
ورزش سے ذیابیطس کے مریضوں میں نئی رگوں کی افزائش ممکن

فضائی آلودگی فوری طور پر دل کے دورے کی وجہ بھی بن سکتی ہے، تحقیق
بلڈ پریشر سے نجات، ایک انجکشن ہی کافی ہوگا

لندن: دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں افراد اپنا بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر دوائیاں کھاتے ہیں۔ اب فیز ٹو ٹرائل کی کامیابی کے بعد ایک انجیکشن اس کی ضرورت ختم کرسکتا ہے۔ برطانیہ میں کوئن میری یونیورسٹی اور بارٹس ہیلتھ کمپنی نے مستقل بلند فشارِ خون کے شکار افراد کے لیے ایک انجیکشن تیار کیا ہے جو روز روز دوا کھانے کی پابندی ختم کرسکے گا۔ انجیکشن کی ایک خوراک چھ ماہ تک کے لیے کافی ہوگی جو کسی بھی انقلاب سے کم نہیں۔ توقع ہے کہ سب کچھ بہتر ہونے کی صورت میں 2025 میں یہ عام دستیاب ہوگا۔
اسے زائل بیسائرن کا نام دیا گیا ہے اور اس سے قبل کولیسٹرول کم کرنے والا ایک اور ٹیکے کی بازگشت بھی سنی گئ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بلڈ پریشر کے دیرینہ مریض روزانہ ایک گولی ضرور کھاتے ہیں جن میں اے سی ای انہبیٹر عام ہیں۔ زائل بیسائرن کو دنیا بھر کے 630 مریضوں پرآزمایا جارہا ہے جن میں سے 100 مریض برطانیہ میں زیرِ مطالعہ ہیں۔ یہ تحقیق مزید تین برس تک جاری رہے گی۔ اس میں انجیکن کی اہمیت اور کسی ممکنہ ضمنی اثر کو دیکھا جائے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو اس کے بعد ٹیکے کی منظوری دی جائے گی۔
بلڈ پریشر کئی امراض کی وجہ ہے جن میں فالج، گردوں کے امراض اور دل کی بیماریاں سرِفہرست ہیں۔ صرف برطانیہ میں ہی ایک تہائی بالغ افراد اس کیفیت میں گرفتار ہیں۔ پاکستان میں بھی آبادی کا بہت بڑا حصہ بلڈ پریشر کے اضافے میں مبتلا ہے۔ اس مطالعے کے سربراہ ڈاکٹر منیش سکسینا نے انجیکشن کا اعلان کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اس طرح بلندفشارِ خون کا علاج کرنے میں بہت مدد ملے گی اور لاکھوں جانیں بچائی جاسکیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ زائل بیسائرن ایک قسم کی آراین اے انٹرفیریئنس دوا ہے ۔ ہمارے جگر میں تھیراپیوٹک ٹارگیٹنگ اینجوٹینسینوجن (اے جی ٹی) نامی ایک پروٹین یہ کام کرتا ہے اور خون کے دباؤ کو معمول پر رکھتا ہے۔زائل بیسائرن جلد میں لگایا جانے والا ایک ٹیکہ ہے جو اے جی ٹی کی پیداوار بڑھاتا ہے اور خون کی نالیوں کو وسیع کرکے بھی دورانِ خون کو معمول پر لاتا ہے۔
اسپرین کا روزانہ استعمال بزرگ افراد کو بیمار کرسکتا ہے؟

میری لینڈ: امریکی ماہرین کے ایک وسیع پینل نے تجویز کیا ہے کہ 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے صحت مند بزرگ افراد اسپرین کے روزانہ استعمال میں احتیاط برتیں کیونکہ یہ ان کےلیے مفید کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اسپرین دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی دوا ہے جو خون کو پتلا کرتے ہوئے رگوں میں خون کا بہاؤ آسان کرتی ہے۔ اپنی اسی خاصیت کی بناء پر اسپرین کو دل کے دورے اور فالج سے بچاؤ میں بھی عام استعمال کیا جاتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے صحت مند بزرگ افراد بھی امراضِ قلب اور فالج سے بچنے کےلیے (احتیاطی تدبیر کے طور پر) روزانہ اسپرین کی کم مقدار والی خوراک لینا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ انہیں ان بیماریوں کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ پچھلے پچاس سال کے دوران مختلف طبّی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غیر ضروری طور پر اسپرین کے روزانہ استعمال سے، چاہے وہ کم مقدار ہی میں کیوں نہ ہو، فائدے سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ 2019 میں ایک جامع مطالعے (میٹا اسٹڈی) میں اسپرین پر کی گئی درجنوں تحقیقات کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ 60 سال سے زائد عمر کے صحت مند بزرگوں کو روزانہ کم مقدار میں اسپرین استعمال کرنے کا بہت معمولی فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس سے نقصان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
روزانہ اسپرین استعمال کرنے والے بزرگوں کا خون اس قدر پتلا ہوجاتا ہے کہ ان کی آنتوں اور دماغ کی رگوں سے خون رِسنے (جریانِ خون) کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ اور اس جیسے دیگر مطالعات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کی ’’یو ایس پریوینٹیو سروسز ہیلتھ فورس‘‘ (USPTSF) نے تجویز کیا ہے کہ 60 سال یا اس سے زیادہ عمر والے ایسے صحت مند بزرگ جنہیں پہلے کبھی دل یا شریانوں کی کوئی بیماری نہ رہی ہو، انہیں روزانہ اسپرین استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
البتہ، اگر وہ کبھی اس کی ضرورت محسوس کریں تو وہ ڈاکٹر کے مشورے اور ہدایت کے بغیر ایسا ہر گز نہ کریں۔ تاہم 40 سے 59 سال کے ادھیڑ عمر/ بزرگ افراد جنہیں دل اور شریانوں کی بیماری کا خطرہ ہو، وہ اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے روزانہ اسپرین کی کچھ مقدار استعمال کرسکتے ہیں تاکہ فالج کے حملے یا دل کے دورے سے ہر ممکن حد تک محفوظ رہ سکیں۔واضح رہے کہ ’’یو ایس پی ٹی ایس ایف‘‘ ایک غیر سرکاری امریکی تنظیم ہے جو صحت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے امریکی حکومت کو مشورے اور رہنمائی دیتی رہتی ہے؛ جنہیں اکثر اوقات نہ صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ ان پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہ ادارہ 1982 سے کام کررہا ہے۔