میرا خیال ہے یہ ’’سادگی‘‘ ممکن نہیں اور اگر یہ زبردستی فرما دی گئی تو اس میں غریب قوم کے مزید اربوں روپے ضایع ہو جائیں گے چنانچہ میری عمران خان سے درخواست ہے آپ اپنے اس اعلان سے چپ چاپ یو ٹرن لے لیں۔ یہ وہ وعدہ ہے جس سے بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور پرویز مشرف نے بھی یوٹرن لے لیا تھا‘ آپ بنی گالہ میں رہیں یا پھر منسٹر انکلیو میں یہ سادگی قوم کو بہت مہنگی پڑے گی‘ بار بار ٹریفک بھی رکے گی اور اسٹاف کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو گا‘میں آپ کو کم خرچ اور بالانشینی کے دو طریقے بتاتا ہوں‘آپ ان سے سادگی بھی قائم کر لیں گے اور قومی خزانے میں بھی پانچ دس ارب ڈالر آ جائیں گے۔
آپ وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو غیر ملکی مہمانوں کی رہائش‘ بینکویٹ اور میٹنگز کے لیے وقف کر دیں‘آپ اپنا اور گورنرز کا تمام اسٹاف بھی ان ہاؤسز کی کالونیوں میں رکھیں لیکن آپ خود وزیراعظم آفس میں شفٹ ہو جائیں‘ آپ وہاں دن کو کام کریں‘شام کو ایکسرسائز کریں اور رات کو آرام کریں‘ اس سے وفاقی سیکریٹریوں‘ وزراء‘ سفراء اور ایم این ایز کا سفر بھی کم ہو جائے گا‘ وزیراعظم کی سیکیورٹی اور پروٹوکول کا خرچ بھی بچے گا‘ عوام بھی ناکوں اورروٹس کی کوفت سے بچ جائیں گے اورمنسٹر کالونی میں وزیراعظم کی نئی رہائش گاہ کے اخراجات بھی نہیں ہوں گے ورنہ دوسری صورت میں روزانہ ٹریفک بھی بند ہو گی۔
اخراجات بھی بڑھیں گے اور لوگ بھی جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیں گے‘دوسری تجویز‘ آپ خزانہ بھرنے کے لیے پاکستان کے غیر ملکی اثاثوں پر توجہ دیں‘ امریکا‘ لندن‘ پیرس‘ سعودی عرب‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں پاکستان کی اربوں ڈالر کی پراپرٹیز دہائیوں سے خالی پڑی ہیں‘ آپ نجکاری بورڈ سے فہرستیں منگوائیں اور یہ تمام پراپرٹیز نیلام کرا دیں‘ آپ کو دو سے تین بلین ڈالرز فوراً مل جائیں گے‘ آپ اس کے بعد مہنگی جگہوں پر قائم تمام سفارت خانوں کی فہرستیں بنوائیں‘ یہ سفارت خانے نسبتاً سستی جگہوں پر شفٹ کرائیں اور یہ عمارتیں بھی بیچ دیں‘ آپ کو ان سے بھی اڑھائی تین ارب ڈالر مل جائیں گے یوں آپ کو پانچ دس ارب ڈالر حاصل ہو جائیں گے۔
کیا نئی حکومت ان تجاویز پر عمل کرے گی؟ میرا خیال ہے‘ نہیں‘کیوں؟ کیونکہ ملک میں پچھلے چار برسوں میں حقائق‘ منطق اور دلیل تینوں فوت ہو چکے ہیں‘ قوم اب جذبات اور پرسیپشن پر چل رہی ہے‘یہ دونوں علتیں قوموں کے لیے ہمیشہ زہرقاتل ثابت ہوتی ہیں‘ آپ ملک میں دلیل کی ذلت ملاحظہ کیجیے‘ وہ علی موسیٰ گیلانی جس نے 9 ہزار کلو گرام ایفی ڈرین بیچ دی تھی‘ جس سے یہ پورا سکینڈل شروع ہوا تھا وہ آج بھی آزاد پھر رہا ہے اور وہ حنیف عباسی جو سات سال عدالت کو بتاتا رہا میری کمپنی نے کوٹہ لیا تھا‘ ہم نے دوائی بنائی تھی اور اس کا یہ ریکارڈ ہے وہ الیکشن سے چاردن پہلے جیل پہنچ گیا‘چلیے ہم مان لیتے ہیں یہ فیصلہ قانون کے عین مطابق ہوا لیکن حکومت نے پورے خاندان کے اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں۔
یہ کہاں کا انصاف ہے؟ چلیے ہو سکتا ہے یہ بھی قانون کے عین مطابق ہو لیکن آپ زیادتی ملاحظہ کیجیے ملک کا کوئی بینک حنیف عباسی کی بیگم اور بچوں کے نئے اکاؤنٹس کھولنے کے لیے تیار نہیں ہو رہا‘ یہ کہاں لکھا ہے؟ قانون اس کی کہاں اجازت دیتا ہے چنانچہ مجرم حنیف عباسی کی اہلیہ اور بچے اپنے اس حق کے لیے کہاں ٹکر ماریں‘ یہ کہاں جائیں لیکن میں پہلے عرض کر چکا ہوں ملک میں حقائق‘ منطق اور دلیل تینوں فوت ہو چکے ہیں۔
سچ اب وہ ہے جو سوشل میڈیا پر ہے یا پھر وہ جو رات کے اندھیرے میں جنم لیتا اور رات کے اندھیرے ہی میں پروان چڑھتا ہے‘ مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے وہ وقت اب دور نہیں جب لوگ دوسروں کے کلمے پر بھی یقین نہیں کریں گے ‘ ہمیں سچ کا لفظ بھی صرف ڈکشنریوں میں ملے گااور ہم میں سے ہر وہ شخص جو حق‘سچ اور انصاف کی بات کرے گا وہ سیدھا جیل جائے گا یا پھر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے گا‘ وہ پاکستان اب زیادہ دور نہیں رہا۔