Daily "Layalpur Post"

پاکستان، سعودی عرب گہرے اور مضبوط بردارانہ تعلقات میں بندھے ہیں:وزیراعظم

نوازشریف عمران خان کو سیاست سے باہر پھینک دے گا: مریم نواز

حکومت کا عارف علوی اور عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا فیصلہ

اسپیکر قومی اسمبلی کل حمزہ شہباز سے وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کا حلف لیں: عدالت کا حکم

لاہور: لاہورہائی کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے حمزہ شہباز سے کل (بروز ہفتہ) ساڑھے گیارہ بجے حلف لینے کا حکم دے دیا۔ جسٹس جواد حسن نے 9 صفحات پر مشتمل محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے اسپیکر قومی اسمبلی کل صبح 11.30  بجے حمزہ شہباز سے حلف لیں۔ عدالت نے پہلے دونوں عدالتی فیصلوں کی توثیق کردی ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کے پہلے دو فیصلوں کی روشنی میں اسپیکر حلف لیں۔

اس ضمن میں عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی سے حلف لینے کا بندوبست کرے۔ علاوہ ازیں عدالت نے فیصلے کی کاپی فوری طور پر اسپیکر اسمبلی کو بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ بنیادی حقوق کا تحفظ عدالت کی ذمہ داری ہے، آئین کے آرٹیکل 201 کے تحت عدالت کا حکم وفاقی و صوبائی حکومتوں پر لازم ہے اور آئین ہر شہری کو ریاست کا وفادار رہنے کا پابند بناتا ہے۔

علاوہ ازیں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت اور گورنر نے ہائیکورٹ کے پہلے فیصلوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا، گورنر پنجاب حلف نہ لیکر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے، گورنر نے اپنی جگہ کسی کو نمائندہ مقرر نہ کرکے بھی ہائیکورٹ کے مشورے کی خلاف ورزی کی، ہائیکورٹ نے مشورہ دیا تھا کہ نئے وزیراعلیٰ کا حلف لیں یا نمائندہ مقرر کریں۔ اس سے قبل لاہورہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالتی فیصلوں پرعمل نہ ہونا عدلیہ کی عزت کا سوال ہے۔

حمزہ شہباز کی حلف نہ لینے کے خلاف درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی تھی۔ جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے تھے کہ حمزہ شہباز کی حلف برداری سے متعلق 2 فیصلوں پرعمل نہ ہونا عدلیہ اورپاکستان کی عزت کا سوال ہے۔ جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ کسی کی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عدالت کا حکم نہ مانے، ہائی کورٹ نے دو آرڈر پاس کئے لیکن انہیں نظرانداز کیا گیا، آئین میں جوراستہ نظرآیا وہ اختیار کروں گا۔

جسٹس جواد حسن کا حمزہ شہباز کے وکیل سے مکالمے میں کہنا تھا کہ ہائی کورٹ تو آرڈر پاس کرچکی ہے آپ توہین عدالت دائرکرلیتے۔ جسٹس جواد حسن نے صدر اور گورنر سے متعلق فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلوں پر ہر صورت عمل ہونا ہے۔ عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد حمزہ شہباز کا حلف نہ لینے کے خلاف تیسری درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

پنجاب کے نومنتخب وزیراعلی حمزہ شہباز نے حلف نہ لینے کے خلاف تیسری مرتبہ لاہورہائی کورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔ حمزہ شہباز نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ صدر مملکت اور گورنر کو حلف کے لیے ہدایات جاری کی گئیں لیکن حلف نہیں لیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 26 اپریل کے فیصلے میں گورنر کو آئین کے تحت عمل کرنے کی واضح ہدایات دی تھیں  تاہم گورنر پنجاب نے ایک بار پھر عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا دیا۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے بھی فاضل عدالت عالیہ کی آبزرویشن کا احترام نہیں کیا۔صدر مملکت اور گورنر پنجاب کا رویہ غدارانہ اور توہین آمیز ہے اوردونوں کا رویہ غداری کی کارروائی کا متقاضی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ صوبے کے شہریوں اورحمزہ شہباز کے بنیادی حقوق کے لئے ہائی کورٹ مداخلت کرے اورصوبے کوآئینی طریقے سے چلانے کے لئے حلف لینے کا حکم دیا جائے۔

وفاقی شرعی عدالت کا سود سے پاک بینکاری نظام قائم کرنے کا حکم

اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت نے 19 سال بعد سود کے خلاف دائردرخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے سود کے لئے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اورشقوں کوغیرشرعی قراردے دیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے 19 سال بعد سود کے نظام کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سنا دیا۔عدالت نے سود کے لئے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اورشقوں کوغیرشرعی قراردیتے ہوئے حکومت کو  سودی نظام کے مکمل خاتمے کیلئے 5 سال کی مہلت دے دی۔

عدالت نے فیصلے میں 31 دسمبر2027 تک تمام قوانین کو اسلامی اور سود سے پاک اصولوں میں ڈھالنے کا حکم  دیا۔شرعی عدالت نے انٹرسٹ ایکٹ 1839 اور یکم جون 2022 سے سود سے متعلق تمام شقوں کوغیرشرعی قراردے دیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اورقانونی ذمہ داری ہے۔ ملک سے ربا کا ہرصورت میں خاتمہ کرنا ہوگا۔ ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔

شرعی عدالت کے جسٹس سید محمد انورنے فیصلے میں کہا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا۔ بینکوں  کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے۔ ربا مکمل طور پراور ہر صورت میں غلط ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 2 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کیلئے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں۔سمجھتے ہیں کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔

وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ چین بھی سی پیک کے لئے اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے۔ ربا سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہوگا۔اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اوراستحصال کے خلاف ہے۔سود سے پاک بینکاری دنیا بھرمیں ممکن ہے۔عدالت نے حکومت کو اندرونی اوربیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کی اورکہا کہ  ڈیپازٹ کو فوری طور پر ربا سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سود کے خلاف جماعت اسلامی اوردیگر کی درخواستوں کی  سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔