
پیچھے نہ ہٹیں مارے جائیں گے
ن لیگ پھنس گئی: جاوید چوہدری
روضہ رسولؐ کے سامنے اذیت ناک سیاسی مظاہرہ
’’سیاسی ایف آئی آر‘‘ درج کرانے پر عمران کا اصرار، پرویز الٰہی کا انکار
اسلام آباد-4نومبر2022 (انصار عباسی): وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی عمران خان کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور انہیں جمعرات کے قاتلانہ حملے کے معاملے کو سیاسی بنانے اور اس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ملوث کرنے کی بجائے حقیقت پر مبنی ایف آئی آر درج کرانے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی معاملے کو اس نہج پر لیجانے سے بچانا چاہتا ہے جہاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کسی رکن کا نام ایف آئی آر میں درج کرا دیا جائے کیونکہ یہ صورتحال نہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کیلئے اچھی ہوگی اور نہ ملک اور اس کے اداروں کیلئے۔
وہ مشتبہ حملہ آور جو دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے بغیر کسی مدد و حمایت کے اپنے تئیں عمران خان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، پولیس کی حراست میں ہے۔ حملے کے چند ہی گھنٹوں بعد عمران خان نے جمعرات کو اسد عمر کے ذریعے تین افراد کے نام لیے جن مین شہباز شریف، رانا ثناء اللّٰہ اور سینئر فوجی افسر شامل ہیں جنہیں عمران خان نے اپنی جان پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ اب تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔
عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ مشتبہ حملہ آور اور نامعلوم افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کریں نہ کہ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور حاضر سروس میجر جنرل کو۔ عمران خان نے پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کرائی۔ پی ٹی آئی یا پھر پنجاب حکومت میں سے کوئی نہیں بتا رہا کہ پرچہ کٹوانے میں دیر کیوں ہو رہی ہے۔ تاہم، پنجاب حکومت یہ نام بالخصوص کسی فوجی کا نام پرچے میں شامل کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی نے اس معاملے پر عمران خان سے بات چیت کی ہے۔ عمران خان کے برعکس، پرویز الہٰی کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ پرویز الہٰی نہیں چاہتے کہ پولیس وہ ایف آئی آر کاٹے جو عمران خان چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ معاملہ انسدادِ دہشت گردی محکمے کو بھیجا ہے تاکہ سائنسی بنیادوں پر منطقی تحقیقات ہوسکیں اور ساتھ ہی یہ پتہ چلایا جا سکے کہ گرفتار شدہ مشتبہ حملہ آور کے پیچھے کون ہے۔
جمعہ کو عمران خان نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ اور حاضر سروس میجر جنرل کا نام لیا کہ ان تینوں نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ یہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ لانگ مارچ میں لوگ تیزی سے بڑھ رہے تھے۔عمران خان نے اپنے حامیوں سے اپیل کی کہ وہ ان تین افراد کے عہدوں سے ہٹنے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اسی دوران، معلوم ہوا ہے کہ اصل میں عمران خان اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے ناراض تھے کہ وہ قاتلانہ حملے کے بعد جمعہ کو لوگوں کی زیادہ تعداد کو سڑکوں پر احتجاج کیلئے نہیں لا سکے۔
ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے کہا کہ دیکھیں کہ لوگوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد کس طرح کے رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اُس وقت لوگوں نے تین دن تک احتجاج کیا تھا اور زندگی کا پہیہ پورے ملک میں جام ہو گیا تھا، لیکن میرے [عمران خان] معاملے میں پی ٹی آئی لیڈر سڑکوں پر لوگوں کو لا ہی نہ سکے اور صرف چند گھنٹوں کیلئے چند مظاہرے ہوئے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے کہا کہ وہ کھل کر مذکورہ تینوں افراد کے نام لیں جنہوں نے جمعرات کو میری [عمران خان] جان پر حملہ کرایا۔
عمران خان کا دشمن؟
انصار عباسی
لائلپورسٹی- 4نومبر2022:عمران خان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں وہ اپنا نقصان کرنے کیلئے خود ہی کافی ہیں۔ عمران خان کے مخالفوں نے ان کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہ کی کہ ان کی انتہائی نامقبول حکومت کو ختم کر کے خود اقتدار سنبھال لیا اور حالات پہلے سے بدتر ہوگئے، مہنگائی بڑھ گئی، ڈالر بہت مہنگا ہو گیا، معیشت مزید زوال پذیر ہوگئی۔ ایک طرف اتحادیوں کی حکومت میں آنے سے اُن کو کافی سیاسی نقصان ہوا تو دوسری طرف عمران خان نے جھوٹ پر مبنی امریکی سازش کا ایسا بیانیہ بنایاکہ اُن کی مقبولیت کی یہ حالت ہو گئی کہ جہاں جلسہ کرتے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے، جو ضمنی الیکشن ہوئے اُن میں تحریک انصاف ہی بہت بڑی تعداد میں کامیاب ہوئی۔
گویا مقبولیت کے لحاظ سے یہ واضح ہو گیا کہ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں عمران خان اورتحریک انصاف کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اتحادی حکومت کو بےشمار مسائل کا سامنا ہے ، معیشت کی حالت اتنی خراب ہے کہ کوئی معجزہ ہی اُنہیں حکومت میں رہ کر اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ دلوا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس چیلنج کا ن لیگ کو سامنا ہے۔ ایسے میں جب سب کچھ عمران خان کی اپنی حکومت کی تمام تر نااہلیوں اور ناکامیوں کے باوجود اُن کے حق میں جا رہا تھا اور وہ عوامی طور پر بے حد مقبول بھی ہوگئے تو اُنہوں نے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھلی جنگ شروع کر دی۔ ایسی ایسی باتیں اپنے جلسوں، جلوسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں اداروں کے خلاف کرنے لگے کہ بھارت میں اُن کی تعریفیں ہونے لگیں۔
چند ایک بھارتیوں نے تو عمران خان اور تحریک انصاف کو چندہ تک دینے کی باتیں شروع کر دیں تاکہ عمران خان اپنی ہی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف حملوں کو جاری رکھ سکیں۔ ایک ریٹائرڈ بھارتی میجر جو اپنے یو ٹیوب چینل میں پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہتا ہے، وہ تو یہ بھی کہہ چکا کہ عمران خان نے اپنی فوج اور آئی ایس آئی کو جتنا نقصان پہنچایا وہ تو بھارت اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتا تھا۔ عمران خان کہتے تو ہیں کہ اُنہیں پاکستان کی فوج سے محبت ہے، کیوں کہ یہ فوج پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے لازم ہے لیکن جو کچھ وہ، اُن کی جماعت اور اُن کا سوشل میڈیا اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ کر چکے اور کر رہے ہیں وہ واقعی کوئی دشمن بھی نہیں کر سکتاتھا۔ گزشتہ چھ مہینوں کے دوران فوج اور اُس کی ہائی کمانڈ کے خلاف جس جس طرح کی سوشل میڈیا کیمپین چلائی گئی اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور حال ہی میں تو حد ہی ہو گئی کہ بغیر ثبوت کے اپنی ہی فوج پر کینیا میںہلاک ہونے والے صحافی ارشد شریف کے قتل کا پر الزام لگا دیا۔
عمران خان کی سیاسی تاریخ کو دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس کو اپنا مخالف سمجھ لیں اُس پر کسی بھی قسم کا الزام لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ لیکن مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ اُن کا یہی رویہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے اور وہ اس لیے کہ اُن کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اُن کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو ناکام بنوا سکتی تھی لیکن اُنہیں نے ایسا نہیں کیا۔ خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے الزمات اور دھمکیوں میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ فوج اور آئی ایس آئی پر دباؤ بڑھا کر جلد الیکشن کے لیے رستہ نکال سکتے ہیں۔ خان صاحب کی اپنی سوچ ہے لیکن میری ذاتی رائے میں اُنہوں نے اداروں کےساتھ جس خطرناک ٹکراو کی پالیسی اپنائی ہے اس کا اُن کو سیاسی طور پر نقصان ہی ہو گا فائدہ کسی صورت نہیں ہوسکتا۔
ایک سیاسی رہنما اگر بہت مقبول ہو اور اُس کی پارٹی ضمنی انتخابات بھی بڑی اکثریت سے جیت رہی ہو تو اُسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ فوج اور آئی ایس آئی سے ایسی لڑائی مول لے جس سے اُسے سرا سر سیاسی نقصان کا ہی خدشہ ہے۔ ایسے رویے سے صرف اُس رہنما کے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا اس سیاست سے پاکستان اور اس کے اہم ترین دفاعی اداروں کا نقصان تو نہیں ہو رہا ۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے اس دباؤ کے ذریعے جو توقع کیے بیٹھے ہیں اُس کا نہ صرف یہ کہ پورا ہونا ناممکن نظر آتا ہے بلکہ وہ مستقبل کیلئے بھی اسٹیبلشمنٹ کا اعتبار کھو رہے ہیں۔
جو کچھ عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا وہ ادارے کبھی نہیں بھول سکتے۔ خان کو چاہیے تھا کہ اپنے تعلقات اور معاملات کواسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر بناتے بجائے اس کے کہ ان تعلقات کو اتنا خراب کر دیتے کہ اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ اداروں اور عوام کے درمیان تعلقات کو شدید نقصان پہنچا دیا۔ ابھی خان کو یہ باتیں سمجھ نہیں آئیں گی لیکن کچھ وقت گزرنے دیں بعد میں وہ یہی کہیں گے کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
لائلپورسٹی- 24اکتوبر2022: صبح فون دیکھا تو پہلا میسج دوست مومنہ کا موصول ہوا اور پھر ہر طرف سے یہ ہی خبر سننے کو ملی کہ ارشد شریف کو شہید کر دیا گیا۔ جسے سن کے حیرت و دکھ کی انتہا نہ رہی۔ کہ میرے وطن پہ یہ کیسے کالے سائے آپڑے ہیں۔ کہ ہر روز ایک سے بڑھ کر ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آ رہا ہے۔
تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ملک کے نامور صحافی ارشد شریف کو کینیا میں سر میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔
نہ مقتل اپنا تھا نہ دیس اپنا تھا
ہم جس سے مارے گئے وہ تیر اپنا تھا
ارشد شریف اے آر وائی نیوز سے کافی عرصہ تک وابستہ رہے۔ اور ایک حق گو صحافی کے طور پہ جانے جاتے تھے۔ ارشد شریف کے والد نیول کمانڈر تھے اور بھائی میجر تھے، دونوں کی شہادت 2011 میں ہوئی، ارشد شریف اور اہلخانہ مبینہ طور پر دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ارشد شریف کا اپنا ایک سیاسی اختلافی اور کسی جماعت کے ساتھ حمایتی رویہ بھی ہو گا۔تاہم سوشل میڈیا پر اس واقعہ کا جو سبب کہی اُن کہی میں ٹرینڈ بنا ہوا ہے اس افسوسناک واقعہ کے اس کے علاوہ بھی کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔
تاہم اب تک کی غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ارشد شریف کو کینیا کی پولیس نے نیروبی کے قریب سر میں گولی مار کر اس وقت قتل کیا جب ان کے ڈرائیور کی جانب سے مبینہ طور پر چیک پوائنٹ پر قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس حوالے سے کینییا کی پولیس کا کہنا ہے۔ کہ پاکستانی صحافی اپنے ڈرائیور کے ساتھ مگادی سے نیروبی کی جانب سفر کر رہے تھے کہ جہاں پولیس راستے میں روڈ بلاک کر کے چیکنگ کر رہی تھی۔
کینیا پولیس کے ایک آفیسر کی جانب سے جاری بیان میں ارشد شریف کے پولیس کی فائرنگ سے قتل ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ غلط نشاندہی پر پاکستانی صحافی کا قتل ہوا اور اس حوالے سے مزید معلومات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ یاد رہے کہ اس واقعہ کے اس بیک گراؤنڈ پہ خود کینیا کے صحافی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور اس کی بنیاد پہ ایک غیر ملکی نامور شخصیت کے قتل کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
کینیا کئی دوسرے افریقی ممالک کی طرح کئی جرائم پیشہ گروہوں کا حامل ملک ہے ۔ یہاں سے بھی بین الاقوامی دہشت گردی اور انڈر ورلڈ دنیا کے تانے بانے ملتے ہیں ۔یہاں یہ پہلو بھی مدنظر رہے کہ کینیا میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں بھی کا منظم نیٹ ورک ہے۔
عوام کی ایک رائے کے مطابق میں ارشد شریف کے جن حلقوں سے اختلاف تھے۔ اس صورت حال سے کسی بظاہر بے تعلق گروہ کا کسی مفاد کے لیے یہ قدم اٹھانا تا کہ پاکستان میں دبی چنگاریوں کو بھیانک آگ میں بدلا جا سکے بھی ممکن ہے۔
بہر حال جو واقعہ گھڑا گیا ہے۔ وہ خود اپنے اوپر شکوک وشبہات پیدا کر رہا ہے۔ کیا ارشد شریف کوئی مجرم پیشہ بیک گراؤنڈ رکھتے تھے یا کسی جرم میں ملوث تھے۔ کہ جنہیں چیک پوسٹ پہ روکا مگر نہیں رکے؟؟ کیا وہ ذمہ دار انسان نہ تھے یا قوانین نہ جانتے تھے؟؟ کیا وہاں کی پولیس اتنی فرض ناآشنا ، غیر ذمہ دار اور گئی گزری ہے۔ کہ ایک شریف پر امن شہری کو سر عام سر میں گولی مار دے؟؟؟؟
اگر پولیس گاڑی روکنا چاہتی تھی۔ تو ٹائروں پہ برسٹ کیوں نہ مارا گیا۔ جو ایک سینڈرڈ طریقہ ہے۔ پولیس ہی نے کیوں ایسا کیا۔؟؟ ویسے پولیس تو کیسی ملک کی گورنمنٹ کے ماتحت ہوتی ہے۔ اور اگر گورنمنٹ چاہے۔ کہ کسی کو مار دیا جائے۔ تو پولیس تو یہ کام کرے گی ہی۔
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ کہ وہ کونسے حالات تھے۔جن کی وجہ سے ایک حق گو محب وطن کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ان حالات کو پیدا کرنے والا کون تھا۔؟ سوال یہ بھی ہے۔ کہ ارشد شریف جب امارت چلے گئے تو وہاں سے بھی ہجرت پہ کس نے مجبور کر دیا اور کینیا جیسے ملک جانے کا ہی مشورہ کیوں دیا گیا۔ ؟کچھ ذرائع کے مطابق ارشد شریف جلد ہی کوئی اہم ڈاکو منٹری بھی منظر عام پہ لانے والے تھے۔ جو کئی رازوں کا پردہ چاک کرنے والی تھی۔
ان حالات میں جب کہ پورے ملک میں ایک سچ گو، محب وطن کی شہادت پہ صف ء ماتم بچھی ہوئی تھی۔ نواز شریف کیک کاٹ کے دیوالی منانے میں مصروف تھے۔ مزید مریم صفدر کی غیر انسانی سوچ پہ مبنی دھمکی آمیز ٹویٹ بھی قابل غور ہے۔ "اچھا تو نہیں لگ رہا، مگر یہ سب کے لئیے سبق ہے۔"
جو بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے۔ کہ کسی کے باپ, کسی کے بھائی، کسی کے بیٹے ، کسی کے سہارے اور ایک پر امن محب وطن اور حق کی آواز بلند کرنے والے انسان اور صحافت کے ستارے کو ہمیشہ کے لیئے خاموش کروا دیا گیا۔
میری اپیل ہے۔ کہ اس غیر انسانی اور سفاک عمل کی شفاف تحقیقات کی اشد ضرورت ہے۔ اور تحقیقات کی صورت میں نتیجہ تک کسی بھی جذباتی غیر زمہ دارانہ بیان بازی سے اجتناب ملک قوم سماجی حالات اور اداروں کے مفاد کے لیے بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشد شریف کی مغفرت فرمائیں۔ صحافتی حلقوں کے لیے یہ ایک بڑا نقصان ہے۔ سب مقتدر حلقوں کو بشمول صحافتی بین الاقوامی تنظیموں کے اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کے لیے نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ تاکہ وہ سچ سامنے آ سکے۔ جو بظاہر پوشیدہ ہے۔
خدا حافظ ارشد شریف، لوگ شاید کبھی آپ کو بھول جائیں مگر تاریخ آپ کو ایک باوفا حق پرست کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
وفا کے رستے کا ہر مسافر
گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے
#سیدہ سعدیہ عنبرؔ جیلانی
ارشد شریف قتل کیس کے مشکوک کردار خرم احمد اور وقار احمد کون؟

کراچی-27اکتوبر2022 (رفیق مانگٹ): ارشد شریف قتل کیس میں کینیا میں ان کے میزبان خرم احمد اور اس کے بھائی کا کردار مشکوک ہے۔ خرم احمد نیروبی میں مقتول سینئر صحافی ارشد شریف کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا۔ ترکی کے میڈیا ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کے صحافی علی مصطفیٰ نے کینیا میں شوٹنگ رینج کے مالک خرم احمد اور ان کے بھائی وقار احمد کے مشکوک کردار کے حوالے سے ایک ٹوئٹر تھریڈ پوسٹ کی۔ علی مصطفیٰ نے لکھا وقار احمد اور خرم احمد سے تفتیش کی ضرورت ہے کیونکہ ارشد شریف کے قتل میں ملوث دو اہم ملزمان ہیں-
وقار خاص طور پر ایسا لگتا ہے کہ وہ کلیدی آدمی ہے جس کے قریب ہی ایک ہٹس اینڈ ہومز ریزورٹ ہے جہاں جرم ہوا تھا۔ اس نے ارشد کی لاش کو جلد بازی میں پہنچانے کا بھی انتظام کیا۔ ارشد شریف نے قتل ہونے سے چند گھنٹے قبل وقار احمد کی ملکیت والی AMMODUMP شوٹنگ رینج کا دورہ کیا - اس شوٹنگ رینج کے یو ٹیوب پیج پراس کی حیثیت کو یوں اجاگر کیا گیا۔ سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ایک اہم جگہ جو اپنی شوٹنگ کی مہارت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ایمو ڈمپ کی اپنی ویب سائیٹ کے مطابق ان کا کام دفاعی سازوسامان فراہم کرنا ہے ،وہ عالمی سطح کے مینوفیکچرز سے مہلک ہتھیاراور دیگرلوازمات کی فراہمی کی خدمات انجام دیتے ہیں۔
علی مصطفی کا کہنا ہے پولیس کی فائرنگ سے بچ جانے والا ڈرائیور خرم احمد، وقار احمد کا بھائی ہے، جو AMMODUMP شوٹنگ رینج کا مالک ہے جہاں ارشد قتل ہونے سے پہلے جا رہا تھا اور جہاں اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کولے جایا گیا تھا۔ صحافی نے ایک میڈیا رپورٹ بھی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کینیا کے سٹیزن ٹی وی چینل کی اس رپورٹ میں وقار احمد کی AMMODUMP شوٹنگ/فائرنگ رینج کے تفصیلی مناظر ہیں جس کا ارشد نے اس دن دورہ کیا تھا جس دن وہ مارا گیا تھا اور جہاںاس کا مالک وقار احمد باقاعدگی سے کینیا کے سیکیورٹی اہلکاروں کی میزبانی کرتا تھا۔ترکی کے صحافی نے وقار احمد کے لنکڈ ان پروفائل کا امیج شیئر کیا جس کے مطابق وہ ہٹز اینڈ ہومز کینیا کے آپریشنل ڈائریکٹر ہیں اور ان کی تصویر کے ساتھ پروفائل تھا، جو اب ہٹائی جاچکی ہے۔کینیا کے سب سے بڑے اخبار’دی نیشن ‘ کے مطابق ویسٹ سب کاؤنٹی کے کاموکورو شاپنگ سینٹر میں چھائی ہوئی خوفناک خاموشی نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے آخری لمحات کے تاریک راز چھپا رکھے ہیں۔
اموڈمپ کیونیا ایک تفریحی مقام ہے جس میں شوٹنگ رینج بھی ہے۔کانٹاکورا کے ذیلی مقام کے اسسٹنٹ چیف میتھیاس کاموکورو کا گھر اس شوٹنگ رینج کے پاس واحد رہائشی کمپاؤنڈ ہے، اور یہ اس جگہ سے چند میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سے فائرنگ ہوئی۔اس نے اخبار کو بتایا کہ وہ رات 9 بجے تین گولیوں کی آوازوں سے بیدار ہوئے لیکن انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ جی ایس یو کے تربیت یافتہ افراد کی طرف سے ہے اس لئے وہ سو گیا تھا۔صبح مجھے گاؤں والوں نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے کل رات ڈاکوؤں کو گولی مار دی ہے۔ اخبار کے مطابق کاموکورو شاپنگ سینٹر میں، کچھ افراد ہلکے لہجے میں فائرنگ واقعے پر بات کررہے تھے اور انہیں اجنبیوں پر شک تھا۔
ان کا کہنا تھا ایشیائی نژاد افراد اکثر اس علاقے میں آتے ہیں، خاص طور پر ویک اینڈ پر۔ اخبار لکھتا ہے کہ اتوار کی شام جب ارشدشریف اس مقام کے لئے نکلا تو اسے کیا معلوم تھا کہ وہ موت کے جال میں پھنس جائیں گے۔ اس نے اپنا دن اس جگہ گزارا تھا، یہ مقام ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں مقبول ہے۔اخبار نے انتظامیہ سے انٹرویو کی کوشش کی تو انہوں نے انکار کردیا کہ ہم اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ معاملہ ابھی بھی پولیس کے زیر تفتیش ہے، اس مقام پر خیمہ دار لاج، شوٹنگ رینج،روڈ بائیکنگ ٹریلز اور کیمپنگ سائٹ ہے۔
یہ گیم ڈرائیوز اور فارم ٹورز بھی پیش کرتا ہے ارشد شریف کوفیڈر روڈ اور نیروبی مگڈی روڈ کے سنگم پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ احمد لینڈ کروزر چلا رہا تھا۔پولیس رپورٹ کے کچھ حصے میں لکھا گیا ہے،مگڈی پولیس اسٹیشن کو دس بجے اطلاع دی گئی کہ افسران پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا اور 50 سال کی عمر کے پاکستانی شہری کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ گاڑی چلا رہا تھا۔گاڑی 25 کلومیٹر تک آگے کے دائیں ٹائر کے بغیر چلائی گئی، جوگولی لگنے سے پھٹ گیا۔اس کے بعد احمد نے نقار(وقار) احمد کوکال کی۔
انڈیپنڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق اس کیمپ میں کوینیا نامی شوٹنگ رینج سمیت اس سے متصل ایک ڈیفنس گیئرز (دفاعی سامان) کی ایک دکان بھی واقع ہے۔اس کیمپ میں کوینیا شوٹنگ رینج کی وجہ سے کینیا کے سکیورٹی اہلکاروں سمیت شوٹنگ کے شوقین افراد جا کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں، جس کے لیے فیس مقرر ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق ایمو ڈمپ لمیٹڈ نامی کمپنی کینیا میں دفاعی سامان کی سپلائی کی رجسٹرڈ کمپنی ہے۔ اس کمپنی کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی۔ یہ کمپنی کینیا میں رجسٹرڈ ہے اور ملٹری سپلائز کے کاروبار سے وابستہ ہے۔
بورس جانسن بمقابلہ عمران خان
محمد بلال غوری
یہ گورے بھی نجانے کس مٹی سے بنے ہیں۔گاہے ان کے ہاں رائج بے رنگ ،بے بو اور بے ذائقہ جمہوریت پرحیرت ہوتی ہے۔عوام کی طرف سے کوئی بھی مطالبہ سامنے آجائے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس کے حق میں تیار کی گئی یادداشت پر دستخط کردے تو حکمران نتائج کی پروا کئے بغیر اس پر ریفرنڈم کروادیتے ہیں اور یہ ریفرنڈم بھی ایوب خان،ضیاالحق یا پرویز مشرف کے جعلی ریفرنڈم جیسا نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر ڈیوڈ کیمرون کسی قانون کے تحت ریفرنڈم کروانے کے پابند نہیں تھے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ اس حوالے سے ریفرنڈم کروائیں گے کہ برطانیہ کے عوام یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں ۔لیکن سیاسی وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے ناں ۔وہ کوئی بھی جواز پیش کرکے بریگزٹ سے متعلق فیصلے پر ٹا ل مٹول سے کام لے سکتے تھے ۔
لیکن انہوں نے قدآور سیاسی شخصیات کی طرح یوٹرن لینے کے بجائے جون 2016ء میں ریفرنڈم کرواکے ہی دم لیا۔برطانوی باشندوں نے جوش جذبات میں نیا برطانیہ بنانے اور حقیقی آزادی حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یورپ برطانیہ کو لاڈلا اور بگڑا ہوا بچہ سمجھ کر اس کے ناز نخرے اُٹھا رہا تھا مگر اس نازبرداری کا مطلب یہ لیا گیا کہ یورپی یونین نے اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
ریفرنڈم میں کثرت رائے کی بنیاد پر یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ ہوگیا۔بریگزٹ کی اس آپا دھاپی میں نہ صرف ڈیوڈ کیمرون کی چھٹی ہوگئی بلکہ آج حقیقی آزادی کا خواب عذاب بن چکا ہے اور برطانوی شہریوں کی اکثریت اس فیصلے پر پچھتا رہی ہے۔غلطی کا احساس تو ریفرنڈم کے بعد ہی ہوگیا تھا اور یہ آوازیں اُٹھنے لگی تھیں کہ اس حوالے سے ایک اور ریفرنڈم کروایا جائے لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔یورپی یونین نے اس حوالے سے پیچھے ہٹنے کا موقع نہ دیا اور یوں یکم جنوری 2021ء کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہوگیا۔
اس ایک غلط فیصلے کی وجہ سے برطانیہ اس قدر عدم استحکام کا شکار ہوا کہ 6سال میں 4وزرائے اعظم کو گھر جانا پڑا ۔ڈیوڈ کیمرون کے بعد تھریسا مے وزیراعظم بنیں ۔جولائی2019ء میں ان کی سبکدوشی کے بعد بورس جانسن برسراقتدار آئے ۔بورس جانسن کی چھٹی ہوگئی تو لز ٹرس نے قیادت سنبھالی ۔محض 45دن بعد ہی لز ٹرس نے ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تو اب ایک پاکستانی نژاد ہندوخاندان سے تعلق رکھنے والے رشی سانک کو وزیراعظم بنایا گیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ رشی سانک کے دادا رام داس سانک کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔وہ 1935ء میں یہاں سے نیروبی چلے گئے ۔
رام داس سانک کے بیٹے یعنی رشی سانک کے والد یش سانک 60ء کی دہائی میں برطانیہ آئے اور یہیں آباد ہوگئے ۔انگریزوں نے جس خطے پر برسہا برس تک حکومت کی ،وہاں سے آئے خاندان کے ایک فرد کا وزیراعظم بننا بذات خود حیران کن معاملہ ہے لیکن بریگزٹ کی بات کریں تو برطانیہ نے اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سیاسی عدم استحکام کی بہت بھاری قیمت چکائی۔برطانوی پائونڈ کی قدر مسلسل گرتی چلی گئی اور معیشت کا بھاری پتھر یوں پھسلا کہ ڈھلوانوں کا سفر ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
لیکن خراب معاشی صورتحال کے باوجود نہ تو کسی وزیراعظم نے اپوزیشن پر سیاسی عدم استحکام اور غیر ملکی سازش کا الزام عائد کیا اور نہ ہی رخصت ہوتے وقت کسی نے یہ کہا کہ اب اس ملک کو تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔کسی موقع پر یہ خدشہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ غیر جمہوری قوتیں اس صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں ۔برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن جو ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان کے دوست بھی ہیں ،ان کی ایوان وزیراعظم سے رُخصتی تو بہت ناقابل یقین انداز میں ہوئی۔
برطانوی وزرائے اعظم 10ڈائوننگ اسٹریٹ میں پرائم منسٹر آفس کے اوپر چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش اختیار کرتے آئے ہیں ۔جب ٹونی بلیئر وزیراعظم بنے تو وہ 11ڈائوننگ اسٹریٹ کی بالائی منزل پر موجود نسبتاً بڑے فلیٹ میں منتقل ہوگئے کیونکہ ان کے بچے زیادہ تھے اور 10ڈائوننگ اسٹریٹ کی رہائش کم پڑ رہی تھی۔اس کے بعد 4کمروں پر مشتمل یہی فلیٹ وزرائے اعظم کے لئے مختص ہوگیا۔جولائی 2019ء میں بورس جانسن وزیراعظم بنے تو وہ بھی اپنی فیملی کے ہمراہ یہاں منتقل ہوگئے۔اس فلیٹ کی تزئین و آرائش کے لئے سرکاری خزانے سے 30ہزار پائونڈ مختص ہوتے ہیں مگر بورس جانسن نے اپنی سرکاری رہائشگاہ کی آرائش و زیبائش پر 2لاکھ پائونڈ خرچ کر ڈالے۔
جب اس فضول خرچی پر اپوزیشن اور میڈیا نے شور مچایا تو ابتدائی طور پر بورس جانسن نے سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا اور متعلقہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا ۔لیکن جب یہ معاملہ بگڑتا ہوا محسوس ہوا تو بورس جانسن نے یہ تاویل پیش کی کہ فلیٹ کی تزئین و آرائش کے لئے اضافی رقم سرکاری خزانے سے خرچ نہیں کی گئی بلکہ ان کے چاہنے والوں کے عطیات کو استعمال کیا گیا ہے۔
اب اس پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔ برطانوی قوانین کے مطابق اگر کوئی رُکن پارلیمنٹ کسی سے فنڈز وصول کرتا ہے یا قرض لیتا ہے تو 28دن کے اندر اسے ڈکلیئر کرنا لازم ہے تاکہ سب کو یہ بات معلوم ہو کہ فنڈز یا قرض دینے والی کاروباری شخصیات کے حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے کیا مفادات ہوسکتے ہیں اور ان رقوم کے عوض کسی قسم کا کوئی فائدہ تو نہیں اُٹھایا جا رہا ۔چنانچہ الیکٹورل کمیشن نے بورس جانسن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا۔
یہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد وزیر خزانہ رشی سانک اور وزیر صحت ساجد جاوید سمیت 44مشیروں اور وزرا نے وزیراعظم پرعدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد انہیں گھر جانا پڑا۔مگر ہمارے ہاں ایک وزیراعظم نے کروڑوں روپے مالیت کے تحائف بیچ ڈالے،انہیں اپنی آمدن کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا ،الیکشن کمیشن نے بدعنوانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ڈس کوالیفائی کردیا مگروہ اب بھی ریاست مدینہ کے قیام کے لئے لانگ مارچ کر رہے ہیں۔
نفسیات کی جنگ اور حکومت غیر متزلزل
اسلام آباد (تجزیہ:… اعزاز سید) سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے بعد پاکستان کی سیاست ایک اور نئی گرما گرمی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اتحادی حکومت کو اس اعلان سے فرق نہیں پڑا اور وہ اپنی آئینی مدت مکمل کرنے اور موجودہ آرمی چیف کے ریٹائر ہونے سے قبل نیا آرمی چیف مقرر کرنے کے معاملے میں پرعزم ہے۔
اسلام آباد کے قابل بھروسہ ذرائع بتاتے ہیں کہ اتحادی حکومت کا طرز حکمرانی نون لیگ کے قائد نواز شریف کے طرز سیاست جیسا ہے۔ وفاقی سطح پر اپنی 32؍ سالہ سیاست (بشمول تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے کے ساتھ) کے نتیجے میں نواز شریف اب سخت جاں ہو چکے ہیں۔ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سیاست کے حوالے سے اپروچ بڑی ہی سادہ ہے، وہ ایک فوکل پوائنٹ بناتے ہیں اور اسی پر قائم رہتے ہیں چاہے کچھ ہو جائے۔ اس وقت بھی ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔
اس مرتبہ فوکل پوائنٹ وزیراعظم شہباز شریف کی نئے آرمی چیف کے تقرر کے معاملے میں بالادستی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اس معاملے پر سمجھوتے کیلئے تیار نہیں اور کسی کو بھی وزیراعظم کی اتھارٹی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان کو کئی لوگ آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ اس عہدے کیلئے عمران خان کی من پسند شخصیت کون ہے کیونکہ انہیں امید ہے کہ وہ شخص ان کے آئندہ عام انتخابات میں حکومت میں واپسی کو یقینی بنا سکتا ہے۔
اسی دوران آرمی چیف کے تقرر سے پہلے وہ اپنی عوامی حمایت بھی دکھانا چاہتے ہیں۔ سینیارٹی کے لحاظ سے دیکھیں تو آرمی چیف کے عہدے کیلئے پہلے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آتے ہیں۔ انہیں 2018ء میں آئی ایس آئی چیف لگایا گیا تھا لیکن ان کے عہدے کی معیاد کم رہی۔
منیر کی جگہ 8؍ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے اصرار پر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اس عہدے پر لگا دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا نام آتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران وہ اہم عہدوں جیسا کہ ڈی جی ایم او پر کام کر چکے ہیں جس نے ٹی ٹی پی کیخلاف آپریشن کی قیادت کی۔ وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کی ٹیم میں بھی شامل تھے۔
اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کا نام ہے۔ وہ بھارتی امور کے حوالے سے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ فی الوقت چیف آف جنرل اسٹاف ہیں۔ اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود کا نام آتا ہے جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر ہیں۔ اس سے قبل وہ پشاور میں الیون کور میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور پاک افغان بارڈر کی سیکورٹی بھی دیکھتے رہے ہیں۔
آرمی چیف کے عہدے کی دوڑ میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام بھی شامل ہے اور وہ عمران خان کے من پسند ہونے کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جنرل عاصم منیر کی جگہ سنبھالی اور وہ عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے درمیان کشیدگی کا سبب بھی بنے۔
اگرچہ ’’سیاست زدہ‘‘ ہونے کے معاملے میں ان کے چانسز بہت کم ہیں لیکن کوئی معجزہ ہی انہیں اس عہدے پر لا سکتا ہے۔ عمران خان کے منصوبے کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان حکومت پر سیاسی و عوامی دباؤ ڈال کر انہیں آرمی چیف کے عہدے پر تعیناتی موخر کرنے یا پھر مخصوص افسر کے عہدہ سنبھالنے سے روکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان نے ان کے اپنے ساتھیوں کو حیران کر دیا۔ ان کے ایک قریبی ساتھی نے پہلے تو یہ تک کہہ دیا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے عمران خان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن عمران خان نے اعلان کو دہرایا اور جمعہ کو مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا۔
عمران خان کے کچھ ساتھیوں نے اعتراف کیا ہے کہ لانگ مارچ کی تیاریاں کم ہیں اور پارٹی ورکرز کنفیوز ہیں کہ آگے کیسے بڑھیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے اتحادیوں کو علم نہیں کہ انتظامی سہولت کیسے دیں۔
فیصل واوڈا نے بیان داغ دیا کہ لانگ مارچ میں مجھے لاشیں اور خون نظر آ رہا ہے، ایسی باتیں ہیں جنہوں نے مارچ کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور شرکا میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ طاقتور کھلاڑی اپنے ظاہری اور باطنی کارڈز کھیل رہے ہیں، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔
کیا قائداعظم غلط تھے؟جاوید چوہدری
لائلپورسٹی- 25اکتوبر2022:قائداعظم محمد علی جناح سے کسی نے پوچھا تھا ’’آپ پاکستان کس کے لیے بنا رہے ہیں؟‘‘ قائداعظم نے جواب دیا ’’ہندوستان کی مسلمان قوم کے لیے‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’کیا ہندوستان کے مسلمان قوم ہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا ’’ نہیں ہیں لیکن یہ بن جائیں گے‘‘ اور پوچھنے والے نے پوچھا ’’یہ کتنے عرصے میں قوم بنیں گے؟‘‘ قائداعظم نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’سو سال لگیں گے۔‘‘
میں نے یہ واقعہ مدت پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا‘ کتاب کا نام کیا تھا اور یہ کس نے لکھی تھی میں یہ بھول گیا ہوں لیکن یہ واقعہ میرے دماغ سے چپک کر رہ گیا اور مجھے جب بھی یہ یاد آتا ہے تو میں دیر تک سردھنتا رہتا ہوں‘ قائداعظم کوا للہ تعالیٰ نے واقعی وزڈم (بصیرت) سے نواز رکھا تھا۔
وہ اس قوم اور اس قوم کے ایشوز سے پوری طرح واقف تھے‘ آپ آج بھی ان کی تقریریں نکال کر دیکھ لیں آپ کو ان میں پاکستان کا ماضی‘ حال اور مستقبل صاف نظر آ جائے گا‘ مثلاً آپ قائداعظم کے دو مشہور ترین اقوال کو لے لیں‘ یہ قول بچے بچے کو ازبر ہیں‘ قائداعظم نے قوم کو 80 سال قبل مشورہ دیا تھا ’’کام‘ کام اور کام‘‘ آپ قائد کی تشخیص ملاحظہ کیجیے۔
وہ 80 سال قبل جانتے تھے میں جس قوم کی قیادت کر رہا ہوں وہ ٹھیک ٹھاک کام چور ہو گی چناں چہ انھوں نے ہمیں وصیت کی‘ بیٹا بس ایک ہی کام کرو‘ کام‘ کام اور کام لیکن آپ ہماری کام چوری دیکھیے‘ ہم سب کچھ کریں گے مگر کام نہیں کریں گے‘ آپ اس ملک میں کسی شخص سے کام کرا کر دکھا دیں‘ میں پھولوں کے ہار لے کر آپ کے گھر آ جاؤں گا۔
آپ کام کو بھی چھوڑ دیجیے‘ ہم کام نہیں کرتے‘ کوئی ایشو نہیں مگر مسئلہ یہ ہے ہم کسی دوسرے کو بھی نہیں کرنے دیتے‘ ہماری گلی میں ایک اینٹ اکھڑی ہو‘ لوگ روز ٹھڈا کھائیں گے اسے ٹھیک نہیں کریں گے لیکن اگر کسی نے اسے ٹھیک کرنے کی غلطی کر دی تو پھر پورا محلہ اس کے خلاف جہاد شروع کر دے گا‘ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو ہر گھرمیں صرف ایک شخص جیسے تیسے کچھ نہ کچھ کرتا نظر آئے گا۔
باقی سارا خاندان چارپائیاں توڑ رہا ہو گا اور جب خاندان توڑ توڑکر تھک جائے گا تو پھر اسی کے خلاف اعلان جہاد کر دے گا جس نے سب کا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور یہ ایک آدھ خاندان کی کہانی نہیں‘ یہ پورے معاشرے‘ پورے ملک کا المیہ ہے لہٰذا ہم اگر کام یاب ہونا چاہتے ہیں یا اس ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں قائداعظم کی وصیت پر عمل کرنا ہوگا یعنی کام‘ کام اور بس کام‘ ہم سب کام کریں گے تو ہی یہ قوم‘ قوم بنے گی‘ہم تب ہی ترقی کرسکیں گے‘ آپ اب قائداعظم کا دوسرا فقرہ بھی ملاحظہ کیجیے۔
قائداعظم نے 75 سال قبل کام کے بعد ایک ہی فقرے میں اس قوم کے تین المیوں کا ذکر کیا تھا اور وہ تھے ’’یونٹی‘ فیتھ اور ڈسپلن‘‘ ہم اسے اردو زبان میں ’’اتحاد‘ ایمان اور تنظیم‘‘ کہتے ہیں اور یہ ہمارا نیشنل موٹو بھی ہے‘ آپ قائداعظم کی وزڈم دیکھیے‘ وہ 75 سال پہلے بھانپ گئے تھے ہمارے ڈی این اے میں یونٹی (اتحاد) نہیں ہے‘ ہم ایک منقسم قوم ہیں لہٰذا ہمیں اپنے اندر یونٹی پیدا کرنا ہوگی۔
کیا قائداعظم کی یہ تشخیص بھی غلط تھی؟ کیا ہم آج بھی یونٹی کے بحران کا شکار نہیں ہیں؟ ہم شروع میں بنگالی اور پنجابی میں تقسیم تھے‘ ہمارا وہ نفاق ہمارا آدھا ملک کھا گیا مگر ہم اس کے باوجود باز نہ آئے اور ہم نے ملک میں بلوچی‘ سندھی‘ پنجابی اور پشتونوں کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا دی‘ یہ تقسیم مزید آگے بڑھی اور ہم نے قوم کو شیعہ اور سنی اورپھر سنیوں کو بھی اہل حدیث‘ بریلوی‘ دیوبندی اور وہابی میں تقسیم کر دیا‘ ہمارا قرآن ایک ہے۔
رسولؐ بھی ایک ہے لیکن ہماری مسجدیں الگ الگ ہیں‘ کیا دنیا میں کوئی قوم اس بے اتفاقی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر ہمیں اپنا نفاق گلیوں‘ محلوں اور خاندانوں تک پھیلا دینا چاہیے اور اگر نہیں تو پھر ہمیں بہرحال قائداعظم کی تشخیص پر غور کرنا ہوگا‘ ہمیں لانگ مارچ اور سول ملٹری تقسیم ختم کر کے یونٹی اختیار کرنا ہو گی‘ آپ اب فیتھ کو بھی لے لیجیے‘ ہم نے فیتھ کا ترجمہ ایمان کر رکھا ہے جب کہ اس کا اصل ترجمہ یقین ہوتا ہے۔
ہم نے کیوں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پکوڑوں‘ کھجوروں اور شربت کو بھی اسلام کا حصہ بنا دیا تھا چناں چہ ہم نے فیتھ کو بھی ایمان ڈکلیئر کر دیا جب کہ اصل حقیقت یہ ہے قائداعظم نے کوئی اسلامی ملک نہیں بنایا تھا‘ آپ نے صرف ایک ایسا ملک بنایا تھا جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو گی۔
قائداعظم اگر اسلامی ملک بناتے تو پھر ملک کے پہلے وزیر قانون ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل اور پہلے وزیرخارجہ ایک احمدی سرظفر اللہ چوہدری نہ ہوتے‘یہ حقیقت ہے قائداعظم کی نظر میں فیتھ کا مطلب ایمان نہیں تھا‘ یقین تھا اور جنرل ضیاء الحق کے اسلامی انقلاب تک سرکاری اسٹیشنری پر فیتھ کا مطلب یقین ہی لکھا جاتا تھا۔
ہمارے قومی ترانے میں بھی کسی جگہ ایمان‘ مذہب یا اسلام کا لفظ نہیںآیا تاہم یقین کا لفظ ضرور موجود ہے اور وہ ہے ’’مرکز یقین شادباد‘‘ہم اپنے ترانے میں 75 برسوں سے نظام کی تعریف بھی ’’قوت اخوت عوام‘‘ کرتے آ رہے ہیں اور اخوت کیا ہوتی ہے؟ یونٹی چناں چہ اگر قائداعظم کی نظر میں فیتھ کا مطلب ایمان ہوتا تو پھر حفیظ جالندھری یقینا مرکز ایمان شادباد لکھتے اور یہ نہیں ہوا لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں یہ ترجمہ غلط ہوا تھا اور فیتھ بہرحال یقین ہوتا ہے اور قائداعظم جانتے تھے ہم من حیث القوم یقین کی دولت سے محروم ہیں اور اگر ہم زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اوپر یقین کرنا ہوگا۔
آپ اب دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا قائداعظم کی یہ آبزرویشن بھی غلط تھی؟ کیا ہم من حیث القوم یقین سے محروم نہیں ہیں؟ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی شخص کے پاس کھڑے ہو جائیں اور آپ اس سے کچھ بھی پوچھ لیں آپ کو اس کے لہجے میں کھوکھلا پن ملے گا‘ وہ یقین سے محروم ہو گا‘ آپ کل کسی سے کسی جگہ کا ایڈریس ہی پوچھ لیں آپ کو چند سیکنڈ میں پتا چل جائے گا‘ ہم یقین پر کتنا یقین کرتے ہیں۔
قائداعظم کی تیسری تشخیص ڈسپلن (نظم وضبط) تھا‘ یہ جانتے تھے یہ ایک ایسی قوم کی قیادت کر رہے ہیں جو آنے والے دنوں میں نظم وضبط کے شدید بحران کا شکار ہو گی لہٰذا آپ آج دیکھ لیں کیا ہمارے ملک میں کسی بھی جگہ ڈسپلن پایا جاتا ہے؟ ہم مسجدوں میں بھی ڈسپلن پیدا نہیں کر سکے۔
ہم آج بھی گند صاف کرنے والے کو چوہڑا کہتے ہیں (جب کہ اصل چوہڑے گند پھیلانے والے ہوتے ہیں) لوگ اپنا واش روم‘ اپنی پلیٹ اور اپنا جوتا بھی صاف کرنا پسند نہیں کرتے اور یہ قطار میں کھڑا ہونا اور اپنی باری کا انتظار کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں‘میں ایئرپورٹس پر صاحب لوگوں کو دیکھتا ہوں ان کے بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ بھی کسی دوسرے نے اٹھا رکھے ہوتے ہیں جب کہ دوسرے ملکوں میں صدر اور وزراء اعظم اپنے بیگ خود کیری کرتے ہیں۔
یہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں اور اپنے لان کی گھاس بھی خود کاٹتے ہیں‘ ملک میں وقت پر پہنچنا‘ وقت پر کام ختم کرنا اور وعدے کا پاس یہ ممکن ہی نہیں‘ آپ وقت کے پابند کسی وزیر‘ سیکریٹری یا بڑے غلام علی خان کا نام لے لیں‘ یہ لوگ غیرملکی فنکشنز میں بھی وقت کی پابندی نہیں کرتے‘ آپ وقت کو چھوڑ دیجیے‘ آپ وزیرقانون کو دیکھ لیجیے‘ یہ بھی قانون کی پابندی نہیں کرے گا۔
ہمارا جج بھی خود کو قانون سے بالاتر سمجھے گا اور اسپیکر بھی آئین کی پاس داری نہیں کرے گا‘ ملک آج بھی افسر اور ماتحت دو حصوں میں تقسیم ہے‘ سرکاری دفتروں میں افسروں کے واش رومز پر بھی آفیسر لکھا ہوتا ہے اور آفیسروں کے واش رومز میں ماتحت کو ہاتھ دھونے کی اجازت بھی نہیں ہوتی‘ ہم ملک میں آج تک لوگوں کو سرخ لائٹ پر نہیں روک سکے‘ ہم پارلیمنٹیرینز کو پارلیمنٹ‘ فوج کو آئین اور عوام کو قانون کا ماتحت نہیں بنا سکے۔
ہمارا قانون آج بھی اِف اور بٹ دو لفظوں کے گرد گھوم رہا ہے‘ بیوروکریسی if یا But لگا کر ناممکن سے ناممکن کام کو بھی ممکن اور آسان سے آسان ترین ایشو کو بھی مسئلہ کشمیر بنا دیتی ہے اور کوئی اس سے سوال تک نہیں کر سکتا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ چار سال کے عدالتی فیصلے دیکھ لیں۔
ایک ہی مقدمے پر ایک ہی عدالت تین تین قسم کے فیصلے جاری کر رہی ہے اور مجال ہے کوئی اس پر سوال اٹھا سکے لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا ہمارے ملک میں عالم دین اسلام‘ پارلیمنٹیرین پارلیمنٹ‘ جج قانون اور سول اینڈ ملٹری بیوروکریسی آئین کے ڈسپلن میں نہیں ہے لہٰذا آپ پھر خود فیصلہ کر لیجیے کیا قائداعظم اس معاملے میں بھی غلط تھے؟
میری عاجزانہ درخواست ہے آپ ملک میں کوئی تیر نہ چلائیں‘ عمران خان کوئی لانگ مارچ لے کر نہ آئیں اور پی ڈی ایم بھی کوئی نیا پہیہ ایجاد نہ کرے‘ آپ بس قائداعظم کے دو اقوال پر عمل کر لیں‘ قوم کو کام پر لگا دیں اور ملک میں یونٹی‘ فیتھ اور ڈسپلن پیدا کر دیں یہ ملک دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ کچھ بھی کر لیں‘ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور آخری بات اسلام دنیا کا واحدمذہب ہے جس میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمارا رب جانتاتھا ہم مسلمان گندے بہت ہوں گے چناں چہ اس نے صفائی کو ایمان کا حصہ بنا دیا کہ شاید ہم ایمان تلاش کرتے کرتے ہی صاف ہو جائیںگے‘ شاید ہم اسی طرح اپنے ہاتھ دھو کر خشک کر لیں۔
خفیہ ملاقاتیں اور عمران خان
حذیفہ رحمٰن
لائلپورسٹی- 23اکتوبر 2022تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہمیشہ ریاستِ مدینہ کی مثال دیتے ہیں۔سوچا آج اپنے قارئین کو ریاستِ مدینہ کی ایک جھلک دکھا دوں۔نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد جب ریاستِ مدینہ میں خلفائے راشدینؓ کا دور شروع ہوا تو اس میں عدل و انصاف،قانون کی حکمرانی اور جواب دہی اقتدار کے لازمی جزو تھے۔خلفائے راشدینؓ نے ہمیشہ خود کو جواب دہی کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا۔خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب خلافت کا بار اٹھایاتو صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر ان سے کوئی خطا ہوجائے تو انہیں فوراً روک دیا جائے۔
اسی طرح ریاستِ مدینہ میں جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کا دور شروع ہوا تو آپ ہمیشہ بغیر رعایت کے بے لاگ انصاف فرماتے رہے۔فاتح مصر حضرت عمرو بن عاص ؓ کے بیٹے عبداللہ کو(جس نے کسی شخص پر بلاوجہ تشدد کیا تھا)آپ نے اس کے باپ کے سامنے کوڑے لگوائے ۔فاتح شام حضرت خالد بن ولیدؓکو معزول کیا۔فاتح ایران سعد بن ابی وقاصؓ سے جواب طلبی کی۔اسی طرح حضرت عمرؓ جب کسی صوبے یا شہر کا سربراہ(والی) مقرر کرتے تو پہلے اس کی جائیداد اور اندوختہ کا حساب لیتے تھے اور جب و ہ اپنے منصب سے الگ ہوتا یاا س کے متعلق دورانِ تقرران کو اگر یہ علم ہوجاتا کہ اس کے پاس کوئی غیر معمولی دولت جمع ہوگئی ہے تو وہ اس کا محاسبہ کرتے اور پوچھتے کہ یہ دولت تمہارے پاس کہاں سے آئی ہے؟
یہ ریاستِ مدینہ کی حقیقی شکل تھی۔حضرت عمرؓ سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے جو کرتا پہنا ہوا ہے، یہ ایک کپڑے سے تو نہیں بنتاتو آپؓ نے وضاحت کی کہ یہ میرا اور میرے بیٹے کا حصہ ہے۔عہدے کے دوران جب بھی کوئی تحفہ یا قیمتی چیز کسی نے دی تو اس کو مالِ غنیمت میں جمع کرایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’یہ تحفہ مجھے میرے عہدے کی وجہ سے ملا ہے،اس لئے اس تحفے پر میرا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ایسا تو ریاستِ مدینہ میں کبھی تصور بھی نہیں تھا کہ چوری چھپے حاکمِ وقت قیمتی تحفے تحائف گھر لے جائے اور پھر انہیں مہنگے داموں فروخت کردے۔لیکن ابھی توشہ خانہ تحائف میں ہونے والی بددیانتی کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ اعجاز الحق صاحب نے قوم کی توجہ سنجیدہ ترین موضوع سے ہٹانے کے لئے ایک ایسا شوشہ چھوڑ دیا،جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔حالانکہ یہ غیر مناسب طرزِ سیاست ہے کہ جب اہم ترین معاملات پر قوم اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تو آپ ایک نان ایشو کو اہم ترین ایشو بنا کر قوم کی توجہ ہٹانے کی کوشش کریں۔
کہاں حاکمِ وقت کی جانب سے بددیانتی کرکے کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی تحفے گھر لے جانے پر جواب دہی ہورہی ہے اور کہاںآپ نے غیرمرئی دنیا کی باتیں شروع کردی ہیں۔ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ خان صاحب وہی سرخ رنگ کی ڈائری ساتھ لے کر گئے ہیں مگر ڈائری سے پہلے بہت کچھ گھر جاچکا تھا ،جس کا حساب کتاب غالباً اس چھوٹی سی ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔اعجاز الحق جیسے سیاستدان کویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی پروپیگنڈا کا شکار ہوں اور ایک منتخب وزیراعظم کے متعلق یہ کہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے ایک ایم پی اے ملک احمد خان کے ساتھ گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر آرمی ہاؤس جاتے تھے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ شہباز شریف کار کے بجائے ہمیشہ بڑی گاڑی میں سفر کرتے ہیں اور لاہور سے اسلام آباد کے طویل سفر کے دوران کمر کی تکلیف کے باعث گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹ جاتے ہیں،تاکہ طویل سفر میں زیادہ دیر گاڑی میں بیٹھنے سے کمرپر بوجھ نہ آئے۔شاید اعجاز الحق لاعلم ہیں کہ بلٹ پروف گاڑی کی کوئی ’’ڈگی‘‘نہیں ہوتی ۔
پنجاب میں اعجاز الحق کے دوست عمران خان کی حکومت ہے۔سیف سٹی کا ریکارڈ نکلوا کر چیک کرلیں کہ کبھی شہباز شریف نے بلٹ پروف گاڑی کے علاوہ بھی کسی دوسری گاڑی پر سفر کیا ہو۔شہباز شریف تو دن کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے خوشگوار تعلقات کو تسلیم کرتے ہیں۔ہمیشہ اداروں کی سپورٹ کرتے ہیں ۔انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں بقول اعجاز الحق کے گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر آرمی ہاؤس جائیں ؟آج جب پوری قوم نے ایک فیصلہ کیا،ایک ایسا شخص جو کہ صبح شام اپنے مخالفین کو چور ،ڈاکو کہتا تھا اوربات بات پر ریاستِ مدینہ کی بات کرتا تھا ، ایسے میں اس کی چوری رنگے ہاتھوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پکڑ لی تو آپ نے انتہائی مضحکہ خیز شوشہ چھوڑ دیا ،جو کہ آپ ایسے سیاست دان کے لیے مناسب نہیں تھا ۔
ویسے شہباز شریف کو بھی دائیں بائیں نظر دوڑانی چاہئے کیونکہ اعجاز الحق نے تو ایک منفی شوشہ ضرور چھیڑا ہے مگر آج سے کئی ماہ پہلے جب شہباز صاحب وزیراعظم نہیں بنے تھے تب بھی آپ کی جماعت کے ہر رکن اسمبلی کے منہ پر یہی الفاظ ہوتے تھے کہ فلاں رکن صوبائی اسمبلی بنیادی طور پر شہباز شریف اور جنرل باجوہ(اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان پل کا کردار اداکررہے ہیں۔کوئی دوست اگر آ پ کے لئے کوئی اہم کام سرانجام دے ہی رہا ہے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی چاہئےکہ پارٹی کی میٹنگز اور ساتھی اراکین سے ایسی معلومات شیئر نہ کرے،کیونکہ جب معلومات ہاتھ سے نکل جاتی ہیں توپھر اعجاز الحق ہوں یا کوئی اور... اس کا استعمال اپنی مرضی سے من گھڑت باتیں شامل کرکے کرتا ہے کیوں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
شہد کی مکھی:جاوید چوہدری
ندیم حسن آصف سے میری زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں‘ یہ پنجاب کے ہوم سیکریٹری رہے‘ لاہور کے کمشنر بھی تھے اور کچھ عرصہ میاں شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری بھی تعینات رہے۔میری وزیراعلیٰ آفس میں ان سے سرسری سی ملاقاتیں رہی تھیں‘ یہ 2013میں سی ڈی اے کے چیئرمین بنے تو مجھے دعوت دی اور میری ان سے پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی‘ ملاقات کی وجہ بہت دلچسپ تھی‘ ان کا کہنا تھا آپ نے دنیا دیکھی ہے‘ آپ مجھے مشورہ دیں میں اسلام آباد کو مزید کیسے خوب صورت بنا سکتا ہوں؟
یہ سوال دلچسپ تھا لہٰذا میں نے انھیں دنیا کے مختلف شہروں کی روایات اور انتظامات بتانا شروع کر دیے اور ندیم حسن آصف ڈائری میں نوٹس بناتے چلے گئے‘ یہ میٹنگ بعدازاں چھ سات میٹنگز میں تبدیل ہوگئی اور میں اپنی بساط کے مطابق اپنی معلومات ان کے ساتھ شیئر کرتا رہا لیکن آخر میں وہی ہوا‘ کچھ ہونے سے پہلے ہی ندیم صاحب کا تبادلہ ہو گیا‘ یہ سیکریٹری ٹو پریذیڈنٹ بنے۔
آخر میں کیبنٹ سیکریٹری بنے اور پری میچور ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ہمارا رابطہ تقریباً ختم ہو گیا مگر پھر 2019 میں آئی بیکس کا پہلا ٹور مصر گیا‘ ہم 95 لوگ تھے‘ وہ ٹور ختم ہو گیا لیکن اس میں ہمیں سردار کامران مل گئے‘ سردار صاحب جینوئن پڑھے لکھے‘ سمجھ دار اور تجربہ کار انسان ہیں‘ یہ مختلف اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو طبی آلات فراہم کرتے ہیں۔
کامران صاحب نے گفتگو کے دوران انکشاف کیا ندیم حسن آصف ان کے چھوٹے بھائی ہیں اور یہ روزانہ لنچ اکٹھے کرتے ہیں‘ شفیق عباسی اور طارق باجوہ بھی اس لنچ میں شامل ہوتے ہیں‘ سردار کامران کے توسط سے ندیم حسن آصف سے رابطوں کا دوسرا دور شروع ہوا‘ ان سے لاہور میں ملاقاتیں شروع ہوگئیں ‘ چھ ماہ قبل سردار صاحب کے گھر ان سے طویل ملاقات ہوئی‘ ہم دیر تک قہقہے لگاتے رہے تھے۔
وہ ہمارے ساتھ مراکو جانا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا میں مراکو نہیں گیا‘ میری خواہش ہے میں آپ لوگوں کے ساتھ فیض شہر جائوں اور دنیا کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹی دیکھوں‘ میں نے کہا‘ یہ بہت معمولی خواہش ہے‘ آپ جب چاہیں ہمارے ساتھ چلیں‘ گروپ نہ بنا تو میں اور آپ دونوں اکیلے چلے جائیں گے‘ یہ وعدہ ہو گیا اور زندگی چپ چاپ آگے بڑھتی رہی لیکن پھر اچانک جمعرات 20 اکتوبر کی صبح پتا چلا ندیم حسن آصف انتقال کر گئے ہیں‘ یہ خبر میرے لیے شاکنگ تھی‘ میں نے انھیں چند ماہ قبل صحت مند اور ٹھیک ٹھاک دیکھا تھا لہٰذا یقین نہیں آیا۔
ندیم حسن آصف صحت مند تھے‘ عمر 65 سال تھی اور 65 سال کی عمر آج کے دور میں زیادہ نہیں ہے‘ یورپ میں لوگ 70 سال کی عمر میں زندگی کا دوسرا فیز شروع کرتے ہیں لہٰذا ندیم صاحب اس لحاظ سے جوان تھے‘ واک کرتے تھے‘ قہقہے لگاتے تھے اور یہ ان چند بیوروکریٹس میں بھی شامل تھے جنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکری کی کوشش نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا میں نے جتنی نوکری کرنی تھی‘ کر لی‘ میں اب آزاد زندگی گزاروں گا اور یہ آزاد زندگی گزارنے لگے‘ اپنی مرضی سے اٹھتے تھے‘ اپنی مرضی سے سوتے تھے اور مرضی کے لوگوں سے ملتے تھے‘ زندگی مزے سے گزر رہی تھی لیکن پھر 2021 کے وسط میں انھیں پیشاب کی تکلیف ہونے لگی‘ پیشاب رک رک کر آتا تھا‘ ٹیسٹ کرائے تو پراسٹیٹ پھولا ہوا تھا‘ ادویات شروع کیں ‘ حالت مزید خراب ہونے لگی‘ مزید ٹیسٹ ہوئے اور پراسٹیٹ کا کینسر نکل آیا تاہم ڈاکٹروں کا کہنا تھا یہ خطرناک نہیں ہے‘ ہم اسے ادویات سے کنٹرول کر سکتے ہیں‘ ادویات شروع ہوئیں لیکن کینسر دنوں میں جگر تک پہنچ گیا‘ سردار کامران نے علاج اور ادویات تلاش کرنا شروع کیں۔
پتا چلا جرمنی نے کینسر کی نیوکلیئر میڈیسن بنا لی ہے‘ جرمن کمپنی سے رابطہ کیا گیا‘ پتا چلا دوا کے ٹرائل چل رہے ہیں اور کمپنی ابھی صرف دو ملکوں کو دوا دے رہی ہے‘ برطانیہ اور پاکستان‘ سردار کامران نے مزید معلومات حاصل کیں‘ معلوم ہوا ایک ڈوز دس لاکھ روپے میں آتی ہے‘ کم از کم آٹھ ڈوز لگیں گی اور دوا چھ سے آٹھ ہفتوں میں پاکستان پہنچے گی بہرحال قصہ مختصر سردار کامران نے دوا منگوا لی لیکن اس دوران ندیم حسن ہمت ہار گئے۔
انھوں نے کھانا پینا بند کر دیا اور دنوں میں وہیل چیئر پر آ گئے‘ دوست احباب نے موٹی ویٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا کہنا تھا میں قدرتی طریقے سے واپس جانا چاہتا ہوں‘ مجھے ڈاکٹروں اور دوائوں کے چکر میں نہ ڈالیں‘ یہ دو بار اسپتال لے جائے گئے لیکن دونوں مرتبہ انھیں دوا کی پہلی خوراک نہ لگائی جا سکی‘ سردار کامران کے دوست احباب سینئر ڈاکٹر ہیں۔
ڈاکٹروں نے صورت حال دیکھ کر کہا ’’ندیم حسن کے معاملے میں ایک چیز اچھی ہے‘ اسے درد نہیں ہو رہا لہٰذا یہ جتنی دیر چل سکتے ہیں انھیں چلنے دیں‘ زیادہ تنگ نہ کریں کیوں کہ ان کے مرض کا علاج ممکن نہیں ہے‘‘ چناں چہ یہ چلتے رہے اور اس دوران 19 اور 20 اکتوبر کی درمیانی رات اُس سفر پر روانہ ہو گئے جہاں سے کسی کی واپسی ممکن نہیں۔
یہ میرے احباب میں اس نوعیت کی چوتھی موت ہے‘ میرے صحافی دوست مسعود ملک پراسٹیٹ کینسر کا شکار ہوئے اور دنوں میں دنیا سے رخصت ہو گئے‘ میرے دوست خاور محمود کو اچانک کینسر کا پتا چلا‘ یہ جرمنی گئے‘ علاج کراتے رہے لیکن طبیعت نہ سنبھل سکی تو مجھ سے جولیٹ کے شہر کا نام پوچھا‘ ورونا گئے‘ جولیٹ کے مجسّمے کے ساتھ تصویر بنوائی‘ بلیک فاریسٹ میں چند دن گزارے‘ کراچی واپس آئے‘ اپنی کمپنی بند کی‘ اثاثے بچوں میں تقسیم کیے اور ایک صبح خبر آئی خاور محمود ہم میں نہیں رہے۔
ڈاکٹر اسلم میرے بہت قریبی دوست تھے‘ وہ دنوں میں ہم سے رخصت ہو گئے اور اب ندیم حسن بھی ان میں شامل ہو گئے‘ احباب کی موت انسان کو ہمیشہ دکھی کر دیتی ہے‘ میں بھی دکھی ہو جاتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچنے لگتا ہوں ان لوگوں کے بھی چند خواب تھے‘ زندگی سے ان کے بھی کچھ تقاضے تھے‘ یہ بھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کیا یہ لوگ اپنی وش لسٹ پوری کر سکے؟ کیا یہ کامیاب ہونے کے بعد بھی وہ زندگی گزار سکے جس کا خواب باندھ کر یہ سفر پر روانہ ہوئے تھے؟
یہ سوال ہر بار مجھے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے متعارف کرا جاتا ہے‘ یہ کائنات 200 ارب کہکشائوں پر مشتمل ہے اور ایک کہکشاں میں کم از کم ساڑھے چار سو ارب سیارے ہوتے ہیں‘ ہماری کہکشاں ملکی وے سے قریب ترین کہکشاں کینس میجرڈورف ہم سے 25 ہزار نوری سال پر واقع ہے اور ہم اگر ایک نوری سال کو وقت میں تبدیل کر یں تو یہ ایک لاکھ 86 ہزار سال بنیں گے‘آپ اسے 25 ہزار سے ضرب دے کر دیکھ لیں!
ہمارے سولر سسٹم میں مریخ ہماری زمین کا ہمسایہ ہے اور اس ہمسائے پر لینڈ کرنے کے لیے بھی ہم اگر فضا میں دس کلومیٹر فی سیکنڈ کی اسپیڈ سے اڑیں تو ہمیں سات ماہ لگتے ہیں اور یہ ہم سے قریب ترین ہے اور اس پوری کائنات میں اب تک زندگی کا سراغ صرف زمین پر ملا ہے اور ہم اس زمین کے گولڈن ٹائم میں زندہ ہیں چناں چہ زندگی کی نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہو گا‘ ہمیں اس زندگی کے ایک ایک لمحے سے لطف اٹھانا چاہیے۔
دوسری حقیقت زندگی عارضی ہے‘ یہ کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے‘ ہمارے سامنے لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور لوگ سال بعد انھیں مکمل طور پر بھول جاتے ہیں چناں چہ جو بھی کرنا چاہتے ہیں آپ وہ آج کر لیں، کل کا انتظار نہ کریں‘ کائنات کے اس سسٹم میں کل کا لفظ فٹ ہی نہیں ہوتا‘ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی زندگی دے لیکن اس کی کیا گارنٹی ہے آپ لمبی عمر کے باوجود اپنی مرضی کی زندگی بھی گزار سکیں گے؟ انسان کے اعضاء ساٹھ سال کے بعد ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
آپ اگر ستر سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا چاہیں گے یا بسوں اور کشتیوں پر دنیا کا سفر کرنا چاہیں گے تو یہ مشکل ہو جائے گا‘ یہ آج میں رہ کر کرنے والے کام ہیں‘ ان کی قضا نہیں ہوتی چناں چہ آپ یہ آج ہی ادا کر لیں‘ کل ہر شخص کی زندگی میں ہر روز طلوع نہیں ہوتا اور تیسری حقیقت موت برحق ہے‘ دنیا کا ہر شخص فوت ہوتا ہے اور وہ ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ زندگی کی توفیق کم لوگوں کو دیتا ہے۔
آپ اگر زندہ ہیں تو پھر زندگی گزاریں‘ زندہ ہونے کا ثبوت دیں‘ مُردوں جیسی زندگی گزار کر دنیا سے نہ جائیں‘یہ کیا بات ہوئی آپ آئے تو کسی کو پتا نہ چلا‘ آپ رہے تو کسی کو پتا نہیں تھا اور آپ چلے گئے تو بھی کسی کو خبر نہیں ہوئی‘ آپ ایسی زندگی نہ گزاریں، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ ہم انسان ہیں، ہمیں کم از کم شہد کی مکھی سے بہتر زندگی گزارنی چاہیے۔
یہ بے چاری ساری زندگی پھولوں کا رس اکٹھا کرتی رہتی ہے لیکن جب شہد پک کر تیار ہو جاتا ہے تو انسان مکھیاں اڑا کر سارا شہد چٹ کر جاتا ہے‘ آپ یقین کریں آپ نے زندگی میں جو کمایا‘ جو بنایا‘ وہ شہد ہے‘ اس کے صرف آپ ہی حق دار ہیں لہٰذا یہ شہد خود کھائیں‘ اس سے خود لطف اٹھائیں ورنہ کسی دن آپ بھی شہد کی مکھی کی طرح اڑا دیے جائیں گے اور آپ کا مال‘ آپ کی کمائی کوئی اور چاٹ جائے گا۔
شخصیت پرستی؟ڈاکٹرخالد جاوید جان
لائلپورسٹی- 22اکتوبر2022:سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کسی بھی معاشرے کے لیے خوفناک نتائج کا حامل ہوتا ہے، جس سے نہ صرف مذہب کا تقدّس بری طرح پامال ہوتا ہے بلکہ سیاست بھی عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے کا ذریعہ بننے کی بجائے فروعی مسائل یا نان ایشوز کی نذر ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہو کر انتشار ، انارکی اور بالآخر خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔
آج کل پاکستان ایسی ہی ہیجانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا عمل جنرل ضیا نے شروع کیا، جس نے اپنے ہر غیر آئینی عمل کو مذہب کا جامہ پہنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پاکستان مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوگیا۔ جو آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جنرل ضیاء کے بعد گو اکثر حکمرانوں نے مذہب کے استعمال کا سلسلہ جاری رکھا لیکن اس ضمن میں عمران خان سب پر بازی لے گئے ۔ اگرچہ مذہب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کا ایک انتہائی ذاتی اور پاکیزہ اظہار ہے جس پر تبصرہ کرنے کا کسی تیسرے فرد کو حق حاصل نہیں ہونا چاہیے ۔
لیکن جب کوئی شخص محض اپنے ذاتی ، گروہی یا سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو چوراہے میںلے آئے تو پھر مذہبی تقدّس کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ ایسا کرنے والے کے اپنے کردار اور مذہبی علم کا جائزہ لیا جائے کہ کیا کہنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے ، اس میں کوئی منطق ، دلیل یا سچائی موجود ہے بھی یا نہیں ؟ شخصیت پرستی کی اسلام اور دیگر مثبت مکاتبِ فکر میں اس لیے شدّت سے ممانعت کی گئی ہے کہ شخصیت پرستی بھی بُت پرستی کی ہی ایک شکل ہوتی ہے، جس میں آپ اس شخص کو جسے آپ پسند کرتے ہیں، انسانی درجے سے اٹھا کر اس درجے پر لے جا تے ہیں جہاں آپ کو اس کے عیب بھی کارنامے دکھائی دیتے ہیں ۔
عمران خان کی ذاتی زندگی اور سیاسی زندگی میں گفتار اور کردار کی ایک وسیع خلیج حائل رہی ہے ۔ ماضی کے پلے بوائے اور حال کے مبیّنہ مشکوک سرگرمیوں کے حامل (آڈیو اور ویڈیو ٹپس کے حوالے سے )عمران خان کی ساری زندگی قول و فعل کے تضادات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک ہی سانس میں ریاست ِ مدینہ ، مغرب کے جمہوری نظام ، سعودی عرب کے شاہی نظام اور چین کے ون پارٹی سسٹم کے قائل نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ان تمام نظاموں کا سطحی علم رکھتے ہیں بلکہ ان تمام نظاموں میں جہاں شخصی اقتدار نمایاں ہے اس نظام کے زیادہ قریب ہیں۔
اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں انہوں نے جس طرح اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا اور میڈیا میں احتجاجی آوازوں کو کچلا ، اس کی ایک مثال سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے عمران خان کے دورِ ستم میں دیا ۔ جب انہیں اس وجہ سے وقت سے پہلےملا زمت سے فارغ کردیا گیا جب انہوں نے عمران خان کے کہنے پر ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم نہیں کیے تھے۔ جس پر انہوں نے بشیر میمن سے کہا تھا کہ سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کی حکم عدولی کی کوئی جرأ ت نہیں کر سکتا ۔وہ ریاست ِ مدینہ کے داعی رہے اور انصاف کے سب سے بڑے علم بردار ۔
لیکن اپنے دور میں انہوں نے ہر معاملے میں غلط بیانی کی اور اسے یو ٹرن کا نام دیکر بڑا لیڈر ہونے کا دعویٰ کیا۔تاہم جس طرح سابق خاتونِ اوّل نے اپنی قریبی دوست فرح گوگی کے ذریعے پنجاب پر عملاََ حکمرانی کی اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ آٹا ،چینی ، گیس اور ادویات اسکینڈلز میں ملوّث اپنے ساتھیوں کو نوازا، ملک کی معیشت کو تباہ کیا۔ ہر ادارے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ، ملک کی خارجہ پالیسی پر بے سرو پا بیانات دیکر پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دیا۔
اور جب پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ گیا تو آئینی عمل کے ذریعے اپنی حکومت کی تبدیلی کو جس طرح انہوں نے غیر آئینی طریقے سے روکنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش ناکام ہو گئی تو ایک معمول کے سائفر کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے ’’ امریکی سازش‘‘ میں تبدیل کر دیا۔
نہ انہوں نے نہ ہی ان کے حامیوںنے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ سازش بتا کر نہیں کی جاتی ۔ بعد میں سائفر کا پول بھی کھل گیا تو خان صاحب اپنے اقتدار میں لانے والوں کے در پے ہو گئے۔ ایسے فاشسٹ رویّوں سے ریاست ِ مدینہ تو نہیں البتہّ پاکستان کو نازی ہٹلر کا جرمنی بنایا جا سکتا ہے۔
ہم کوئلے سے پٹرول کیوں نہیں بناتے؟جاوید چوہدری
لائلپور سٹی/ٹورنٹو-7اکتوبر2022: پروفیسر اطہر محبوب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ہیں‘ یہ چند دن قبل اسلام آباد آئے‘ مجھے عزت بخشی اور میرے گھر بھی تشریف لائے‘ یہ میری ان سے دوسری ملاقات تھی‘ پروفیسر صاحب پڑھے لکھے اور انتہائی سلجھے ہوئے خاندانی انسان ہیں‘ مجھے مدت بعد سلجھی اور علمی گفتگو سننے کا موقع ملا اور میں ابھی تک اس کی سرشاری میں ہوں‘ پروفیسر صاحب کا خاندان آٹھ سو سال سے علم‘ انصاف اور دین سے وابستہ ہے۔
آباؤ اجداد بغداد کے عباسی خاندان کے قاضی القضاء تھے‘ تاتاریوں کے حملوں کے بعد بغداد سے ہندوستان ہجرت کی‘ اترپردیش کے شہر گورکھ پور کو اپنا مسکن بنایا اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہو گئے‘ دادا قاضی منظور الحق ہجرت کر کے پاکستان آئے‘ سندھ‘ ایبٹ آباد اور گڑھی شاہو لاہور تین شہروں میں علم کے پیاسوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرتے رہے‘ میاں نواز شریف‘ شہباز شریف اور عباس شریف تینوں ان کے شاگرد رہے ہیں۔
پروفیسر اطہر کے والد قاضی محبوب الحق ایئرفورس کے فائٹر پائلٹ تھے‘ وہ پہلے امریکی فائٹر جہاز مارٹن بی 57 کے پائلٹ تھے‘ قاضی محبوب الحق امریکا میں ٹریننگ لینے والے ابتدائی پاکستانی پائلٹوں میں بھی شامل تھے‘ پروفیسر اطہر محبوب ان کے صاحب زادے ہیں‘یہ ملک کے مختلف کنٹونمنٹس کے مختلف اسکولوں سے ہوتے ہوئے فرانس اور امریکا کے اعلیٰ اداروں تک پہنچے‘ انجینئر بنے‘ پی ایچ ڈی کی‘ تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوئے اور اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ہیں۔
ان کے والد فوج کے مختلف ٹرینی اداروں کے سربراہ رہے ‘ خاندان کے بے شمار افراد آج بھی ایئرفورس‘ نیوی اور فوج میں شامل ہیں‘ ڈاکٹر اطہر محبوب کی تربیت فوجی‘ علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی لہٰذا ان کی سوچ میچور اور گفتگو میں بے انتہا گہرائی ہے‘ میں نے زندگی میں ان جیسا پڑھا لکھا‘ متوازن اور علمی شخص بہت کم دیکھا۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے دوران ذکر کیا ساؤتھ افریقہ نے 1950 کی دہائی میں کوئلے سے پٹرول بنانے کی ٹیکنالوجی ڈویلپ کر لی تھی‘ چین نے یہ ٹیکنالوجی سیکھ کر اب چھوٹے چھوٹے پلانٹس بنا لیے ہیں۔
ہمارے پاس تھر میں اتنا کوئلہ موجود ہے جس سے ہم پانچ سو سال تک اپنی انرجی کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں‘ ہم اس کوئلے سے پٹرول کیوں نہیں بناتے؟ میں نے فوراً عرض کیا‘ سر آپ پاکستان میں پہلے انسان ہیں جس سے میں نے یہ بات سنی‘ ہمارے سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریٹس حتیٰ کہ سائنس دان تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ میں نے ان سے عرض کیا میں دو ہفتے قبل ساؤتھ افریقہ گیا تھا‘ میں نے وہاں ساسول (Sasol) کے پٹرول پمپس دیکھے تھے‘ مجھے ڈاکٹر کاشف مصطفی نے بتایا تھا‘ ساسول نے 1960 کی دہائی میں کوئلے سے پٹرول اور ڈیزل بنانا شروع کیا تھا۔
- انیس سو اسی کی دہائی تک یہ کمپنی پورے ملک کی آئل کی ضرورت پوری کرتی تھی‘ یہ آج بھی کام کر رہی ہے اور لوکل آبادی کے زیادہ تر لوگ ان سے پٹرول خریدتے ہیں‘ میں نے ریسرچ کی تو پتا چلا کوئلے سے بیک وقت بجلی‘ پٹرول اور گیس تینوں بن سکتی ہیں‘ ان تینوں کا بنیادی عنصر کیوں کہ کاربن ہوتا ہے اور کاربن کوئلے میں سب سے زیادہ ہوتی ہے چناں چہ اسے بڑی آسانی سے گیس اور پٹرول میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف میری بات سے اتفاق کیا بلکہ بڑی تفصیل کے ساتھ کوئلے کو گیس اور پٹرول میں تبدیل کرنے کا طریقہ بھی بتایا‘ میں نے ان سے پوچھا کیا ’’ہم تھر کے کوئلے سے اپنی ضرورت کے مطابق پٹرول اور گیس بنا سکتے ہیں؟‘‘ ان کا فرمانا تھا ’’ہم نہ صرف اپنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں بلکہ ہم ایکسپورٹ بھی کر سکتے ہیں بس اس میں صرف ایک قباحت ہے اور وہ ہے فضائی آلودگی‘ کوئلہ آلودگی بہت پیدا کرتا ہے لیکن اس کا علاج بھی ممکن ہے‘ چین نے آلودگی روکنے کے لیے بھی ٹیکنالوجی بنا لی ہے‘ ہم اگر آلودگی کنٹرول کر لیں تو ہم کم از کم توانائی کا مسئلہ ضرور حل کر سکتے ہیں۔‘‘
اب سوال یہ ہے جنوبی افریقہ کو یہ آئیڈیا کہاں سے آیا؟ آپ کو اس کے لیے 1950کی دہائی میں جانا ہوگا‘ 1950 میں جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ شروع ہوئے اور گوروں نے کالوں سے تمام انسانی حقوق چھین لیے‘ یہ ایک غیرانسانی اور غیراخلاقی فیصلہ تھا چناں چہ سیاہ فام باشندوں نے بغاوت شروع کر دی‘پورے ملک میں ہنگاموں کا آغاز ہو گیا۔
دوسری طرف اقوام متحدہ نے جنوبی افریقہ پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں جس کے بعد امپورٹس ایکسپورٹس دونوں بند ہو گئیں اور جنوبی افریقہ میں خوف ناک بحران پیدا ہو گیا‘ یہ بحران اگر ایشیا یا تیسری دنیا کے کسی ملک میں آیا ہوتا تو وہ یقیناً لیٹ جاتا لیکن جنوبی افریقہ نے کمال طریقے سے اس مصیبت کو اپنے لیے نعمت میں تبدیل کر لیا اور یہ ملک دس سال میں ہر قسم کی امپورٹ سے آزاد ہو گیا۔
ساؤتھ افریقہ میں تیل نہیں نکلتا تھا‘ حکومت نے فوری طور پر سائنس دانوں کی مدد لی اور انھوں نے چند برسوں میں کوئلے سے پٹرول اور گیس بنانا شروع کر دی‘ ان لوگوں نے بجلی کے پلانٹس بھی کوئلے پر شفٹ کر دیے‘ یہ لوگ خوراک بھی ملک کے اندر پیدا کرنے لگے اور مشینوں اور گاڑیوں کے کارخانے بھی ملک میں لگا لیے یوں امپورٹس کا مسئلہ حل ہو گیا لیکن ملکوں کو غیرملکی سرمایہ بھی چاہیے ہوتا ہے اس لیے بھی ان لوگوں نے کمال بندوبست کیا‘ جنوبی افریقہ میں لی سوٹو (Lesotho) نام کا ایک علاقہ ہے‘ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں چند لاکھ لوگ رہتے تھے۔
جنوبی افریقہ نے وہاں آزاد حکومت قائم کر کے اسے الگ ملک بنا دیا‘ لی سوٹو میں تجارتی کمپنیاں بنیں‘ یہ کمپنیاں جنوبی افریقہ سے مال خریدتیں‘ ان پر میڈ ان لی سوٹو کی مہریں لگتیں اور پوری دنیا کی منڈیوں تک پہنچا دیتیں‘ اقوام متحدہ اس بدمعاشی سے واقف تھی لیکن یہ تکنیکی طور پر بے بس تھی‘ یہ کسی آزاد اور قانونی ملک کی تجارت پر پابندی نہیں لگا سکتی تھی اور یوں ساؤتھ افریقہ میں اقتصادی پابندیوں کے باوجود ترقی کا عمل جاری رہا‘ میرا پرانا تھیسس ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو گرم اور سرد دو علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے‘ دونوں علاقوں کے لوگوں کے ڈی این اے میں بڑا فرق ہے۔
ٹھنڈے علاقے کے لوگ سائنسی دماغ کے ہوتے ہیں‘ یہ مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں جب کہ گرم علاقے کے لوگ فلسفی ہوتے ہیں‘ یہ سوچتے اور بولتے زیادہ ہیں‘ آپ کسی دن ڈیٹا جمع کرلیں۔
آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے دنیا کی 95 فیصد ایجادات ٹھنڈے علاقوں میں ہوئیں اور یہ گوروں نے کیں جب کہ دنیا کے 98 فیصد مذاہب اور فلسفوں نے گرم علاقوں میں جنم لیا‘ احادیث کی چھ کتابیں بھی سینٹرل ایشیا کے علماء نے مرتب کیں اور یہ سفید فام تھے اور دنیا پر زیادہ عرصہ حکومت بھی سفید فام باشندوں نے کی اور اس کی بنیادی وجہ ٹیکنالوجی تھی‘گورا ڈی این اے قسم کی ٹیکنالوجی جلدی بنا لیتا ہے جب کہ ہم گندمی یا سیاہ فام لوگ صرف سوچتے اور بولتے رہ جاتے ہیں۔
دنیا اس وقت بھی سفید فاموں اور ٹیکنالوجی کے ہاتھ میں ہے اور یہ زیادہ تر ٹھنڈے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں چناں چہ موسم اور ڈی این اے بھی دنیا میں تفریق کی وجہ ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہم اگر سفیدفام نہیں ہیں یا گرم علاقوں میں پیدا ہو گئے ہیں تو ہم نئی ٹیکنالوجی اور ماڈلز سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے‘ ہمیں اٹھانا چاہیے کیوں کہ علم اور عقل عالمی میراث ہیں‘ دنیا کے تمام انسانوں کو اس پر برابری کا حق حاصل ہے۔
ہم تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں‘ ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور کساد بازاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ ملک سیاسی افراتفری کا شکار بھی ہو چکا ہے‘ حکومت اپنا سیاسی مستقبل بچانے میں مصروف ہے۔
عمران خان ’’میں یا پھر کوئی بھی نہیں‘‘ کے عمل سے گزر رہے ہیں لہٰذا ملک اس وقت اللہ کے آسرے پر ہے‘ یہ چلتا ہے یا نہیں چلتا اس وقت کسی کو اس کی کوئی پروا نہیں‘ کاش اس وقت چند صحیح الدماغ لوگ اکٹھے ہو جائیں‘ یہ سب کو اکٹھا بٹھائیں‘ رولز آف گیم طے کریں اور ملک کو راہ راست پر لے آئیں‘ ہم زیادہ نہ کریں تو کم از کم ملک کے بنیادی مسئلے ہی طے کر کے ان سے متعلق ادارے بنا دیں اور ان اداروں کو ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے بالاتر کر دیں۔
کوئلے سے بجلی‘ گیس اور پٹرول بنانے کا ادارہ بنائیں‘ زراعت کے شعبے کے لیے بھی پالیسیاں بنا کر بیس سال کے لیے فکس کر دی جائیں‘ تعلیم کا شعبہ اور نصاب بھی فکس کر دیا جائے‘ آبادی کنٹرول کا محکمہ بھی آزاد اور پالیسی لانگ ٹرم ہو اور کاروباری شعبے کے لیے بھی تمام پالیسیاں اور ٹیکس سلیبز ایک ہی بار فکس کر دی جائیں اور پھر انھیں کسی بھی صورت میں چھیڑا نہ جائے۔
آپ بالکل اسی طرح احتجاج کے رولز بھی طے کر دیں‘ کسی کو سڑک‘ شہر اور پل بند کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور جو یہ کرے اسے بھاری جرمانہ بھی کیا جائے اور اس کی سیاست اور کاروبار پر بھی پابندی لگا دی جائے‘ یہ ملک پھر چل سکے گا ورنہ آپ یقین کریں ہم 2023میں بیٹھ کر 2022کو یادکیا کریں گے اور کہا کریں گے واہ وہ بھی کیا زمانہ تھا‘ چیزیں مہنگی تھیں لیکن دستیاب تھیں مگر اب پٹرول ہے۔
گیس ہے‘ بجلی ہے اور نہ ہی خوراک ہے صرف عمران خان اور مریم نواز کی تقریریں ہیں‘ہم اگر اس زمانے میں جانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن اگر ہم یہ ملک چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں عقل سے کام لینا پڑے گا‘ یہ یاد رکھیں زندہ رہنا‘ ترقی کرنا اور مطمئن زندگی گزارنا یہ عقل کے بغیر ممکن نہیں اور ہم عقل سے مکمل عاری ہو چکے ہیں۔
دس ارب ڈالر کا سوال ہے بابا- جاوید چوھدری
میں آپ کو چند لمحوں کے لیے ایک بار پھر ماضی میں لے جاتا ہوں‘ مارچ 2022 تک اسد مجید امریکا میں ہمارے سفیر تھے‘ ان کی مدت ملازمت ختم ہو رہی تھی‘ انھوں نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں۔ 7 مارچ کو امریکا کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو کے ساتھ ان کا الوداعی لنچ تھا‘لنچ پر اسد مجید نے شکوہ کیا ’’میری مدت ختم ہو گئی لیکن آپ نے صدر جوبائیڈن کی ہمارے وزیراعظم سے بات نہیں کرائی‘‘ یہ سنتے ہی ڈونلڈ لو نے شکوؤں کی پٹاری کھول دی‘ ان کا کہنا تھا‘ عمران خان نے2020 کے امریکن صدارتی الیکشنز میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سپورٹ کیا تھا۔
آپ لوگوں کی طرف سے امریکا مخالف ٹویٹس بھی آتی رہیں اور عمران خان نے فلاں جگہ پر یہ کہہ دیا اور یہ فلاں جگہ پر یہ کہتے رہے لہٰذا میں صدر کو کس منہ سے فون کرنے کا کہتا وغیرہ وغیرہ‘ بہرحال یہ میٹنگ ختم ہو گئی‘ سفیر اسد مجید نے واپسی پر ملاقات کا احوال لکھا اور سائفر سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کو بھجوا دیا۔
سفیر نے مراسلے کے آخر میں لکھا ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہو رہے ہیں‘ امریکی انتظامیہ ہم سے ناراض ہے‘ ہمیں اپنی سفارت کاری پر توجہ دینی ہو گی‘ پروٹوکول کے مطابق ہمارے سفارت خانوں کے زیادہ تر مراسلے سیکریٹری خارجہ‘ ڈی جی آئی ایس آئی اورجی ایچ کیو جاتے ہیں‘آرمی چیف کا اسٹاف مراسلے پڑھ کر اہم ترین کی سمری بناتا ہے اور یہ سمری بعدازاں آرمی چیف کو بھجوا دی جاتی ہے‘ یہ مراسلہ بھی پراسیس سے گزر کر آرمی چیف تک پہنچ گیا‘11 مارچ 2022 کو کامرہ ائیربیس میں جے10سی لڑاکا طیاروں کی لانچنگ تھی۔
وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں اس تقریب میں مدعو تھے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وہاں یہ مراسلہ وزیراعظم کو دیا اور ان سے کہا ’’سر میں آپ کو بار بار عرض کر رہا تھا آپ ٹویٹس اور بیانات میں احتیاط کیا کریں‘ آپ اپنی مرضی کیا کریں لیکن اوپنلی بات نہ کیا کریں‘ آپ اب اس کا نتیجہ دیکھ لیں‘‘۔
وزیراعظم نے مراسلہ کھولا‘ پڑھا‘ مسکرائے اور آرمی چیف سے کہا ’’جنرل صاحب اس قسم کے مراسلے آتے رہتے ہیں‘ آپ اسے سیریس نہ لیں‘‘ اور ساتھ ہی کاغذ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا‘ عمران خان نے بعدازاں27مارچ کوپریڈ گراؤنڈکے جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر کہا ’’باہر سے حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے‘ لکھ کر دھمکی دی گئی‘‘ وزیراعظم کی وہ تقریر حیران کن تھی۔
وزارت خارجہ سے لے کر جی ایچ کیو تک افراتفری مچ گئی اور ’’دھمکی اور سازش‘‘ کی تلاش شروع ہو گئی‘ تحقیق کے بعد پتا چلا یہ کاغذ وہی تھا جو آرمی چیف نے کامرہ میں وزیراعظم کو دیا تھا اور یہ سائفر یا مراسلہ نہیں تھا‘ یہ محض سمری تھی اور یہ مختلف دفتروں اور میزوں سے ہوتی ہوئی آرمی چیف تک پہنچی تھی اور آرمی چیف نے وہ گڈ فیتھ میں وزیراعظم کو دکھائی تھی مگر عمران خان نے اسے سیاسی کارڈ بنا دیا۔ یہ کہانی کا ایک حصہ تھا‘ آپ اب دوسرا حصہ بھی ملاحطہ کر لیجیے‘ 28 ستمبر 2022 کو عمران خان اور پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور 30 ستمبر کو عمران خان‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی آڈیو ریکارڈنگز لیک ہوئیں۔
یہ آڈیوز وزیراعظم آفس میں ریکارڈ ہوئی تھیں اور ان میں وزیراعظم عمران خان پرنسپل سیکریٹری سے کہہ رہے ہیں ’’اب ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر‘ نام نہیں لینا امریکا کا‘ صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر‘‘ اور اس کے بعد پرنسپل سیکریٹری وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہیں آپ میٹنگ بلائیں‘ اس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فارن سیکریٹری سہیل محمود یہ خط پڑھ دیں‘ میں اسے ریکارڈ پر لے آئوں گا‘ منٹس میرے ہاتھ میں ہیں‘ میں خط کو دھمکی بنا دوں گا-عمران خان میٹنگ کی وجہ پوچھتے ہیں تو پرنسپل سیکریٹری بتاتے ہیں ہمارے پاس خط کی آفیشل کاپی نہیں ہے‘ ہمیں اسے آفیشل بنانے کے لیے میٹنگ کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ‘ آپ اب اگر کامرہ اور خط کی بیگ گرائونڈ کو ذہن میں رکھ کر اس گفتگو کا تجزیہ کریں تو آپ کو محسوس ہوگا وزیراعظم کو جوں ہی سمری ملی انھوں نے اسی وقت اس پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ انھوں نے اس کھیل میں اپنے پرنسپل سیکریٹری کو شامل کیا اور اعظم خان نے انھیں سمری کو آفیشل بنانے کا مشورہ دینا شروع کر دیا تھا۔
دوسری آڈیو میں عمران خان شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو اعتماد میں لیتے ہیں اور اسد عمر کہتے ہیں یہ تو میٹنگ کی ٹرانسکرپشن ہے‘ یہ لیٹر نہیں اور عمران خان کہتے ہیں آپ اسے چھوڑ دو‘ پبلک کو لیٹر اور ٹرانسپکرپشن کا فرق پتا نہیں‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا اس کے بعد میٹنگ ہوئی تھی اور کیا اس میں سیکریٹری خارجہ نے وہ سائفر پڑھا تھا؟ میری معلومات کے مطابق میٹنگ ہوئی تھی لیکن سیکریٹری خارجہ نے سائفر پڑھنے سے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہنا تھا میں سرکاری حیثیت میں یہ نہیں کر سکتا‘ سفارت خانوں کے سائفر سیکریٹری خارجہ کے لیے ہوتے ہیں‘ ہم صرف سائفرز کی سمریاں بنا کر متعلقہ محکموں کو بھجواتے ہیں‘ ہم اپنا سسٹم کسی کے لیے بھی اوپن نہیں کر سکتے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بعدازاں سیکریٹری خارجہ پر دبائو ڈالا اور سیکریٹری خارجہ نے آفیشل چینل سے سائفر کی سمری وزیراعظم آفس بھجوا دی اور یہ سمری اب ریکارڈسے غائب ہے‘ بہرحال قصہ مختصر وزیراعظم نے پریڈ گرائونڈ کے جلسے میں سمری لہرائی اور اسے لیٹر قرار دے دیا تاہم اصل سائفر31 مارچ2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آیا تھا‘ یہ اجلاس عمران خان کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔
سائفر کی کاپی تمام شرکاء کے سامنے رکھی گئی تھی لیکن وہ کاپی ساتھ لے جا سکتے تھے اور نہ اس کے نوٹس بنا سکتے تھے‘ اسے صرف پڑھا جا سکتا تھا اور وہ پڑھا گیا اور آخر میں ایک متفقہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں یہ ڈکلیئر کیا گیا ’’پاکستان کے خلاف کوئی غیرملکی سازش نہیں ہوئی‘‘ اس میٹنگ کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات بھی ہوئی تھی اور عمران خان نے آرمی چیف سے کہا تھا ’’جنرل صاحب بس ڈیمارش ہو گیا‘ یہ بات اب یہاں ختم ہو جائے گی‘‘ اور تمام لوگ خوشی خوشی گھروں کو واپس لوٹ گئے لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی‘ وہ خط‘ مراسلہ یا سائفر آگے بڑھتا چلا گیااور اس میں سے نیوٹرلز کا طعنہ بھی نکلا‘ امپورٹڈ حکومت کے ہیش ٹیگ نے بھی جنم لیا‘ میر صادق اور میرجعفر بھی پیدا ہوئے‘ غدار اور سازشی کا بیانیہ بھی بنا اور آخر میں اس سے گیدڑ اور شیر بھی نکل گیا اور آپ دیکھیے گا اب دسمبر میں چار لوگوں کے نام بھی لیے جائیں گے۔
یہ تھی سائفر کم سمری کم خط کی کہانی لیکن ہم اگر یہ ایشو وزیراعظم ہائوس کی آڈیو لیکس کے سامنے رکھ کر دیکھیں تو ہمیں چیونٹی اور ہاتھی کا تناسب محسوس ہو گا‘ وزیراعظم کا آفس اور ہائوس دونوں ملک کی اہم ترین جگہیں ہیں‘ وہاں بگنگ ہونا اور پھر اس کا یوں لیک ہو جانا یہ ملکی تاریخ کا خوف ناک ترین واقعہ ہے۔
افریقہ کے انتہائی پس ماندہ ممالک میں بھی ایسے واقعات نہیں ہوتے جب کہ ہم دنیا کی واحد اسلامی نیو کلیئر پاور ہیں اور ان آڈیوز کی لیکس نے ثابت کر دیا ہمارے ملک کا کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی دفتر محفوظ نہیں‘ ہمارے اہم ترین دفتروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ریکارڈ بھی ہو تا ہے اور اس کی ریکارڈنگز پوری دنیا کے سامنے بھی آ سکتی ہیں‘ یہ بھی ثابت ہو گیا ملک دشمن لوگ اور ٹیکنالوجی ہمارے وزیراعظم تک بھی پہنچ جاتی ہے اور ہم لیکس کے بعد بھی انھیں پکڑ نہیں سکتے چناں چہ پریشانی کی اصل بات عمران خان کی گفتگو نہیں۔
وزیراعظم ہاؤس اور آفس کی سیکیورٹی ہے اور اس واقعے نے ثابت کر دیا ہم اس معاملے میں بہت کم زور ہیں‘ اب سوال یہ ہے یہ ریکارڈنگز کس نے کیں اور کیسے کیں؟ اس میں چند امکانات پیش کیے جا سکتے ہیں‘ پہلا امکان یہ ہے یہ ہمارے اپنے لوگوں کا کام ہو‘ ہمارے اداروں نے بگنگ کے آلات لگائے‘ ریکارڈنگز کیں اور یہ ریکارڈنگز بعدازاں سائبر اٹیک یا ہیکنگ کے ذریعے چوری ہو گئیں یا پھر سیاسی اختلافات اداروں کے اندر پہنچ چکے ہیں اور اندر موجود کسی شخص نے ریکارڈنگز اوپن کر دیں۔
دوسرا امکان یہ کام کسی بیرونی طاقت یا ادارے نے کیا‘ آج کے دور میں وزٹنگ کارڈز‘ خطوں‘ برتنوں اور دھاگوں کے ذریعے بھی ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے‘ وزٹنگ کارڈز میں بھی مائیکرو چپ لگ جاتے ہیں اور دھاگے کی شکل میں بھی چپس آ گئے ہیں اور آپ ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے سے لیزر گن کے ذریعے بھی ریکارڈنگ کر سکتے ہیں‘ دور سے کوئی شخص لیزر بیم مارتا ہے‘ لیزر کھڑکی کے شیشے سے اندر جاتا ہے اور سامنے موجود لوگوں کی گفتگو ریکارڈ ہو جاتی ہے اور تازہ ترین ٹیکنالوجی سیٹلائیٹ بھی ہے۔
آپ سیٹلائیٹ کے ذریعے کسی بھی ایسی ڈیوائس کو ریکارڈنگ مشین میں تبدیل کر سکتے ہیں جس میں چپ لگی ہو لہٰذا آج کے زمانے میں ریکارڈنگز زیادہ مشکل کام نہیں لیکن وی وی آئی پی عمارتوں اور شخصیات کو ریکارڈنگ سے بچانا یہ کمال ہوتا ہے اور ہم بحیثیت قوم اس میں مار کھا رہے ہیں‘ دنیا بھر میں سرکاری عمارتوں یا دفتروں میں موبائل فون نہیں جا سکتے‘ صدر اور وزیراعظم بھی موبائل فون کیری نہیں کر سکتے لیکن پاکستان میں ویٹرز اور سویپرز بھی جیب میں موبائل فون رکھ کر صدر اور وزیراعظم کے دفتر میں گھس جاتے ہیں۔
ہماری پوری سرکار موبائل فونز پر چل رہی ہے لہٰذا پھر سیکیورٹی کہاں ہو گی؟ معلومات کو خفیہ کہاں رکھا جا سکے گا اور تیسرا امکان پاکستان تحریک انصاف نے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوتے ہوتے وزیراعظم آفس میں ریکارڈنگ ڈیوائسز لگا دیں‘ وزیراعظم کی ریکارڈنگز کیں اور وہ نشر کر دیں اور حکومت نے جواب میں عمران خان اور اعظم خان کی آڈیو ریلیز کر دی۔
یہ تین امکانات ہیں‘ حقیقت کیا ہے؟ ہم دعوے سے نہیں کہہ سکتے لیکن یہ چیز طے ہے ان آڈیو لیکس نے ملک کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیااور یہ ثابت کر دیا پاکستان ایک غیرمحفوظ ملک ہے‘ اس میں صدر‘ وزیراعظم اور آرمی چیف کی گفتگو بھی محفوظ نہیں لہٰذا سوال یہ ہے کیا ہم ان حالات میں قائم رہ سکتے ہیں؟ یہ دس ارب ڈالر کا سوال ہے!۔
ایوان صدر میں چیف نیازی ملاقات۔ حقائق اور نتائج: سلیم صافی
لائلپورسٹی- 23ستمبر2022:گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے میری کوشش رہی کہ میں سیاست اور صحافت کا موضوع سیلاب زدگان کو بنائوں۔ اس مقصد کیلئے میں نے جیو تک کے خلاف ٹویٹ کئے لیکن بدقسمتی سے تمام سیاستدان بالعموم اور عمران خان بالخصوص سیلاب اور سیلاب زدگان کو نمبر ون ایشو بنانے نہیں دے رہے ہیں۔ بلکہ سوائے حامد میر صاحب کے ہمارے اہلِ صحافت کے لئے بھی وہ مسئلہ نمبرون نہیں بن رہا۔
ایوان صدر میں آرمی چیف اور عمران خان کی ملاقات، کیوں اور کیسے ہوئی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ان سب سوالوں کا جواب اور متعلقہ معلومات کافی دنوں سے میرے سینے میں دفن تھیں تاہم اس وجہ سے میں اس طرف نہیں جارہا تھا کہ کہیں سیلاب زدگان پر توجہ نہ دینے کے جرم میں کہیں میں بھی شریک نہ ہوجائوں لیکن بدقسمتی سے عمران خان باز آرہے ہیں نہ ان کے ترجمان اور نہ ان کاحامی میڈیا۔
پہلے ایوان صدر میں اس خفیہ میٹنگ کی خبر لیک کی، پھر عمران نیازی نے اپنے رویے سے ایسا تاثر دیا کہ جیسے انہیں پھر اسٹیبلشمنٹ نےگود لے لیا۔ پھر ساتھ ایک اور جھوٹی خبر پھیلا دی کہ آرمی چیف ایک کورکمانڈر کی گاڑی میں جاکر ایک سیف ہاؤس میں عمران نیازی سے ملے ہیں۔ کچھ ریٹائرڈ فوجیوں کے ذریعے یہ جھوٹ بھی پھیلایا گیا کہ میٹنگ کی کوشش پی ٹی آئی نہیں بلکہ فوج کی طرف سے ہوئی۔
اب یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی جب نیازی صاحب کی خواہش پوری نہیں ہوئی تو انہوں نے دوبارہ یوٹرن لیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کا نام جلسوں میں لے کر فوج کو(عوام کے سامنے) آنکھیں دکھانے لگے۔ اس لئے آج میں بھی سیلاب سے صرف نظر کرکے اس حوالے سے حقائق سامنے لانے پر مجبور ہوا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد شاید ہی کوئی روز ایسا گزرا ہو کہ جب نیازی صاحب یا ان کے کسی نمائندے نے کسی نہ کسی چینل سے آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کا منت ترلہ نہ کیا ہو۔
ان کا یہی مطالبہ رہا کہ وہ ماضی کی طرح انہیں گود لے کر موجودہ حکومت کو رخصت کرکے دوبارہ انتخابات کروادیں تو وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ ان رابطوں کے دوران انہوں نے جنرل قمرجاوید باجوہ کو گارنٹی کے ساتھ ایکسٹینشن کی آفر بھی کی لیکن وہ نیوٹرل رہنے پر اصرار کرتے ہوئے ملاقات سے انکار کرتے رہے۔ نہ چیف کے رشتہ داروں کو چھوڑا گیا ، نہ سابق فوجی افسران کو اور نہ ان کے ذاتی دوستوں کو ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ افغانستان کے لئے امریکہ کے سابق نمائندے زلمے خلیل زاد سے بھی آرمی چیف کو درخواستیں کروائی گئیں کہ وہ عمران نیازی سے ایک ملاقات کرلیں۔
واضح رہے کہ امریکی نیوکانز کے رکن زلمے حکومت کی تبدیلی کے ایک ماہ بعد پاکستان آئے تھے اور نیازی صاحب سے خفیہ اور طویل ملاقات کی تھی۔ علاوہ ازیں پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی دن رات منت ترلے میں لگے رہے جبکہ عارف علوی بھی ہمہ وقت اسی کام میں لگے رہے لیکن آرمی چیف پھر بھی ملنے کو تیار نہیں تھے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ ایک دن اچانک عارف علوی آرمی چیف کے گھر جاپہنچے اور کافی دیر تک منت ترلہ کرکے انہیں اپنے گھر یعنی ایوان صدر میں اپنے لیڈر عمران نیازی سے ملاقات پر آمادہ کیا۔
چنانچہ نیازی صاحب سے شدید مایوس اور دکھی جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم شہباز شریف کو مطلع کرکے اس ملاقات کیلئے ایوان صدر گئے۔ حسبِ عادت عمران نیازی نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایم کیوایم اور باپ پارٹی کو الگ کروا کر موجودہ حکومت ختم کردیں اور فوری انتخابات کروا لیں۔ جواب میں انہیں بتایا گیا کہ پہلے ہی پی ٹی آئی کے لئے غیرآئینی کردار ادا کرنے کی وجہ سے فوج بہت بدنام ہوئی ہے اور وہ دوبارہ یہ غلطی نہیں کرسکتی۔
ان کے سامنے اعدادوشمار رکھ کر بتایا گیا کہ اگر وہ اقتدار میں رہتے تو جون تک ملک ڈیفالٹ کرجاتا جبکہ امریکی سازش کے جھوٹے بیانیے سے بھی انہوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ عمران نیازی اصرار اور عارف علوی وغیرہ بیچ بچاؤ یا منت ترلہ کرتے رہے تو جواب میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی تمام احسان فراموشیوں اور فوج میں تقسیم کی کوشش کے باوجود فوجی قیادت ان کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتی اور نہ یہ چاہتی ہے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو جو بھٹو یا نواز شریف وغیرہ کے ساتھ ہوا لیکن فوج انہیں فوری طور پر الیکشن نہیں دے سکتی۔
وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ موجودہ سیٹ اپ نے آئی ایم ایف سے ڈیل کرکے وقتی طور پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشی استحکام آگیا ہے۔ اب بھی ڈالر اور مہنگائی کنٹرول میں نہیں آرہے ہیں۔ روزانہ فوج اور حکومت کوششیں کرکے چند ارب کا انتظام کرتی اور ملکی انتظام چلاتی ہے جبکہ اوپر سے سیلاب نے کسر پوری کردی ۔ تاہم اگر اتحادی جماعتوں کا آپس میں کوئی مسئلہ آجاتا ہے اور حکومت خود ٹوٹ جاتی ہے یا پھر اگر معاشی استحکام کے بعد متفقہ طور پر سیاسی جماعتیں قبل ازوقت انتخابات کراتی ہیں تو فوج نہ رکاوٹ بنے گی اور نہ مداخلت کرے گی۔
انہیں یہ بھی کہا گیا کہ اس وقت بھی دو صوبوں اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومت ہے اور مشورہ دیا گیا کہ بہتر ہوگا کہ وہ پارلیمنٹ میں دوبارہ جائیں اور مفاہمت کے ذریعے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور نئے انتخابات کا راستہ نکالیں۔ وہ اگر پاپولر ہورہے ہیں تو فوج ان کا راستہ نہیں روکے گی اور اگر وہ اگلے انتخابات جیتتے ہیں تو آرام سے جیت لیں۔ فوج اسی طرح لاتعلق رہے گی جس طرح پنجاب کے ضمنی انتخابات میں لاتعلق رہی۔
یوں یہ میٹنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئی۔ شاید اس کے بعد بھی تناؤ میں کمی آتی لیکن عمران خان نے پہلے اس میٹنگ کی خبر کو لیک کرایا۔ پھر اس کے بارے میں یہ جھوٹا تاثر دیا کہ جیسے یہ میٹنگ فوج کی خواہش یا مجبوری تھی ۔ پھر کچھ عرصہ چالاکی کا مظاہرہ کرکے یہ جھوٹا تاثر دیا کہ فوج کے ساتھ ان کی پھر ڈیل ہوگئی ہے۔ اس سے انہوں نے حکومت اور فوج کو آپس میں بدگمان کرنے کی کوشش کی۔
پھر جنرل فیض حمید کے ذریعے ایک اور خفیہ میٹنگ کی جھوٹی خبر پھیلا دی اور ظاہر ہے ان خبروں سے تمام ادارے متاثر ہوتے رہے لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ نومبر سے پہلے کسی صورت نئے انتخابات نہیں ہوسکتے اور کسی بھی صورت ان کے ہاتھوں ان کے پسند کے نئے آرمی چیف کی تقرری کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی تو وہ دوبارہ بلیک میلنگ پر اتر آئے۔
پہلے کورکمیٹی میں اپنے ان لوگوں کو کھری کھری سنائیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان پر پابندی لگائی کہ وہ آئندہ کوئی بات نہیں کریں گے۔ حالانکہ ان میں پرویز خٹک جیسوں کو بھی سننا پڑیں جو خود عمران خان کے نمائندے کے طور پر جاتے تھے۔ پھر چکوال کے جلسے میں ایک بار پھر شیر نظر آنے کی کوشش کی اور فوج اور آئی ایس آئی کو خوب سنائیں۔
اگرچہ اب کی بار آئی ایس پی آر کی طرف سے ان کی دھمکیوں پر کوئی ردعمل نہیں آیا لیکن میری معلومات کے مطابق فوج کی صفوں میں غصے کی جو لہر اب دوڑ گئی ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے فوج کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے اور عمران خان مزید اس سلسلے کو کہاں تک لے جاتے ہیں۔
عمران خان کا آخری ہتھیار: احتشام بشیر
لائلپورسٹی-23ستمبر2022: جب سے تحریک انصاف حکومت کا تختہ الٹا ہے تب سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان موجودہ وفاقی حکومت کے خلاف آرام سے نہیں بیٹھے۔ اقتدار کے تخت سے نیچے آنے کے بعد عمران خان مسلسل عوامی رابطہ مہم میں ہیں۔ جلسے، مظاہروں، مختلف تقریبات سے خطاب میں عمران خان کا نشانہ وفاقی حکومت میں شامل جماعتیں رہی ہیں۔ عمران خان نے شریف برادران، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو نشانے پر لینے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانے پر رکھا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے شہر شہر جاکر جلسے کیے۔ انہوں نے اپنا بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا کہ کس طرح ان کی حکومت کے خلاف سازش کی گئی۔ بقول عمران خان بیرونی سازش کے ذریعے امپورٹڈ حکومت کو ملک پر مسلط کیا گیا۔ عمران خان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہوا اور انھیں عوام میں پذیرائی ملی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی تحریک میں تیزی آتی جارہی ہے اور لہجہ بھی سخت ہوتا جارہا ہے۔
ماضی میں حکومت مخالف جتنی بھی تحاریک چلیں، ماسوائے مارشل لاء دور، حکومتوں کے خلاف وہ کامیاب ہوئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک ماضی میں جمہوری حکومتوں کے خلاف تحریک میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ رہا ہے اور جس تحریک کے پیچھے اسٹیبلمشنٹ کی تھپکی نہ ہو تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ 1988 میں طویل غیر جمہوری دور کے بعد جب الیکشن ہوئے تو بے نظیر کو ہٹانے کےلیے نواز شریف نے تحریک کا آغاز کیا۔ اسی طرح نواز شریف جب برسراقتدار آئے تو پھر پیپلزپارٹی ن لیگ حکومت کے خلاف میدان میں اتری۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے جب نواز حکومت کا خاتمہ کیا تو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں حکومتوں کو ہٹانے کے اقدام کے سامنے کھڑی ہوگئیں، لیکن پھر بھی ملک کا کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا۔
جنرل مشرف کے دور میں بھی میر ظفر اللہ خان جمالی (مرحوم) اپنا دورِ اقتدار مکمل نہ کرسکے اور مختصر مدت کےلیے چوہدری شجاعت حسین کو وزیراعظم بناکر شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کےلیے راہ ہموار کی گئی۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو خیال کیا جارہا تھا کہ وہ واحد وزیراعظم ہوسکتے ہیں جو اپنی مدت پوری کریں گے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کا خیال تھا کہ عمران خان کو لانے والے ان کی حکومت کو ختم نہیں کریں گے۔ لیکن لانے والے واپس بھجوا بھی سکتے ہیں اور کچھ ایسا ہی ہوا۔
ملک میں جب بھی جمہوری حکومت کو چلتا کیا گیا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ہی لگا، چاہے وہ پیپلزپارٹی کی حکومت تھی یا نواز لیگ کی۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دبے الفاظ میں حکومتوں کی رخصتی کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کو گردانا۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد دو کام پہلی بار اس ملک میں ہوئے، ایک تو تحریک انصاف کی حکومت رخصت ہونے پر اس طرح خوشی نہیں منائی گئی جس طرح ماضی کی حکومتوں کو ہٹانے کے وقت عوام میں خوشی پائی جاتی تھی۔ دوسرا عمران خان کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آئے۔ اس سے قبل کوئی سیاسی لیڈر اس طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر نہیں بولا۔ اور یہ بھی ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ عمران خان کی تقاریر پر آئی ایس پی آر کو بیانات جاری کرنے پڑے۔ لیکن عمران خان کی شعلہ بیانی ابھی تک نہیں رک سکی۔
عمران خان کے خلاف مقدمات بنائے گئے، ان کی گرفتاری کی خبریں سامنے آنے لگیں لیکن جس طرح ماضی میں سیاستدان کو سلاخوں کے پیچھے دیکھا جاتا تھا ابھی تک عمران خان کے خلاف اس طرح کی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ مقدمات تو بنتے جارہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ انھیں ریلیف بھی ملتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ شکوک و شہبات بھی جنم لے رہے ہیں کہ عمران خان ابھی تک لاڈلا ہے۔ اور اس خدشے کا اظہار مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز بھی کرچکی ہیں۔ عوامی جلسوں میں ملکی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی حکومت مخالف تحریک میں تیزی آرہی ہے۔ ملک بھر میں جلسوں کے بعد اب عمران خان حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ پشاور، خانیوال اور پھر لاہور میں وکلا سے خطاب کے دوران عمران خان نے ورکرز کو تیار رہنے کی ہدایت کی۔ وہ کسی بھی وقت اسلام آباد کی کال دے سکتے ہیں۔ عمران خان کی کوشش ہے کہ نومبر سے پہلے حکومت کا خاتمہ ہو اور موجودہ حکومت آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ نہ کرسکے۔
اسی لیے انہوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ نئی حکومت کے قیام تک موجودہ آرمی چیف ہی کام کرتے رہیں۔ اسی لیے حالیہ جلسوں میں عمران خان کی تقریر کا محور آرمی چیف کی تقرری ہی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت بھی ڈٹ چکی ہے۔ حکومت واضح کرچکی ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اور وزیراعظم شہاز شریف آئین اور قانون کے مطابق نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔ یعنی دونوں طرف سے برف پگھل نہیں رہی۔
عمران خان کشتیاں جلاکر آگے بڑھ رہے ہیں لیکن انھیں روکنے کی کوشش کی جارہی ہے، انھیں سمجھایا جارہا ہے کہ اداروں سے لڑنا نقصان دہ ہے۔ معاملات کو سدھارنے کےلیے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس وقت اعجازالحق کردار ادا کررہے ہیں۔ اسی لیے عمران خان نے سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں کور کمیٹی کے ارکان کو کسی سے بھی مذاکرات سے روک دیا ہے۔
عمران خان کی شعلہ بیانی رک نہیں پارہی جو معاملات کو سدھارنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ عمران خان کو اسلام آباد مارچ کےلیے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسی لیے ابھی تک وہ اسلام مارچ کا اعلان نہیں کرسکے۔ انھیں بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد مارچ آخری ہتھیار ہے، اس کے بعد دوسرا ہتھیار نہیں رہتا۔ اگر عمران خان اسلام آباد میں جاکر بیٹھ بھی جاتے ہیں، جیسا کہ وہ پہلے کرچکے ہیں اور حکومت اپنی مدت بھی پوری کرلیتی ہے تو عمران خان کی جدوجہد کا کیا فائدہ ہوا؟ اسی لیے عمران خان کے قریبی ساتھی انھیں اسلام آباد مارچ کے بجائے حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
ہماری عمریں کیوں چھوٹی ہیں؟جاوید چوہدری

سمندروں میں انتہائی گہرائی میں ٹوری ٹاپسیس ڈوہرنائی نام کی ایک جیلی فش پائی جاتی ہے‘ یہ اس وقت زمین کی واحد لافانی مخلوق ہے‘ اسے موت نہیں آتی اور یہ ازل سے ابد تک قائم رہتی ہے۔ یہ جیلی فش 95 فیصدپانی سے بنی ہے‘ اس کا دماغ‘ دل اور پھیپھڑے نہیں ہیں‘ جسم میں صرف ایک ٹیوب ہے جس کے ذریعے یہ خوراک لیتی اور باہر نکالتی ہے‘ ٹی ڈوہرنائی اپناحیاتیاتی عمل مکمل کر کے بوڑھی ہوتی ہے‘ سمندر کے اندر گہرائی میں چٹانوں کے ساتھ چپک جاتی ہے اور پھر اچانک اس کا بوڑھا جسم انگڑائی لے کر دوبارہ جوان ہو جاتا ہے اور یہ ایک بار پھر پانی میں تیرنا شروع کر دیتی ہے‘ سائنس دان مدت سے اس کے ڈی این اے پر تحقیق کر رہے ہیں۔
اس کے لافانی ہونے کی وجوہات تلاش کر رہے ہیں‘ ان کا دعویٰ ہے ہم جس دن جیلی فش کا ڈی این اے سمجھ گئے ہم اس دن انسان کو بھی لافانی بنا دیں گے لیکن یہ معجزہ کب وقوع پذیر ہو گا؟ ہم سردست کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم دو چیزیں ثابت ہو رہی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اورہم نے ہر جان دارچیز کو پانی سے زندگی بخشی‘‘ (سورۃ الانبیاء‘ آیت 30) ٹوری ٹاپسیس ڈوہرنائی نے یہ حقیقت ثابت کر دی حیات پانی سے پیدا ہوئی اور دوسرا اگر زندگی زمین سے ختم بھی ہو جائے تو بھی یہ جیلی فش کے ذریعے دوبارہ جنم لے لے گی اور زمین کی رنگا رنگی ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔
آپ کے لیے شاید‘ شاید یہ بات نئی ہو ہم زمین پر حیات کا پانچواں باب ہیں‘ ہم سے پہلے اس زمین سے چار مرتبہ زندگی ختم ہو چکی ہے اور یہ مکمل خاتمے کے بعد ایک بار پھر دوبارہ سر اٹھا لیتی ہے‘ زندگی زمین سے چوتھی مرتبہ آج سے 65ملین سال پہلے ختم ہوئی تھی۔ آسمان سے دیوہیکل شہاب ثاقب ٹوٹ کر زمین پر گرا تھا اور اس نے زمین سے زندگی کاصفایا کر دیا تھا‘ میکسیکو خلیج کی پیدائش اور ڈائنو سار کا خاتمہ اسی حادثے کا نتیجہ تھا لیکن زندگی نے ایک بار پھر آنکھ کھولی اور یہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی 2022 تک پہنچ گئی‘ یہودیوں کا عقیدہ ہے وقت کا موجودہ سسٹم صرف چھ ہزار سال تک محیط ہے اور انسان نے پانچ ہزار 7 سو 79 سال گزار لیے ہیں باقی صرف 221 سال بچے ہیں‘ ان کے بعد ایک بار پھر قیامت آئے گی اور قیامت کے بعد زمین پر زندگی کا ایک اور سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
یہ باتیں کس حد تک درست ہیں میں نہیںجانتا لیکن آج کے اعدادوشمار بتاتے ہیں پاکستانیوں کی عمریں بہرحال سارک کے باقی ملکوں کے شہریوں سے کم ہیں‘ ہم پاکستانیوں کی اوسط عمر 67 اشاریہ 64سال ہے یعنی تقریباً 68 سال جب کہ ہمارے مقابلے میں بھارتی شہریوں کی اوسط عمر ساڑھے ستر سال‘ بنگلہ دیش ساڑھے 73 سال‘ بھوٹان پونے73 سال‘ نیپال پونے 71سال اور سری لنکا کی اوسط عمر ساڑھے 77سال ہے‘ ہم اگر ان اعدادوشمار کو تھوڑا سا پھیلا لیں تو ہانگ کانگ کے لوگوں کی اوسط عمر دنیا میں سب سے زیادہ ہے‘ اس چھوٹے سے ملک میں لوگ عموماً سوا 85سال زندہ رہتے ہیں۔
جاپان میں 85‘ مکاؤ میں پونے 84‘ سوئٹزرلینڈ میں سوا 84 اور سنگا پور میں اوسط عمر 84سال ہے یوں یہ سات ملک دنیا میں اوسط عمر کے لحاظ سے بلند ترین ہیں جب کہ دنیا کے 25 ملکوں کے شہری 80 سے 84 سال زندہ رہتے ہیں اور 39 ملکوں کی اوسط عمر 80سال ہے۔ہم اگر ان اعدادوشمار کا تجزیہ کریں تو ہماری عمریں یورپ‘ امریکا اور فارایسٹ کے ممالک سے بھی کم ہیں اور ہم سارک ملکوں میں بھی پست ترین مقام پر ہیں‘ ہانگ کانگ کے لوگ ہم سے 18سال زیادہ زندہ رہتے ہیں‘ ہم سارک ممالک کے دوسرے شہریوں کے مقابلے میں بھی پانچ دس سال جلدی لڑھک جاتے ہیں‘ کیوں؟میں زیادہ وجوہات نہیں جانتا لیکن جہاں تک عمومی تاثر ہے ہماری اوسط عمر میں کمی کی چھ موٹی موٹی وجوہات ہیں۔
ہماری کم عمری کی پہلی وجہ اسٹریس ہے‘ ہم اوپر سے لے کر نیچے تک اسٹریس فل زندگی گزار رہے ہیں‘ آپ صدر سے ریڑھی بان تک لوگوں کو دیکھ لیں‘ آپ کو ہر شخص کے چہرے پر تناؤ اور کندھوں پر بوجھ نظر آئے گا‘ ہمارے ملک کے خوش خال ترین لوگ بھی ٹینشن کا پہاڑ لے کر بستر سے اٹھتے ہیں اور سارا دن کوشش کر کے اس پہاڑ میں اضافہ کرتے ہیں اور پھر تھک کر ایک بار پھر لیٹ جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کے علماء‘ پیر اور حکیم تک ٹینشن اور اینگزائٹی کی ادویات کھاتے ہیں اور یہ پڑھی لکھی بات ہے ٹینشن دنیا کی تمام بیماریوں کی ماں بھی ہے اور یہ انسانی زندگی میں کمی کا باعث بھی بنتی ہے اور ہم من حیث القوم اس کا شکار ہیں‘ دوسری وجہ عدم استحکام ہے‘ دنیا کا کوئی بھی جان دار عدم استحکام میں زندہ نہیں رہ سکتا‘ ہم انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے دماغ بھی دے رکھا ہے‘ ہم چیزوں کو وقت سے پہلے دیکھ سکتے ہیں لہٰذا عدم استحکام ہمارے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے۔
ہم ’’کل کیا ہو گا؟‘‘ اور ’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ جیسی صورت حال میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے‘ ہمیں ہر چیز ٹائم اور شیڈول کے مطابق چاہیے ہوتی ہے اور ہم بدقسمتی سے من حیث القوم دہائیوں سے عدم استحکام کا شکار ہیں‘ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں‘ ہمارے ملک کے بڑے سے بڑے عہدیدار کو بھی یہ یقین نہیں میں کل اس عہدے پر رہوں گا یا نہیں‘ گاہک یہ نہیں جانتا میںجو چیز خرید رہا ہوں یہ مجھے کل بھی دستیاب ہو گی یا نہیں‘ تاجر کو صنعت کار پر یقین نہیں‘ صنعت کار کو بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور پانی کا یقین نہیں اور کیا ہم یہ تمام اشیاء کل بھی عوام کو دے سکیں گے حکومت کو بھی اس کا یقین نہیں ہو گا چناں چہ ہم اوپر سے نیچے تک عدم استحکام کا شکار ہیں۔
ہمارے ملک میں چیف جسٹس کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا میں کل کہاں ہوں گا؟ لہٰذا اس ملک میں کسی کو بھی شہباز گل بنتے دیر نہیں لگتی‘ تیسری وجہ ہماری زندگی میں کوئی انٹرٹینمنٹ نہیں‘ مذہبی تقریریں‘ سیاسی گفتگو اور افواہیں ہماری سب سے بڑی تفریح ہوتی ہیں اور ہم جی بھر کر اس تفریح سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ آپ کسی بھی شخص سے مل لیں آپ کو وہ کسی نہ کسی مذہبی پیغام کا حوالہ دے گا‘ وہ کوئی نہ کوئی سیاسی فلسفہ بیان کرے گا اور آپ کے کان میں کوئی نہ کوئی افواہ انڈیل دے گا‘ ہمارے لوگوں کو یہ تک معلوم ہے چیف جسٹس آف پاکستان عمران خان کو معاف کر دیں گے۔
صدر اکتوبر میں وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ مانگ لیں گے اور آصف علی زرداری آرمی چیف کو زبردستی ایکسٹینشن دلوا دیں گے اور لوگ یہ بھی جانتے ہیں ہمارے موجودہ سیلاب قدرتی نہیں ہیں‘ ہمیں ایک عالمی سازش کے ذریعے پانی میں ڈبویاگیا لہٰذا آپ خود سوچیے لوگ جب کتابوں‘ اسپورٹس‘تیراکی‘ واک اور مکالمے کے بجائے سیاست‘مذہب اور افواہ کو تفریح بنا لیں گے تو پھر یہ کتنا عرصہ صحت مند رہ لیں گے؟ ہانگ کانگ میں ہر شخص کتاب پڑھتا ہے‘ ایکسرسائز کرتا ہے اور غیرضروری سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتا ہے چناں چہ وہاں عام سا شخص بھی پچاسی چھیاسی سال صحت مندانہ زندگی گزار لیتا ہے جب کہ ہم ان تمام علتوں سے پرہیز کرتے ہیں‘ چوتھی وجہ ہم خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں۔
پاکستان میں کسان کو بھی خالص اناج‘ گوالے کو بھی ملاوٹ سے پاک دودھ‘ قصائی کو بھی صحت مند گوشت‘ اور باغبان کو بھی خالص پھل نہیں ملتا‘ آپ بڑے سے بڑے ریستوران میں چلے جائیں‘ آپ کو اے کوالٹی خوراک نہیں ملے گی‘ ہم گوشت‘ سبزیوں‘ دالوں‘ اناج اور کوکنگ آئل کی شکل میں زہر کھاتے ہیں‘ ہمارے ڈاکٹرز تک اپنے لیے ادویات دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں اور منرل واٹر بھی گرم کر کے پیتے ہیں چناں چہ پھر ہماری زندگی طویل کیسے ہو سکتی ہے؟ پانچویں وجہ ہم من حیث القوم منفی اور احسان فراموش ہیں‘ آپ کسی محفل میں چلے جائیں آپ کو ہر شخص دوسرے کے بارے میں منفی بات کرتا ملے گا‘ لوگ اب اپنے بارے میں بھی اچھی بات نہیں کرتے اور ہم اوپر سے لے کر نیچے تک احسان فراموش بھی ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے۔
کیا ہم نے قائداعظم سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر تک کسی شخص کے احسان کا بھرم رکھا‘ کیا ہم نے اپنے اوپر احسان کرنے والے کسی شخص کی عزت کی‘ ہمیں مشکل وقت میں جو بھی شخص سہارا دیتا ہے ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ اور یہ بھی لکھی پڑھی بات ہے احسان یاد رکھنے والوں اور دوسروں کے بارے میں مثبت سوچنے والوں کی عمریں لمبی ہوتی ہیں اور چھٹی اور آخری چیز‘ دنیا میں شاکر لوگ اچھی اور طویل زندگی گزارتے ہیں‘ شکر خوشی اور عمر دونوں میں اضافہ کرتا ہے لیکن ہم اس معاملے میں کنجوس قوم ہیں‘ ہمیں جو مل گیا ہم اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور پوری زندگی اس کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں جو ہمیں نہیں مل سکا چناں چہ پھر ہماری زندگی میں برکت کہاں سے آئے گی؟
آپ بھی اگر اپنی زندگی میں یہ چھ تبدیلیاں کر لیں تو آپ بے شک جیلی فش نہیں بنیں گے لیکن آپ ان شاء اللہ ہانگ کانگ کے کروڑوں وانگ اور چائی کی طرح 85سال تک صحت مند اور خوش گوار زندگی ضرور گزاریں گے۔
مسلم لیگ ن کی شکست کی وجوہات
لاہور کے فیلڈ جرنلسٹ پریس کلب کے علاوہ اکثر گڑھی شاہو کے ٹی اسٹال پر محفل جماتے ہیں۔ یہ بھی ایک معمول کی شب تھی، عید کے بعد آبائی علاقوں سے واپسی کے بعد صحافی احباب گڑھی شاہو میں چائے کی محفل جمائے بیٹھے تھے۔ تذکرہ لاہور اور پنجاب کی سیاست کا ہوا۔ ایک نوجوان صحافی نے دعویٰ کیا کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ کو عبرتناک شکست ہوگی۔ تمام سینئر صحافیوں نے نوجوان صحافی کی کلاس لینا شروع کی۔ اگلے روز پروگرام کی ریکارڈنگ کےلیے لاہور کے حلقوں کا دورہ کیا، جہاں عوام سے ملاقات ہوئی۔ اسی ملاقات اور عوامی سروے کے بعد نوجوان صحافی کے دعوے میں صداقت نظر آنے لگی۔
سوال یہ ہے کہ سینئر صحافیوں کے تجزیے غلط کیوں ہوئے؟ مسلم لیگ ن جو جیت کےلیے پراعتماد تھی اس نے فوری نتائج تسلیم کیوں کیے؟ مسلم لیگ ن کی شکست کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ کیا عمران خان دوبارہ سے عوام میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں؟ ان سوالات کا جواب اپریل سے جولائی تک ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال میں ہے۔ ملک کے بیشتر صحافی اور تجزیہ نگار محض سیاست دانوں کے دعوؤں اور ماضی کی روایات پر انحصار کرتے رہے، انہوں نے فیلڈ میں جاکر عام آدمی کی نبض کا جائزہ نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ کیونکہ میدان میں سب کچھ بدل چکا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اقتدار سے علیحدگی کے فوری بعد عوام سے رجوع کیا۔ عوام کو یہ باور کرایا کہ انہیں سازش کے تحت نکالا گیا۔ انہوں نے الیکٹیبلز کے خلاف مہم چلائی۔ اپنے معاشی فیصلوں اور غلطیوں کا سارا ملبہ مخلوط حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے۔
لاہور اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ناکامی کی چھ وجوہات ہیں۔ پہلی اور سب سے بنیادی وجہ اپریل سے جولائی تک ملک میں بڑھنے والی مہنگائی، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ تھی۔ اتحادی حکومت عوام کو اس مہنگائی کی وجہ بتانے میں ناکامی رہی جبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے عوام کو اپنے بیانیے کے ذریعے یقین دلایا کہ مہنگائی کی وجہ مخلوط حکومت ہے اور ان کے دور حکومت میں تو سب بہترین چل رہا تھا۔ یعنی مسلم لیگ ن کے مشکل معاشی فیصلوں نے پارٹی کے گڑھ پنجاب میں اسے عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔
مسلم لیگ ن کی شکست کی دوسری بڑی وجہ الیکٹیبلز یا پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینا تھی۔ مسلم لیگ ن نے عدم اعتماد کے دوران ان منحرف اراکین کے ساتھ ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے کی تعمیل بھی۔ مگر نچلی سطح پر پارٹی کے نظریاتی ورکرز اور ووٹرز نے ان منحرف اراکین کو قبول نہیں کیا اور ن لیگ کے ووٹرز کی اکثریت گھروں سے ہی نہیں نکلی۔ لاہور کے حلقوں میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ اس کی واضح مثال ہے۔
مسلم لیگ ن کی شکست کی تیسری بڑی وجہ ٹکٹ کی غیر منصفانہ تقسیم پر اہم افراد کا پارٹی چھوڑنا بھی ہے۔ مسلم لیگ ن کی شکست کی چوتھی بڑی وجہ اپریل میں عدم اعتماد کی صورت میں کی جانے والی تاریخی غلطی تھی، جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد کھوجانے والی تحریک انصاف کو دوبارہ سے سانسیں ملیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے بھرپور انداز میں عوام سے رابطہ کیا۔ وہ نیا بیانیہ دینے میں کامیاب ہوئے۔ یعنی تحریک انصاف کا بیانیہ بھی ن لیگ کی شکست کی بڑی وجہ بنا۔ چھٹی اور ایک اور اہم وجہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپنے ووٹرز کو نکالنا بھی ہے۔ کل سارا دن مختلف حلقوں میں مسلم لیگی کیمپس کی ویرانی سے ظاہر تھا کہ پنجاب میں ہوائیں بدل چکی ہیں۔
ان انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف ن لیگ سے زیادہ سیاسی دکھائی دی، جہاں اس نے ماضی کے بجائے اب کی بار اپنے ورکرز کی اکثریت کو ٹکٹس جاری کیے۔ وہیں انہوں نے الیکشن روایتی انداز کے بجائے سائنسی بنیادوں پر لڑا۔ لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس کےلیے خصوصی سیل قائم کیے۔ ورکرز کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچانے کےلیے میسیجز اور واٹس ایپ گروپس کے علاوہ پارٹی کارکنان کا سہارا بھی لیا۔ عام کارکنان سے لے کر مرکزی اور صوبائی قیادت پولنگ اسٹینشنز اور حلقوں میں موجود رہی۔ کارکنان سے براہ راست رابطہ کرکے ووٹنگ کےلیے انہیں تیار کیا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی اسی طریقہ کار کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، وزرا نے استعفے بھی دیے مگر بہت دیگر ہوچکی تھی۔
پنجاب میں اب ایک بار پھر دنگل سجے گا، منڈی لگے گی یا صرف وعدوں سے ہی بیوپار ہوگا؟ بظاہر تو پرویز الہیٰ کے وزیر اعلیٰ بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں مگر پنجاب میں شکست کا کلنک مٹانے کےلیے مسلم لیگ ن بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی۔ ان انتخابات سے اچھائی کے کئی پہلو بھی نکلے ہیں۔ یہ انتخابات پاکستانی تاریخ کے پہلے الیکشن تھے جنہیں شفاف قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ تاریخ میں پہلی بار ناکام ہونے والی سیاسی جماعت نے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح عوام نے الیکٹیبلز کی اکثریت کو مسترد کرکے مستقبل میں سیاسی جماعتوں کو بلیک میلنگ سے روکنے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ یعنی عوام ہی الیکٹیبلز کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کا ووٹر یقیناً مبارکباد کا مستحق ہے۔ مسلم لیگ ن نے پارٹی ٹکٹ کے حامل الیکٹیبلز کو ووٹ دینے سے انکار کرکے یقیناً بغاوت کی ابتدا کردی ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرنے والے اس بار تو عوام نے مسترد کردیے ہیں مگر کیا مستقبل میں ایسے افراد کا مستقل راستہ روکا جاسکتا ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں عوام کی جانب سے فراہم کردہ بنیاد پر جمہوریت کی ایک مضبوط عمارت کھڑی کریں، سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرنے والے اور اشاروں پر وفاداریاں بدلنے والے سیاستدانوں کا راستہ روکیں۔ تبھی ووٹ کو عزت ملے گی اور تبھی ہی جمہوریت کو استحکام میسر آئے گا۔
سید امجد حسین بخاری
بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
پیچھے نہ ہٹیں مارے جائیں گے: جاوید چوہدری
یہ 31 مارچ 2022ء کی بات ہے‘ پرویز خٹک نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کیا اور ان سے گلہ کیا ’’جنرل صاحب آپ نے ہمیں بالکل تنہا چھوڑ دیا‘‘ آرمی چیف پرویز خٹک کا بہت احترام کرتے ہیں‘ یہ وزیراعظم عمران خان کو ہمیشہ مشورہ دیتے تھے۔ ’’ آپ کے پاس صرف ایک ہی سیاست دان ہے اور وہ ہے پرویز خٹک‘آپ ان کی وجہ سے کے پی کے سے دوسری بار جیتے ہیں‘ آپ ان سے کام کیوں نہیں لیتے؟‘‘ لیکن عمران خان کا جواب ہوتا تھا ’’یہ میری بات نہیں مانتا‘‘ اس کے جواب میں آرمی چیف کا جواب ہوتا تھا۔
’’چیف کی حیثیت سے میرے پاس حتمی اختیارات ہیں‘ میں کسی بھی وقت کسی بھی تھری سٹار جنرل کو کھڑے کھڑے فارغ کر سکتا ہوں اور میرے فیصلے کے خلاف اپیل تک نہیں ہو سکتی لیکن میں اس کے باوجود اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرتا جب تک میرے تمام ساتھی متفق نہ ہو جائیں‘ مخالف رائے کو برداشت کرنا لیڈر کی بڑی کوالٹی ہوتی ہے‘ آپ بھی ساتھیوں کی رائے برداشت کیا کریں‘‘۔ مگر اس مشورے کے باوجود عمران خان نے پرویز خٹک سے اپنا فاصلہ کم نہیں کیا تاہم یہ عدم اعتماد سے قبل پرویز خٹک کی صلاحیتوں کو ماننے پر مجبور ہو گئے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
میں 31 مارچ کی طرف واپس آتا ہوں‘ پرویز خٹک نے گلہ کیا اور آرمی چیف نے جواب دیا ’’آپ حکم کریں‘ ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ پرویز خٹک نے آرمی چیف کو وزیراعظم ہاؤس آنے کی دعوت دے دی۔ آرمی چیف ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس پہنچے‘ ان کی وہاں پرویز خٹک‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سے ملاقات ہوئی اور ان تینوں نے وزیراعظم کے مشورے سے فوج کو ذمے دار ی سونپی آپ پی ڈی ایم سے بات کریں‘ یہ اگر عدم اعتماد واپس لے لیں تو ہم اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی طرف چلے جاتے ہیں‘ آرمی چیف نے پی ڈی ایم کی قیادت سے رابطہ کیا اور اسلام آباد کے بی میس میں ملاقات طے ہو گئی‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی دونوں اس میٹنگ میں موجود تھے۔
آرمی چیف نے پی ڈی ایم کو مشورہ دیا‘ آپ نے عمران خان کو گرا لیا ہے‘ آپ اب اس کے سینے پر چڑھ کر بھنگڑا نہ ڈالیں‘ حکومت آپ کو راستہ دے رہی ہے‘ آپ یہ آفرقبول کر لیں‘ آپ کی عزت میں اضافہ ہو گا‘ میاں شہباز شریف‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن خاموش رہے لیکن خالد مقبول صدیقی‘ خالد مگسی اور شاہ زین بگٹی نے انکار کر دیا‘ ایم کیو ایم کا کہنا تھاکراچی میں ہماری 14 سیٹیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں‘ ہمیں اپنی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کے لیے وقت چاہیے۔
خالد مگسی کا جواب تھا‘ میں بلوچستان کا بڑا زمین دار ہوں‘ ہزاروں ایکڑ کا مالک ہوں‘ مجھے اقتدار یا پیسہ نہیں چاہیے‘ عزت چاہیے اور عمران خان نے مجھے وہ نہیں دی‘ میں اس شخص کو عزت کے ساتھ نکلنے نہیں دوں گا جب کہ شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا‘ میں عمران خان کا معاون خصوصی تھا لیکن یہ میرا نام تک نہیں جانتا‘ یہ مجھے شیزان بگٹی کہتا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کی رائے ففٹی‘ ففٹی تھی جب کہ ن لیگ نئے الیکشن کی طرف جانا چاہتی تھی‘ پی ڈی ایم کا فیصلہ تھا، فیصلہ جو بھی ہوگا متفقہ ہو گا اور تمام اتحادی عدم اعتماد واپس لینے پر متفق نہ ہو سکے‘ یہ میٹنگ ساڑھے پانچ گھنٹے جاری رہی اور آخر میں بے نتیجہ رہی‘ اسٹیبلشمنٹ نے اس دن اپوزیشن کو فیس سیونگ دینے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش فیل ہو گئی‘ اپوزیشن نے وہ گولڈن چانس مس کر دیا اور یہ آج اس پر بری طرح پچھتا رہے ہیں۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو عمران خان نے 27 مارچ 2022 ء کو پریڈ گراؤنڈ جلسے میں جو امریکی مراسلہ لہرایا تھا، اس کی بیک گراؤنڈ بھی بتاتا چلوں‘ امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید7 مارچ کو الوداعی میٹنگ کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو سے ملاقات کے لیے گئے‘ میٹنگ لنچ پر ہوئی‘ سفیر نے ڈونلڈ لو سے گلہ کیا ’’میں اس افسوس کے ساتھ واپس جا رہا ہوں آپ نے صدر جوبائیڈن کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات نہیں کرائی‘‘۔
جواب میں ڈونلڈ لو نے عمران خان کی وہ ساری تقریریں‘ بیان اور ٹویٹس دہرا دیے جو انہوں نے امریکا کے خلاف جاری کیے تھے اور اس کے بعدکہا‘ آپ لوگ الیکشن کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی سپورٹ کرتے رہے لہٰذا میں کس منہ سے صدر سے فون کے لیے بات کرتا بہرحال پاکستان میں اگر عدم اعتماد کام یاب ہو جاتی ہے اور نیا وزیراعظم آ جاتا ہے تو میں کوشش کروں گا‘ سفیر اسد مجید نے ایمبیسی واپس آ کر ڈونلڈ لو سے اپنی ملاقات کا احوال لکھ کر بھجوا دیا۔
فارن سیکرٹری سہیل محمودنے پروسیجر کے مطابق مراسلہ وزیراعظم ہاؤس‘ آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو بھجوا دیا‘ مراسلہ جی ایچ کیو کے پراسیس سے ہوتا ہوا آرمی چیف تک پہنچ گیا‘11 مارچ کو کامرہ ائیربیس میں جے10سی لڑاکا طیاروں کی لانچنگ کی تقریب تھی‘ وزیراعظم عمران خان بھی اس میں مدعو تھے‘ آرمی چیف نے تقریب کے دوران مراسلہ عمران خان کو دکھایا اور ان سے کہا ’’سر میں آپ سے بار بار درخواست کر رہا تھا‘ آپ ہاتھ ہلکا رکھیں‘ سفارتی تعلقات نازک ہوتے ہیں‘ آپ اب یہ مراسلہ دیکھ لیں‘‘۔
عمران خان نے خط پر نظر دوڑائی‘ اسے تہہ کر کے جیب میں رکھا اور کہا ’’جنرل صاحب آپ اسے چھوڑیں‘ اس قسم کے خط آتے جاتے رہتے ہیں‘‘ وزیراعظم نے اس دن دیر میں جلسے سے خطاب کرنا تھا‘ یہ تقریب سے جلد جلسے کے لیے روانہ ہونا چاہتے تھے‘ آرمی چیف نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ’’سر آپ لیڈر ہیں‘ آپ وزیراعظم ہیں‘ آپ دوسرے لیڈروں کو برے ناموں سے نہ پکارا کریں‘ مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہنا زیادتی ہے‘آپ افہام وتفہیم کی بات کیا کریں‘‘۔
وزیراعظم نے ہاں میں سر ہلایا لیکن جلسے میں جا کر کہہ دیا ’’میری ابھی جنرل باجوہ سے بات ہورہی تھی‘ انہوں نے کہا فضل الرحمان کو ڈیزل نہ کہنا‘ میں تو نہیں کہہ رہا لیکن عوام نے اس کا نام ڈیزل رکھ دیا ہے‘‘ اور یہ سن کر اسٹیبلشمنٹ نے سر پکڑ لیا‘ عمران خان نے 27مارچ کو بعد ازاںپریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں وہی خط لہرا دیا جس کی کاپی آرمی چیف نے انہیں صرف سمجھانے کے لیے دی تھی اور یہاں سے سازشی بیانیے کا شور شروع ہو گیا۔
میں واپس آتا ہوں‘ پی ڈی ایم کے پاس 31 مارچ کی رات گولڈن چانس تھا یہ دلدل میں گرنے سے بچ سکتی تھی لیکن یہ لوگ اقتدار کے لالچ اور خوش فہمیوںکے سیلاب میں بہہ گئے‘ ان کا خیال تھا یہ ملک کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بحری جہاز بنا دیں گے مگر آنے والے وقت نے ان کے تمام اندازے اور خوش فہمیاں کھول کر رکھ دیں‘ یہ ہر دن بے عزت اور عمران خان مضبوط ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ حکومت آج صرف وفاق تک محدود ہو چکی ہے‘ یہ لوگ پنجاب جیسے پانی پت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
میاں نواز شریف نے اس دوران پی ڈی ایم کو دلدل سے نکالنے کی کوشش کی‘ لندن میں 11 مئی کو پارٹی میٹنگ ہوئی اور فیصلہ ہو گیا میاں شہباز شریف 19 مئی کو وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے مگر یہ اسمبلی نہیں توڑیں گے اور اتحادی اگر کسی اور کو وزیراعظم منتخب کرنا چاہیں تو انہیں موقع دیا جائے گا‘ وزیراعظم کی الوداعی تقریر بھی تحریر ہو گئی لیکن عمران خان نے عین وقت پر 25 مئی کے لانگ مارچ کی کال دے کر بازی پلٹ دی اور میاں نواز شریف نے حکومت جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اس فیصلے کے باوجود حکومت تگڑی نہ ہو سکی‘ یہ حکومت نہ بن سکی‘ حکومت نے عمران خان کو گرفتار کیا‘ بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمہ بنایا‘ یہ فرح گوگی اور احسن جمیل کو بیرون ملک سے لا سکی
شہزاد اکبر کے خلاف 50 ارب روپے کا کیس بنا سکی‘ پنجاب کا ضمنی الیکشن جیت سکی اور نہ یہ سپریم کورٹ میں اپنا کیس جیت سکی‘ یہ حکومت کی خوف ناک سیاسی شکستیں تھیں‘ دوسری طرف رہی سہی کسر مفتاح اسماعیل نے پوری کر دی‘ ان کی پالیسیاں‘ تقریریں اور وعدے ن لیگ کے لیے تابوت بنتے چلے گئے‘حکومت سے کوئی پوچھے وہ شخص جو کراچی میں اپنی سیٹ نہ نکال سکا‘ جس نے 2017ء میں بھی معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا اور جس نے سندھ میں پارٹی کو دفن کر دیا تھا‘آپ کو اس میں نہ جانے کیا خوبی نظر آئی آپ نے اسے وزارت خزانہ کا قلم دان سونپ دیا اور اس نے وہ کام کر دکھایا جو عمران خان ساڑھے تین سال میں نہیں کر سکا۔
میاں نواز شریف اب ایک بار پھر حکومت چھوڑنے اور نئے الیکشن کی طرف جانے کا سوچ رہے ہیں لیکن میرا خیال ہے یہ اب پچھلی غلطیوں سے بھی بڑی غلطی ہو گی‘ پارٹی نانی کا نکاح کر چکی ہے‘ یہ اب اسے نبھانے کی کوشش کرے‘ حکومت تگڑی ہو‘ یہ جھوٹ کے بازار میں مزید نفیس بننے کی غلطی نہ کرے‘ یہ بولڈ سیاسی اور معاشی فیصلے کرے شاید یہ اس سے بچ جائے لیکن یہ اگر پیچھے ہٹی تو یہ بری طرح ماری جائے گی‘ یہ پھر بچ نہیں سکے گی اور جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے یہ طویل عرصے بعد پہلی مرتبہ مکمل نیوٹرل ہوئی ہے‘ یہ دونوں کو ’’لیول پلے انگ فیلڈ‘‘ دے رہی ہے‘ اس نے خود کو سیاسی جوڑ توڑ سے مکمل الگ کر لیا ہے‘ حکومت کو اب اس نیوٹریلٹی کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ اسے فوج کو دوبارہ سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے‘ یہ ملک‘ فوج اور حکومت تینوں کے لیے مفید ہو گا ورنہ مکمل تباہی ہے۔
بس یہ حکومت بھی گئی: جاوید چوہدری
ایم کیو ایم (قدیم) کے زمانے میں پارٹی کے قائد الطاف حسین ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح لندن میں ہوتے تھے اور پارٹی پاکستان میں‘ قائد محترم لندن سے خطاب فرمایا کرتے تھے اور پارٹی قائدین‘ سینیٹرز‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز سمیت پورا ملک اس لائیو خطاب سے لطف اندوز ہوتا تھا اور ان میں سے جو بھی شخص حکم عدولی کرتا تھا وہ سیکٹر کمانڈر کی درگت کا نشانہ بنتا تھا۔
پارٹی کی انتہائی سینئر اور قابل احترام قیادت تک اس عظیم مرمت کا نشانہ بنی‘ میڈیا میں سے بھی کسی چینل میں الطاف حسین کی تقریر نہ دکھانے کی ہمت نہیں تھی لہٰذا وہ تماشا لائیو پوری قوم کو دکھایا اور سنایا جاتا تھا اور جو چینل انکار کرتا تھا یا درمیان میں اشتہار چلانے کی غلطی کر بیٹھتا تھا اس کے دفتر پر حملہ ہو جاتا تھا‘ پارٹی نے کس کے ساتھ اتحاد بنانا ہے اور کب اس اتحاد سے نکلنا ہے۔
کب سڑکیں اور شہر بند کرنا ہے یہ فیصلہ بھی الطاف حسین کرتے تھے اور کسی کو دم مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی‘ قائد اپنے سینئر وزراء‘ رابطہ کمیٹی کے ارکان اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو اکثر لندن بلا لیتے تھے۔
یہ لوگ جھک کر قائد کو ملتے تھے‘ قائد ان کے کندھے پر تھپکی دیتا تھا‘ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتا تھا اور پھر انھیں فرش پر بٹھا دیتا تھا اور پھر یہ تصویریں میڈیا کو ریلیز کر دی جاتی تھیں‘ قائد اپنے ایم این ایز کو اشارہ کرتا تھا اور یہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کھڑے ہو کر پورے شریف خاندان کو گالیاں دے دیتے تھے‘ یہ سلسلہ اگست 2016 تک ایم کیو ایم (قدیم)کے ایم کیو ایم پاکستان بننے تک جاری رہا یہاں تک کہ الطاف حسین پر پابندی لگ گئی اور پارٹی تین چار گروپوں میں تقسیم ہو کر ’’نفیس‘‘ ہو گئی۔
آپ اب اس صورت حال کو میاں نواز شریف اور ن لیگ کے ساتھ کمپیئر کر کے دیکھیں‘ پارٹی کے تاحیات قائد نے 10 مئی کو اپنے وزیراعظم اور سینئر وزراء کو لندن طلب کیا اور یہ تمام لوگ بارہ گھنٹے کے نوٹس پر لندن حاضر ہو گئے۔
وزیراعظم جھک کر قائد سے ملے‘ قائد نے اپنے وزیراعظم کو تھپکی دی اور تصاویر میڈیا کو ریلیز کر دی گئیں‘ یہ یقینا چھوٹے بھائی کا بڑے بھائی سے محبت کا اظہار ہو گا لیکن اس محبت کو میڈیا میں ریلیز کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ روپیہ اور اسٹاک ایکسچینج ’’فری فار آل‘‘ تھی‘ روپیہ روزانہ تین روپے گر رہا تھا‘ اسٹاک ایکس چینج تین دن میں اڑھائی ہزار پوائنٹس نیچے آگئی۔
ملک میں ’’حکومت جا رہی ہے‘‘ جیسی سنسنی پھیل گئی‘ آصف علی زرداری پریس کانفرنس پر مجبور ہو گئے‘ اتحادیوں نے ایک دوسرے سے کانا پھوسی شروع کر دی‘ سفارت کار حیرانی سے دائیں بائیں دیکھنے لگے اور پارٹی گھبراہٹ میں میڈیا سے غائب ہو گئی لیکن لندن میں تین دن تک میٹنگز پر میٹنگز چلتی رہیں اور ہر میٹنگ سے پہلے سینئر ترین قائدین سے حلف لیا جا رہا تھا۔
اس ایکسرسائز کا مقصد کیا تھا؟ شاید میاں نواز شریف عوام‘ اتحادیوں‘ پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے طاقت کا اصل سرچشمہ میں ہوں‘ حکومت‘ اتحاد اور پارلیمنٹ کا فیصلہ پی ڈی ایم یا شہباز شریف نے نہیں کرنا میں نے کرنا ہے اور قائد کی اس سیاسی لذت میں معیشت کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو گیا‘ سوال یہ ہے یہ کام جب الطاف حسین کرتے تھے تو ن لیگ ایم کیو ایم کا مذاق اڑاتی تھی اور آج اگر یہ لوگ اس ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی بنا رہے ہیں۔
قائد لندن میں بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلانا چاہتے ہیں تو کیا ن لیگ کو اس عظیم کارنامے پر مبارک باد پیش کرنی چاہیے؟ ملک میں اس وقت عملاً دو وزیراعظم‘ دو وزیرخزانہ ‘دو وزراء اعلیٰ اور دو صدور ہیں‘ میاں شہباز شریف وزیراعظم ہیں لیکن پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے سے لے کر وزارتیں دینے اور واپس لینے تک کے فیصلے میاں نوازشریف لندن سے کر رہے ہیں۔
مفتاح اسماعیل وزیرخزانہ ہیں لیکن فیصلہ سازی اسحاق ڈار کے ہاتھ میں ہے‘ حمزہ شہباز 12 کروڑ لوگوں کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن پی کے ایل آئی اور مری کے حالات سے لے کر افسروں کے تبادلے تک تمام فیصلے میاں شہباز شریف کر رہے ہیں اور عارف علوی صدر ہیں لیکن صدارتی اختیارات عمران خان استعمال کر رہے ہیں‘ اس صورت حال میں صرف دو عہدے بچے ہیں‘ آرمی چیف اور چیف جسٹس اگر خدانخواستہ یہ بھی اسی صورت حال کا شکار ہو گئے تو ملک کا کیا بنے گا؟۔
یہ صورت حال مزید کتنا عرصہ چل سکے گی؟ میرا خیال ہے یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی‘ حکومت کسی بھی وقت ختم ہو جائے گی‘ کیوں؟ اس کے چھ بڑے اشارے ہیں‘ پہلا اشارہ ‘یہ سسٹم اگر چل سکتا تو میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار واپس آ چکے ہوتے‘ یہ اگر نہیں آ رہے تو اس کا مطلب ہے ن لیگ نے اسمبلیاں توڑنے اور نئے الیکشن میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
دوسرا اشارہ ‘پنجاب میں حکومت بنے 17 دن ہو چکے ہیں لیکن سب سے بڑا صوبہ ابھی تک کابینہ کے بغیر چل رہا ہے‘ یہ حقیقت بھی بول رہی ہے صوبائی کابینہ کے معاملے پر ڈیڈ لاک موجود ہے اور یہ ڈیڈ لاک حکومت کو جلد فارغ کر دے گا‘ تیسرا اشارہ ‘عمران خان اپنی تقریروں سے ملک کو تنور میں جھونک رہے ہیں‘ ہم سب تیزی سے سیاسی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن کوئی عمران خان کو روک نہیں رہا‘ کیوں؟ کیوں کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کی طرف مگر کوئی بھی یہ ڈھول اپنے گلے میں باندھنے کے لیے تیار نہیں‘ میاں نواز شریف نے عمران خان کی ذمے داری اپنے سر لینے سے انکار کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے یہ جن کی تخلیق ہے وہ جانے اور یہ جانے‘ ’’ریچھ جانے اور قلندر جانے‘‘ ہمیں اس سے الجھنے کی کیا ضرورت ہے لہٰذا اگر حکومت کا چلنے کا ارادہ ہوتا تو پی ٹی آئی کے لیے اکیلا رانا ثناء اللہ ہی کافی تھا مگر یہ لوگ گالیاں کھا کر بھی خاموش بیٹھے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ اس کارخیر کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے حکومت یہ ہیں لہٰذا عمران خان ان کی ذمے داری ہیں‘ حکومت کو چلانا ہماری ڈیوٹی نہیں‘ چوتھا اشارہ‘ یہ تاثر ن لیگ کے اندر بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ’’ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔
ہم سازش کا شکار ہو گئے ہیں‘‘ یہ لوگ اب کھلے عام کہہ رہے ہیں ہم پر پہلے کیس بنا کر ہمیں بدنام کیا گیا اور اب ہماری سیاسی ساکھ کا جنازہ بھی نکال دیا گیا‘ عمران خان حکومت جب مکمل طور پر ناکام ہو گئی تو اسے نکال کر ہیرو بنا دیا گیا اور پھر ہمارا سر چٹان کے نیچے دے دیا گیا‘ یہ لوگ ان تین ٹیلی ویژن چینلز کا نام بھی لیتے ہیں جو دن رات عمران خان کو کوریج دے رہے ہیں‘ ان کا کہنا ہے یہ چینل ریاست کے زیر اثر ہیں۔
ریاست انھیں کیوں نہیں روک رہی؟ یہ پی ٹی آئی کے ان ایم این ایز کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو ریاست کے امیدوار ہیں‘ یہ لوگ آج بھی پی ٹی آئی میں کیوں ہیں اور یہ عمران خان کے ایجنڈے کا جھنڈا اٹھا کر کیوں پھر رہے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں عمران خان کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور دس سیاسی جماعتوں کی قبر کھودی جا رہی ہے‘ پانچواں اشارہ‘ پاکستان روزانہ چار لاکھ 32 ہزار بیرل پٹرول خرچ کرتا ہے۔
ہم ملک میں صرف 70 ہزار بیرل پٹرول پیدا کرتے ہیں لہٰذا ہمیں روزانہ 3 لاکھ 62 ہزار 985 بیرل پٹرول امپورٹ کرنا پڑتا ہے‘ اس کی ویلیو روزانہ 39 ملین ڈالر بنتی ہے‘ ہم اگر 39 ملین ڈالر کو 30 سے ضرب دیں تو یہ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر بنتے ہیں جب کہ گیس اور باقی امپورٹس اس کے علاوہ ہیں اور دوسری طرف ہمارے پاس ڈالر تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور دوست ممالک اور آئی ایم ایف ہمیں امداد دینے کے لیے تیار نہیں ہیں چناں چہ ہم اگر فوری فیصلے نہیں کرتے تو ہم ڈیڑھ ماہ بعد پٹرول امپورٹ نہیں کر سکیں گے اور یوں بجلی بھی بند ہو جائے گی‘ ٹرانسپورٹ بھی رک جائے گی۔
گاڑیاں بھی نہیں چلیں گی اور فلائیٹس بھی معطل ہو جائیں گی‘ ہمارے پاس بچنے کا ایک ہی حل ہے‘ ہم پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں لیکن ن لیگ اس غیرمقبول فیصلے کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں‘ یہ چاہتی ہے یہ فیصلے تمام اتحادی مل کر کریں‘ اکٹھی پریس کانفرنس میں کریں اور چھٹا اور آخری اشارہ‘ اتحادی وزارتوں کو انجوائے کر رہے ہیں لیکن یہ حکومت کو ڈیفنڈ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ن لیگ خود کو کلوژیم میں بھوکے شیروں کے درمیان اکیلا محسوس کر رہی ہے لہٰذا میاں نواز شریف نے حکومت کے خاتمے اور نئے الیکشن کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے یہ سسٹم ایک دو ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکے گا‘ یہ لوگ عبوری حکومت بنا کر مشکل فیصلے اس کے کندھوں پر ڈال دیں گے اور اگر اسٹیبلشمنٹ یہ حکومت رکھنا چاہتی ہے تو پھر اسے کھل کر حکومت کا ساتھ دینا ہوگا‘ عمران خان کی ذمے داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھانا ہو گی اور اتحادیوں کو وزیراعظم کے ساتھ بٹھا کر کڑوے فیصلوں کے کڑوے گھونٹ بھی بھرنا ہوں گے ورنہ یہ حکومت گئی اور اس کے بعد ہم سری لنکا ہوں گے۔
’’صدر ایوب! ہمیں چین کی جاسوسی کرنے دیں‘‘
سید عاصم محمود

شام کا وقت ہے۔ دریائے پوٹومیک سے آنے والی ٹھنڈی ہوا دل و دماغ کو طراوت بخش رہی ہے۔ آج امریکا کے پہلے صدر، جارج واشنگٹن کی رہائش گاہ ’’ماؤنٹ ورنون‘‘ پر بہت چہل پہل ہے۔ اس رہائش گاہ کو حال ہی میں ’’قومی یادگار‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ دراصل آج رات ماؤنٹ ورنون میں مہمان پاکستانی صدر، ایوب خان کے اعزاز میں سرکاری عشائیے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
یہ امریکا کی تاریخ میں پہلا اور آخری موقع تھا کہ بانی صدر جارج واشنگٹن کی رہائش گاہ پر عشائیے کا اہتمام ہوا۔ یہ خوبصورت اور شاندار قومی یادگار امریکی ریاست ورجینیا کی فیئرفیکس کاؤنٹی میں واقع ہے۔
صدرایوب خان کے میزبان امریکی صدر، جان ایف کینیڈی تھے جنھوں نے محض چھ ماہ قبل حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ تاہم ان کے اقتدار کا آغاز کچھ اچھا نہیں ہوا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے معاصر ملک،کیوبا پر حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ مگر وہ بری طرح سے ناکامی کا شکار ہوا۔ پھر ویانا، آسٹریا میں سوویت وزیراعظم، نکتیا خروشیف کے ساتھ نوجوان امریکی صدر کی ملاقات بھی سودمند ثابت نہ ہوئی۔
صدر کینیڈی پر یہ شدید دباؤ
ان ناکامیوں کے باعث صدر کینیڈی پر یہ شدید دباؤ تھا کہ وہ کوئی نمایاں کارنامہ کر دکھائے۔ آخر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے صدر نے امریکا کا دورہ کیا، تو صدر کینیڈی کو اپنے جوہر دکھانے کا سنہرا موقع مل گیا۔
صدر ایوب خان 11 جولائی 1961ء کو امریکا پہنچے۔ اسی دن بروز منگل ماؤنٹ ورنون میں پاکستانی مہمانوں کے لیے زبردست عشائیے کا بندوبست کیا گیا۔ اس موقع پر امریکی صدر اپنے پاکستانی معاصر سے ایک اہم مطالبہ منوانا چاہتے تھے۔ صدرایوب خان کو ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیہ دینے کا خیال امریکی صدر کی حسین و جمیل بیگم، جیکولین کینیڈی کو آیا۔ دراصل ایک ماہ قبل ہی وہ آسٹریا کے دورے پر شون برون محل (Schönbrunn Palace)میں دیے گئے سرکاری عشائیے میں شریک ہوئی تھیں۔
یہ شاہی محل آسٹریا کے سابق ہپسابرگ بادشاہوں کی رہائش گاہ تھا جو سترہویں صدی میں تعمیر ہوا۔ شاہی محل کی شان و شوکت اور چکاچوند نے امریکی خاتون اوّل کو ازحد متاثر کیا۔ایک ہفتے بعد امریکی جوڑا فرانس پہنچا۔ وہاں بھی فرانسیسیوں نے ورسائے کے عظیم الشان محل میں امریکی جوڑے کو دعوت عشائیہ دی۔ فرانسیسی شاہی محل کے تزک و احتشام نے بھی خاتون اول پر گہرا تاثر چھوڑا۔
امریکا میں کوئی شاہی محل یا اسی قسم کی پرشکوہ عمارت نہیں تھی، تاہم جیکولین کینیڈی کی نظریں پہلے امریکی صدر کے خوبصورت مینشن پر جا ٹکیں۔ دریائے پوٹومیک کے کنارے واقع یہ وسیع و عریض مینشن امریکی قصرصدارت ،وائٹ ہاؤس سے چند میل دور ہے۔ خاتون اوّل کو محسوس ہو گیا کہ اس تاریخی رہائش گاہ کی شاندار تاریخ اور دریا کا ساتھ شام کے وقت کا ماحول پاکستانی و مقامی مہمانوں پر سحر طاری کر دے گا۔
پاکستانی مہمانوں کے لیے خاص اہتمام
جیکولین کینیڈی نے پھرجون1961ء میں ماؤنٹ ورنون کا دورہ کیا۔ وہ قرب و جوار کا مشاہدہ کر کے جاننا چاہتی تھیں کہ کیا وہاں سرکاری عشائیے کی اہم تقریب منعقد ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے رہائش گاہ کے منتظم سے بھی مشورہ کیا۔ منتظم نے انھیں بتایا کہ اسی تجویز پر عمل درآمد کے لیے کئی چیلنجوں سے عہدہ براں ہونا پڑے گا۔ دراصل مینشن اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس کے اندر سرکاری عشائیے جیسی بڑی تقریب منعقد ہو سکے۔ لہٰذا نشستوں کا اہتمام برآمدے میں کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پھر اس زمانے میں ماؤنٹ ورنون میں بجلی نہیں تھی۔ نیز اس کا سامان بھی قدیم نوعیت کا تھا۔
اس میں جدید سہولیات سے لیس باورچی خانہ تھا اور نہ ریفریجریٹر! چناںچہ فیصلہ ہوا کہ کھانا وائٹ ہاؤس میں تیار کرا کے یہاں لایا جائے۔ وائٹ ہاؤس کے ملازمین ہی کو مہمان نوازی بھی کرنا تھی۔غرض ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیے کی تقریب منعقد کرنے کی خاطر بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے۔ چونکہ امریکی خاتون اوّل کی یہی خواہش تھی لہٰذا منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں اور بحریہ کے دستوں نے علاقوں کی سکیورٹی سنبھال لی۔ جبکہ فورٹ مائرز سے امریکی بری فوج کا ایک دستہ بھی ماؤنٹ ورنون آ پہنچا۔ اس دستے نے فوجی بینڈ بجا کر مہمانان گرامی کا شاندار استقبال کرنا تھا۔
امریکی خاتون اوّل نے نیشنل سیمفونی آرکسٹرا کو بھی سرکاری عشائیے کے لیے بلوایا۔ کھانے کے بعدارکان آرکسٹرا نے اپنے کمالات سے پاکستانی مہمانوں کو محظوظ کرنا تھا۔ نیز برآمدے میں پنڈال بنانے کے لیے آرائش وزیبائش کرنے والی مشہور کمپنی، ٹفنی اینڈ کمپنی(Tiffany’s) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے پھولوں اور دیگر آرائشی اشیا کی مدد سے نہایت خوبصورت پنڈال تیار کیا جہاں بیٹھ کر سبھی نے کھانا کھایا۔
تاریخی تقریب
مہمان کشتیوں کے چھوٹے سے جلوس کی صورت ماؤنٹ ورنون پہنچے۔ سب سے آگے صدارتی کشتی ’’ہنی فٹنر‘‘ خراماںخراماں تیر رہی تھی۔ اس کے بعد امریکی بحریہ کے وزیر (سیکرٹری) کی کشتی تھی۔ کشتیوں کا یہ قافلہ واشنگٹن میں واقع بندرگاہ سے روانہ ہوا۔ دریائے پوٹومیک میں سفر کرتا پندرہ میل طے کر کے ماؤنٹ ورنون پہنچا۔
مہمانوں میں جو نوجوان تھے، وہ کشتیوں سے اتر کر پیدل ہی ماؤنٹ ورنون کی سمت چل پڑے۔ ان میں سب سے نمایاں امریکی صدر کے چھوٹے بھائی اور اٹارنی جنرل، رابرٹ کینیڈی تھے۔ پاکستانی صدر ،ان کی دختر اور میزبان لیموزین میں بیٹھ کر اپنی منزل تک پہنچے۔مہمانوں کی فہرست میں سب سے اوپر صدر مملکت پاکستان اور ان کی دختر، بیگم نثار اختر اورنگ زیب کا نام تھا۔ دیگر مہمانوںمیں پاکستانی وزیرخارجہ، وزیرخزانہ اور تب امریکا میں پاکستانی سفیر، عزیز احمد شامل تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عزیز احمد نے جب یہ سنا کہ سرکاری عشائیہ وائٹ ہاؤس نہیں ماؤنٹ ورنون میں ہو رہا ہے، تو وہ کچھ پریشان ہو گئے۔ انھیں محسوس ہوا جیسے امریکی پاکستانی مہمانوں کو کمتر سمجھ رہے ہیں۔ لیکن امریکیوں نے انھیں سمجھایا کہ پاکستانی مہمانوں کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون میں عشائیہ دینا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقتاً یہ تقریب تاریخی درجہ حاصل کر لے گی۔ جب بات پاکستانی سفیر سمجھ گئے، تو ان کی جان میں جان آئی۔
واشنگٹن کی ’’کریم‘‘
اس سرکاری عشائیے میں نئی امریکی حکومت کے سبھی نمایاں اور درخشندہ ستارے شریک ہوئے۔ صدر، نائب صدر اور اٹارنی جنرل تو بیگمات کے ساتھ آئے ہی، سیکرٹری خارجہ، ڈین رسک، سیکرٹری دفاع، رابرٹ میکنامارا اور سیکرٹری بحریہ، جان کونلے بھی اپنی بیویوں کے ساتھ آئے۔
امریکی افواج کے کمانڈر، چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل لیمن لمنتز بھی بیگم کے ساتھ عشائیے میں تشریف لائے۔ غرض یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستانی مہمانوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں واشنگٹن کی ’’کریم‘‘ جمع ہو گئی۔وہاں امریکی حکمران طبقے کا ہر اہم رکن موجود تھا۔
اس تقریب میں سب سے زیادہ پرجوش ہستی سی آئی اے کے ڈائریکٹر، ایلن ڈیولاس کی تھی۔ وہ کینیڈی خاندان کے پرانے واقف کار تھے۔ اسی لیے صدر کینیڈی برسراقتدار آئے، تو انھوں نے ایلن کو بدستور ڈائریکٹر سی آئی اے بنائے رکھا، حالانکہ ان کی تقرری سابقہ ریپبلکن صدر نے کی تھی۔
یہ ایلن ڈیولاس ہی ہیں جنھوں نے کیوبا پر ناکام حملے (بے آف پگ معاملے) کی منصوبہ بندی انجام دی تھی۔ یہ پلان کامیاب نہ ہو سکا تاہم امریکی صدر اب بھی اپنے ڈائریکٹر پر اعتماد کرتے تھے۔ اسی لیے پاکستان سمیت دیگر بیرون ممالک میں جاری سی آئی اے کے خفیہ آپریشن بدستور اپنا کام کرتے رہے۔ پاکستان میں جاری امریکی خفیہ ایجنسی کے خفیہ آپریشنوں کو صدرایوب خان کی منظوری حاصل تھی۔
دو خفیہ اور اہم آپریشن
کھانے کا وقت رات آٹھ بجے تھا۔ اس سے قبل مہمانان گرامی نے پہلے امریکی صدر کے مینشن کا دورہ کیا۔ اس دوران مہمان مالٹے اور دیگر پھلوں کے رس سے لطف اندوز ہوئے۔ دونوں صدور موقع کی مناسب سے رسمی لباس میں ملبوس تھے۔ جب یہ مرحلہ ختم ہوا، تو صدر کینیڈی نے پاکستانی صدر کو ساتھ لیا اور دونوں تنہا باغ میں چہل قدمی کرنے لگے۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکی صدر نے اپنا مطالبہ ایوب خان کے سامنے پیش کیا۔
اس زمانے میں سی آئی اے نے پاکستان میں دو نہایت خفیہ اور اہم آپریشن شروع کر رکھے تھے۔ ایک آپریشن تو سال بھر پہلے ہی طشت ازبام ہو گیا جب سوویت یونین نے امریکا کا یوٹو طیارہ مار گرایا۔ یہ طیارہ سوویت یونین کی جاسوسی کر رہا تھا۔ اس کو پشاور میں پاک فضائیہ کی ائیربیس،بڈھ بیر سے اڑایا جاتا تھا۔ اس خفیہ منصوبے کا نام ’’آپریشن گرینڈ سلام‘‘ تھا۔
یوٹو طیارہ گرانے کے کچھ عرصے بعد پیرس میں امریکی صدر آئزن ہاور اور سوویت وزیراعظم خروشیف کے مابین ملاقات ہوئی۔ سوویت لیڈر یوٹو طیارہ سے جاسوسی کرانے پر امریکی صدر سے معذرت چاہتے تھے۔ جب آئزن ہاور نے انکار کیا، تو بدمزگی پیدا ہو گئی اور ملاقات کا انجام اچھا نہیں ہوا۔
اس واقعے کے بعد سی آئی اے نے سوویت یونین کی فضاؤں میں پاکستان سے بھیجے گئے یوٹو طیارے بھجوانے بند کر دیے، تاہم پاکستانی سرزمین پہ ایک اور خفیہ آپریشن جاری رہا۔ یہ آپریشن بھی سابقہ امریکی صدر، آئزن ہاور کے زمانے میں شروع ہوا اور اب تک انجام پا رہا تھا۔ اس کے ذریعے چین کے خلاف سرگرمیاں جاری تھیں۔
چین تبت کو اپنا حصہ سمجھتا تھا۔اس لیے 1951ء میں کمیونسٹ چین نے تبت پہ قبضہ کر لیا۔تاہم تبتی اپنے ملک کو آزاد و خودمختار مانتے تھے۔وہ چین کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے لگے۔ امریکا ان تبتیوں کا حامی تھا۔ چناںچہ مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ کے قریب ایک ہوائی اڈے سے امریکی ان تبتیوں کو اسلحہ اور دیگر ضروری سامان بذریعہ ہوائی جہاز بھجوانے لگے۔
بعدازاں سی آئی اے امریکی ریاست کولوریڈو میں تبتیوں کو چھاپہ مار جنگ کی تربیت دینے لگی۔ یہ تبتی گوریلے بھی مشرقی پاکستان کے راستے ہی بذریعہ ہوائی جہاز تبت میں اتارے جاتے۔کچھ عرصے بعد سی آئی اے نے یوٹو طیارے بھی پاکستانی ائیربیس پر پہنچا دیے۔ یہ طیارے پھر چین کی فضاؤں میں اڑ کر مختلف عسکری مقامات کی تصاویر لینے لگے۔
امریکی حکومت کی مدد
سی آئی اے کے اس آپریشن کو بھی صدر ایوب خان کی منظوری حاصل تھی۔ دراصل تب پاکستانی سوویت یونین اور چین، دونوں کو بھارت کا دوست سمجھتے تھے۔ دشمن کا دوست بھی مخالف ہوتا ہے کہ مصداق پاکستانی حکومت دونوں ممالک کو اپنا حریف تصور کرتی تھی۔ پھر وہ ان کے کمیونسٹ نظریات سے بھی متفق نہ تھی۔اِدھر امریکا پچھلے دس سال سے پاکستان کو بھاری مالی وعسکری امداد دے رہا تھا۔
اس مالی تعاون سے کئی اہم نوعیت کے سرکاری منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے۔1954ء میں سیبر طیارے دئیے جن کی وجہ سے پاک فضائیہ طاقتور ہو گئی۔1960ء میں امریکا کی بھاگ دوڑ کے باعث سند ھ طاس معاہدہ انجام پایا جس سے پانی کا مسئلہ طے ہوا۔ غرض اس زمانے میں امریکی حکومت کئی لحاظ سے پاکستان کی مالی ،عسکری و معاشی مدد کر رہی تھی۔چناں چہ پاکستانی حکومت نے بھی ضروری سمجھا کہ کمیونسٹ ممالک کے خلاف امریکی مہمات میں اس کا ساتھ دیا جائے۔
مشرقی پاکستان میں چینیوں کی جاسوسی کا خفیہ مشن جاری تھا کہ ایک رکاوٹ آڑے آ گئی۔جب جنوری 1961ء میں صدر کینیڈی برسراقتدار آئے، تو انھوں نے بھارتیوں کی خوشنودی کے لیے اعلان کیا کہ بھارت کو نصف ارب ڈالر کی معاشی مدد دی جائے گی۔ اس اعلان نے صدر پاکستان، ایوب خان کو برافروختہ کر دیا۔ وہ جنوبی ایشیا میں بھارت نہیں پاکستان کو امریکا کا قریب ترین اتحادی سمجھتے تھے۔ اسی لیے ناراض ہو کر انھوں نے ڈھاکہ ائیربیس سے امریکی طیاروںکے اڑنے پر پابندی لگا دی۔ یہ دو ماہ پہلے کا واقعہ تھا۔
تنہائی میں ملاقات کریں
آج کے برعکس اس زمانے میں پاکستان سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے اہم ملک سمجھا جاتا تھا۔ نیز صدر ایوب خان خارجہ امور میں آزادی سے فیصلے کرتے تھے کیونکہ پاکستان معاشی طور پہ خاصا مضبوط تھا۔اس نے عالمی و مقامی مالی اداروں کے قرض نہیں دینے تھے جن میں سے بیشتر امریکی وبرطانوی بینکار چلاتے ہیں۔ لہٰذا امریکی جہازوں کی اڑان پر پابندی لگا کر انھوں نے اپنی ناراضی ظاہر کر دی۔ وہ صدر کینیڈی کی بھارت نوازی پر خوش نہیں تھے۔
تاہم پاکستانی صدر نے یہ ضرور خیال رکھا کہ دونوں مملکتوں کے مابین شکر رنجی پس پردہ ہی رہے اور عوام کے سامنے نہیں آنے پائے۔ بس وہ امریکیوں کو بتانا چاہتے تھے کہ بھارت کی طرف ان کا جھکاؤ پاکستان کو پسند نہیں آیا اور یہ منفی عوامل کا حامل بھی ہے۔
جب یہ طے پا گیا کہ پاکستانی صدر کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون پر سرکاری عشائیہ ہوگا، تو سی آئی اے کے ڈائریکٹر، ایلن ڈیولاس اپنے صدر سے ملے۔ انھوں نے صدر کینیڈی کو مشورہ دیا کہ وہ ایوب خان سے تنہائی میں ملاقات کریں اور تب اپنی مانگیں سامنے رکھیں۔ مسٹرایلن کو یقین تھا کہ صدرکینیڈی اپنی پُرکشش شخصیت اور رومانوی ماحول کے بل بوتے پر پاکستانی حکمران سے اپنا مطالبہ منوا لیں گے۔ ان کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔
صدرکینیڈی چاہتے تھے کہ ایوب خان امریکی طیاروں کی اڑان پر لگائی پابندی واپس لے لیں ۔ پاکستانی صدر نے کچھ مزاحمت کرنے کے بعد میزبان کی بات مان لی۔ یوں چین کے خلاف جاری امریکی سرگرمیوں میں پاکستان پھر اس کا اتحادی بن گیا۔ یہی وجہ تھی کوہ اس زمانے میں چینی حکومت پاکستان کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔
اپنی یہ بات منوا لی
تاہم ایک تجربے کار لیڈر ہونے کے باعث صدر ایوب خان نے مفت میں امریکی صدر کا مطالبہ قبول نہیں کیا… انھوں نے بھی اپنی یہ بات منوا لی کہ مستقبل میں کبھی امریکا نے بھارت کو اسلحہ فروخت کیا، تو وہ پہلے پاکستان سے ضرور مشورہ کرے گا۔ افسوس کہ بظاہر خود کو سچا اور مخلص کہنے والے امریکی حکمران اس وعدے پر پورے نہیں اترے۔ جب اگلے سال چین اوربھارت کی جنگ ہوئی، تو صدرکینیڈی نے ایوب خان سے کیا گیا اپنا عہد توڑا اور بالابالا بھارتیوں کو اسلحہ بھجوا دیا۔ امریکیوں کی اس بدعہدی نے ایوب خان کو بہت مایوس کر ڈالا۔
لیکن ابھی ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیہ آب و تاب سے جاری تھا۔ مقررہ وقت پاکستانی مہمان گرامی کی خدمت میں چکن کا خصوصی فرانسیسی سالن ’’پولٹ چاسر‘‘ (Poulet Chasseur) چاولوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ پھلوں کے رس تھے۔ میٹھے کے طور پر کریم میں ڈوبی رس بھریاں کھائی گئیں۔
کمیونسٹوں کے جال میں
صدرکینیڈی جس میز پر براجمان ہوئے وہاں سفید ساڑھی میں ملبوس بیگم اورنگ زیب بھی بیٹھی تھیں۔ جبکہ صدر ایوب خان جس میز پر بیٹھے وہاں حسین و جمیل جیکولین کینیڈی تشریف فرما تھیں۔ اس موقع پر پاکستانی صدر نے خطاب کرتے ہوئے دنیا والوں کو خبردار کیا: ’’ایشیا میں کوئی بھی ملک سیدھی راہ پر نہیں چلا، تو وہ کمیونسٹوں کے جال میں پھنس سکتا ہے۔‘‘ صدرکینیڈی نے اپنی تقریر میں ایوب خان کو ’’پاکستان کا جارج واشنگٹن‘‘ قرار دیا۔ سرکاری عشائیہ رات بارہ بجے ختم ہوا۔ اب مہمانان گرامی کو سڑک کے راستے واپس واشنگٹن پہنچایا گیا۔
صدرکینیڈی کی کابینہ میں بعض وزیر تبت میں جاری سی آئی اے آپریشن کے خلاف تھے۔ بھارت میں امریکی سفیر، جان کینتھ گلبرٹ کا بھی خیال تھا ’’اس آپریشن سے امریکا کو فائدہ نہیں ہوگا، الٹا میلے کچیلے تبتی قبائلی ہمارے گلے پڑ جائیں گے۔‘‘ بعض کا کہنا تھا کہ جواباً چینی بھی امریکیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔
ان خدشات کے باوجود صدرکینیڈی نے سی آئی اے آپریشن جاری رکھا اور اس سے امریکیوں کو فوائد بھی ملے۔ مثال کے طور پر تبتی گوریلوں نے چین کے سرکاری دفاتر پر حملے کیے، تو وہاں سے انھیں ڈھیروں سرکاری دستاویزات ملیں۔ انھوں نے دستاویز امریکا کے حوالے کر دیں۔ اس زمانے میں امریکی کمیونسٹ چین کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ لہٰذا ان دستاویز سے امریکی حکومت کو چینی حکومت کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں۔
چین کی فضاؤں میں امریکی یوٹو طیارے کی اڑانیں بھی کامیاب رہیں۔ ان کی مدد سے امریکیوں کو چینی ایٹمی منصوبے کے متعلق معلومات ملیں جو لوپ نور ٹیسٹ فیسلٹی میں خفیہ طور پر جاری تھا۔ تاہم آپریشن کے مخالف امریکیوں کی ایک پیشین گوئی نے حقیقت کا چولا پہن لیا۔
پاکستان نہیں بھارت
چین کا حکمران طبقہ پاکستان نہیں بھارت کو اپنا حقیقی دشمن سمجھتا تھا۔وجہ یہ کہ تبت میں خانہ جنگی بنیادی طور پہ بھارت کی پشت پناہی کی وجہ سے جاری تھی۔ بھارت کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعات بھی تھے۔ اس لیے جب امریکا اور بھارت کے مابین دوستی بڑھنے لگی، تو چینی حکومت کو سخت تاؤ آیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ نہرو حکومت امریکیوں کی آشیرباد سے چینی سرحدی علاقے پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ چناںچہ چین نے دونوں قوتوں کو سبق سکھانے کے واسطے اکتوبر 1962ء میں بھارت پر حملہ کر دیا۔
یہ حملہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ اول اس کی وجہ سے چین اور بھارت کی دشمنی کا آغاز ہوا جو کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ دوم پاکستان اور چین قریب آ گئے۔ بعدازاں ان کے مابین ایسی مستحکم دوستی نے جنم لیا جو پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ گویا 1962ء کا سال جنوبی ایشیا کے لیے کایا پلٹ دینے والا ثابت ہوا۔
اگلے سال ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنے تو انھوں نے چین کا دورہ کیا۔وہ چینی رہنما، ماوزے تنگ اور وزیراعظم، چو این لائی سے ذاتی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب رہے۔جلد ہی دونوں ممالک نے باہمی مسائل حل کیے اور ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔1965ء میں صدر ایوب خان نے چین کا دورہ کیا اور یوں دونوں پڑوسیوں کے مابین ایسے تعلق کا آغاز ہوا جسے ہمالیہ سے بلند اور بحیرہ عرب سے گہرا قرار دیا گیا۔
اعزاز جو پاکستانی صدر کو ملا مگر…
ابھی مگرجولائی 1961ء چل رہا ہے جب پاکستانی صدر امریکی میزبانوں کی شاندار مہمان نوازی سے لطف اندوز وہو رہے تھے۔ماؤنٹ ورنون میں پاکستانی مہمانوں کو جو سرکاری عشائیہ دیا گیا، اسے امریکی اخبارات نے نمایاں جگہ دی۔ کینیڈی جوڑا اس تقریب کے ذریعے جو کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ انھیں پانے میں کامیاب رہا۔ سیاسی طور پر صدرکینیڈی کو یہ کامیابی ملی کہ مشرقی پاکستان میں جاری خفیہ تبت آپریشن کو نئی زندگی مل گئی جسے نئی حکومت کی بڑی فتح سمجھا گیا۔ جبکہ عشائیے کے ذریعے کینیڈی جوڑے کو دارالحکومت میں اپنے معاشرتی تعلقات بڑھانے میں مدد ملی۔
جیسا کہ بتایا گیا، یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور کے صدر نے کسی مہمان حکمران کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون جیسی تاریخی جگہ پر سرکاری عشائیہ دیا۔ یہ اعزاز پاکستان کے صدر ہی کو نصیب ہوا۔ یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ محض ساٹھ برس قبل عالمی سطح پر پاکستان کو عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
اس زمانے میں جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملائشیا جیسے نوآزاد ایشیائی ملک ترقی کا اپنا ماڈل پاکستانی ماڈل کے مطابق استوار کر رہے تھے۔ان ملکوں کے محب وطن ، دیانت دار اور اچھے منتظم حکمرانوں نے تو پاکستانی ماڈل پہ عمل کرتے ہوئے اپنے ممالک کو خوشحال اور ترقی یافتہ ریاستوں میں بدل دیا جہان شہریوں کو ہر قسم کی سہولیات میسّر ہیں۔صد افسوس کہ پاکستان میں حکمران طبقہ جلد ذاتی مفادات، کرپشن اور نااہلی کا نشانہ بن کر نہ صرف منزل کھو بیٹھا بلکہ اس نے ملک وقوم کو تنزلی کے گڑھے میں دکھیل دیا۔امجد اسلام امجد ہمیں یاد دلاتے ہیں:
کروڑوں لوگ تھے جن کا
نہ کوئی نام لیتا تھا، نہ کچھ پہچان باقی تھی
ہر اک رستے میں وحشت تھی
سبھی آنکھوں میں حسرت تھی
نہ آباء سی ہنر مندی، نہ اگلی شان باقی تھی
کھلا سر پر جو اس اعلان کا خوشبو بھرا سایا
تو ان کی جاں میں جاں آئی
دہن میں پھر زباں آئی
بہتر سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ، “پاکستان” مت بھولو

شریف گھرانے میں پڑنے والی دراڑ اب نمایاں دکھائی دے رہی ہے۔ نواز اور مریم ، شہباز شریف اور حمزہ سے فاصلے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اوّل الذکر ریاست اور حکومت کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے سامنے مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔ ثانی الذکر اس ’’محاذ آرائی ‘‘ کو سیاسی خود کشی سے تعبیر کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی طے کردہ حدود کے اندر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس اختلاف کا پہلا عوامی اظہار این اے 120 کے ضمنی انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آیا جب حمزہ شہباز سامنے سے ہٹ گئے اور مریم نواز کو انتخابی مہم چلانی پڑی۔ اس سے پہلے یہ حلقہ حمزہ شہباز، جو پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی انتخابی مشینری چلارہے ہیں، کی نگرانی میں تھا۔ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں فتح کے مارجن نے شہباز شریف کے موقف کو درست ثابت کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصاد م کی راہ سے گریز بہتر ہے ۔ باپ اور بیٹی سیاسی طور پر ’’شہادت اور مظلومیت ‘‘ کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے بھاری انتخابی کامیابی کی امید لگائے ہوئے تھے ، لیکن ایسا نہ ہوا۔
پی ایم ایل (ن) کے ووٹ کو سہ رخی پیش رفت نے نقصان پہنچایا۔ ایک ، اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکائو رکھنے والی دو مذہبی جماعتیں سیاسی اکھاڑے میں اترتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کا کم از کم دس فیصدووٹ بنک لے اُڑیں۔ دوسری، پی ایم ایل (ن) کے اہم کارکنوں، جو الیکشن کے مواقع پر ووٹروں کو تحریک دے کر گھروں سے باہر نکالنے کی مہارت رکھتے ہیں، کی اچانک ’’گمشدگی‘‘ ، اور تیسری، دودرجن کے قریب ایسے امیدواروں کا الیکشن میںحصہ لینا جن کے ووٹ چند ہزار سے زیادہ نہیں تھے لیکن اگر وہ نہ ہوتے تو یہ ووٹ مجموعی طور پر پی ایم ایل (ن) کے امیدوار کو ملتے ۔
اب حمزہ نے ٹی وی پر آکر شریف خاندان میں نمایاں ہونے والے اختلافات کا اعتراف کیا ہے ۔ تاہم وہ اور مریم اب ہونے والے نقصان کی تلافی کی کوشش کررہے ہیں۔ حمزہ کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات ایسی خلیج نہیں جسے پُر نہ کیا جاسکے ، نیز اُنہیں اور ان کے والد صاحب (شہباز شریف ) کو امید ہے کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں نوازشریف اور مریم کو تصادم اور محاذآرائی کے راستے سے گریز پر قائل کرلیں گے ۔ دوسری طرف مریم کا کہنا ہے کہ اُنھوںنے اپنے چچا، شہباز شریف اور کزن، حمزہ کے ساتھ چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک شاندار سہ پہر گزاری ، نیز خاندان میں اختلاف کی خبریں مخالفین کی خواہش تو ہوسکتی ہیں لیکن ان میںحقیقت کا کوئی عنصر موجود نہیں۔
اس دوران اسٹیبلشمنٹ کا موڈ جارحانہ ہے ۔ نوازشریف کو عہدے سے ہٹانے کے بعد اب یہ ان ٹی وی اینکروں اور چینلوں کی آواز خاموش کرارہی ہے جو نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یا ریاسست کے بیانیے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے ۔ کیبل آپریٹروں پر دبائو ڈالنے سے لے کر پریشانی پیدا کرنے والے چینلوں کی نشریات روکنے تک، ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جارہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوںکی حب الوطنی کو مشکوک بناتے ہوئے اُنہیں غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے ۔
حالیہ دنوں ایک غیر معمولی مداخلت بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔ آرمی چیف نے عوامی سطح پر دئیے جانے والے ایک بیان میں ’’بیمار معیشت ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا کہ اس سے ’’نیشنل سیکورٹی ‘‘ کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ معیشت کی خراب صورت ِحال کوئی نئی بات نہیں، کئی عشروں سے ہمیں اسی ’’بیماری ‘‘ کا سامنا ہے ۔ تاہم آج معیشت کی صورت ِحال اتنی خراب نہیں جتنی ماضی میں کئی ایک مواقع پر تھی۔ شریف حکومت اور اس کے فنانس منسٹر اسحاق ڈار پر اسٹیبلشمنٹ کے توپچیوں کا لگا یا جانے والا ایک الزام یہ بھی ہے۔
پی ایم ایل (ن) کو فخر ہے کہ اس نے نہ صرف معیشت کی حالت بہتر کی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے بھی امکانات پیدا کیے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے انچارج، وزیر ِد اخلہ احسن اقبال نے دوٹوک انداز میں ان الزامات کو مسترد کردیا، جبکہ وزیر ِاعظم عباسی نے فوراً ہی آرمی چیف سے ملاقات کی اور اُنہیں حقیقی صورت ِحال کے متعلق بریفنگ دی اور معیشت کے بارے میں اُن کے خدشات رفع کیے ۔ تاہم ایک بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت چند سال پہلے کی جانے والی مداخلت سے کم اہم نہیں جب سندھ کی سیاسی اشرافیہ پر کئی بلین ڈالر بدعنوانی کے الزامات تھے ( جو ثابت نہ ہوسکے ) اور اس بدعنوانی کا تعلق دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے نتیجے میںآصف زرداری کے کچھ اہم معاونین کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ، ایک چیف منسٹر کو عہدہ چھوڑنا پڑا اور صوبے پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔
لیکن اگر نوازشریف کے لیے سیاسی موسم خراب ہے تودوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی براہ ِراست مارشل لا لگانے کی پوزیشن میں نہیں۔ تمام تر افواہیں اپنی جگہ پر ، لیکن اب اسلام آباد میں ’’ماہرین ‘‘ کی حکومت مسلط کرنا کسی کے بس میں نہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس بات کو یقینی بنائے بغیر کہ کیا پی ٹی آئی اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے گی، دونوں مرکزی جماعتوں، پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی ناراضی مول لے رکھی ہے ۔ درحقیقت یہ دومرکزی دینی جماعتوں، جماعت ِاسلامی اور جے یو آئی پر بھی مکمل طور پر تکیہ نہیں کرسکتی ۔ پی ایم ایل (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی اس کی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہورہیں۔ نہ ہی یہ براہ ِراست مداخلت کے لیے موجودہ عدلیہ کی تائید پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرسکتی ہے ۔
انتہائی کھولتے ہوئے عالمی حالات میں اقتدار کی سیج کانٹوں کا بستر ہے ۔ چنانچہ مارشل لا کو خارج ازامکان سمجھیں۔موجودہ حالات میںٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ آئین میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ تھیوری کے اعتبار سے صرف ایک صورت میں ایسا ہوسکتا ہے جب پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا جائے اور ایک نگران حکومت قائم کی جائے جس کی توثیق عدلیہ کردے ۔ لیکن آج کے ماحول میں اس کی کوشش وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلق کو نقصان پہنچائے گی،اور یہ اقدام ریاست، معاشرے اور معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ قوم کا المیہ یہ ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کا احتساب کرنے والے خود احتساب سے ماورا ہیں ۔ چنانچہ اعتماد کا فقدان اپنی جگہ پر موجود ہے ۔