نور مسجد میں 94 تبلیغی ارکان میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ کراچی میں مرنے والے 2 افراد اس اجتماع میں شریک ہوئے تھے۔

اسی طرح تفتان سے آنے والے زائرین جہاں جہاں گئے، وہاں سے کورونا کے مریض ملے۔ تفتان سے آنے والوں کو بلوچستان میں ہی روکا جاسکتا تھا لیکن انہیں ہماری دور اندیش حکومت نے پورے ملک میں پھیلا دیا۔ انہیں یہاں سے لاکر سکھر، ڈی جی خان، ملتان، ڈی آئی خان، فیصل آباد، لاہور، سرگودھا تک آباد کردیا۔ کچھ ایسے زائرین بھی تھے جنہیں چپکے سے گھروں میں بھیج دیا گیا۔ ان کے گھر جانے کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ہر پاکستانی مشکوک لگنے لگا ہے۔ ان کو باہر نکالنے والے مہربانوں میں وزیراعظم صاحب کے قریبی دوست کا نام آرہا ہے۔ یہ وہ بارودی سرنگیں ہیں جو ہم نے اپنے ہاتھوں سے ملک کے طول و عرض میں بچھائی ہیں۔

اگر ان سب کو وہیں لاک کردیا جاتا تو پورا ملک لاک ڈاؤن نہ کرنا پڑتا۔ پنجاب میں صورت حال یہ ہے کہ 1200 سے 1300 ٹیسٹ روزانہ ہورہے ہیں۔ پرائیویٹ لیبز 500 سے 600 ٹیسٹ روزانہ کررہی ہیں۔ میو اسپتال، پی کے ایل آئی کو بھی 400 بیڈ تک جایا جارہا ہے۔ راولپنڈی کے یورولوجی اسپتال میں 200 بیڈز بڑھائے جارہے ہیں۔ ہمارے پاس ٹوٹل 1250 وینٹی لیٹرز ہیں۔ ان میں پرائیویٹ اسپتالوں کے 400 وینٹی لیٹرز بھی شامل ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے۔ کراچی میں مکمل لاک ڈاؤن ہے، مقامی سے افراد سے رابطوں سے پھیلنے والے مریضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

وزیراعظم نے پہلے خطاب میں فرمایا تھا کہ لاک ڈاؤن نہیں کروں گا، سندھ میں لاک ڈاؤن کردیا گیا۔ وزیراعظم نے دوسرے خطاب میں فرمایا تھا کہ لاک ڈاؤن نہیں کروں گا، اگلے چند ہی گھنٹوں میں پنجاب حکومت نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا؛ اور پھر اگلی ہی شام ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں مکمل لاک ڈاؤن کی تفصیلات بھی بتا دیں۔ وزیر اعظم کے ایک ہفتے میں تین خطاب اور سیکڑوں ٹویٹس، لیکن منزل کا پتا نہیں۔ تیسرے خطاب میں پھر لاک ڈاؤن نہ کرنے کی ضد پر قائم رہے۔ ابھی تک اسی گردان پر ہیں کہ لاک ڈاؤن نہیں ہوگا، لیکن پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہے۔

سویلین علاقوں کی نسبت فوجی علاقوں میں لاک ڈاؤن بہت سخت ہے، ایسا لاک ڈاؤن کہ کینٹ سے باہر کا کوئی بندہ داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر داخل ہو بھی جائے تو اس کا وہاں سے نکلنا مشکل ہے۔ ملک کو اس مرض سے نمٹنے کےلیے ایسے ہی لاک ڈاؤن کی ضرورت تھی جو بدقسمتی سے وزیراعظم کی کنفیوژن کے باعث نہ ہوسکا۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے تیسرے خطاب میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے دو گُر بتائے ہیں: ایک ایمان اور دوسرا ٹائیگر فورس۔ ٹائیگر فورس تو خالصتاً سیاسی فیصلہ ہے جسے کوئی بھی قبول کرنے کے موڈ میں نہیں۔ وزیراعظم صاحب کو کسی نے مشورہ دیا ہے کہ اس فورس سے کورونا کے بعد ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں بہت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اسی لئے ہر یونین کونسل تک ان کو لانچ کیا جائے گا۔

پیسہ سرکار کا ہوگا اور مشہوری اپنی کمپنی کی کی جائے گی۔ بات ایمان کی ہے تو یہ پتا کون چلائے کہ کس کا ایمان کتنا پختہ ہے اور کورونا سے نمٹنے کےلیے کتنا کارآمد ہے۔ بات ایمان تک آن پہنچی ہے تو بیت اللہ بند نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جو سب کو اپنی جانوں سے عزیز ہیں، ان کی مسجد نبویﷺ خالی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ بات ایمان کی ہوتی تو ایران، عراق میں اسلام کےلیے سر کٹانے والوں کے مزارات پر تالے نہ لگتے۔ بات ایمان کی ہوتی تو دیگر مذاہب کے عبادت خانوں میں عبادت جاری رہتی۔ بات نااہلی کی ہے، بات نالائقی کی ہے، لوگ ایسے ہی نہیں کہہ رہے کہ سلیکٹڈ سے نہیں ہوگا۔

کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا جدید دور میں عوام کی نبض ہے، اور اسی نبض نے دیکھا کہ کورونا وائرس پر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں قومی کمیٹی کے چھٹے اجلاس کی صدارت تو وہی شخص کررہا تھا لیکن مخاطب کوئی اور۔ نظریں کسی اور پر تھیں، بریفنگ کرسی صدارت پر موجود شخص کو نہیں بلکہ… شاید اسی لیے رولز آف بزنس کے خلاف پریس ریلیز بھی کہیں اور سے جاری ہوئی۔ کل تک جو وزراء لاک ڈاؤن کے خلاف تھے، وہ پریس کانفرنس میں اس کے فضائل بیان کررہے تھے، اور اسی لئے اس لاک ڈاؤن کو مزید دس دن بڑھاتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن سے حالات قابو میں ہیں، صورتحال بہتر ہے۔

 بلاگر انٹر نیشنل ریلیشنز میں ایم فل ہیں۔

 آج کل دنیا نیوز نیٹ ورک سے منسلک ہیں۔ جمہوریت کے زبردست حامی، آمریت کے مخالف ہیں۔ ان سے @AZHARTHIRAJ کے ذریعے فیس بک اور ٹوئٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

اظہر تھراج

اظہر تھراج

 

ناقابلِ فراموش سنگدلی

اچھے اور بُرے دن تو انسانوں اور قوموں پر آتے رہتے ہیں مگر سفاکی اور سنگدلی کے بعض واقعات کچھ اس انداز سے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ وہ انسانیت کی پستی کا قابلِ نفریں حوالہ بن جاتے ہیں۔ کربلا میں امام حسینؓ اور اُن کے خاندان پر جو مظالم ڈھائے گئے اُن کا تصور کرتے ہی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور یہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد بھی ایسے کردار موجود ہیں جو شمر کی طرح بےرحم اور سفاک ہیں اور اُن کی ستائش کرنے والے بھی دندناتے پھرتے ہیں۔

یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ کی آخری کتاب میں آیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت پھیلائو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ’مصلحین‘ ہیں۔ چند سال پہلے پاکستان میں انسان دشمنی کا ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو یہ احساس دلاتا رہے گا کہ ہمارے اجتماعی نظام کے اندر مسولینی کی فسطائیت کارفرما ہے۔ ہر عہد میں ظلم کے طور طریق اور ہتھیار مختلف رہے ہیں۔ ہمارے عہد میں بدقسمتی سے قومی احتساب بیورو (نیب) مختلف حکمرانوں کے آلۂ استبداد کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ادارہ آرڈیننس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں وجود میں آیا۔ اس کی ماہیت اور اس کے درپردہ مقاصد کا سراغ لگانے کے لیے پاکستان کے تھنک ٹینک ’پائنا‘ نے قومی سیمینار کا انعقاد کیا جس میں

قانون کے ماہرین کے علاوہ منجھے ہوئے سیاستدان، میڈیا کے تجربہ کار نمائندے اور اقتدار کے آزمودہ کھلاڑی مدعو کیے گئے تھے۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد یہ سفارش کی گئی کہ اس ادارے کی کارکردگی سے یہ تاثر ہرگز نہیں ملنا چاہئے کہ اس کے ذریعے فوجی حکمران سویلین کو انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے سیمینار کی سفارش کے برعکس نیب سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس کے ذریعے مسلم لیگ(ن) میں سے (ق)لیگ برآمد کی اور اقتدار پر گرفت مضبوط رکھی۔ اس دوران جناب نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے جس میں نیب کا ادارہ ختم کر کے ایک غیرجانبدار اور بااختیار احتساب کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

بعدازاں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آئیں لیکن یہ مطلوبہ احتساب کمیشن قائم کرنے میں ناکام رہیں، تاہم پارلیمانی مدت کی تکمیل اور پُرامن انتقالِ اقتدار کا اہتمام کر سکیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں یہ ایک بڑی کامیابی تھی اگرچہ جناب عمران خان نے 2013کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر اسلام آباد کا چار ماہ تک محاصرہ کیا۔ اس گھیراو ٔکے خلاف تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں اور نواز شریف حکومت یہ حملہ برداشت کرنے میں کامیاب رہی۔ پھر کچھ عرصے بعد وزیراعظم نوازشریف کو ایک پاناما چیلنج نے آلیا اور وہ عدالتِ عظمیٰ سے نا اہل قرار پائے، چنانچہ وزیراعظم ہاؤس کو الوداع کہہ کر جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور آگئے۔

قومی احتساب کی عدالتوں میں جناب نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کے خلاف مقدمات دائر ہوئے۔ انہی دنوں بیگم کلثوم نواز کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور انہیں علاج کیلئے لندن لے جانا پڑا۔ وہ سرطان کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ان کی حالت جب زیادہ بگڑ گئی تو نواز شریف اور مریم نواز ان کی عیادت کے لیے لندن گئے۔ مریضہ آخری دموں پر تھی کہ قومی احتساب عدالت نے باپ اور بیٹی کے خلاف سزائیں سنا دیں۔ عدالت کے احترام اور قانون کی پاسداری میں بیگم کلثوم نواز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر باپ بیٹی سزا بھگتنے کیلئے پاکستان چلے آئے۔ یہ واقعہ ہماری سیاسی تاریخ میں مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ جس جج نے سزا سنائی اس نے ایک وڈیو میں اعتراف کیا کہ فیصلہ دباو ٔ کا نتیجہ تھا۔

ایک ایسا ہی واقعہ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ مارچ2020 کی آخری تاریخوں میں پیش آیا۔ انہیں آزادیٔ صحافت کی جنگ لڑنے کی سزا دینے کے لیے نیب نے 12مارچ کو 34برس پہلے خریدی گئی زمین کے من گھڑت الزام پر گرفتار کر لیا۔ اس گرفتاری کے خلاف قومی اور بین الاقوامی سطح پر آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ میر شکیل الرحمٰن کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کے لئے درخواست دائر کی گئی۔ اسی وقت یہ تشویشناک خبر آئی کہ ان کے بڑے بھائی میر جاوید رحمٰن کی اسپتال میں حالت بہت غیر ہوتی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کی وزیر محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو خط لکھا کہ انسانی بنیاد پر میر شکیل الرحمٰن کو فوری طور رہا کردیا جائے۔

چیئرمین صاحب نے یہ جانتے ہوئے کہ کراچی جانے کے فضائی راستے بند ہیں، صرف ایک دن کی رہائی کا حکم سنایا مگر ضابطے پورے نہ ہونے کی وجہ سے وہ جیل سے باہر نہ آ سکے۔ دوسرے روز میر جاوید رحمٰن کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا اور چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی سے زندگی میں آخری ملاقات نہ کر سکا۔ اگرچہ اب انہیں سات روز کے لیے رہائی مل گئی ہے مگر یہ انسانی شقاوتِ قلبی کا ایک ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے جس نے لاتعداد لوگوں کے دل چھلنی کر دیے ہیں۔

یہ ایک ایسا دکھ ہے جو ہماری تاریخ کی رگوں میں دوڑتا اور آنے والی نسلوں کو بھی اداس کرتا رہے گا۔ میر جاوید رحمٰن جو میر خلیل الرحمٰن کے بڑے صاحبزادے تھے انہوں نے اپنے والد محترم کی تابندہ روایات قائم رکھیں اور اردو صحافت کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سےنئی وسعتیں اور جدتیں عطا کی ہیں۔ وہ جنگ گروپ کے چیئرمین، پبلشر اور ہفت روزہ اخبارِ جہاں کے چیف ایڈیٹر تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر اپنی رحمتوں کی  

 بارش کرتا رہے۔ وہ بلاشبہ   

غیرمعمولی جرأت، راست بازی اور شائستگی کا حسین پیکر تھے۔

Logo Design by FlamingText.com
Logo Design by FlamingText.com