ورزش سے ذیابیطس کے مریضوں میں نئی رگوں کی افزائش ممکن

فضائی آلودگی فوری طور پر دل کے دورے کی وجہ بھی بن سکتی ہے، تحقیق
ورزش سے ذیابیطس کے مریضوں میں نئی رگوں کی افزائش

جارجیا: ورزش کے بے تحاشہ فوائد میں سے ایک اور فائدہ سامنے آیا ہے کہ باقاعدہ سے جسمانی سرگرمی سے بالخصوص ذیابیطس کی کیفیت میں خون کی نئی رگیں پیدا ہوسکتی ہیں یا پھر ان کا افزائشی عمل تیز تر ہوسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ذیابیطس کا ہولناک مرض بالخصوص لہو کی باریک رگوں کو شدید متاثر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے زخم مندمل نہیں ہوتے اور بینائی متاثر ہوتی ہے۔
اب پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے کہ ورزش سے خون کی نئی نسیجوں کی تشکیل میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ یعنی ورزش ذیابیطس کے منفی اثرات کو ٹھیک کرسکتی ہے۔ اس سے قبل ذیابیطس میں ورزش کے فوائد سامنے آتے رہے ہیں۔ اب جارجیا میڈیکل کالج کے سائنسدانوں نے ورزش اور نئی رگوں کی افزائش یا اینجیو جنیسس کے درمیان تعلق دریافت کیا ہے۔ اس پورے عمل میں ایکسوسومز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایکسوسومز چھوٹے اور باریک پیکٹ جیسے ہوتے ہی جو حیاتیاتی اجزا کو ایک سے دوسرے مقام تک پہنچاتے ہیں۔ ان میں دو طرح کے ایکسوسومز کو دیکھا گیا اول اینٹی آکسیڈنٹس ایس او تھری جو ری ایکٹو آکسیجن کی مقدار کو معمول پر رکھتے ہیں۔ اور پروٹین سگنلنگ میں نمایاں ہوتے ہیں۔ دوم ایک خاص پروٹین ہے جس کا نام اے ٹی پی سیون اے ہے اور تانبے کے ایٹم خلیات تک پہچاتےہیں ۔ ذیابیطس ان دونوں ایکسوسومز کو شدید متاثر کرتی ہے۔
ماہرین نے ورزش اور دونوں ایکسوسومز پر غور شروع کیا تو معلوم ہوا کہ شوگر کا مرض اینڈوتھیلیئل خلیات کے پورے نظام کو درہم برہم کرتا ہے۔ یہ خلیات خون کی نالیوں کی تشکیل کرتے ہیں اور نئی رگوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ذیابیطس کے شکار چوہوں کو دو ہفتے تک گھومنے والے پہیئے پر دوڑایا گیا جبکہ درمیانی عمر کے تندرست افراد کو درمیانی شدت کی کارڈیو ورزش 45 منٹ تک کرائی گئی۔
سائنسدانوں نے دیکھا کہ ورزش کے بعد اینڈوتھیلیئل خلیات پر اے ٹی پی سیون اے کی زیادہ مقدار پہنچنا شروع ہوگئی اور ایس او ڈی تھری کی بھی وسیع مقدار دیکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ رگوں کے اندرونی استر بننے میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ورزش سے ذیابیطس کے مریضوں میں بھی خون کی نئی رگیں بن سکتی ہیں جو بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
اسپرین کا روزانہ استعمال بزرگ افراد کو بیمار کرسکتا ہے؟

میری لینڈ: امریکی ماہرین کے ایک وسیع پینل نے تجویز کیا ہے کہ 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے صحت مند بزرگ افراد اسپرین کے روزانہ استعمال میں احتیاط برتیں کیونکہ یہ ان کےلیے مفید کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اسپرین دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی دوا ہے جو خون کو پتلا کرتے ہوئے رگوں میں خون کا بہاؤ آسان کرتی ہے۔ اپنی اسی خاصیت کی بناء پر اسپرین کو دل کے دورے اور فالج سے بچاؤ میں بھی عام استعمال کیا جاتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے صحت مند بزرگ افراد بھی امراضِ قلب اور فالج سے بچنے کےلیے (احتیاطی تدبیر کے طور پر) روزانہ اسپرین کی کم مقدار والی خوراک لینا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ انہیں ان بیماریوں کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ پچھلے پچاس سال کے دوران مختلف طبّی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غیر ضروری طور پر اسپرین کے روزانہ استعمال سے، چاہے وہ کم مقدار ہی میں کیوں نہ ہو، فائدے سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ 2019 میں ایک جامع مطالعے (میٹا اسٹڈی) میں اسپرین پر کی گئی درجنوں تحقیقات کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ 60 سال سے زائد عمر کے صحت مند بزرگوں کو روزانہ کم مقدار میں اسپرین استعمال کرنے کا بہت معمولی فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس سے نقصان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
روزانہ اسپرین استعمال کرنے والے بزرگوں کا خون اس قدر پتلا ہوجاتا ہے کہ ان کی آنتوں اور دماغ کی رگوں سے خون رِسنے (جریانِ خون) کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ اور اس جیسے دیگر مطالعات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کی ’’یو ایس پریوینٹیو سروسز ہیلتھ فورس‘‘ (USPTSF) نے تجویز کیا ہے کہ 60 سال یا اس سے زیادہ عمر والے ایسے صحت مند بزرگ جنہیں پہلے کبھی دل یا شریانوں کی کوئی بیماری نہ رہی ہو، انہیں روزانہ اسپرین استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
البتہ، اگر وہ کبھی اس کی ضرورت محسوس کریں تو وہ ڈاکٹر کے مشورے اور ہدایت کے بغیر ایسا ہر گز نہ کریں۔ تاہم 40 سے 59 سال کے ادھیڑ عمر/ بزرگ افراد جنہیں دل اور شریانوں کی بیماری کا خطرہ ہو، وہ اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے روزانہ اسپرین کی کچھ مقدار استعمال کرسکتے ہیں تاکہ فالج کے حملے یا دل کے دورے سے ہر ممکن حد تک محفوظ رہ سکیں۔واضح رہے کہ ’’یو ایس پی ٹی ایس ایف‘‘ ایک غیر سرکاری امریکی تنظیم ہے جو صحت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے امریکی حکومت کو مشورے اور رہنمائی دیتی رہتی ہے؛ جنہیں اکثر اوقات نہ صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہ ادارہ 1982 سے کام کررہا ہے۔