پرامید ہوں کہ پاناما کیس کا معاملہ سپریم کورٹ میں قانون کے مطابق حل ہوگا، وزیراعظم - نوازشریف اپنے خلاف سپریم کورٹ میں کیس چلنے پر استعفیٰ دیں، عمران خان- عمران خان نے ہمیشہ نوازشریف کی سیاست کو مضبوط کیا ہے، خورشید شاہ - سوئزرلینڈ میں پولیس کا مسجد پر چھاپہ، امام سمیت 4 افراد گرفتار - دنیا کے غریب ترین سربراہانِ مملکت - سپریم کورٹ کا انقلابی اقدام ، ملک خانہ جنگی سے بچ گیا ،ضیاع شاہد ۔ عمران خان کے پی کے میں ناکام، فوج اقتدار میں نہیں آئے گی:پرویز مشرف

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے منگل کی شام ایوان بالا کے پورے ایوان پر مشتمل سینٹ کمیٹی کو بند کمرہ اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ فوج آئین سے ماورا کردار نہیں کرے گی۔ پارلیمنٹ خارجہ اور داخلہ اور دیگر پالیسیاں وضع کرے، فوج عمل کرے گی۔ سعودی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں۔ ابھی اس اتحاد کے کام کا طریقہ کار طے نہیں پایا۔ وفاقی پارلیمانی نظام کے حامی ہیں۔ صدارتی نظام کی گنجائش، ضرورت اور امکان نہیں۔ صدارتی نظام ملک کمزور کرتا ہے۔ آرمی چیف کی اس بریفنگ کیلئے سینٹ کے پورے ایوان کو کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔ آرمی چیف ہیلی کاپٹر پر پارلیمنٹ ہائوس پہنچے۔ ڈپٹی چیئرمین مولانا غفور نے خیر مقدم کیا۔ جب کہ چیئرمین رضا ربانی نے آرمی چیف اور ان کی ٹیم کو پارلیمنٹ ہائوس میں قائم کی گئی اس ’’گلی دستور‘‘ کا دورہ کروایا جہاں، پاکستان میں جمہوری، دستوری اور سیاسی جدوجہد کی داستان تصاویر کے ذریعہ بیان کی گئی ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ بریفنگ میں آرمی چیف کی معاونت کیلئے موجود تھے۔

آرمی چیف نے ملکی تاریخ میں پہلی بار سینٹ کو قومی سلامتی سے متعلق بند کمرہ اجلاس میں سلامتی کے امور کا مجموعی جائزہ پیش کیا۔ جبکہ ڈی جی ایم او نے اس کی جزئیات پر بریفنگ دی۔ اجلاس چار گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ ڈی جی برائے ملٹری آپریشنز کی بریفنگ ایک گھنٹے پر مشتمل تھی ۔آرمی چیف نے قومی سلامتی اور اپنے بیرون ملک دوروں سے متعلق تفصیل بتائی۔ انہوں نے سوال و جواب کے سیشن میں ملکی داخلی و بیرونی سلامتی، پاکستان، بھارت تعلقات، مسئلہ کشمیر، پاک افغان تعلقات، پاک چین تعلقات، سعودی قیادت میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کی تفصیلات، لاپتہ افراد، پاک چین معاشی راہداری، ملک کو لاحق خطرات کی اصل نوعیت، حالیہ دھرنے کے بارے میں خدشات کے ازالہ، ملکی سیاسی ماحول سے جڑے امور سمیت لاتعداد موضوعات پر گفتگو کی۔ بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا کے ساتھ مختصر مکالمہ کیا اور کہا کہ اس بارے میں وہ تین سے چار روز کے اندر بریفنگ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بریفنگ انتہائی خوشگوار، بامقصد اور اچھے ماحول میں منعقد ہوئی۔ آئندہ کیا لائحہ عمل ہوگا اس پر بھی ڈی جی ایم او نے بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے اور مل کر دشمن کے خلاف لڑیں گے جبکہ تمام سینیٹرز کے سوالات ملک کی بہتری کے لیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ممبران کے تحفظات عدم معلومات کی بنا پر تھے، جن کو آرمی چیف نے دور کرنے کی کوشش کی۔

آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ نے کہا ان کیلئے اعزاز کی بات ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی ایک اہم کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہیں۔ بعض اہم ممالک کے دورے فوجی سفارتکاری کا حصہ ہیں اور علاقائی ممالک سے تعلقات میں بہتری کے لیے آرمی چیف کے دورے معاون ثابت ہوئے خطے کی جیو سٹریٹجک صورتحال پر گہری نظر ہے، افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بارڈر مینجمنٹ پاک-افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ سینٹ کے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ چیئرمین میاں رضا ربانی نے آرمی چیف کا خیر مقدم کیا۔ آرمی چیف نے سینٹ کے ارکان کو یقین دلایا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے فوج کا ہاتھ تھا کہ تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ نہال ہاشمی کے مطابق مشاہد اللہ خان نے آرمی چیف سے سوال پوچھا کہ اسلام آباد میں دھرنا دینے والوں کو کھانا کون سپلائی کرتا تھا جس پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے جواب دیا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے ان دھرنوں کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ آرمی چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے انٹر سروسز انٹیلیجنس کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ اس دھرنے کو ختم کرائے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم کے ہمراہ سعودی عرب جانا تھا اس لیے وہ چاہتے تھے کہ سعودی عرب روانگی سے پہلے اس دھرنے کو ختم کروایا جائے۔

نہال ہاشمی کے مطابق سینیٹر پرویز رشید کی طرف سے فوج کی طرف سے جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی سرپرستی کے بارے میں بھی سوال کیا جس کا آرمی چیف نے نفی میں جواب دیا کہ فوج حافظ سعید کی سرپرستی نہیں کر رہی۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ حافظ سعید بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اتنے ہی سرگرم ہیں جتنا ایک عام پاکستانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے گی۔ سینٹ کے ارکان نے یقین دلایا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی سلامتی کے لیے سویلین اور فوجی ادارے ایک ہی پیج پر ہیں اور اگر ملک کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ لڑے گی۔ آرمی چیف نے کہا پائیدار جمہوریت کا حامی ہوں، پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے، آئین میں فوج کا جو کردار ہے اس سے مطمئن ہوں، 41 اسلامی ممالک کا اتحاد کسی ملک کیخلاف نہیں، ایران اور سعودی عرب کی لڑائی ہوگی نہ ہونے دیں گے، اتحاد کے ٹی او آرز طے ہونا باقی ہیں، ٹی وی پر تبصرہ کرنیوالے ریٹائرڈ افسر ہمارے ترجمان نہیں۔ سینیٹرز کی جانب سے کھل کر سوالات کئے گئے۔ آرمی چیف نے کہا علاقائی ممالک سے تعلقات میں بہتری کیلئے دورے معاون ثابت ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ بارڈر مینجمنٹ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا ماضی میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا ہوا تو میرے ذہن میں لال مسجد کا واقعہ بھی آیا، آرمی چیف نے کہا کہ لاپتہ افراد کی مختلف وجوہات ہیں، کچھ لوگ خود غائب ہو کر لاپتہ ظاہر کرواتے ہیں، ایجنسیاں صرف ان افراد کو تفتیش کے لئے تحویل میں لیتی ہیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سوال کیا کہ کیا فوج کو موجودہ رول سے بڑھ کر کردار چاہیے جس پر انہوں نے کہا کہ فوج کا آئین میں جو کردار ہے اس سے مطمئن ہوں، ایک موقع پر مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر یعقوب ناصر کے شور شرابے کی وجہ سے ہال میں بدمزگی پیدا ہوئی۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے کہا کہ آپ کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے تو چیئرمین کو بتا دیں یا ہمارے پاس آجائیں، چیئرمین صاحب جیسے کہیں گے ہم ویسا کر لیں گے۔ آرمی چیف نے ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ دھرنے کے شرکاء میں پیسے وزیراعظم کی ہدایت پر تقسیم کئے گئے۔ یہ بات انہوں نے دھرنے کے شرکاء کو واپسی پر ہزار ہزار روپے دینے کے جواب میں کہی۔ آرمی چیف نے کہا دھرنے کے معاہدے میں فوجی افسروں کا نام نیک نیتی سے لکھا گیا فوجی افسر کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا تاہم ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا۔ ہمارے پاس ڈرون گرانے کی صلاحیت موجود ہے اگر حکومت ڈرون گرانے کا کہے تو گرا دیں گے، بیرونی سازشوں سے باخبر ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ ملک میں جمہوری عمل کے ساتھ کھڑے ہیں، ملک کے استحکام کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

میجر جنرل آصف نے بتایا کہ ایک گھنٹہ ڈی جی ایم او نے ملک میں جاری آپریشن ردالفساد کے حوالے سے ارکان سینٹ کو آگاہ کیا جبکہ 3 گھنٹے سے زائد وقت سوالات کے جواب دیئے گئے۔ آرمی چیف کا انداز گفتگو غیر رسمی اور بے تکلفانہ تھا۔ چیئرمین سینٹ نے بار بار کوشش کے باوجود رحمان ملک کو سوال کی اجازت نہ دی خواتین کی نمائندگی صرف سینیٹر شیری رحمان نے کی۔ تحریک انصاف سے اعظم سواتی نے پاکستان میں جہادی، عسکریت پسندوں کے کیمپس سے متعلق سوال کیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان میں کوئی جہادی و عسکریت پسندوں کے کیمپ نہیں دھرنوں سے متعلق فوج پر الزامات محض الزامات ہیں، کوئی حقیقت نہیں، سیاستدان بھی اچھا کام کریں۔ میرا ازلی یقین ہے کہ ہمارا کام صرف سرحدوں کی حفاظت ہے۔ علاوہ ازیں آرمی چیف اور وزیراعظم اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات ہوئی جو ایک گھنٹہ 25 منٹ جاری رہی۔ مولانا فضل الرحمان نے فاٹا اصلاحات سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا آرمی چیف اور وزیراعظم نے مولانا کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی مولانا فضل الرحمن نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے معاملے پر ابھی بات چیت جاری رہے گی۔ فاٹا اصلاحات کا مخالف نہیں ہوں۔ فضل الرحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کی پیروی میں فاٹا کے مسئلے کو حل کیا جائے سیاسی رہنماؤں سے فاٹا اصلاحات پر بات چیت جاری رہے گی۔ سینٹ کے پورے ا یوان پر مشتمل کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ کو حکومت کی پالیسیوں پر نظرثانی کا اختیار حاصل ہے کمیٹی کو خطے کی بدلتی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا گیا آرمی چیف نے سینٹرز کے سوالوں کے جواب دئے۔

دریں اثناء ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ سینٹ کی ہول کمیٹی کا سیشن بہت اہمیت کا حامل تھا۔ معلومات میں کمی کی وجہ سے جو افواہیں تھیں ان کو دور کرنے میں مدد ملی، ریٹائرڈ افسران کسی سیاسی معاملے پر بات کرتے ہیں تو وہ ان کی ذاتی رائے ہوتی ہے۔ پولیٹیکل ایشو پر فوج کا ترجمان آئی ایس پی آر ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ دوبارہ پاکستان میں نہیں لڑیں گے۔ امریکہ سپر پاور ہے اس کے خطے میں اپنے مفادات ہیں، امریکہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عرصے سے تعاون کررہے ہیں۔ امن کیلئے ہماری کوششیں اور قربانیاں تسلیم کی جائیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا دفتر خارجہ ضرور جواب دے گا۔ بھارت کی پاکستان مخالف پالیسی برداشت نہیں کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑے۔ پاکستان پیسوں کیلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑرہا۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بریفنگ کیلئے پارلیمنٹ آنا اچھا تجربہ رہا۔ فوجی ترجمان نے کہا کہ جمہوریت کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں سب کو پتہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیسے شروع ہوئی اور کیسے لڑی حکومت اور آرمی چیف نے بیان دیا ہے کہ ہمیں امریکہ سے کچھ نہیں چاہئے، بحیثیت سپر پاور امریکہ کا دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون ہے امریکہ نے جو سکیورٹی کی مد میں امداد کی وہ اپنے قومی مفاد میں کی۔ ہمیں رقم نہیں قربانیوں کا اعتراف چاہئے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہاہے کہ پاکستان کی قیمت کوئی نہیں لگا سکتا، جمہوریت کو فوج سے خطرہ نہیں، فوج ریاست کا ادارہ ہے اور ریاست کی سیکیورٹی، بہتری اور تحفظ کیلئے جو بھی ہمارا آئینی کام ہے ہم وہ کرتے رہیں گے،

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں دھرنے والوں میں پیسے بانٹنے کے معاملے پر کوئی بات نہیںہوئی ،پاکستان کے مفاد میں جو کرنا تھا کیا اور آگے بھی کریں گے۔ دریں اثنا بریفنگ کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ سیاستدان آپس کے اختلافات کو بیرون ملک جا کر ظاہر نہ کریں بیرون ملک میں ایک دوسرے کے خلاف مظاہرے کرنا افسوسناک ہے۔ بیرون ملک کہیں گو نواز گو اور کہیں رو عمران رو کے نعرے لگتے ہیں بیرونی دنیا میں ان مظاہروں سے برا پیغام جاتا ہے۔ امریکہ افغان جنگ میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو ’’ڈو مور‘‘ کے جواب میں ’’نو مور‘‘ کہہ دیا ہے۔ پاکستاناب افغانستان میں امریکہ کی جنگ نہیں لڑے گا کچھ بلوچ شرپسند عناصر نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ایسے ملک دشمن عناصر کے بارے میں آپ خود فیصلہ کر لیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے بھی کروڑوں روپے، رائفلیں بلوچ شرپسندوں کو دیں۔ دھرنے والوں کے فیض آباد پہنچنے کے بعد ہی وزیراعظم سے رابطہ کیا دھرنے کے ذریعے استعفیٰ لینے کا رجحان درست نہیں معاہدے میں فوج کا نام نہیں آنا چاہئے تھا لیکن دھرنے والے نہیں مان رہے تھے۔
منگل کے روز سینٹ سے دو اچھی خبریں ملیں۔ آرمی چیف کی آمد اور بریفنگ نے ملک کے سیاسی ماحول پر چھائے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کو عارضی طور پر دور کر دیا، جبکہ شام کے باقاعدہ اجلاس میں حلقہ بندیوںکے ترمیمی بل کی منظوری نے آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں باہمی عدم اعتماد کی گہری خلیج پر کرنے کیلئے طرفین کو یقیناً دور رس اقدامات کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ بریفنگ کے بعد بعض سینیٹرز تو خوشی کے مارے قلقاریاں مار رہے تھے۔ بند کمرے کی بریفنگ کو پارلیمنٹ کی لابیوں میں عیاں کیا جا رہا تھا۔ ساتھ ہی دبے الفاظ میں رپورٹ نہ کرنے کی بات بھی کی جا رہی تھی۔ سنجیدہ اور مدبر سینیٹرز تفصیلات بتانے کے بجائے اس رابطہ کو اہم قرار دے رہے تھے۔ بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا سے قدرے مختصر گفتگو میں کہا کہ آرمی چیف، مجالس قائمہ برائے دفاع کی دعوت پر آئے۔

اس اعتبار سے گزشتہ روز سینٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کو آرمی چیف اور ان کے معاونین کی طرف سے بریفنگ قطعاً غیر معمولی بات نہیں لیکن ملک میں جاری سیاسی دھینگا مشتی، عدالتی فیصلوں کے خلاف احتجاج، دھرنے کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آرمی چیف کی پارلیمنٹ ہائوس آمد، ملک کی سیاسی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور سینیٹرز، یعنی دونوں فریقوں کے مطابق بریفنگ خوشگوار ماحول میں منعقد ہوئی۔ طرفین نے ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ بھی کی اور اس ماحول میں سرکاری سینیٹر مشاہد اللہ نے یہ سنگین سوال بھی پوچھ لیا کہ فیض آباد کے دھرنے کے شرکاء کو کھانے کون پہنچا رہا تھا، سہولت کار کون تھا؟ آرمی چیف نے واضح کیا کہ فیض آباد دھرنے میں فوج ملوث نہیں، ثابت ہو جائے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ یعنی جو بات، سینہ گزٹ کے ذریعہ نجی محافل اور وہاں سے سوشل میڈیا کا رخ کر رہی تھی، وہ نوک زباں پر بھی آئی، جواب بھی دیا گیا، طرفین نے غبار نکال لیا اور ہلکے پھلکے ہو گئے۔ اس سوال سے میسر آنے والے موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ سیاست دان فوج کو سیاست میں مداخلت کا موقع نہ دیں۔ مکمل یقین رکھتا ہوں کہ فوج کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دورہ سعودی عرب کی وجہ سے انہیں آئی ایس آئی کا ذمہ لگانا پڑا کہ دھرنے والوں کو ہٹایا جائے۔ فیض آباد کا دھرنا ملکی مفاد کی خاطر ختم کرانے میں کردار ادا کیا۔ آرمی چیف نے تسلیم کیا کہ دھرنا ختم کرانے کیلئے معاہدے پر فوجی افسران کو دستخط نہیں کرنے چاہیے تھے۔ تلخ سیاسی سوالات، نرم لب و لہجے میں پوچھے گئے، آرمی چیف نے بھی اسے پیرائے میں جواب دینے کی کوشش کی۔ اس سوال و جواب کے نیتجہ میں اب صدارتی نظام کی اس بحث کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جو رواں سال کے آغاز پر غیر محسوس طریقے سے شروع کی گئی تھی۔ آرمی چیف نے وضاحت سے کہا کہ وہ نہ صدارتی نظام کے حامی ہیں نہ ہی یہ نظام ملک کیلئے موزوں ہے۔ انہوں نے 41 رکنی فوجی اتحاد کی امن فوج کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ امن دستے شاید افریقی ملک نائیجر میں تعینات کئے جائیں۔ راحیل شریف کی اتحاد کے بطور کمانڈر تقرری سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’راحیل شریف ریٹائرڈ جنرل تھے اور سعودی عرب نے ان کی خدمات لینے کے لیے درخواست کی تھی۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات اور کشیدگی کے حوالہ سے تفصیلات کو سمیٹے ہوئے انہوں نے کہا کہ آٹھ کروڑ ایرانی امریکہ کے سامنے ڈٹے ہیں، ہم تو بائیس کروڑ ہیں۔ قومی اتحاد اور یکجہتی کے ہوتے ہوئے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی نوعیت، خطرات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں۔
 چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز سینٹ کے ارکان کو بتایا کہ بھارت نے اپنی فوج کی 9 کورز میں سے 6 کوریں پاکستان کے خلاف متعین کر رکھی ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت پاکستان کے خلاف معاندانہ پالیسی پر گامزن ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ اس کا شاخسانہ ہے۔ آرمی چیف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں کہا کہ حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں‘ مسائل بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں جنگ مسائل کا حل نہیں ہے اگر چار سال تک پاکستان وزیر خارجہ کے بغیر ہو گا تو اس خلاء کو کسی نہ کسی کو تو پر کرنا ہو گا۔ آرمی چیف اور ڈی جی ایم او نے پاکستان کی دفاعی تیاریوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس وسائل کا مسئلہ ہے ہمیں اپنے وسائل کے تحت ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا ہے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں آرمی چیف نے بتایا کہ افغانستان کی داخلی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے‘ افغانستان کا حالات پر مکمل کنٹرول نہیں ہے اس لئے افغانستان کی سرزمین پر دہشت گرد اور انتہا پسند موجود ہیں جو وہاں سے آ کر پاکستان کے اندر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان میں کھربوں ڈالر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دئیے ہیں لیکن وہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا صفایا نہیں کر سکا۔ پاکستان کی اپنی مجبوریاں ہیں‘ پاکستان میں 27 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں جو ہمارے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے ان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا جائے۔ پاکستان سے اب ڈومور کا مطالبہ نہ کیا جائے‘ پاکستان اپنے حصے کا کام کر چکا ہے۔