نے کہا:’’ میں نواز شریف، خواجہ آصف اور چودھری نثار کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ میں نے ان کو کہا کہ ’’اس طرح دھمکیاں نہ دیں ناہی میں ڈرنے والوں میں سے ہوں‘‘۔ جاویدہاشمی کے بقول :’’جمہوریت کو جنرل راحیل شریف نے بچا لیا ورنہ نظام پلٹنے کا منصوبہ بنانے والے جنرل پاشا اورچند سابق کور کمانڈرعمران خان کو مجبور کرتے اور وہ وزیر اعظم بننے کی لالچ میں استعمال ہوتے رہتے۔ پاشا اور اس کے ساتھیوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا پروگرام بنایا، اس کا مرکزی کردار عمران خان تھے‘‘ ۔ اگست2015ء میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے بھی دعویٰ کیا تھاکہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے جبکہ حکومت کو پہلے دن سے اس سازش کا علم تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حکومت کو لندن میں طاہرالقادری اور عمران خان کے درمیان ملاقات میں آئی ایس آئی کے چند لوگوں کی موجودگی کا علم تھا جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا ہے تاہم حکومت نے پہلے دن ہی سے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ کسی بھی قیمت پر دھرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ بعض طاقتیں چاہتی تھیں کہ حکومت طاقت کا استعمال کرے اور ان کی سازش پر عمل کا راستہ ہموار ہوجائے۔ مشاہد اللہ خان کے مطابق ’’آئی بی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو دھرنے کے دوران افراتفری پھیلانے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کے لیے ہدایت دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ظہیرالاسلام کی یہ ریکارڈ ٹیپ 28 اگست کی شام وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ملاقات کے دوران سنائی جسے سن کر وہ حیران ہوگئے اور انہوں نے اس وقت لیفٹیننٹ جنرل ظہیر کو میٹنگ میں بلا کر ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے اس آواز کی تصدیق کرنا چاہی جس پر لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے ٹیپ میں اپنی آواز کے ہونے کی تصدیق کی جس کے بعد آرمی چیف نے انہیں میٹنگ سے جانے کو کہا۔ اس وقت تیار ہونے والی سازش کے نتیجے میں بڑی تباہی ہونا تھی کیونکہ اس ٹیپ میں کھلی سازش تیار کی جارہی تھی جس میں وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کی بھی بات تھی جب کہ اس سازش کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نوازشریف نہیں بلکہ اس میں آرمی چیف بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سازش میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ایسے اختلافات پیدا کرنا بھی شامل تھے جس میں وزیراعظم مجبور ہوکر جنرل راحیل کے خلاف ایکشن لیں اور اس کے نتیجے میں فوج اقتدار پر قابض ہوجائے۔ تاہم جنرل راحیل شریف کو حکومت ختم کرنے کی خواہش ہوتی تو اس کے لیے کسی دھرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔تین برس قبل مشاہداللہ خان کا کہناتھا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف اس طرح کے اقدام پر کارروائی کی جاسکے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر کیسز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ تو درج کیا لیکن ان کے خلاف ایسی کارروائی نہیں ہوسکی جس طرح حکومت چاہتی تھی‘‘۔ اس کے بعد ’رائٹرز‘ سے ’وال سٹریٹ جرنل‘ تک، مغربی میڈیا نے خبریں دیں کہ سویلین قیادت اور فوج کے درمیان معاہدہ ہوگیا جس کے بعد فوج نے دھرنوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ امریکی اخبار’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘نے پاکستانی سرکاری حکام کے حوالے سے ایک معاہدہ کی خبر شائع کی جس کے تحت وزیر اعظم سلامتی امور اور اسٹریٹجیک فارن پالیسی کا کنٹرول چھوڑ دیں گے، فوج نے حکومت سے پرویز مشرف کی آزادی کا وعدہ بھی لیا۔ حکومتی اہلکارکا کہنا تھا کہ احتجاجی رہنماؤں کے ذاتی سیاسی عزائم کی حوصلہ افزائی فوج نے کی جو نواز شریف کے اختیارات کم کرنا چاہتی تھی۔ اسکرپٹ میں کبھی بھی حکومت کا تختہ الٹنا نہیں تھا بلکہ اسے اس حد تک کمزور کرنا تھا کہ وہ لٹکی رہے اور کچھ کرنے کے قابل نہ رہے۔ فوج نواز شریف پر سلامتی امور اور خارجہ پالیسی کا کنٹرول چھوڑنے کیلئے دباؤڈالتی رہی۔ حکومتی اہلکاروںکا کہنا تھاکہ فوج نے سیاسی بحران کے دوران نواز شریف کی کمزور حیثیت پر قبضہ کرلیا کہ وہ ایک معاہدہ کریں جس کے تحت وہ سٹریٹیجک پالیسی کو چھوڑ دیں گے جس میں امریکا، افغانستان، اور بھارت کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں جنہیں مسلح افواج کی طرف سے کنٹرول کیا جائے گا۔ اخبار کے مطابق پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کی کامیابی کے بعد نواز شریف کی مسلح افواج پرسویلین کنٹرول کی کوشش نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کردیا ،نواز شریف نے ان پالیسیوں کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا جوروایتی فوج کی ڈومین تھیں۔ ان دنوں چھن چھن کر آنے والی خبروں کے مطابق معلوم ہوا کہ فوج نے نوازشریف سے پرویز مشرف کی آزادی کا وعدہ لیا جن پر غداری کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا، یہ ایشو بھی مسلح افواج اور انتظامیہ کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ تھا۔ نتیجتاً سیاسی اور سیکورٹی حکام کے مطابق نواز شریف حکومت نے مشرف پر غداری کی علامتی فرد جرم عائد ہونے کے بعد خفیہ طور پر مشرف کے بیرون ملک جانے پر اتفاق کر لیا تھا لیکن نوازحکومت نے معاہدے پر مزید عمل نہ کیاچنانچہ فوج اور نواز شریف کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوا۔ سابق وزیراعظم اور موجودہ وزیراعظم کے بیانات کے بعد تادم تحریر(پانچ روز گزرنے کے باوجود) پاک فوج اور جنرل(ر) ظہیرالاسلام کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان آیاکہ ’’اگر دھرنے کے پیچھے جنرل ظہیرالاسلام تھے تو ان کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ جنرل (ر)ظہیر بتائیں کہ وہ تھے یا نہیں کیونکہ یہ فوج کے چہرے پر ایک بد نما داغ ہے اوراب اس بد نما داغ کو دھونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس دھبے کو جنرل ظہیر السلام اور فوج ہی مل کر دھوسکتے ہیں۔ہمارے پاس دھرنے میں جنرل ظہیر الاسلام کے ملوث ہونے اور ان کی جانب سے اس دھرنے کا بندو بست کیے جانے کے واضح ثبوت موجود ہیں ، اس بارے میں ہم یہ ثبوت فوج کی اعلیٰ قیادت کو پہلے ہی پیش کرچکے ہیں‘‘۔ یوں محسوس ہورہاہے کہ نوازشریف اور ان کی جماعت ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔ اس پریس کانفرنس سے پہلے ایک بڑے انگریزی اخبار کے رپورٹر کو انٹرویو میں بھی نوازشریف نے کچھ ایسی باتیں کہیں جس سے ملکی سیاست میں خوب گرما گرمی پیدا ہوئی، اس کے بعد سابق وزیراعظم نے ایک قومی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا جو تعین کرے کہ غدار کون ہے؟ یہ سب کچھ بخوبی ظاہر کررہاہے کہ مسلم لیگ ن نہایت محتاط اور سوچے سمجھے انداز سے پیش قدمی کررہی ہے، اگر اس کے پاس دھرنے میں بعض جرنیلوں کے ملوث ہونے کے ثبوت اور ٹیپس ہیں تو پھر اس کا پلڑا بھاری ہے، ایسے میں اس کا خیال ہے کہ وہ حالات کو سویلین بالادستی کی طرف لے کرجارہے ہیں، چنانچہ اب بہت سے ایشوزکی بابت کمیشن قائم ہوں گے، جس کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا۔ اگریہ کمیشن قائم ہوتے ہیں تو نوازلیگ اسے اپنی بڑی کامیابی تصور کرے گی۔