پہلی عالمی جنگ کے بعد بڑی قوتوں کے نوآبادیاتی رقبے میں اُس وقت بہت اضافہ ہوا تھا جب برطانیہ، فرانس اور دوسری عالمی قوتوں نے خلافت عثمانیہ کے زیر اقتدار علاقوں پر قبضہ کر کے اِن علاقوں کو آپس میں تقسیم کر لیا تھا، مگر 1918 میں جنگِ عظیم اوّ ل کے خاتمے پر اب دنیا بھر کے ملکوں میں یہ سیاسی نوآبادیاتی نظام ہی چیلنج ہو گیا تھا اور یہ چیلنج جنگ میں بڑی عالمی قوتوں کے کمزور پڑنے اور ساتھ ہی روس میں کامیاب کیمونسٹ انقلاب کی وجہ سے ہوا تھا۔
یو ں اِس پرانے نو آبادیاتی نظام کو نئی سیاسی اور اقتصادی اسٹرٹیجی سے عالمی اقتصادی نوآباددیاتی نظام سے بدلنے کی منصوبہ بندی بھی ہوئی تھی جو امریکہ کے تھنک ٹینک نے تشکیل دی تھی اور اس پر عملدر آمد کا آغاز بھی جنگ ِ عظیم اوّل کے فوراً بعد ہوگیا تھا اور اس نئی اسٹرٹیجی کو بہت حد تک برطانیہ نے حقیقت پسندی کے ساتھ قبول کر کے اپنانا شروع کر دیا تھا،اس کی غالباً ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بر طانیہ خود رقبے اور آبادی کے اعتبار سے بہت چھوٹا ملک ہے مگر اُس وقت وہ دنیا کے تقریباً چوتھائی رقبے اور آبادی پر حکومت کر رہا تھا، اورجو چھوٹے ہتھیار، ڈائنامائٹ وغیرہ خود برطانیہ نے عرب ممالک میں جنگِ عظیم اوّل کے دوران عرب باغیوں کے حوالے سے استعمال کروائے تھے۔
اب انہی کا استعمال مختلف غلام ملکوں میں نو آبادیا تی قوتوں کے خلاف شروع ہونے والا تھا، اِس طرح بر طانیہ اپنی نو آبادیات میں ریاست کے تین بنیادی اداروں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ میں مقامی آبادیوں کو بتدریج شامل کر کے اِن نوآبادیاتی ملکوں کے عوام کو اِن کی لیڈر شپ کے ذریعے مطیع کر رہا تھا اور اِس کی یہ حکمت عملی ہندوستان جیسے بڑے ملک میں کا میاب رہی تھی۔ پھر جنگ عظیم اوّل کے ردعمل کے طور پر اِن بڑی قوتوں سمیت پوری دنیا کو مالیاتی، اقتصادی ، معاشی اور معاشرتی بحرانوں کا بھی سامنا تھا۔
یوں ہندوستان میں پہلے انگریز نے مقامی لیڈروں کو صوبائی اور مرکزی کونسلوں میں اور ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ میں بھی مقامی لوگوں کو شامل کیا پھر دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد صوبائی اسمبلیوں اور مر کزی اسمبلی کے انتخابات کروا کے حکومتوں کی تشکیل کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان کو بطور آزاد و خودمختار ملکوں کے پورا بنا بنایا تیار شدہ سیٹ اپ یعنی نظام بھی دے دیا یعنی جب بھارت اور پا کستان آزاد ہوئے تو آل انڈیا کانگریس اور مسلم لیگ نے اس آزادی کے لیے سیاسی جد وجہد تو کی تھی لیکن انگر یز کے خلاف اِس کو مسلح جد وجہد نہیں بننے دیا، جس کی ناکام کوشش ہندوں کی طرف سے سبھاش چندر پوس کی صورت میں اور مسلمانوں کی جانب سے علامہ عنایت اللہ مشرقی کی جانب سے ہوئی تھی۔