فائدے کیلئے اقتدارمیں آنے والے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں، وزیراعظم - کراچی کے علاقے عزیزآباد میں رینجرز کا سرچ آپریشن، 5 افراد زیرحراست - پاناما لیکس، سپریم کورٹ نے درخواستوں پر سماعت کی تاریخ یکم نومبرمقرر کردی - تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ نوازشریف کرپشن کے بادشاہ ہیں اور ان کا رونا اسپتالوں کے لیے نہیں بلکہ پاناما میں پکڑے جانے کا ہے۔ ایل او سی پر فائرنگ سے پاکستانی فوجیوں کی شہادت کا بھارتی دعویٰ جھوٹا ہے، آئی ایس پی آر - لندن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بنکاک دنیا کا سب سے بڑا سیاحتی مرکز بن گیا - ابوظہبی ٹیسٹ: پہلے دن کے اختتام پر پاکستان کے 4 وکٹوں پر 304 رنز - مقبوضہ کشمیر میں ریاستی ظلم کے خلاف احتجاج کرنیوالے سرکاری ملازمین برطرف

خواجہ آصف کی نااہلی کا کیس ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 3رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا۔ جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس حسن اورنگزیب شامل تھے۔7اکتوبر2017 ءکو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خواجہ آصف کی نا اہلی سے متعلق درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے خواجہ آصف کو جواب داخل کرانے کا حکم دیا،اس سے قبل سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ، بطور وفاقی وزیر وہ دوسری نوکری کرنے کے مجاز نہیں تھے۔13نومبر 2017ءکو اقامے سے متعلق وزیرخارجہ خواجہ آصف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا جواب واپس لیا‘ جواب میں کہا گیا تھا کہ 18ستمبر کو عدالت نے لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ دیا جبکہ 26ستمبر کو عدالت نے نوٹسجاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا۔اپنے جواب میں وزیر خارجہ نے موقف اختیار کیا کہ میرے اقامے سے متعلق درخواست گزار نے عدالت سے تمام حقائق چھپائے ہیں، کیونکہ درخواست گزار میری نااہلی کے لئے سپریم کورٹ تک تمام فورم استعمال کر چکا ہے ، تاہم شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ اب ہائی کورٹ کی جانب سے میرے کیس میں لارجر بینچ کی تشکیل سے مجھے اپیل کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے، لہذا عدالت اس پر نظر ثانی کریں، جسے ہائی کورٹ نے قبول کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور سیکرٹری قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کئے ۔ 24نومبر 2017ءکو خواجہ آصف نااہلی کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی ، جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں خواجہ آصف نے اپنا اقامہ کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اقامہ ذاتی حیثیت میں حاصل کیا۔ درخواست گزار کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے،جواب میں کہا گیا تھا کہ عثمان ڈار کے الزامات نئے نہیں پرانے ہیں، انہوں نے یہی الزامات الیکشن ٹربیونل میں بھی عائد کیے تھے۔30جنوری 2018ءکو پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار نے خواجہ آصف کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے چیئرمین نیب کو خط لکھا،جس میں ان کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔عثمان ڈار نے چیئرمین نیب کو لکھے گئے خط میں بتایا کہ وزیر خارجہ کے فارن اکاونٹس میں مشکوک اور بے نامی ٹرانزیکشنز کی گئیں، ہم نے غیر ملکی ہوٹلزاور مشکوک بینک اکاونٹس کا ریکارڈ حاصل کیا ہے جو انہوں نے الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔ خط میں عثمان ڈار کا مزید بتانا تھا کہ خواجہ آصف غیر ملکی کمپنی میں ملازمت اور اقامہ تسلیم کر چکے ہیں جبکہ نواز شریف اور خواجہ آصف کے کیس میں مماثلت ہے۔عثمان ڈار کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ خواجہ آصف منی لانڈرنگ اور مالی جرائم میں ملوث ہیں، وفاقی وزیر خارجہ کی منی لانڈرنگ سے متعلق نا قابل تردید شواہد موصول ہوئے ہیں، انکے فارن اکاونٹس میں کروڑوں روپے منتقل ہوئے، منی لانڈرنگ کے لئے اہلیہ کے فارن اکاﺅنٹس بھی استعمال کئے گئے۔20مارچ 2018ءکو وزیرخارجہ خواجہ آصف کےخلاف منی لانڈرنگ کی شکایت کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کو نیب نے طلب کیا، جہاں انہوں نے وزیر خارجہ کےخلاف منی لانڈرنگ کیس میں نیب کو اہم دستاویزات جمع کرائیں۔27مارچ 2018ءخواجہ آصف نااہلی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دیا۔ نئے بینچ کی سربراہی جسٹس اطہر من اللہ نے کی ۔8مارچ کو خواجہ محمد آصف کی نااہلی کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ میں شامل جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اس کیس کی سماعت سے معذرت کی۔ جس کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس عامر فاروق نے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو واپس بھیج دیا تھا۔10اپریل 2018ءاسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نااہلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے درخواست گزار اور خواجہ آصف کے وکلا سے 3روز میں رائے طلب کی۔ اس سے قبل خواجہ آصف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف پہلے دبئی میں بینک میں ملازمت کرتے تھے، وہ دبئی میں فل ٹائم نہیں بلکہ ایڈوائزر کے طور پر ملازمت کرتے تھے، جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی اور ملک میں ملازمت کرتا ہے تو پاکستان میں کیسے وزارت چلاسکتا ہے؟۔ 16اپریل 2018ءخواجہ آصف نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد وفاقی وزیر کی جانب سے اضافی دستاویزات اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئیں۔ دستاویزات میں بتایا گیا کہ کنسلٹیشن معاہدے کے تحت خواجہ آصف کی فل ٹائم کمپنی میں موجودگی ضروری نہیں، کمپنی خواجہ آصف سے تجاویز فون یا ان کے دورہ دبئی کے دوران لے لیتی تھی۔ تاہم عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد 10اپریل کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو سناتے ہوئے بنچ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دیدیا۔ فیصلہ میں قرار دیا گیا ہے کہ خواجہ آصف صادق اور امین نہیں رہے ‘ قومی اسمبلی کی رکنیت ختم ‘اسمبلی رکنیت ختم کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کر دی گئی ہیں۔ خواجہ آصف کی نااہلی آئین کے آرٹیکل (1)62 ایف تحت کی گئی‘نااہلی تاحیات ہو گی ‘ فیصلہ 3 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے پڑھ کر سنایا‘ فیصلے کی کاپی الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا حکم بھی دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3رکنی لارجر بینچ نے 10 اپریل کو اپنا محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کو بیرو ن ملک ملازمت اور اقامہ رکھنے کے کیس میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کو تاحیات نااہل قرار دیدیا‘ خواجہ آصف صادق اور امین نہیں رہے ‘ قومی اسمبلی کی رکنیت ختم ‘اسمبلی رکنیت ختم کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کر دی گئیں۔ خواجہ آصف کی نااہلی آئین کے آرٹیکل (1)62 ایف تحت کی گئی‘نااہلی تاحیات ہو گی ‘ فیصلہ 3 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے پڑھ کر سنایا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا تین رکنی لارجر بینچ اپنا محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 10اپریل فیصلہ محفوظ کیا تھا۔10اگست 2017ءکو پی ٹی آئی نے خواجہ آصف کی نا اہلی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ‘24نومبر 2017ءکو خواجہ آصف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو اپنا اقامہ کو تسلیم کیا‘20مارچ 2018ءکو خواجہ آصف کےخلاف منی لانڈرنگ کی شکایت پرعثمان ڈار کو نیب نے طلب کیا گیا‘ جہاں انہوں نے وزیر خارجہ کےخلاف منی لانڈرنگ کیس میں نیب کو اہم دستاویزات جمع کرائیں‘8مارچ کو خواجہ محمد آصف کی نااہلی کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ میں شامل جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اس کیس کی سماعت سے معذرت کر لی ‘27مارچ 2018ءنااہلی کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دیاگیا‘3رکنی بنچ نے 10اپریل 2018ءوزیر خارجہ خواجہ آصف کی نااہلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر کے خواجہ آصف کے وکلا سے 3روز میں رائے طلب کی تھی اور 26اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ خواجہ آصف عوامی نمائندگی کے اہل نہیں اس لئے انہیں نااہل قرار دیدیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق 10اگست 2017ءکو پی ٹی آئی نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نا اہلی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، پٹیشن عمران خان کی ہدایت پر تیار کی گئی جسے عثمان ڈار نے دائر کیا، جسٹس عامرفاروق نے اس کیس کی سماعت کی۔پی ٹی آئی کی جانب سے پٹیشن میں الزام لگایا گیا تھا کہ خواجہ آصف کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں، وزیر دفاع نے اقامہ کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپائیں، خواجہ آصف سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے غیر ملکی کمپنی کی ملازمت کرتے رہے 18ستمبر 2017ءکو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیرخارجہ خواجہ آصف کی نااہلی کیلئے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا جبکہ عدالت نے فریقین کوعدالتی دائرہ اختیار سے متعلق دلائل جمع کرنے کاحکم بھی دیا تھا۔ اپنے ریمارکس میں جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نااہلی کیس کو ممکنہ طور پر معاملہ لارجر بینچ کو بھیجا جائے گا۔18ستمبر 2017ءکو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نااہلی کی درخواست پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پرجسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ وکیل بھی جب کوئی دوسرا کام کرتا ہے تو اس کا وکالت کا لائسنس معطل کر دیا جاتا ہے۔23ستمبر 2017ءاسلام آباد ہائی کورٹ نے