پاناما لیکس؛ عمران خان نے شریف خاندان کے خلاف دستاویزات اورشواہد جمع کرادیے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 7 فوجی شہید ہوگئے ہیں۔ صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے شہیدوں کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور مسلح افواج ہر طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح چوکس ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھارتی فائرنگ پر بھرپور اورموثر جواب جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مادروطن کے دفاع میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کر رہی ہے تاہم پاکستان کسی بھی جارحیت کی صورت میں دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ مسلمانوں کو ہراساں کرنا چھوڑدیں۔ ٹرمپ نے کہاکہ ’وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ ایسا مت کریں، یہ خطرناک ہے کیونکہ وہ اس ملک کو اکٹھاکرنے جارہے ہیں۔ لاہور پریس کلب کے نئے ارکان کےلئے جرنلسٹ کالونی فیز 2 کی منظوری دے دی گئی ہے۔
Logo Design by FlamingText.com
Logo Design by FlamingText.com

قومی اسمبلی میں فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا ترمیمی بل منظور

 نظریں احتساب عدالت کے فیصلے پر

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)معزول وزیراعظم نواز شریف سے متعلق آج(پیر) کے روزساتواں فیصلہ آرہا ہےجسے وہ خود سنیں گے۔یہ فیصلہ ان فیصلوں کی کڑی ہے جو ان کے خلاف گزشتہ اپریل سے آرہے ہیں۔گزشتہ چھ میں سے پانچ فیصلے ان کے خلاف آئے ہیں ، تاہم انہوں نے ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح استقامت دکھائی ہے اور ا ن کی جماعت ن لیگ میں اب تک اتحاد ہے۔

جب بھی ان کے سیاسی حریف ان کی سیاست ختم ہونے کی بات کرتے ہیں تو ان کی ہر بات غلط ثابت ہوجاتی ہے۔احتساب عدالت کے جج ارشد ملک فیصلہ دیں گے کہ نواز شریف نے گھر جانا ہے یا پھر اڈیالہ جیل جانا ہے۔تاہم دونوں میں سے کوئی بھی جگہ ا ن کےلیے نئی نہیں ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی قیادت میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپریل 2017میں پہلا فیصلہ سنایا تھا ، جس میں تین ججوں نے جے آئی ٹی کے قیام کا حکم دیا تھا اور نواز شریف کووزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔

وہ ، ان کے بھائی شہباز شریف جو کہ اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور دیگر ن لیگی رہنمائوں نے غلطی سے اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ وزیر اعظم کو فوری طور پر عہدے سے نہیں ہٹایا گیا اور شریف خاندان مشکلات سے نکل چکا ہے کیوں کہ جے آئی ٹی کے قیام سے یہ مسئلہ طوالت اختیار کرجائے گا۔یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیوں کہ جے آئی ٹی تحقیقات ان کے لیے مشکلات کا سبب بن گئیں ، نہ صرف سابق وزیراعظم کو خود بلکہ ان کے تمام گھروالوں کو بھی باربار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا۔

اس کے بعد اگلا فیصلہ گزشتہ برس جولائی میں آیا، جو ان کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کا سبب بنا کیوں کہ انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹادیا گیا۔ان کی نااہلیت کی بنیاد ی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی دبئی کی کمپنی سے قابل وصول تنخواہ جو کہ انہوں نے نہیں لی تھی ، اپنے اثاثے کے طور پر ظاہر نہیں کی تھی۔اس فیصلے کے بعد نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور بیٹے حسین اور حسن کا احتساب عدالت میں ٹرائل شروع ہوا ، جہاں نیب نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر تین ریفرنسز دائر کیے۔

جس کے بعد سابق وزیر اعظم کا زیادہ تر وقت احتساب عدالت کی پیشیاں بھگتے گزرا، پھر بھی انہوں نے پیشیوں سے غیر حاضری نہیں کی اور ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔اس کے بعد رواں برس مارچ میں جب نواز شریف نے ن لیگ کے صدر کی حیثیت سے اپنی جماعت کے امیدواروں کو سینیٹ انتخابات کے لیے ٹکٹ جاری کیے تو اس معاملے کو بھی اعلیٰ عدالت میں لے جایا گیا ، جہاں استدعا کی گئی کہ ایک ناہل سیاست دان سیاسی جماعت کا صدر نہیں بن سکتا ۔اس پر ایک نیا فیصلہ آیا ، جس میں کہا گیا کہ نواز شریف پارٹی سربراہ بننے کے اہل نہیں اور نہ ہی وہ ٹکٹ جاری کرسکتے ہیں ۔

اس کے نتیجے میں ن لیگ امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دے دیا گیا۔وہ اب تک اسی حیثیت میں ہیں۔چوتھا فیصلہ اس وقت آیا جب سپریم کورٹ نےآئین کے آرٹیکل 62ون ایف کی تشریح کا سوال اٹھایاتاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ اس شق کے تحت جو شخص نااہل ہوا ہے وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تاحیات نااہل ہے یا پھر کسی مخصوص مدت کے لیے نااہل ہے۔اس کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ نااہل شخص انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تاحیات نااہل ہے۔

پانچواں فیصلہ احتساب عدالت کی جانب سے رواں برس 6جولائی کو آیا، جس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو مختلف مدتوں کی سزائیں ہوئیں اور انہیں اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔اس وقت سابق وزیر اعظم اور مریم نواز ،بیگم کلثوم نواز کی تیمارداری کے لیے لندن میں تھے ۔ اس وقت یہ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ نواز شریف کبھی واپس نہیں آئیں گے۔یہاں تک کے سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ نواز شریف لندن میں سیاسی پناہ لے لیں گے ۔

تاہم اس فیصلے کے ایک ہفتے بعد نواز شریف اور مریم نواز جیل جانے کے لیے وطن واپس آگئے۔چھٹا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے آیا ،جس میں سابق وزیر اعظم ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ضمانت دے دی گئی۔فیصلے میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے فیصلے میں جو کہ انہوں نے لندن اپارٹمنٹ کیس کے حوالےسے سنایا تھا، اس میں سنگین خامیاں سامنے آئیں ۔

جج اور نیب نے انہیں ان فلیٹوں کی قیمت کے تعین کیے بغیر سزا سنائی ۔دوریفرنسز کے حوالے سے ساتواں فیصلہ آج آئے گا ۔اگر جج ارشد ملک انہیں جیل بھیجتے ہیں تو سابق وزیر اعظم نہ صرف ذاتی حیثیت میں پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے بلکہ ان کی جماعت بھی مشکلات کا شکار ہوجائے گی ۔