تجزیہکے مطابق پاکستان میں 1901 تا 1930 کے اوسط درجہ حرات اور 1991 تا2015 کے اوسط درجہ حرارت میں اعشاریہ نو (0.9 ) ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ اضافہ فروری کے مہینے کے اوسط درجہ حرارت میں ہوا جو ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ ہے۔ اس کے بعد نومبر اور دسمبر کے مہینے رہے جن میں ایک اعشاریہ چار سینٹی گریڈ فی کس اضافہ ہوا۔ جبکہ جولائی کے درجہ حرارت میں معمولی سی کمی واقع ہوئی جو منفی اعشاریہ ایک (-0.1) ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ جبکہ ملک کے درجہ حرارت میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ گیارویں پانچ سالہ منصوبے 2013-18 کے مطابق 2050 تک وطنِ عزیز کے اوسط درجہ حرات میں دو اعشاریہ پانچ سے دو اعشاریہ آٹھ ڈگری سنٹی گریڈ اضافہ ہو سکتا ہے۔ درجہ حرارت میں ہونے والے اضافہ کی وجہ سے پاکستان کے گلیشئرز کے پگھلنے کی رفتار قدرے تیزہے جس سے کچھ عرصہ تک ملکی دریاؤں میں اضافی پانی موجود رہے گا ۔( جس کی ابتدائی طور پر 20 فیصد اضافی مقدار کا اندازہ لگا یا گیا ہے ) جس کو بہتر استعمال میں لانے کے لئے پانی کی ذخیرہ گاہوں کی تعمیر ضروری ہے۔ اور جب یہ گلیشئرز پگھلتے پگھلتے کم ہو جائیں گے تو پھر ملک کے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوگی اور اُس وقت پانی کی ذخیرہ گاہوں کی اور زیادہ ضرورت ہوگی تاکہ بارش اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔ 2017 میں ملک میں ہونے والی مون سون کی بارشوں کی کم مقدار خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے جو ملک میں بارش کے نظام میں تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ کیونکہ گزشتہ دو تین سال سے ملک میں بارشوں کے دورانیہ میں کمی لیکن وقتی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب زیادہ موسلادھار تیز بارش کم وقفے میں ہونے کے مظاہر سامنے آرہے ہیں۔
پاکستان میں بارش کی اوسط سالانہ مقدار1991 سے 2015 کے درمیان تین سو تیرہ اعشاریہ پانچ(313.5 ) ملی میٹر رہی جو 1901 سے1930 کی اوسط مقدار سے تیس اعشاریہ پانچ(30.5 ) ملی میٹر زیادہ ہے۔ ورلڈ بینک کے کلائمیٹ چینج نالج پورٹل کے تجزیہ کے مطابق اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ مقداری اضافہ اگست کے مہینے میں ہونے والی بارشوں میں ہوا جو سات اعشاریہ پانچ ملی میٹر ہے۔ دوسرا نمایاں اضافہ فروری کے مہینے میں ہونے والی بارشوں کی مقدار میں ہوا جو چھ اعشاریہ پانچ ملی میٹر ہے۔ جبکہ دسمبر میں ہونے والی بارشوں کی مقدار میں پانچ اعشاریہ چھ ملی میٹر اور جنوری کی بارشوں میں دو اعشاریہ سات ملی میٹر کمی واقع ہوئی ہے۔ موسمِ سرما کی یہ بارشیں( دسمبر تا مارچ) ویسٹرن ڈسٹربنس کے باعث ہوتی ہیں جن سے زیادہ تر بلوچستان اور سندھ فیضیاب ہوتے ہیں۔ ان کی اوسط مقدار1991 تا 2015 دسمبر کے مہینے میں گیارہ اعشاریہ سات ملی میٹر، جنوری میں بائیس اعشاریہ پانچ، فروری میں تیس اعشاریہ نو اورمارچ میں اکتیس اعشاریہ چھ ملی میٹر رہی۔ موسمِ سرما کی بارشیں بلوچستان کے لئے بہت اہم ہیں کیونکہ صوبے کا اکثریتی حصہ مون سون کی پہنچ سے باہر ہے۔ اور صوبہ میں پو رے سال اوسطً 210 ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ صوبے کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت (باغبانی) اور مالداری پر ہے۔ لیکن کم بارشوں اور خشک سالی کے طویل دورانیوں نے صوبے کی زراعت کو شدید متاثر کیا ہے اور صوبے میں باغات کی بہت بڑی تعداد خشک سالی کی وجہ سے ویران زمینوں میں بدل چکی ہے اورزمینی فرسودگی کا وحشت ناک منظر پیش کر رہی ہیں۔
اسی طرح خشک سالی نے قدرتی چرا گاہوں پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں۔ بلو چستان میں مال مویشی کا زیادہ تر انحصار قدرتی چراگاہوں پر ہے۔ بھیڑ بکریاں اپنی خوراک کا 60 فیصد یہاں سے حاصل کر تی ہیں جبکہ صوبے کے لائیو سٹاک کی مجموعی ضرورت کی 90 فیصد خوراک یہ چرا گاہیں مہیا کر تی ہیں۔ بلوچستان پاکستان کے رقبہ کا تقریباً نصف ہے۔ اور صوبہ کا 60 فیصد رقبہ قدرتی چرا گاہوں پر مشتمل ہے۔ خشک سالی کے باعث بلوچستان کی یہ قدرتی چراگاہیں مال مویشی کے شدید دباؤ کی وجہ سے تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہی ہیں کیونکہ پاکستان کی31 فیصد بھیڑ بکریاں اور 41 فیصد اونٹ اس وقت بلوچستان میں ہیں۔ زمین کی فر سودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات میں انسانی کار گزاریاں زیادہ سنگین نتائج مرتب کر رہی ہیں جن میں سر فہرست زمین کو درختوں کے زیور سے محروم کرنا ہے جس کے باعث موسموں میں تبدیلی واقع ہو نے سے قدرتی آفات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور کرہ ارض بنجر پن کی لپیٹ میں آرہا ہے۔ کیونکہ یہ درخت ہوا کی تیزی کو روکتے ہیں جس سے سطح زمین پر موجود زرخیز مٹی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اور وہ اس مٹی کو جکڑکر رکھتے ہیں جس کے باعث یہ مٹی بارشوں میں سیلابی پانی کے ساتھ بہہ نہیں جاتی۔ درخت درجہحرارت میں کمی کا باعث بنتے ہیں اور دھوپ کی شدت کو زمین پر براہ راست پڑنے سے روکتے ہیں۔ جس سے سطح زمین پر موجود پانی زیادہ تیزی سے بخارات بن کر فضاء میں نہیں اڑتا۔ درخت زیر زمین پانی کو تواتر میں رکھنے اور ری چارج کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر فضاء میں نمی کی مقدار کو قائم رکھنے اور بارشوں کا باعث بننے میں اُن کے کردار سے انکار ممکن نہیں جبکہ فضاء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنا اور آکسیجن کا اخراج درختوں کے ماحول دوست کردار کی نمایاں خاصیت ہے لیکن صد افسوس درختوں کے بے شمار فوائد کے باوجود صورتحال اس کے بر عکس ہے اور درختوں کو جس بے دردی سے کا ٹا جا رہا ہے اس کا اندازہ پاکستان کے حوالے سے یوں لگا یا جا سکتا ہے۔ گیارویں پانچ سالہ منصوبہ 2013-18 کے مطابق’’ ملک میں سالانہ لکڑی کی ضرورت 43 ملین مکعب میٹر ہے جبکہ پیداوار صرف چودہ اعشاریہ چار(14.4 )ملین مکعب میٹر ہے‘‘۔ طلب اور رسد کے اس فرق کو غیر قانونی شجر کٹائی سے پورا کیا جاتا ہے۔ ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو طاہر رشید جو ملک کے ماحولیاتی شعبہ میں کام کرنے کا بہت وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’ پاکستان اس وقت ڈیزرٹیفیکیشن کے شدید خطرے سے دوچار ہے اور ہم اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہم نے فوری طور پر اس کی روک تھام کے حوالے سے عملی کوششیں نہ کیں تو پھر اس کے بعد صرف تنزلی ہی تنزلی ہوگی۔ کیونکہ ہم نے جس رفتار سے اپنی زمین پر سے جنگلات کا صفایا کیا ہے ۔ اُس کا حاصل یہ ہے کہ اب ملک کے صرف ایک اعشاریہ نو فیصد رقبہ پر جنگلات باقی بچے ہیں جو کبھی 5 فیصد رقبہ پر ہوا کر تے تھے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق 1990 سے2015 تک کے عرصے میں پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کی شرح دو اعشاریہ ایک فیصد سالانہ رہی جو جنوب ایشیا میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ جب ہم اتنی بے رحمی سے زمین کو بے شجر کریں گے تو اس سے ہمارے دیگرقدرتی وسائل مثلاً ہوا، پانی اور زمین بھی متاثر ہوں گے کیونکہ پھر برساتی پانی تیزی سے بہے گا، زمین کو کاٹے گا ، اپنے ساتھ مٹی لائے گا۔ تیز ہوا ئیں میدانوں کی سطح پر موجود زرخیز مٹی کو اپنے ساتھ اڑا لے جائیں گی اور با لآخر زمین تنزلی کا شکار ہوتے ہوتے بنجر اور صحرا کا روپ اختیار کر لے گی۔
اس کے علاوہ جب ہم زمین کو درختوںسے محروم کرتے ہیں تو عموماً اُس زمین کو ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے اور تیزی سے تبدیل ہوتے ماحولیاتی عوامل اُس زرخیز زمین کو فرسودگی کا شکار کر دیتے ہیں۔ اور جب زمین مکمل طور پر ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار ہو جائے تو پھر اس کی بحالی ایک مشکل کام ہوتا ہے جس کے لئے بہت زیادہ وسائل درکار ہوتے ہیں‘‘۔ تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں طاہر رشید کا کہنا تھا ’’ دیکھیں ڈیزرٹیفیکیشن کے بہت سے عوامل ہیں لیکن اکثریت کا تعلق چونکہ جنگلات سے ہے اس لئے ہمیں جنگی بنیادوں پر اپنے جنگلات کے زیر سایہ رقبہ میں ناصرف اضافہ کرنا ہوگا بلکہ پہلے سے موجود جنگلات کی بھی حفاظت کرنا ہو گی۔ اس حوالے سے ملک گیر مہموں کی ضرورت ہے۔ اور اُن علاقو ںپر ہمیں زیادہ توجہ دینا ہوگی جو ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ قدرتی چراگاہوں کا پائیدار استعمال، قدرتی پودوں کی افزائش اور تحفظ، زرعی رقبوں پر شجر کاری کی حوصلہ افزائی اور واٹر شیڈ پر مبنی علاقوں کی بقاء کے لئے کام کرنا ہوگا، یہ اقدامات ڈیزرٹیفیکیشن کے آگے ایک موثر ڈھال کے طور پر کام کریں گے ‘‘۔ اس تمام تناظر میں ہو کیا رہا ہے؟ اس بارے میں طاہر رشید کا کہنا تھا ’’ قومی اور صوبائی سطح پر شجر کاری کے کئی ایک اقدامات کئے گئے ہیں۔ مثلاً گرین پاکستان پروگرام، ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی اور بلین ٹری سونامی منصوبے ملک میں جنگلات کے فروغ میں اہم ثابت ہو رہے ہیں۔ خصوصاً ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کے تحت جنوبی پنجاب کے اُن علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں زمین اس وقت نباتاتی غلاف سے محروم ہے۔ جس کی وجہ وہ ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار ہو سکتی ہے۔ کمپنی کے پاس جنوبی پنجاب کے 2 سول ڈویژن کے6 اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں حکومت پنجاب کا فراہم کردہ ایک لاکھ 34 ہزار 9 سو95 ایکڑ رقبہ موجود ہے جس پر کمرشل فارسٹری کے ذریعے شجر کاری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ جس سے نا صرف علاقے کے ماحول میں بہتری آئیگی اور زمینیں ڈیزرٹیفیکیشن کا شکار ہو نے سے محفوظ رہیں گی بلکہ اس سے ملکی معیشت میں 240 ارب روپے شامل اور حکومتی آمدن میں 20 ارب روپے کا اضافہ ہوگا اور15ہزار نئی ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوں گے جو جنوبی پنجاب کے ان اضلاع میں غربت میں کمی میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑا فائدہ 35 ملین ٹن کاربن کی ضبطی کی صورت میں بھی سامنے آئے گا۔ یہاں یہ بات میں خصوصی طور پر کہوں گا کہ ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کا قیام ڈیزرٹیفیکیشن پر قابو پانے، ماحولیاتی تبدیلی میں تخفیف کرنے اور حیاتیاتی تنوع کی حفاظت سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کی جانب ہمارا ایک مثبت قدم ہے جو اقوامِ متحدہ کے ڈیزرٹیفیکیشن پر قابو پانے کے کنونشن کے تحت پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان میں اعانت فراہم کرے گا‘‘۔ درختوں کو کاٹنے سے زمین ایسی صورت اختیار کر لیتی ہے جس سے اس پر برسنے والا پانی اپنے ساتھ مٹی بہہ کر لے جاتا ہے جس سے ایک طرف تو زمین کی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے تو دوسری طرف دریا گندے اور ڈیم مٹی سے بھر جاتے ہیں۔ اور پانی کا ترسیلی نظام بھی اپنی پوری استطاعت کے مطابق کام نہیں کر تا ۔جرنل آف انوائر منٹل ٹریٹمنٹ ٹیکنیکس میں چھپنے والے تحقیقی مقالہ ’’ ڈیزرٹیفیکیشن اِن پاکستان چیلنجز اینڈ اپرچیونٹیز‘‘ کے مطابق ہر سال 4 کروڑ ٹن مٹی دریائے سندھ میں بارش اور سیلاب کے پانی کے ساتھ بہہ کر آتی ہے۔ دریاؤں کے کیچمنٹ ایریاز سے بہہ کر آنے والی اس مٹی سے پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے دو اہم ذخائر تربیلا اور منگلا پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والی مٹی کی وجہ سے تیزی سے انحطا ط کا شکار ہو رہے ہیں۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے مطابق’’ تربیلا میں ہر سال ایک لاکھ10 ہزار ایکڑ فٹ اور منگلا میں 60 ہزار ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو رہی ہے‘‘۔ اور اس پر سرحد پار سے آنے والے ہمارے دریاؤں پر بھارت کا تیزی سے متنازعہ ڈیمز تعمیر کرنے کی روش پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کا نشانہ بنا تے ہوئے مزید بنجر پن کا شکارکر رہی ہے جو خطے کے امن کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اور یہ تمام صورتحال پاکستان میں نئی آبی ذخیرہ گاہوں کی ضرورت کو دو چند کر رہی ہے لیکن فی الوقت ملک میں پانی کے کم ذخیرہ کا مطلب ہے کہ کم پانی کی دستیابی، جبکہ اس کے برعکس ہماری آبادی میں اضافہ ہے کہ قابو میں ہی نہیں آ رہا۔ جن کے لئے اضافی خوراک اور پینے کے اضافی پانی کی ضرورت ہے جسے فی الحال زیر زمین پانی سے پورا کیا جا رہا ہے لیکن جب سطح زمین سے پانی کا ری چارج کم ہو گا تو یہ سہارا بھی آخر کب تک ساتھ دے گا؟ اس وقت ملک میں سالانہ پچاس اعشاریہ دو (50.2 ) ملین ایکڑ فٹ پانی زیر زمین ذخائر سے حاصل کیا جا رہا ہے جو 1976 میں نکالے جانے والے زیر زمین پانی کی مقدار پچیس اعشاریہ چھ (25.6 )ملین ایکڑ فٹ سے دگنا ہے۔ زیر زمین پانی کے ری چارج کی اس وقت ملک کے تمام شدید بارانی، بارانی اور نیم بارانی علاقوں کو ضرورت ہے لیکن ہمارے نہری نظام سے ملحقہ بعض علاقوںچاہے و ہ بارانی ہوں یا نیم بارانی ان کو اس کی با لکل ضرورت نہیں کیونکہ وہ زمینی فر سودگی کی ایک اور وجہ سیم و تھور کا شکار ہیں جو کہ ہمارے آبپاشی کے نظام میں موجود خرابیوں کی وجہ سے رسنے والے پانی کی دین ہے۔ اس وقت ملک کا 11 ملین ہیکٹر رقبہ سیم اور2.8 ملین تھور کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ دس لاکھ ہیکٹر پانی کے کٹاؤ سے متاثر ہے جبکہ تین کروڑ 50 لاکھ ہیکٹر ہوا کے کٹاؤ کا شکار ہے۔ ہوا کے اس کٹاؤ کے باعث سطح زمین کی 28 فیصد مٹی اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے۔ ہوائی کٹاؤ زیادہ تر ملک کے بارانی اور صحرائی علاقوں کا سنگین مسئلہ ہے۔ ہوائی کٹاؤ کا مسئلہ اس وقت صحرائے تھل، چولستان، تھر پارکر اور مکران کے ساحلی علاقوں میں نہایت سنگین ہے جس کی وجوہات میں مویشیوں کی تعداد میں اضافہ اور بے دریغ چرائی، نیز ایندھن کے لئے جھاڑیوں اور جھاڑی دار درختوں کا صفایا ہے جس کے باعث زمین پر سے سبزے کی روئیدگی کم ہو رہی ہے اور زمینی غلاف پر نباتات و جھاڑیوں کی گرفت ختم ہونے سے ہوا کے کٹاؤ میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ہوا اپنے ساتھ گرد کے طوفان لئے انسانی آبادیوں اور کھیتوں پر دھول کی بارش کا موجب بنتی ہے جو زرعی پیداوار کیلئے نقصان دہ تو ہے ہی لیکن انسانی آبادی بھی اس دھول والی ہوا کی وجہ سے سانس کی بیماریوں، آنکھ کے انفیکشن اور جلدی عوارض کا سامنا کرتی ہے کیونکہ دو اعشاریہ پانچ (2.5 ) لینھ آف میٹر سے کم سائز کی گرد کے ذرات سانس کے ذریعے اندر جانے سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ وادی کوئٹہ بھی کافی عر صہ سے ایسی گرد آلود ہواؤں کی لپیٹ میں اکثر آجا تی ہے۔ اس کے علاوہ ہوا کے کٹاؤ کا شکار ہماری قدرتی چراگاہیں بھی ہیں جو گیارویں پانچ سالہ منصوبہ کے مطابق ملک کے زمینی رقبے کے 66 فیصدحصے پر مشتمل ہیں اورایک کروڑ 50 لاکھ افراد کو زندگی کی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ دودھ اور گوشت کا بنیادی ماخذ ہیں ۔ یہ چراگاہیں زیادہ تر ملک کے بارانی علاقوں میں ہیں جہاں ہونے والی بارش کی مقدار پہلے ہی بہت محدود ہے۔ جس کی وجہ سے یہ زمینیں کسی بھی مو سمی تبدیلی کی وجہ سے مال مویشیوں کی خوراک کی مکمل ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔ اور حالات یہ ہیں کہ اکثر علاقوں میں گلہ بانوں کی جانب سے گلہ بانی کے روایتی اور قدرتی نظام سے مطابقت رکھنے والے طریقہ کار کو پسِ پشت ڈالا جا چکا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جانور موسمی سختی کو سہتی ان چراگا ہوں کی جھاڑیوں اور پودوں کا مکمل صفا یا کر رہے ہیں مثلاً بلو چستان ہی کی مثال کو لے لیں۔ روایتی طور پر بلوچستان کے چرواہوں میں صدیوں سے چرائی کے لئے ایک روایتی طریقہ ’’ پر گوڑھ‘‘ مروج تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی جگہ پر جانوروں کو نہ چرایا جائے بلکہ انہیں ادھر اُدھر لے جا یا جائے تاکہ کوئی جگہ جھاڑیوں اور پودوں سے یکسر محروم نہ ہو جائے۔ اس روایتی طریقے میں چراگا ہوں کی بقا تھی لیکن گلہ بانوں نے اسے رفتہ رفتہ ترک کر دیا ہے۔ اب گلہ بان قبائل یا خاندان کسی ایک سر سبز جگہ مقیم ہو جاتے ہیں۔ چرائی کے قابل زمین مختلف خاندانوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ جو اپنے اپنے حصے میں مویشی چراتے ہیں۔ اس طرح حد سے زیادہ پڑنے والا یہ دباؤ اس زمین کو نباتات، جھاڑیوں اور سبزے سے محروم کر دیتا ہے۔ اس طرح زمین کی پیداواری صلاحیت تیزی سے کم ہونے لگتی ہے اور قا بلِ تجدید اس قدرتی وسیلے کو بہ آسانی پنپنے کا موقع نہیں مل پاتا جس سے زمینی فرسودگی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ یہ تمام صورتحال اس امر کی جانب متوجہ کر رہی ہے کہ اگر ہم نے اب بھی سنجیدگی سے بہتری کے اقدامات نہ کئے تو آنے والے وقتوں میں یہ صورتحال ایک سنگین خطرے کی طور پر ہمیں شدید متاثر کر سکتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں قدرت کے نظام میں مداخلت کی بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگی کا راستہ اپنا نا ہوگا یعنی ماحول دوست طرز عمل میں ہی بقائے حیات ہے۔