


پیچھے نہ ہٹیں مارے جائیں گے
ن لیگ پھنس گئی: جاوید چوہدری
روضہ رسولؐ کے سامنے اذیت ناک سیاسی مظاہرہ
بلے (بیث) کو ڈنڈے سے لڑانے والا خان:انصار عباسی
اسلام آباد- 27ماچ2023:عمران خان اپنے فیصلے کرتے وقت سوچتے، دوسروں سے مشاورت کرتے، غصہ اور جلدبازی کی بجائے صورتحال کا جائزہ لے کر آگے بڑھتے تو آج کی صورتحال کا اُن کو سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب تو وہ اپنے آپ کو بند گلی میں، کھڑا محسوس کر رہے ہیں اورکچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔ سب سے تعلق خراب کر لئے اور اب اگر کوئی امید ہے تو وہ صرف اور صرف عدلیہ سے۔ لیکن جب کوئی بھی راضی نہیں، نہ وفاقی و صوبائی حکومتیں، نہ عمران مخالف سیاسی جماعتیں، نہ ہی فوج اور الیکشن کمیشن تو پھر عدلیہ چاہے بھی تو الیکشن کیسے ممکن ہوں گے؟
ایک نیا بحران پیدا ہو سکتاہے۔ عمران خان نے سب سے بڑی غلطی جو کی وہ اُن کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی ہے۔ اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد اُنہوں نے اپنے سیاسی مخالفوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے کھلی جنگ شروع کر دی۔ امید تھی کہ جنرل باجوہ کے بعد عمران خان نئی اسٹیبلشمنٹ پر وار نہیں کریں گے اوراپنی سیاست کا رخ اپنے مخالفوں کی طرف موڑ دیں گے لیکن اُن کا کہنا ہے کہ جو بھی تحریک انصاف اور اُن کے خلاف ہو رہا ہے اور جو بھی وفاقی و صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں اُس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اوپر سے وہ اسٹیبلشمنٹ کی تعریف بھی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ تو صرف ایک فرد کا نام ہے یعنی آرمی چیف اور یہ بات اُنہوں نے حال ہی میں ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں بھی کہی۔
یعنی وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اُن کی لڑائی اپنے سیاسی مخالفین سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے اُن کی حکومت رخصت ہوئی اُنہوں نے ایک ایسا بیانیہ بنایا کہ کبھی لگا ہی نہیں کہ عمران خان کا مقابلہ اپنے سیاسی مخالفین سے ہے۔ بلکہ اُنہوں نے بلے کو ڈنڈے سے لڑا دیا۔عوامی مقبولیت میں عمران خان کا کوئی مقابلہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف فوری الیکشن چاہتی ہے جبکہ پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں تمام تر مقبولیت کے باوجود اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی عمران خان کو کیسے فائدہ دے سکتی ہے؟
عمران خان کو اس حقیقت کا پتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کسی سیاسی جماعت کو فائدہ نہیں دے سکتی ،اسی لئے وہ اس کوشش میں بھی ہیں کہ کسی طرح بلے اور ڈنڈے کی صلح ہو جائے لیکن کبھی کسی انٹرویو میں تو کبھی کسی تقریر میں وہ کوئی ایسی بات کر ہی دیتے ہیں کہ حالات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑ جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کون اُن کے کان بھرتاہے اور وہ بغیر سوچے سمجھے آئے دن اپنے قتل کی نئی سازش کا اعلان کرتے ہیں اور ہر سازش میں کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو شامل کر دیتے ہیں۔ ایسے میں تحریک انصاف کے وہ رہنما جو کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تلخی کو ختم کیا جائے، وہ معاملات کو سنوارنے کے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
سیاسی فیصلے غصے اور جلدبازی میں نہیں کئے جاتے کیوں کہ اصل مقصد سیاسی اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ سب سمجھاتے رہے لیکن عمران خان نے جلد بازی میں پہلے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیے اور اب پچھتا رہے ہیں کہ کیوں اپنے ہاتھ کاٹ لئے۔ اسی طرح سب نے سمجھایا کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اپنی حکومتیں مت ختم کریں، ان صوبوں کی اسمبلیوں کو مت تحلیل کریں، اس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو گا۔ لیکن عمران خان نے کسی کی نہ سنی اور اب اُنہیں سمجھ آ رہی ہے کہ بڑی غلطی ہو گئی۔
وہ تو سمجھتے تھے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوںکو تحلیل کریں گے تو پورے ملک میں انتخابات کاراستہ نکلے گا لیکن اب اُنہیں پتا چلا کہ الیکشن تو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی نہیں ہو رہے۔ اوپر سے نگراں حکومتیں خصوصاً پنجاب کی حکومت تو تحریک انصاف کو سانس لینے کا موقع ہی نہیں دے رہی اور ایسے لگ رہا ہے کہ وہ عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی مخالف ہے۔پہلے عمران خان اپنے سیاسی مخالفین سے بات کرنے کو تیار نہ تھے لیکن اب تحریک انصاف بات چیت کے لئے ترس رہی ہے لیکن اب حکمراں اتحاد، خان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف بڑی مشکل میں پھنس گئے۔ اس مشکل سے کیسے نکلیں گے اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جنرل باجوہ کے الزام کا جواب
حامد میر
ایک نہیں بہت سے دوست مجھ سے ناراض ہو چکے ہیں ،ان کی شکایت یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی گرفتاریوں کی مذمت کیوں کر رہے ہیں جنہوں نے آپ پر جھوٹے الزامات لگائے اور آپ پر پابندیوں کی حمایت کی ؟عرض کیا کہ عمران خان کے دور حکومت میں مجھ پر پابندی لگانا اور مقدمے قائم کرنا غلط تھا تو شہباز شریف کے دور حکومت میں یہ پابندیاں اور مقدمے جائز کیسے ہو سکتے ہیں؟دوست کہتے ہیں کہ آپ آزادیٔ صحافت کی جنگ لڑ رہے تھے ، آپ کی لڑائی صحافیوں پر تشدد اور ان کے اغوا کے خلاف تھی لیکن آج جن صاحبان پر مقدمات قائم ہو رہے ہیں وہ صحافی نہیں ہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کیلئے پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
معاشرے میں تقسیم اتنی بڑھ گئی ہے کہ اختلاف رائے دشمنی میں تبدیل ہو چکا ہے ۔عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیتے ہیں ، ان کے سیاسی مخالفین عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک قرار دے کر ان کی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔یہ مطالبہ کرنے والوں کو جب یاد دلایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے ذریعے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگوائی گئی لیکن کل کی نیپ آج عوامی نیشنل پارٹی کی صورت میں بھٹو صاحب کے وارثوں کی اتحادی ہےتو طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ اس عمران خان کی سہولت کاری کر رہے ہیں جس نے آپ پر بدترین سنسر شپ لگائی ۔
مجھے تو پتہ ہے کہ عمران خان کے دور میں مجھ سمیت بہت سے صحافیوں پر جو پابندیاں لگائی گئیں ان کے پیچھے جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید تھے لیکن تحریک انصاف والوں کا کمال دیکھئے کہ وہ باجوہ کا نام لیتے ہیں لیکن فیض کا نام نہیں لیتے کیونکہ فیض کا آج بھی زلمے خلیل زاد سے رابطہ ہے ۔دونوں نے مل کر دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کا نام نہاد امن معاہدہ کرایا تھا۔ دوسری طرف پی ڈی ایم والوں کا یوٹرن دیکھئے جس باجوہ کا نام لینے پر پیمرا نے نواز شریف پر پابندیاں لگائیں آج پی ڈی ایم و الے اس باجوہ کا نام نہیں لیتے اور ہر برائی صرف جنرل فیض کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔
ہر کوئی اپنی اپنی پسند کا سچ بولتا ہے اور چاہتا ہے کہ صحافی بھی اسی کی مرضی کا سچ بولیں اگر کوئی صحافی تحریک انصاف کی مرضی کا سچ نہیں بولتا تو وہ لفافہ ہے ۔کوئی صحافی پی ڈی ایم کی مرضی کا سچ نہ بولے تو وہ عمران خان کا سہولت کار ہے ۔مجھ جیسے صحافی سے صرف تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے قائدین نہیں بلکہ جنرل باجوہ بھی ناراض ہیں ۔کل ایک ہمدم دیرینہ نے بڑے طنز بھرے انداز میں کہا کہ جنرل باجوہ نے تمہیں عمران خان اور شیخ رشید احمد کی طرح جھوٹا قرار دے دیا ہے لیکن جب بھی اس باجوہ کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوئی تو تم اس کی حمایت میں بھی کھڑے ہو جانا ۔
دوست کا طعنہ سن کر میں سوچ میں پڑ گیا یاد آیا کہ باجوہ تو وہی شخص ہے جس نے اپنے عروج کے زمانے میں ایک دن میڈیا ہائوسز کے مالکان کو سامنے بٹھا کر انہیں صحافتی اخلاقیات پر لیکچر دیا اور کہا کہ آپ لوگ قومی مفاد کا خیال نہیں رکھتے ۔پھر مثال دیتے ہوئے کہا کہ حامد میر نے ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب کے گائوں جاکر پروگرام کیا اور پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا ۔بھلا ہو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور صاحب کا کہ انہوں نے بعد میں جنرل باجوہ کوبتایا کہ حامد میر نہ تو کبھی اجمل قصاب کے گائوں گیا اور نہ ہی ایسا کوئی پروگرام کیا ۔شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے آرمی چیف نے بہت سوچ سمجھ کر ٹی وی چینلز کے مالکان کے سامنے ایک جھوٹ بولا تھا۔
اگلے ہی دن ایک ٹی وی چینل کے ذریعےمجھ پر توہین رسالتؐ کا الزام لگا دیا گیا اور آج کل اس چینل کے مالک کے خلاف افواج پاکستان کے بارے میں مہم چلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے ۔میں نے یہ سب یاد کرنے کے بعد طعنہ زنی کرنے والے دوست سے کہا کہ اگر جنرل باجوہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تو مخالفت کروں گا لیکن اگر مقدمہ صحیح ہوا تو پھر صحیح صحافت کروں گا۔کسی صحافی کی جنرل باجوہ یا عمران خان یا شہباز شریف سے کوئی ذاتی مخاصمت نہیں ہونی چاہئے اور صاحبانِ اختیار کو بھی چاہئے کہ صحافیوں کو صحافی رہنے دیں انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا کریں ۔
یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ جنرل باجوہ مجھ سے کیوں ناراض ہوئے اور انہوں نے مجھے راہ راست پرلانے کے لئے توہین رسالتؐ کے الزام کا استعمال کیوں کیا ؟ جنرل باجوہ کو میں اس زمانے سے جانتا ہوں جب وہ بریگیڈیئر تھے ۔انہوں نے آرمی چیف بننے کے بعد رات دیر گئے تک ملاقاتیں شروع کیں تو میں تاڑ گیا کہ یہ کچھ سیاست دانوں کو سمجھانے بجھانے کیلئے ایک بیک چینل کھول رہے ہیں ۔2018ء کے انتخابات سے قبل ایک رات انہوں نے مجھے کہا کہ ہم شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں انہیں بتا دیں کہ نواز شریف کو چھوڑنا ہو گا۔میں نے لیت ولعل سے کام لیا تو دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ پھر مجھے مارشل لاء لگانا پڑے گا اور کم از کم پانچ ہزار افراد کو الٹا لٹکا دوں گا۔ اگلے دن میں لاہور پہنچا اور شہباز شریف سے عرض کیا کہ آپ کو کسی بھی قیمت پر نوازشریف کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
شہباز صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ میں یہ الفاظ سننے کو تڑپ رہا تھا۔پھر انہوں نے باجوہ اور ان کے دو ساتھیوں کے سامنے بیٹھ کر خود ہی وزیر اعظم بننے سے انکار کر دیا۔ایک رات باجوہ نے مجھے آرمی ہائوس بلایا تو وہاں سلیم صافی اور ارشاد بھٹی بھی موجود تھے، فرمایا عمران خان کو کہیں کہ نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے جنرل جیلانی کا ذکر نہ کیا کریں۔ میں نے بڑے ادب سے کہا کہ یہ میرا کام نہیں باجوہ نے بہت اصرار کیا لیکن میں نے یہ پیغام نہیں پہنچایا جس پر ناراض ہوگئے۔ عمران خان جب وزیر اعظم بن گئے تو ایک دن بلا کر کہا کہ وزیر اعظم سے کہیں اسد عمر کو وزارت خزانہ اور عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا دیں ۔
میں نے کہا یہ میرا کام نہیں وہاں ایک اور صحافی دوست موجود تھا اگلے دن اس نے یہ پیغام پہنچا دیا اور خان صاحب نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا دیا باتیں تو بہت ہیں لیکن آخری بات سن لیجئے ۔اپریل 2021ء میں ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو باجوہ نے مجھ سمیت دو درجن صحافیوں کو سامنے بٹھا کر کہا کہ ابصار عالم پر حملے کی وجہ ان کی ’’غیر نصابی سرگرمیاں‘‘ تھیں ۔اس قسم کا الزام دیگر صحافیوں پر بھی لگ چکا تھا ہم نے ایک زخمی ساتھی کے بارے میں باجوہ کی ہرزہ سرائی پر ناگواری کا اظہار کیا ۔
یہ وہ ابصار عالم تھے جن کے پاس میجر جنرل (ر) اعجاز امجد اپنے داماد کو آرمی چیف بنوانے کے لئے سفارشیوں کے ساتھ آتے تھے ،ابصار عالم، فود حسن فواد اور عرفان صدیقی نے باجوہ کی سفارش کی ۔ان تینوں کے ساتھ جو ہوا اسے محسن کشی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟ بہرحال اگر کبھی باجوہ پر جھوٹا مقدمہ بنا تو میں اس کی حمایت نہیں کروں گا۔ میرے اور ان میں بہت فرق ہے۔
زرعی فارمنگ اور پاک فوج

لائپورسٹی-04مارچ2023: پاکستان ایک زرعی ملک کہلاتا ہے اور اسی نسبت سے زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے کیونکہ پاکستان کی تقریباً 60 فیصد آبادی کا روزگار براہِ راست زراعت ہی سے جڑا ہوا ہے۔ پھر آپ گندم ،چاول ،کپاس،چنا ،گنا،آلو، پیاز، ٹماٹر الغرض کسی بھی زرعی جنس کا ڈیٹا نکال لیں پاکستان اس کی پیداوار میں دنیا کے پہلے دس ممالک میں موجود ہو گا۔ کوئی بھی ملک جب تک زرعی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل نہ ہو اور اپنی آبادی کی ضروریات سے زائد خوراک پیدا نہ کرتا ہو اس وقت تک اسے خوراک کی خود مختار ریاست نہیں سمجھا جا سکتا۔ بد قسمتی سے ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود ابھی تک زرعی لحاظ سے خود کفیل نہیں ہوئے کیونکہ ہم آج بھی اپنی ضرورت کی گندم،دالیں اور دیگر زرعی اجناس باہر سے منگواتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ یوکرین بھی تقریباً پاکستان جتنا ملک ہے لیکن وہ پوری دنیا کو گندم سپلائی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے اسے پوری دنیا کا گودام بھی کہتے ہیں جہاں سے دنیا والے اپنی ضرورت کی گندم خریدتے ہیں۔
خیر اس پر ارباب اختیار کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ میرا مقصد کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے۔ ایک تو پاکستان کی آبادی کا تناسب بہت بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ضروریات خوراک میں اضافہ بھی ایک فطری تقاضا ہے۔ زرعی فارمنگ ابھی تک ہمارے ہاں جدید سائنسی طریقہ کار کے مطابق رائج نہیں ہو سکی ہے جس کی وجہ سے پاکستان گندم کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہو سکا۔ آج ایک ایکڑ سے اگر ہمارا کسان 30 من گندم اگاتا ہے تو وہیں امریکا اور چین میں کسان ایک ایکڑ سے ساٹھ سے ستر من گندم حاصل کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں کی زمین پاکستان کی زمین سے بہتر ہے یا وہاں کا کسان پاکستان کے کسان سے زیادہ محنتی ہے۔ وہ فی ایکڑ زیادہ پیداوار صرف اور صرف جدید زرعی فارمنگ کی بدولت حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جو اس وقت سخت معاشی حالات کا شکار ہے اس جیسے ملک کو فوری طور پر زرعی فارمنگ کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ اس حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کی زرعی فارمنگ میں پیشرفت اور طریقہ کار کو مدنظر رکھنا معیشت مستحکم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ہم جدید زرعی فارمنگ سے دور ہیں ہی، ہمارے ہاں پالیسی اور کنٹرول بھی نہ ہونے کی وجہ سے زرعی زمین کو دھڑا دھڑ رہائشی پلاٹوں میں بدلا جا رہا ہے۔ یہ رجحان خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔
یہ مسئلہ بھی توجہ طلب ہے کہ پاکستان کی زمین اگرچہ زرعی ہے لیکن اس کا ایک بڑا حصہ بنجر ہے۔ دنیا بھر میں بنجر زمینوں کو دانائی سے زرعی فارمنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اس حوالے سے سوائے چند اداروں کے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ماضی میں اس حوالے سے کوششیں کی گئیں اور تجربات کامیاب بھی ہوئے جس سے ناصرف صحرائی اور بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا گیا بلکہ روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوئے۔ ایسی بنجر زمین کو اگر نوجوانوں کو دیا جائے اور انھیں وہاں جدید زرعی فارمنگ کی ترغیب دی جائے تو ایک طرف ہم خوراک میں خود کفیل ہو سکتے ہیں اور دوسری جانب بے روزگاری کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور مقامی افرادی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسی زمین سے سونا جیسی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ جدید زرعی فارمنگ کے سلسلے میں پاک فوج جیسے مضبوط اور منظم ادارے بھی حکومت کی مدد کے لیے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اب دنیا میں لڑائیاں زمین پر قبضے یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی وجہ سے نہیں بلکہ خوراک اور پانی کے حصول پر ہوں گی۔اسی لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خصوصاً چین،امریکا ،اسرائیل اور دیگر کی افواج بھی زرعی فارمنگ میں حصہ لے کر اپنی اپنی حکومتوں کا ساتھ دے کر ملکی معیشت کو تقویت بخش رہی ہیں۔ جہاں پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد ٹیکسوں میں اصلاحات لانے اور ان کی کولیکشن میں اضافے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور اس کے ساتھ دیگر مثبت اصلاحات کی جا رہی ہیں وہیں زرعی فارمنگ سے شعبہ زراعت سے بے شمار فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال میں زرعی فارمنگ کی ضرورت سمجھنا موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ یہی ایک ایسا شعبہ ہے جس پر توجہ دے کر پاکستان معاشی بھنور سے نکل سکتا ہے۔ پاک فوج نے جس طرح ماضی میں وسیع منصوبوں مثلاً شاہراہ قراقرم کی تعمیر و توسیع ، بھل صفائی ، واپڈا ڈیوٹیز، ریکوڈک کی منصوبہ بندی، پولیو مہم، الیکشن کی سکیورٹی سمیت دیگر شعبوں میں حکومتی ایما پر اپنے فرائض انجام دیے اسی طرح زرعی فارمنگ کی مد میں بھی اگر پاک فوج کے تجربات کو بروئے کار لایا جائے تو اس کا خاطر خواہ فائدہ ملکی معیشت کو پہنچایا جا سکتا ہے۔
آبادی کے بڑھتے تناسب ، مسلسل بدلتے موسمی حالات اور معاشی بدحالی کی صورتحال میں پاک فوج کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔ پاک فوج اپنی اولین سکیورٹی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ زرعی فارمنگ کو بطریق احسن انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور اگر حکومت زرعی فارمنگ کے معاملے میں فوج کی معاونت حاصل کرے اور پاک فوج کے تجربے سے فائدہ اٹھائے تو جہاں معاشی مشکلات کا بوجھ کم ہو گا وہیں بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہو گا اور یقینا پاک فوج بھی حکومت کی پکار پر ضرور لبیک کہے گی کیونکہ پاک فوج نے ہمیشہ جب بھی ملک کو کوئی مشکل پڑی سب سے پہلے قربانی دی۔ موجودہ معاشی حالات میں بھی پاک فوج نے ہی سب سے پہلے اپنے اخراجات میں کمی کا اعلان کیا جس کے بعد وزیر اعظم نے کفایت شعاری مہم شروع کی تو حکومت کو اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے زرعی فارمنگ کے حوالے سے بھی پاک فوج سے رابطہ کرنا چاہیے تا کہ پاکستان زرعی شعبے میں خود کفیل ہوسکے۔
عمران کی جنرل عاصم سے بات چیت کی خواہش پوری ہونا مشکل
اسلام آباد (انصار عباسی) عمران خان کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بات چیت کی خواہش پوری ہونا مشکل ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول، اپنے پیش رو کے برعکس جنرل عاصم منیر نے حکومت سے باہر کبھی کسی سیاست دان سے ملاقات نہیں کی۔ انہوں نے خود کو سیاست اور سیاست دانوں سے دور رکھا ہے اور حلف بھی فوجی افسران سے اسی بات کا متقاضی ہے۔
دوم، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کوئی رکن عمران خان پر بھروسہ کرکے ان سے ایسے حالات میں ملاقات کر سکتا ہے جب وہ جانتے ہوں کہ عمران خان نے اپنے سب سے بڑے محسن اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کے ساتھ کیا کیا۔ عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے لیکر اب تک، عمران خان نے جنرل باجوہ سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ہر طرح کا الزام عائد کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے، اس پر الزامات عائد کرکے ہدف بنانے اور اپنے قتل کی سازش کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرنے کی وجہ سے عمران خان ناقابل بھروسہ شخص بن چکے ہیں۔
فوجی جرنیلوں سے بہتر یہ بات کون جانتا ہوگا کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے کیا کچھ کیا اور اس کے بعد حکومت چلانے میں بھی مدد کی۔ اپنی حکومت میں عمران خان جسے ملک کا بہترین جرنیل کہتے رہے، اسی شخص کو پی ٹی آئی چیف عمران خان نے غدار، سازشی اور سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔ جنرل باجوہ کے آخری دنوں تک عمران خان ان پر دباؤ ڈالتے رہے کہ شہباز شریف کی زیر قیادت پی ڈی ایم حکومت کو ہٹا کر جلد الیکشن کرائے جائیں۔
گزشتہ سال اگست میں عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ ’’آپ کے پاس اپنی پالیسی پر نظرثانی کیلئے اب بھی وقت ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین (جو اب حکومت میں بیٹھے ہیں) سے بات سے انکار کر دیا لیکن اسٹیبلشمنٹ سے وہ یہ چاہتے کہ وہ ان کی خواہشات کی تکمیل کرے۔ فوج میں کمان کی تبدیلی کے بعد عمران خان کی موجودہ آرمی چیف سے توقعات وہی رہیں۔ تمام تر تنقید اور الزامات کے بعد، پی ٹی آئی نے جنرل باجوہ کے آخری دنوں تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطہ قائم رکھا۔ تاہم، کمان کی تبدیلی سے یہ روابط بھی ختم ہوگئے۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کے سینئر ترجمان اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس نمائندے سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پارٹی کا کسی بھی سطح پر کوئی رابطہ نہیں۔ دی نیوز کے رابطہ کرنے پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ غیر سیاسی رویے کی وجہ سے اس کا کسی سیاسی رہنما یا جماعت سے رابطہ نہیں ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنی توجہ خالصتاً پیشہ ورانہ امور پر مرکوز رکھی ہوئی ہے، آئی ایس آئی کے وہ سینئر افسران بھی اب کسی طرح کی بات چیت کیلئے تیار نہیں جو ماضی میں پی ٹی آئی والوں سے رابطے میں تھے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایک سابق سینئر رکن نے دی نیوز کو حال ہی میں بتایا تھا کہ اب صرف میجر لیول کا ایک افسر ہی پی ٹی آئی والوں کی فون کالز پر مامور ہے۔ تاہم، موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کا اصرار تھا کہ آئی ایس آئی والوں کو کسی بھی رہنما یا سیاسی جماعت سے رابطوں سے روک دیا گیا ہے۔ اُس وقت فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ دعویٰ سننے میں تو اچھا لگتا ہے کہ وہ غیر سیاسی ہے اور کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، لیکن حقیقت میں وہ نیوٹرل نہیں ہے۔اس اخبار میں عمران خان کے قریبی ساتھی ذریعے کے حوالے سے یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ صدر علوی موجودہ آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان رابطے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ایسا ہو نہیں پایا۔ تاہم، آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی۔
اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان توبہ کرلیں :سلیم صافی

”اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی سیاست کا درخت فوجی گملے میں پروان چڑھا۔ پھر جب فوجی ڈکٹیٹر نے ان کے سیاسی لیڈر محمد خان جونیجو کو رخصت کیا تو ان کے ایما پر انہوں نے ان کے ساتھ بے وفائی کی ۔ چند ہی سال بعد ایک اور فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں وہ اقتدار سے محروم ہوئے اور وہی کچھ ان کے ساتھ گجرات کے چوہدری برادران نے کیا جو انہوں نے محمد خان جونیجو کے ساتھ کیا تھا۔ اسی طرح فوج کے اشارے پر میاں صاحب نے بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا اور ان پر ہندوستان کے ساتھ سازباز کا الزام لگا یا۔ تب ان کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ کبھی انہیں بھی سیکورٹی رسک قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اللہ کی قدرت دیکھ لیجئے کہ آج صرف چند سال بعد انہیں سیکورٹی رسک کا طعنہ ملنے لگاہے اور ان پر اسی طرح ہندوستان کے ساتھ سازباز کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جس طرح انہوں نے بے نظیر بھٹو پر لگائے تھے ۔
کیا کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ خالد خواجہ اور کرنل امام ان طالبان کے ہاتھوں مارے جائیں گے جن کو وہ اپنا شاگرد قرار دے رہے تھے اور جن کے وہ ہمہ وقت گن گاتے رہتے تھے ۔ قاضی حسین احمد مرحوم کو اگریہ علم ہوتا کہ کسی دن میجر مست گل ،ان کے قتل کا منصوبہ بنائیں گے تو کیا وہ ان جیسے لوگوں کی سرپرستی کرتے؟( واضح رہے کہ مہمند ایجنسی میں قاضی حسین احمد کو مارنے کے لئے جو دھماکہ کیا گیا تھا، اس کا منصوبہ چرار شریف کے مبینہ ہیرو میجر مست گل نے بنایا تھا) ۔ اسی طرح کیا ہم کبھی یہ سوچ سکتے تھے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ طالبان مولانافضل الرحمان اور مولانا غفور حیدری جیسے لوگوں کو مارنے کے لئے خودکش حملے کریں گے لیکن ایسا ہوا اور ہورہا ہے ۔ پرویز مشرف کو دیکھ لیجئے ۔ وہ بڑے غرور سے کہا کرتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے لئے پاکستان میں اب کوئی جگہ نہیں ۔انہیں اسی بے نظیر بھٹو کے ساتھ ڈیل کرنا پڑی ، وہ نوازشریف آج وزیراعظم ہائوس میں بیٹھے ہیں اور وہ پرویز مشرف آج پاکستان نہیں آسکتے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ صحافی جنہوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بیساکھیوں کے سہارے صحافت کی اور جو ان کی ایما پر دوسروں کی عزتوں سے کھیلتے رہے ، آج سب سے زیادہ ان ایجنسیوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اوردوسری طرف وہ سب سے زیادہ ان ایجنسیوں پر انگلیاں اٹھا کر اپنے دامن پر لگے ہوئے داغ دھونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ غرض جو جس انتہاپر گیا ، زمانے کے جبر نے اُسے اس کی مخالف سمت میں دوسری انتہاپر جانے پر مجبور کر دیا، جس نے دوسروں کے لئے جو گڑھا کھودا، کسی نہ کسی وقت خود انہیں یا ان کی اولاد کو یا پھر ان کے پیروکاروں کو ا س میں گرنا پڑا ۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ۔ یہ ماضیٔ بعید کی نہیں بلکہ ماضیٔ قریب کی تاریخ ہے اور یقین ہے کہ اب بھی ہم اس سے عبرت نہیں لیں گے لیکن مجھے تو ایمان کی حد تک مکافاتِ عمل کے قانون پر یقین ہوگیا ہے اور اسی یقین کی بنیاد پر چند پیشگوئیاں کررہا ہوں ۔میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کی عزت کےتابوت میں آخری کیل سوشل میڈیا ہی ٹھونکے گا ۔
ان کے ایک ایم این اے کے گھر والوں کو پڑنے والی گالیوں سے تو مکافاتِ عمل کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن یہ آغاز ہے انجام ہر گز نہیں ۔ مکافاتِ عمل کے اس اصول کے تحت مجھے مستقبل میں پی ٹی آئی کی قیادت کی عزتیں خطرے میں نظر آرہی ہیں ۔ یہ بات بھی اٹل ہے کہ ان پر غداری کے الزامات بھی لگیں گے اور انہیں بھی مختلف القابات سے نوازاجائے گا۔ اسی طرح مکافات عمل کے اصول کے تحت اس بات سے بھی مفر ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے لئے وبال جان بن جائے اور اس کا نوٹس اسٹیبلشمنٹ ہی لے۔ فوج کو گالی دینے کے جرم میں پی ٹی آئی کے بعض سوشل ایکٹوسٹ کی گرفتاریوں سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘۔
درج بالا الفاظ میرے اس کالم کے ہیں جو آج سے چھ سال قبل 27 مئی 2017کو روزنامہ جنگ میں ”مکافات عمل“ کے زیرعنوان شائع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب بظاہر میاں نواز شریف اقتدار میں تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار تھے۔ تب وہ صرف فوج اور ایجنسیوں کے لاڈلے نہیں تھے بلکہ انہیں عدالتوں کا بھی لاڈلا بنا دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے میڈیا ونگ نے سوشل میڈیا اکائونٹس بنارکھے تھے اور سب مل کر ہم جیسے نقادوں کی کردار کشی کررہے تھے۔آج جو اینکرز، صحافی اور یوٹیوبرز جمہور کی بالادستی کے نعرے اور فوج کے خلاف فریادیں کررہے ہیں، ان سب کو بھی آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی نے اس کام پر لگا رکھا تھا کہ فوج کے سیاسی کردار پر یا لاڈلے عمران خان پر جائز تنقید کرنے والوں کو غدار اور غیرملکی ایجنٹ ثابت کرو۔ تب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا نشہ آسمان سے باتیں کررہا تھا کیونکہ پشت پر مقتدر قوتیں تھیں۔میں نجومی ہوں ،جادو ٹونے پر یقین رکھنے والا اور نہ مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے والا لیکن مکافاتِ عمل کے قانون پر یقین رکھنے والے ایک گناہگار کی حیثیت سے مجھے یقین تھا کہ ایک روز فوج پی ٹی آئی کیلئے اور پی ٹی آئی فوج کیلئے مصیبت بنے گی ۔ آج اللہ میری زندگی میں وہ دن لے آیا اور فوج کے لئے اپنی ہی تخلیق وبال جال بن گئی ہے ۔دوسری طرف عمران خان فوج کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔
لیکن گزرا ہوا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔دونوں کا مسئلہ اب بھی حل ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اعتراف جرم اور پھر توبہ کرلی جائے ۔ اعتراف جرم اور تلافی کے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اسٹیبلشمنٹ کے سرخیلوں کو چاہئے کہ وہ کھل کر اعتراف کریں کہ عمران خان کو لیڈر اور پھر وزیراعظم بنا کر انہوں نے غیرآئینی طور پر فلاں فلاں وقت میں فلاں فلاں طریقے سے یہ یہ غلط کام کئے اور دوسروں کو ذلیل کروایا۔ اسی طرح عمران خان اور ان کے ساتھی کھل کریہ اعتراف کریں کہ فلاں فلاں وقت میں اس طریقے سے فوج کا مہرہ بن کر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کا کردار ادا کیا اور فلاں فلاں کی بے عزتی کی ۔یہی کام تازہ تازہ انقلابی بن جانے والے میڈیا پرسنز کو بھی کرنا ہوگا اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا ہوگا کہ فوج، ایجنسیوں اور عمران خان کے کہنے پر کن کن جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ شاید اس صورت میں توبہ قبول ہوجائے اور اللہ سب کو اس حالت سے نکالنے کا کوئی راستہ نکالے اور ہاں ساتھ ہی ساتھ دونوں کو اللہ اور قوم کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرنا ہوگا کہ آئندہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔
کیا پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے گا؟ سالار سلیمان

’پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے گا‘ کی صدائیں اب سے نہیں لگ رہیں بلکہ اپریل 2022 سے لگائی جارہی ہیں۔ کسی کی شدید ترین خواہش ہے کہ چونکہ میرے پاؤں کے نیچے سے قالین کھینچ لیا گیا لہٰذا اب یہ گلشن برباد ہوجائے۔
یہ شخص کبھی ملک پر ہی ایٹم بم گرانے کی بات کرتا ہے تو کبھی پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی بات کرتا ہے۔ نرگسیت کے مارے اس شخص سے کسی بھی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مجھے پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہوا نظر نہیں آتا ہے، کیوں؟ یہ میں آگے لکھوں گا، لیکن ضمناً عرض ہے کہ اگر کہیں یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ پاکستان کو اس سال ڈیفالٹ کروانا ہے تو پھر حالات کو جان بوجھ کر، کھینچ تان کر، بڑی محنت سے اس جانب لے جایا جائے گا۔ اس کےلیے بیرونی سپورٹ تو ہروقت تیار ہے ہی، اندرونی غداروں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ لیکن، سرِدست، میرا نہیں خیال ہے کہ پاکستان ابھی ڈیفالٹ کرے گا۔
فرض کیجیے کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کا اعلان کردیتا ہے تو کیا ہوگا؟ کیا ہندوستانی افواج ملک میں داخل ہوجائیں گی؟ نہیں۔ کیا امریکا ہمیں ایٹم بم سے اڑا دے گا؟ نہیں۔ تو پھر کیا ہوگا؟ دنیا میں اب تک 146 ممالک ڈیفالٹ کرچکے ہیں۔ حال ہی میں سری لنکا نے اپنا ڈیفالٹ ڈکلیئر کیا تھا۔ 1940 سے قبل اسپین دس سے زیادہ مرتبہ ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ گزشتہ 20 سال میں روس، گریس، شمالی کوریا، وینزویلا نے اپنا ڈیفالٹ ڈکلیئر کیا اور یہ آج بھی دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔
اگر کوئی ملک ڈیفالٹ کرجائے تو اس کو دوبارہ ٹریک پر آنے میں ڈھائی سے تین سال لگتے ہیں اور ڈیفالٹ کا داغ دھونے میں دس سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ پاکستان پر آج جتنی پابندیاں ہیں اور خدانخواستہ ڈیفالٹ کے بعد جتنی پابندیاں لگ سکتی ہیں، اس سے کئی گنا زائد پابندیاں ایران پر گزشتہ دو دہائیوں سے لگی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود ایران نہ صرف سروائیو کررہا ہے بلکہ اس نے کئی ملکوں کی ناک میں بھی دم کیا ہوا ہے۔ الغرض اگر پاکستان ڈیفالٹ کر بھی گیا تو دنیا کے نقشے پر بہرحال موجود ہوگا۔ اب اندرونی صورتحال کیا ہوگی؟
ملک میں دنگا فساد ہوگا، جو کہ ایک ماہ تک رہ سکتا ہے۔ انتشار کی کیفیت ہوگی جو کہ ایک سال تک رہ سکتی ہے۔ سب سے پہلے تمام دنیا آپ کو قرض دینے سے ہاتھ کھینچ لے گی۔ آپ کی کریڈٹ ریٹنگ خراب ہوجائے گی۔ یہ ممکن ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جن سے آپ نے قرض لیا ہے اور ان کی واپسی کی تاریخیں آچکی ہیں یا گزر چکی ہیں، آپ کے وہ اثاثہ جات خطرے میں چلے جائیں۔
آپ کو ڈیفالٹ سے نکلنے کےلیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے پاس ہی جانا ہوگا، جو آپ کو مہنگے ترین شرح سود پر قرض دیں گے۔ ملک میں مہنگائی کا ناقابل یقین طوفان ہوگا، ڈالر 375 سے زائد کا ہوگا، پٹرول کی قلت ہوگی اور جو ملے گا وہ بھی 350 روپے لیٹر تک ملے گا۔ ایک اندازے کے مطابق بجلی کی قیمت 85 روپے یونٹ سے متجاوز ہوسکتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کریش کرتے ہوئے شاید 18 ہزار پوائنٹس پر آجائے۔ آج کل اسٹاک مارکیٹ 38 سے 40 ہزار پوائنٹس کے بیچ میں ہوتی ہے اور مارکیٹ کا ایک پوائنٹ 25 کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ خوراک کا بحران پیدا ہوسکتا ہے لیکن نوبت قحط کی نہیں ہوگی۔ ہم کسی وقت میں زرعی ملک تھے۔ پھر بلڈر مافیا نے ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جال بچھایا۔ پوری دنیا میں بڑے شہروں میں ہائی رائز ہوتی ہیں لیکن پنجاب کا بلڈر مافیا ملک کی زمین کھا گیا۔ اس نے ہائی رائز نہیں بنائیں بلکہ جو ہائی رائز بناتا ہے، اس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ ڈیفالٹ کی صورت میں پاکستان کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ بھی کریش کرے گی۔ زراعت کا بحران پیدا ہوگا۔
ایک اندازہ ہے کہ اگر ابھی بھی اجناس کی ایل سی بروقت نہیں کھلی تو آنے والے رمضان میں عام سی دال ہمیں 900 روپے کلو تک مل سکتی ہے کیونکہ ہم اپنی ضرورت کی صرف 30 فیصد دال ملک میں پیدا کرتے ہیں باقی 70 فیصد سے زائد ہم ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ملک سے بجلی 18 گھنٹے کےلیے غائب ہوگی۔ ملک کی امپورٹس فارغ ہوجائیں گی اور ایکپسورٹس کےلیے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ تاہم، اس کے بعد بھی پاکستان سروائیو کرجائے گا۔ یہاں کوئی قیامت کا منظر نہیں ہوگا۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی سروائیو کیا تھا۔ پاکستان نے 71 کے سانحے کے بعد بھی سروائیو کیا تھا اور پاکستان نے زرداری کے دور کو بھی سروائیو کیا تھا۔ آپ زرداری کے دور کو منی ڈیفالٹ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں۔
خاکم بدہن، کچھ لوگوں کی، کچھ حلقوں کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ان کی سیاست اور انا کا مسئلہ ہے۔ اگر ملک ڈیفالٹ نہ ہوا تو ان کو دوبارہ چانس نہیں ملے گا۔ ان کے پاس ایک ہی منجن ہے جو وہ کئی بار بیچ چکے ہیں۔ ان کی جو سپورٹ تھی وہ بظاہر ختم ہوچکی ہے اور اب ملک کا ڈیفالٹ ہی ان کی سیاست کو بچائے گا۔ وہ کبھی آئین کے منافی اقدامات کی بات کرتے ہیں، کبھی وہ ذاتی انا کی تسکین کےلیے جلدی الیکشن کی بات کرتے ہیں اور اس کےلیے بھیانک منظرکشی سے اور سیاسی بدمعاشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ وہی جماعت ہے جس کے معاشی دماغ نے آئی ایم ایف کو ڈاج کرنے کی پوری اسکیم لڑائی تھی کہ پاکستان کو قرض کی قسط نہ ملے اور اس کی آڈیو پھر مارکیٹ میں آگئی تھی۔ تب بھی ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح سے پاکستان کو ڈیفالٹ کروا دیا جائے۔
کیا کوئی ان سے پوچھے گا کہ جب ان کا ہی اسد عمر آئی ایم ایف کی شرائط پڑھ کر ڈیل سے انکار کر آیا تھا تو بھی اس سے زیادہ گھٹیا شرائط پر آئی ایم ایف سے کیوں ڈیل کی گئی؟ کیا کوئی ان سے پوچھے گا کہ آپ کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں 25 ہزار ارب قرض کیوں لیا گیا؟ کیسے پاکستان کا قرض 27 ہزار سے 52 ہزار ارب ہوا؟ کون سے میگا پراجیکٹس شروع ہوئے؟ پیسہ کہاں لگا؟
ایمان داری سے بتائیے کہ کیا ملکی صورتحال ان دس ماہ میں ہی خراب ہوئی ہے؟ کیا اس سے پہلے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا؟ اس کا جواب جاننے کےلیے گزشتہ حکومت کے ترجمان سونے کے اسمگلروں کے چینل کی ویب سائٹ کے آرکائیو پڑھ لیجیے، کلیئر ہوجائے گا۔ اس کا جواب ویسے یہی ہے کہ جی نہیں، تو پھر اس کا مطلب ہے کہ پچھلے والے زیادہ ذمے دار ہیں کہ جو آج بھی اپنے ہرکاروں کی مدد سے ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ جو بوریاں بھر کر پیسہ ملک سے نکال رہے ہیں۔
اللہ نہ کرے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔ اگرچہ دشمنوں کی پوری تیاری ہے اور انہیں ملک میں موجود غداروں کی بھی پوری پشت پناہی حاصل ہے لیکن نجانے مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ پھر سے تبدیل ہوگا۔ کوئیک مارچ کے امکانات کو نظرانداز تو نہیں کیا جاسکتا لیکن دو باتیں مختلف حلقوں کی جانب سے سننے کو مل رہی ہیں۔ ایک یہ کہ قومی حکومت قائم کردی جائے اور اس کو پھر تین سال دیے جائیں۔ اس کے بعد مردم شماری بھی کروائی جائے اور نئے انتخابات کروائے جائیں۔
ایک آپشن یہ بھی ہے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جائے اور ان سے بھی قومی حکومت والا کام لیا جائے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ فروری کے اوائل میں صورتحال کلیئر ہوچکی ہوگی کہ پاکستان میں اگلا سیٹ اپ کیا ہوگا۔ موجودہ حکومت کے پاس ڈالرز کا بحران حل کرنے کےلیے صرف پندرہ سے بیس دن ہیں۔ اس میں اگر ورلڈ بینک یا کسی اور طرف سے کوئی مدد آگئی تو یہ سیٹ اپ پھر اگلے انتخابات تک چلے گا، دوسری صورت میں حالات مزید سخت بھی ہوسکتے ہیں۔
علیم خان کے حقائق:جاوید چوہدری
میری بدھ چار جنوری کو علیم خان سے تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی‘ ان کا کہنا تھا‘ میرے والد گرینڈ لاز بینک لاہور میں ملازم تھے‘ والدہ کالج میں فلسفہ پڑھاتی تھیں‘ ہم لوئر مڈل کلاس فیملی تھے‘ میں تعلیم کے بعد پراپرٹی کے بزنس میں آ گیا‘ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور مجھے 30 سال کی عمر میں سب کچھ دے دیا‘ میری آج 44 کمپنیاں ہیں‘ چار ہزار ملازمین ہیں‘ دو جہاز ہیں اور اللہ نے صحت اور اولاد کی نعمت سے بھی نواز رکھا ہے‘ میں ہرگز اس قابل نہیں تھاجتنا اللہ تعالیٰ نے مجھے نواز دیا لہٰذا میں ایک لفظ جھوٹ نہیں بولوں گا‘ آپ پی ٹی آئی کے لوگوں سے پوچھ لیں‘ کیا میں منافق یا جھوٹا ہوں؟ میری گواہی یہ لوگ دیں گے۔
علیم خان کا کہنا تھا‘ مجھے 1996 میں کینسر ہو گیا‘ میں نے علاج امریکا سے کرایا لیکن میں ٹیسٹ شوکت خانم سے کراتا تھا یوں میرا عمران خان سے تعلق پیدا ہو گیا‘ میں چوہدری پرویز الٰہی کی کابینہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وزیرتھا‘ میں اس دور میں بھی عمران خان سے ملتا تھا‘ میں نے 2008 میں ق لیگ چھوڑدی جب کہ پارٹی نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کر لیا اور پرویز الٰہی ڈپٹی پرائم منسٹر بن گئے‘ مونس الٰہی اس زمانے میں عسکری ون میں نیب کی حراست میں تھے‘ میں ملاقات کے لیے ان کے پاس گیا اور انھیں ق لیگ کا عمران خان سے مرجر کا مشورہ دیا‘ یہ ہنسے اور کہا ’’آپ ہمیں کس بے وقوف کے پاس لے جانا چاہتے ہیں‘ اس شخص کا کوئی فیوچر نہیں‘ میں آج جب مونس الٰہی اور عمران خان کو ایک دوسرے کی تعریف کرتے دیکھتا ہوں تو بے اختیار ہنسی بھی آ جاتی ہے اور مجھے وہ گالیاں بھی یاد آ جاتی ہیں جو عمران خان پرویز الٰہی اور مونس کو دیا کرتے تھے۔
تیس اکتوبر2011 کا جلسہ آیا تو عمران خان میاں عبدالرشید کے ساتھ میرے پاس آئے اور مجھ سے جلسے کے لیے ڈونیشن مانگا‘ جلسے کے لیے کل 75 لاکھ روپے چاہیے تھے‘ میں نے انھیں 25 لاکھ روپے دے دیے‘ یہ چلے گئے لیکن راستے سے فون کیا اور کہا‘ ہم جلسے کا سارا بندوبست آپ کو دینا چاہتے ہیں‘ آپ یہ ذمے داری اٹھا لیں‘ میں نے ان کی خواہش پر جلسے کا سارا بندوبست کر دیا‘ کرسیاں‘ بینرز‘ لائیٹس‘ سائونڈ سسٹم اور کھانا ہر چیز کا انتظام میں نے کیا تھا‘ پارٹی کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا‘ جلسہ کام یاب ہو گیا‘ عمران خان نے مجھے پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی اور میں شامل ہو گیا‘ پارٹی کے اندر کوئی اسٹرکچر نہیں تھا‘ پارٹی میں بڑے بڑے نام ہیں لیکن کوئی شخص بھی پارٹی پر ایک روپیہ خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر‘حامد خان‘ عارف علوی اور عمر سرفراز چیمہ آپ کسی سے پوچھ لیں کیا اس نے کبھی پارٹی کو ایک لاکھ روپے بھی دیے؟
یہ سارا بوجھ صرف دو لوگوں پر تھا‘ جہانگیر ترین اور علیم خان‘ عمران خان کی گاڑیاں‘ سیکیورٹی اور باقی اخراجات میں برداشت کرتا تھا‘ ان کے پاس دو بلٹ پروف گاڑیاں تھیں‘ بلیک ترین صاحب کی تھی اور وائیٹ میری‘ گارڈز اور سیکیورٹی کی گاڑیاں میری تھیں‘ جہاز ترین صاحب کا استعمال ہوتا تھا‘ 2018 کے الیکشن سے قبل عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے میٹنگز میرے گھر میں ہوتی تھیں‘ میرا گھر ان کے قبضے میں رہتا تھا‘ یہ جنرل باجوہ سے جتنی مرتبہ ملے‘ یہ ملاقاتیں آرمی چیف ہاؤس میں ہوئیں یا جنرل اعجاز امجد کے گھر (اسکیم تھری) میں ہوئیں‘ وسائل صرف میرے استعمال ہوئے۔
جنرل باجوہ کے سسر جنرل اعجاز امجد میرے سسر راجہ محمد صابر کے بھتیجے راجہ عباس کے پرانے دوست تھے‘ 1999میں جب جنرل باجوہ لیفٹیننٹ کرنل تھے‘ جنرل اعجاز امجد اس وقت میری سوسائٹی پارک ویو لاہور کے ممبر بنے تھے‘ میری جنرل اعجاز سے نیاز مندی تھی لیکن ہم کیونکہ اس وقت نیا پاکستان بنا رہے تھے چناں چہ ہمارے وسائل‘ تعلقات‘ جذبات اور محبت سب کچھ عمران خان کے لیے وقف تھا اور ہم نے پھر اس کی بھاری قیمت بھی چکائی۔
میں نے ان سے پوچھا’’ کیاآپ عمران خان کی ریکارڈنگز بھی کرتے رہے؟ ‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’ہم دس سال دن رات اکٹھے رہے ہیں‘ میں اور جہانگیر ترین ہفتے میں چار دن عمران خان کے ساتھ ڈنر کرتے تھے‘ یہ ہماری گاڑیاں اور گھر بھی استعمال کرتے تھے اور ہم فون پر بھی ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تھے چناں چہ یہ جہاں جاتے تھے‘ جوکرتے تھے مجھے پتا ہوتا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’عمران خان نے اس قربت کے باوجود آپ کو 2013 میں ٹکٹ کیوں نہیں دیا؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’میراٹکٹ روحانیت کی نذر ہوگیا تھا‘ عمران خان کے ایک دوست ہیں‘ عمر فاروق گولڈی‘ یہ شیپس (Shapes) جم کے مالک ہیں‘ یہ خان کو اپنے پیر میاں بشیر کے پاس جہلم لے گئے‘ عمران خان ان سے بہت متاثر تھے۔
خان صاحب نے مجھے 2013 کے الیکشن سے قبل بتایا‘ میاں بشیر کا حکم ہے تم نے اگر علیم خان کو ٹکٹ دیا تو تم وزیراعظم نہیں بن سکو گے لہٰذا میں تمہیں ٹکٹ نہیں دے رہا‘ میں نے ہنس کر کہا‘ خان صاحب اگر آپ اس طرح وزیراعظم بنتے ہیں تومجھے کوئی دکھ نہیں چناں چہ عمران خان نے لاہور میں میرے حلقے سے ایاز صادق کے خلاف الیکشن لڑا اور یہ الیکشن بھی ہار گئے اور وزیراعظم بھی نہیں بنے‘ میں نے بعدازاں اکتوبر 2015میں اس حلقے سے ضمنی الیکشن لڑا تھا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ریحام خان کے ساتھ شادی میں آپ کا کیا کنٹری بیوشن تھا؟‘‘ یہ بولے ’’بالکل نہیں تھا‘ ریحام خان لاہور میرے گھر آئی تو عمران خان کی بہنیں میرے ساتھ ناراض ہو گئیں۔
میں نے بنی گالا میں عمران خان سے پوچھا ‘آپ کا ریحام خان کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ ان کا جواب تھا‘ میں نے اس سے شادی کر لی ہے لیکن ابھی اناؤنس نہیں کی‘ میں نے کہا‘ آپ یہ شادی اناؤنس کر دیں آپ کی بہنیں مجھ سے ناراض ہو رہی ہیں‘ عمران خان نے جواب دیا ’’عورتوں کو مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے؟ میں کس سے شادی کرتا ہوں میری بہنوںکو اس سے کیا مطلب؟ بہرحال عمران خان نے نکاح کے ڈیڑھ ماہ بعد شادی ڈکلیئر کر دی‘‘ میں نے علیم خان سے پوچھا ’’کیا ریحام خان کی طلاق میں آپ کا کوئی عمل دخل تھا؟‘‘۔
یہ سنجیدگی سے بولے ’’ہرگز نہیں‘ یہ طلاق صرف دو لوگوں کی وجہ سے ہوئی‘ بشریٰ بی بی اور شوکت قادری‘ بشریٰ بی بی نے عمران خان سے کہا تھا‘ آپ نے اگر اسے 24گھنٹے میں طلاق نہ دی تو آپ کبھی وزیراعظم نہیں بن سکیں گے جب کہ شوکت قادری نے کہا تھا ریحام تمہیں سوٹ نہیں کرتی اور یوں طلاق ہوگئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ شوکت قادری کون ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ یہ میرے حلقے میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب رہتے ہیں‘ ان کا مدرسہ میاں معراج کے صاحبزادے حامد معراج کے گھر کے پیچھے ہے‘ یہ اچھے اور نیک بزرگ ہیں‘ عمران خان مجھے ایک دن ان کے پاس لے گئے‘ قادری صاحب بڑے پیار سے ملے۔
عمران خان نے ان سے پندرہ منٹ تنہائی میں ملاقات کی اور مجھے راستے میں بتایا‘ مجھے قادری صاحب نے کہا ہے ریحام خان تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے‘ مجھے ان کے لہجے سے محسوس ہوا یہ طلاق کا ارادہ کر چکے ہیں لیکن طلاق بہرحال بشریٰ بی بی کے حکم پر ہوئی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی بشریٰ بی بی سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟‘‘ یہ بولے ’’مجھے عمران خان نے ان کے پاس بھیجا تھا‘ یہ انھیں شوکت قادری سے بھی بڑا پیر سمجھتے تھے‘ ہم لاہور میں کلمہ چوک کے قریب خاور مانیکا کے گھر میں بھی بی بی سے ملے تھے‘ بشریٰ بی بی کا دعویٰ تھا‘ عمران خان پر کسی نے جادو کر رکھا ہے اور خان صاحب ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے‘‘میں نے پوچھا’’اور آپ کا کیا خیال تھا؟‘‘ یہ بولے ’’میں ان کا صرف احترام کرتا تھا لہٰذا یہ مجھ سے مایوس ہو گئیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا عمران خان نے آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ کیاتھا؟
‘‘ یہ فوراً بولے ’’بالکل نہیں کیا تھا ہاں البتہ میں نے 2017ء میں ایک دن ان سے پوچھا تھا‘ ہمارا پنجاب میں وزیراعلیٰ کون ہوگا ؟ ان کا جواب تھا جہانگیر ترین اور تم وفاق میں میرے ساتھ ہو گے‘ ان کا خیال تھا یہ مجھے ہائوسنگ کی منسٹری دیں گے لیکن میں نے اسی وقت یہ منسٹری لینے سے انکار کر دیا تھا‘ میری نظر میں یہ کنفلیکٹ آف انٹرسٹ تھا‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کا ان سے اختلاف کیسے اسٹارٹ ہوا؟‘‘ یہ بولے’’ 25 جولائی 2018 الیکشن کے دن تک کوئی ایشو نہیں تھا‘ میرے الیکشن کے نتائج حیران کن تھے‘ میں نے ایم پی اے کی سیٹ پر 7ہزارکی لیڈ لی تھی جب کہ میں اسی علاقے سے ایم این اے کی سیٹ سے سات ہزار ووٹوں سے ہار گیا تھا‘ یہ اتفاق ثابت کرتا تھا مجھے جان بوجھ کر وفاق میں جانے سے روکا گیا تھا۔
شاہ محمود قریشی بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے‘ یہ بھی ایم پی اے کی سیٹ سے ہار گئے تھے جب کہ جہانگیر ترین عدالتی حکم کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکے تھے چناں چہ میں وزارت اعلیٰ کا قدرتی امیدوار تھا لیکن الیکشن کے تین دن بعد مجھے نیب نے طلب کر لیا‘ مجھ پر آمدنی سے زائد اثاثوں کا الزام تھا‘ نیب مجھے عثمان بزدار کی تعیناتی تک بار بار بلاتی رہی‘ میں دو اگست 2018 کو نیب کے ڈی جی میجر (ریٹائرڈ) شہزاد سلیم کی پیشی بھگت رہا تھا تو میں نے ٹیلی ویژن پر ٹکرز دیکھے عمران خان نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا ہے‘ میں نے میجر شہزادسلیم سے کہا ’’ سر وزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ ہو گیا ہے‘ آپ اب میری جان چھوڑدیں‘‘ یہ سن کراس کی ہنسی نکل گئی‘ مجھے بعدازاں ایک دوست کے ذریعے علم ہوا شہزاد سلیم کو یہ حکم جنرل فیض حمید نے عمران خان کی خواہش پر دیا تھا۔ (جاری ہے)
ایکسٹینشن اور ایوان صدر کی ملاقاتیں -جاوید چوہدری
اسلام آباد- 01جنوری2023:ستائیس اکتوبر 2022کی صبح ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ ایک تہلکہ خیز پریس کانفرنس کی تھی‘یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ڈی جی آئی کی پہلی پریس کانفرنس تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے اس میں انکشاف کیا‘عمران خان نے مارچ میں آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع کی پیش کش کی تھی‘یہ پیش کش میرے سامنے ہوئی تھی‘ جنرل ندیم انجم نے ا س کے بعد عمران خان کی ایوان صدر میں جنرل باجوہ سے ملاقاتوں کا ریفرنس بھی دیااور کہا ’’ آپ اگر یہ سمجھتے ہیں آپ کا سپہ سالار غدار‘ میر جعفر اور میر صادق ہے تو پھر آپ اس سے رات کی خاموشی میں بند دروازوں کے پیچھے ملتے کیوں ہیں؟‘‘ پی ٹی آئی نے اس پریس کانفرنس کے بعد آج تک ان دونوں واقعات کی کوئی وضاحت یا تردید نہیں کی۔
ہم پہلے غیر معینہ مدت کی ایکسٹینشن کی طرف آتے ہیں ‘ اپوزیشن نے جب عدم اعتماد کی تحریک جمع کرا دی تو عمران خان نے بچائو کی کوششیں شروع کر دیں‘ یہ ایم کیو ایم کو راضی کرنے کے لیے بہادر آباد بھی گئے‘ چوہدری شجاعت سے ملاقات کے لیے لاہوربھی آئے اور انھوں نے اپنے ایم این ایز کو منانے اور خریدنے کی کوشش بھی کی(7اکتوبر2022کو اس سے متعلق ایک وڈیو بھی لیک ہوئی تھی جس میں عمران خان پانچ ایم این ایز کی خریداری کا ذکر کر رہے تھے)لیکن جب یہ تمام حربے ناکام ہو گئے تو عمران خان نے جنرل باجوہ کو راضی کرنا شروع کر دیا۔
پی ٹی آئی کی طرف سے آرمی چیف کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے انھیں تین بار ایکسٹینشن کی آفر کی گئی‘ مارچ2022 کے مہینے میں دو بار آفر کی گئی‘ پہلی پیش کش اسد عمر آرمی چیف کے پاس لے کر آئے تھے‘ ان کا کہنا تھا آپ نئے قانون کے مطابق 65 سال کی عمر تک آرمی چیف رہ سکتے ہیں‘ ہم نوٹی فکیشن جاری کر دیتے ہیں‘آپ آرمی چیف رہیں اور ہمیں حکومت میں رہنے دیں‘ جنرل باجوہ نے یہ پیش کش ٹال دی‘ اس کے چند دن بعد پرویز خٹک ڈی جی آئی ایس آئی کے دفتر گئے۔
ڈی جی کے سامنے بیٹھ کر محفوظ فون کے ذریعے جنرل باجوہ سے بات کی اور انھیں غیر معینہ مدت تک (تاحیات) ایکسٹینشن کی آفر کر دی‘ یہ آفر عدم اعتماد سے چند دن پہلے کی گئی تھی یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے امریکا کا سائفر اس وقت تک عمران خان کے پاس پہنچ چکا تھا اوریہ جنرل باجوہ کے ’’میرجعفر‘‘ اور’’ میر صادق‘‘ کردار سے بھی اچھی طرح واقف ہو چکے تھے لہٰذا پھروہ شخص جو آپ کے بقول غدار بھی ہے اور امریکا کے ساتھ مل کرآپ کی عوامی حکومت کا تختہ بھی الٹنا چاہتا ہے‘ آپ اسے غیر معینہ مدت(تاحیات)کے لیے آرمی چیف کیوں بنانا چاہتے ہیں؟
مجھے آج تک یہ نقطہ سمجھ نہیں آیا‘یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے یہ آفر پرویز خٹک سے کیوں کرائی گئی؟ جنرل باجوہ دراصل پرویز خٹک کا بہت احترام کرتے ہیں‘ یہ عمران خان کو ہمیشہ کہتے تھے آپ پرویز خٹک کی وجہ سے کے پی میں دوسری مرتبہ حکومت بنانے میں کام یاب ہوئے ہیں‘ آپ انھیں وزیراعلیٰ بنا دیں‘ یہ صوبے کو سنبھال لیں گے مگر عمران خان کا جواب ہوتا تھا ’’یہ میری بات نہیں مانتا‘‘ اور اس پر جنرل باجوہ ہنس کر کرکٹ اور فوج کی مثال دیا کرتے تھے۔
یہ کہتے تھے کرکٹ میں جب کوئی کھلاڑی زیادہ اچھا کھیل رہا ہو تو اسے زیادہ مواقع دیے جاتے ہیں لیکن آپ نے کے پی میں اپنے بیسٹ پلیئر کو پویلین میں بٹھا دیامگر کیوں کہ مرشد پرویز خٹک سے بھی مطمئن نہیں تھی لہٰذا یہ بھی ساڑھے تین سال محروم رہے‘ بہرحال پرویز خٹک کے ذریعے پی ٹی آئی کا آخری وقت تک جنرل باجوہ سے رابطہ رہا‘ جنرل باجوہ نے عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن کو تحریک واپس لینے کا مشورہ بھی پرویز خٹک کی درخواست پر دیا تھا۔
ہم اب ایوان صدر کی ملاقاتوں کی طرف آتے ہیں‘ حکومت تبدیل ہو گئی اور عمران خان نے جنرل باجوہ کو غدار ‘ میر جعفر اور میر صادق بھی قرار دے دیالیکن پھر عمران خان نے اسی میر جعفر اور میر صادق سے ایوان صدر میں دو ملاقاتیں کیں‘یہ دونوں ملاقاتیں عمران خان کی خواہش اور اصرار پر ہوئی تھیں‘ صدر عارف علوی عمران خان کا پیغام لے کر جنرل باجوہ کے پاس آئے تھے اور ان کا اصرار تھا ’’آپ ایک بار خان سے ضرور مل لیں‘‘۔
جنرل باجوہ نے جواب دیا‘ عمران خان کسی بھی وقت آرمی چیف ہاؤس آ سکتے ہیں مگر یہ آپشن عمران خان کو سوٹ نہیں کرتا تھا‘ صدر کے ذریعے پیش کش کی گئی جنرل باجوہ پرویز خٹک کے گھر آ جائیں‘ جواب دیا گیا‘ آرمی چیف کے ساتھ سیکیورٹی ہوتی ہے‘ یہ جب پرویز خٹک کے گھر جائیں گے تو پوری دنیا کو علم ہو جائے گا‘اس کے بعد فیصلہ ہوا یہ ملاقات ایوان صدر کے رہائشی زون میں ہو گی‘ وینیو اور تاریخ کے تعین کے دوران ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب صدر عارف علوی کو بتایا گیا ’’ سرآپ کو جانوروں سے ملنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اور دوسری طرف سے ہنسی کی آواز آئی بہرحال ایوان صدر کے رہائشی علاقے میں رات کے وقت آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان دو ملاقاتیں ہوئی۔
دونوں ملاقاتوں میں عمران خان کے ساتھ شبلی فراز جب کہ جنرل باجوہ کے ساتھ میجر جنرل محمد عرفان تھے تاہم یہ دونوں حضرات ملاقات کے کمرے میں داخل نہیں ہوئے‘ عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی اور یہ دونوں پینتالیس پینتالیس منٹ کی ملاقاتیں تھیں‘ عمران خان دونوں مرتبہ جلدی میں تھے‘ ملاقاتوں میں کیا ہوا یہ میں سردست نہیں بتا سکتا تاہم دو نقطے ضرور بیان کیے جا سکتے ہیں‘ عمران خان سے پوچھا گیا‘ سر کیا میں آپ کو واقعی میر جعفر اور میر صادق محسوس ہوتا ہوں۔
عمران خان کا جواب تھا‘ یہ میں نے آپ کو نہیں کہا تھا‘ میں ہمیشہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر جعفر اور میر صادق کہتا ہوں‘ دوسرا نقطہ عمران خان نے فرمائش کی‘ جنرل صاحب آپ بس اس حکومت کو گرا دیں‘ انھیں فارغ کر دیں‘ جنرل باجوہ نے جواب دیا‘ سر میں یہ کیسے کر سکتا ہوں‘یہ الیکٹڈ گورنمنٹ ہے‘ میں یہ غیرآئینی کام کیسے کر سکتا ہوں؟ آپ صدر کا مشورہ مانیں‘ اسمبلی واپس جائیں‘ اتحادیوں کو دوبارہ اپنے ساتھ ملائیں اور اپنی حکومت بنا لیں‘ آپ کے پاس جمہوری راستہ موجود ہے‘ ہم آپ کی مدد نہیں کر سکیں گے اور یوںیہ دونوں ملاقاتیں کسی نتیجے کے بغیرختم ہو گئیں۔
عمران خان نے ان ملاقاتوں کے بعد 12 ستمبر کو کامران خان کے شو میں عندیہ دیا‘ قمر جاوید باجوہ الیکشن تک ایکسٹینشن لے لیں‘ نئی حکومت آئے اور یہ نئے آرمی چیف کا تعین کر لے‘ خان صاحب ملک کی بہتری کے لیے ایکسٹینشن کا راستہ نکالنے کے لیے بھی تیار تھے‘ کامران خان کے انٹرویو کے بعد پریشر آیا تو پی ٹی آئی نے اس بیانیے کو غلط اور سیاق وسباق سے ہٹ کر قرار دے دیا مگر چند دن بعد اس سے ملتی جلتی آفر صدر عارف علوی نے بھی جنرل باجوہ کو کر دی اور یہ ایکسٹینشن کی تیسری آفر تھی۔
صدر کی خواہش تھی جنرل باجوہ ایک ’’ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن‘‘ بنائیں اور اپنی نگرانی میں اس کی رپورٹ مکمل کرائیں‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن ضرور بننا چاہیے‘ ہم سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے لیکن یہ کمیشن اگر میں نے بنایا تو یہ سمجھا جائے گا میں ایکسٹینشن لینا چاہتا ہوں اور میں مزید توسیع نہیں لینا چاہتا اور یوں ایکسٹینشن کی تیسری کوشش بھی ضایع ہو گئی۔
جنرل باجوہ نے اس کے بعد ملک محمد احمد کے ذریعے نواز شریف اور کور کمانڈرز کی میٹنگ میں سینئر آفیسر کو بھی صاف کہہ دیا ’’میں کسی قسم کی ایکسٹینشن نہیں لے رہا‘‘ اورپانچ اکتوبر2022 کو واشنگٹن میں بھی ایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان کر دیا‘ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کو جب یقین آ گیا ایکسٹینشن نہیں ہو رہی تو دونوں طرف سے نیا مطالبہ سامنے آ گیا۔
حکومت جنرل فیض حمید اور پی ٹی آئی جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں دیکھنا چاہتی تھی‘ جنرل باجوہ عاصم منیر کو پسند کرتے تھے‘ یہ سمجھتے تھے ان کے ساتھ 2018 میں زیادتی ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا خیال تھا اگر جنرل عاصم منیر آرمی چیف بن جاتے ہیں تو عمران خان کی نفرت اگلی قیادت تک چلی جائے گی‘ ان کا خیال تھا جنرل عاصم منیر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنا دیا جائے اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کو آرمی چیف‘ ملک محمد احمد یہ پیغام لے کر میاں نواز شریف کے پاس لندن گئے۔
میاں نواز شریف نے جواب دیا آپ ناموں کی سمری بھجوا دیں‘ یہ فیصلہ وزیراعظم کریں گے تاہم اس دوران شاہد خاقان عباسی بھی آرمی چیف سے ملے‘ جنرل باجوہ نے انھیں بھی صورت حال سمجھائی اور انھیں جنرل ساحر شمشاد مرزا کا نام دیا لیکن چند دن بعد میاں نواز شریف نے اپنا ایک کاروباری دوست جنرل باجوہ کے پاس بھجوا دیا‘اس دوست کے دونوں کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے‘ اس نے آرمی چیف سے دو سوال کیے‘ایک ‘دونوں امیدواروں میں سے زیادہ دباؤ کون برداشت کر سکتا ہے؟ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ جنرل عاصم منیر۔
دوسرا سوال تھا‘ عربوں کے ساتھ کس کے تعلقات زیادہ اچھے ہیں؟ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ جنرل عاصم منیر اور یوں جنرل عاصم منیر کا فیصلہ ہو گیا‘میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کو جنرل عاصم منیر کا نام دیا اور چھٹیوں پر یورپ چلے گئے‘ فائنل تقرری سے پہلے ملک محمد احمد لاہور سے خواجہ آصف کو لے کر اسلام آباد آئے۔
عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے راولپنڈی اسلام آباد کے راستے بند تھے‘ یہ دونوں وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جی ایچ کیو پہنچے‘ جنرل باجوہ سے آخری مشورہ کیا اور وزیراعظم نے اگلی صبح اپنی تجویز ایوان صدر بھجوا دی‘ وزیراعظم نے اس کے بعد صدر عارف علوی کو اپنا طیارہ دیا‘ یہ لاہور گئے‘ عمران خان کو منایا‘ نئے آرمی چیف کا اعلان ہو ا اور وزیراعظم ترکی کے دورے پر چلے گئے۔
نوٹ: میں نے جمعہ 30 دسمبر کو ان حقائق کی تصدیق کے لیے ملک محمد احمد سے رابطہ کیا‘ انھوں نے اپنے حصے کے واقعات کی تصدیق کر دی۔
نوٹ:فروری 2023میں ہمارے دو گروپ مراکش اور ترکی جا رہے ہیں‘ آپ ان گروپس کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ +92 331 5637981 , +92 3334562 -+92 331 3334562
سقوط ِمشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون ؟ یاسر پیر زادہ
میرے’سر ‘ ایک با کمال شخصیت ہیں، اُن کی نظر ہمہ وقت بین الاقوامی امور اور اُن سے جڑے پیچیدہ اور دقیق مسائل پر رہتی ہے ، تاریخِ عالم انہوں نے گھول کر پی رکھی ہے ، اِس کے علاوہ جغرافیہ ، عمرانیات،سیاسیا ت اور ابلاغیات پر بھی سر کی گرفت خاصی مضبوط ہےلیکن تاریخ چونکہ سر کا خاص موضوع ہے اِس لئےانہوں نے مشرقی پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’ وہاں ہماری شکست کی وجہ فوجی نہیں بلکہ سیاسی تھی لیکن بد قسمتی سے ہم نے اِس پہلو پر کبھی توجہ ہی نہیں دی۔
عموماً میں سر کی تمام باتوں سے اتفاق ہی کرتا ہوں الّا کہ سر مجھے اختلاف کی اجازت دیں اور اُس اختلا ف کا مقصد بھی سر کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے مگر اِس مرتبہ جب سر نے مشرقی پاکستان کی مثال دی تو مجھے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ یاد آگئی ، آپ اسے میری خوش قسمتی سمجھیں یا بد قسمتی، یہ رپورٹ میں نے پڑھ رکھی ہے، اِس لئےباوجود خواہش اور کوشش کے،اپنے محبوب سر کی بات سے اتفاق نہ کرسکا۔
حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے ایک باب کا عنوان ’فوجی پہلو‘ہے، اِس باب میں بتایا گیا ہے کہ 14 دسمبر تک جنرل یحییٰ کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان میں جنگ جاری رہنی چاہئے حالانکہ یہ بات اُس وقت تک روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی تھی کہ ہم ڈھاکہ پر اب مزید قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے، اُن دنوں واقعات جس تیزی کے ساتھ پیش آرہے تھے انہیں دیکھ کر جنرل یحییٰ جیسے تجربہ کار فوجی کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ڈھاکہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، اگر ہم نےایک ہفتے بعد بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ہی ڈالنے تھے تو یہ اندازہ ایک ہفتے پہلے بھی لگایا جا سکتا تھا اور ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت سے بچا جا سکتا تھا ۔
جنرل یحییٰ نے اُس وقت بھی عوامی لیگ کے ساتھ سیاسی مصالحت اور امن کی پیشکش ٹھکرا دی جبکہ یہ پیشکش سوویت یونین جیسے ملک کی طرف سے کی گئی تھی، جس کے پاس ویٹو کی طاقت تھی جو ہمارے حق میں ہونے والی کسی بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی ۔رپورٹ میں یہ جملہ لکھا گیا ہے کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس وجہ سے جنرل یحییٰ نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا اختیار یا مشورہ دیا ،جنرل یحییٰ آخری وقت تک کسی بھی قسم کی سیاسی مصالحت کے لئے تیار نہیں تھے ،انہیں اِس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ وہ کسی بھی صورت مشرقی پاکستان پر اپنا ذاتی کنٹرول برقرار نہیں رکھ سکیں گے اِس لئے انہوں نےآخر وقت تک مغربی پاکستان پر اپنا تسلط برقرار کھنے کی کوشش کی۔
رپورٹ کا یہ باب اِس جملے پر ختم ہوتا ہے کہ ہم اس ناگزیر نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جنرل یحییٰ نے ملک کو ایک ایسی جنگ میں جھونکنے کی اجازت دی جس سے کسی اچھے نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی اور وہ اپنے ضدی طرز عمل کو محض اس لئے جاری رکھنا چاہتے تھے کہ وہ کسی بھی قیمت پرملک کی مشکلات کا سیاسی حل تلاش کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے،آخر کاراِس ہٹ دھرمی کا نتیجہ شرمناک شکست کی صورت میں نکلا اور قوم کو بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلّت اٹھانا پڑی، ایسی ذلّت جس کی اسلام کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔رپورٹ میں ایک اور جگہ اُس دستور کا ذکر بھی ہے جس کا ڈرافٹ جنرل یحییٰ نے اُس وقت تیار کروایا جب ملک دو ٹکڑے ہورہا تھا ، مقصد اُس وقت بھی ملک کو نیا آئین دینا نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو بچانا تھا ۔
اُس آئین کی شق 16 یہ کہتی تھی ملک کے پہلے صدر جنرل یحییٰ خان ہوں گے اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ آئندہ پانچ برس کے لئے ملک کے کمانڈر اِن چیف بھی رہیں گے۔یہی نہیں بلکہ دستور میں شق 260 بھی شامل کی گئی جس میں کمانڈر اِن چیف کو ملک بھر میں مارشل لگانے کا ’آئینی اختیار ‘ بھی دیا گیا، دوسرے لفظوں میں آئین میں ہی آئین شکنی کا طریقہ کار لکھ دیا گیا جو ایک مضحکہ خیز بات تھی ۔جس دن اِس مجوزہ آئین کی کاپیاں پریس کو بھیجی گئیں وہ دن 16دسمبر 1971کا تھا ،یہ وہی دن تھا جب جنرل نیازی (مبینہ ٹائیگر )بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر کی یاد داشت پر دستخط کر رہاتھا۔
حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنرل یحییٰ خان جس خیالی دنیا میں رہ رہا تھا اُس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 دسمبر کو مغربی محاذ پر جنگ بندی کے بعد جنرل صاحب نے اعلان کیا کہ ان کے ’آئینی منصوبوں‘ میں ذرا سی بھی رکاوٹ نہیں آئی اور وہ اپنے’ ٹائم ٹیبل‘ کے مطابق آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، موصوف نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ نیا دستور 20 دسمبر کو نافذ کیا جائے گا،باقی تاریخ ہے ۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان سیاسی شکست تھی تو یہ بات بھی سو فیصد جھوٹ نہیں ، سیاسی طور پر یہ ناکامی تھی کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں متفقہ آئین پر آمادہ نہ ہوسکیں اور یوں جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں یہ عذر آگیا کہ عوامی لیگ اپنی واضح اکثریت کی بنیاد پر مغربی پاکستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کرے گی لیکن یہ محض ایک بہانہ تھا، انتخابات جیتنے والی سب سے بڑی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کا۔
شیخ مجیب الرحمٰن نے اِس اعتراض کا جواب اسی وقت یہ کہہ کر دے دیا تھا کہ’’میں ایک جمہوری شخص ہوں اور پورے پاکستان کا لیڈر ہوں، میں مغربی پاکستان کے مفادات کو نظر انداز نہیں کرسکتا،میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ کو بھی جوابدہ ہوں....ہم پارلیمانی جمہوریت کے تمام عمل سے گزریں گے اور ہر معاملے پر مذاکرات کرکے (فریقین کیلئے )اسمبلی کے اندر اور باہر قابل قبول حل تجویز کریں گے۔
الزام لگا رہے تھے وہ شیخ مجیب اُس وقت بھی ملک جوڑنے اور جمہوریت کی بحالی کی باتیں کر رہا تھا لیکن اگر ’سر ‘ کہتے ہیں کہ ملک ٹوٹنا سیاسی ناکامی تھی تو پھر ہمیں سر ِتسلیم خم کرکے یہ بات قبول کرلینی چاہئے ، ہو سکتا ہے کہ اسی میں ہماری بہتری ہو، آخر ہم نا سمجھ بھی تو ہیں!
فوج کا ڈنڈا-انصار عباسی
نئی فوجی قیادت کیلئے سب سے بڑا چیلنج فوج کی عوام میں عزت کو بحال کرنا ہے ،جس کیلئے سیاست سے کنارہ کشی لازم ہے۔ جب فوج یا آئی ایس آئی سیاسی تنازعات کا حصہ بن جائے تو اُن کے بارے میں بھی سیاست ضرور ہوگی۔ کوئی ایک سیاسی جماعت اور اُس کے سپورٹرز اگر ان اداروں کے حق میں بات کریں گے تو کوئی دوسری سیاسی جماعت یا گروہ ان پر تنقید کرے گا۔ ویسے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ہدف تنقید بنی رہی لیکن جو کچھ ہم نے گزشتہ سات آٹھ مہینوں کے دوران دیکھا اور سنا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
جس سیاسی رہنما (عمران خان) اور سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئےفوج نے پولیٹکل انجینئرنگ کے تمام ریکارڈ توڑے، اُس نے اپنی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اُسی اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کی بھرمار کر دی، سوشل میڈیا کے ذریعےاسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف درجنوں ٹرینڈز بھی چلائے، اُنہیں غدار کہا، اُن پر مبینہ رجیم چینج کی امریکی سازش کو پاکستان میں کامیاب کروانے کا الزام دھرا، اُنہیں جانور کہا ، گالم گلوچ تک کی گئی۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے کہا کہ فوج کے ادارے نے گزشتہ سال اپنے آپ کو سیاست سے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیاتھا اور اس فیصلے پر سختی سے عمل ہوگا۔ جنگ میں آج شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے پیش رو کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ فوج سیاست سے دور رہے گی اور ساتھ ہی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے وقار اور آئین کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ چاہے تو وہ اس قانون کو ختم کرنے کیلئے آزاد ہے کیونکہ قانون سازی فوج کا کام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فوج کا کام وفاقی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنا اور اس کے احکامات ماننا ہے، نہ کہ اسے ڈکٹیشن دینا۔ نئے چیف کا یہ بیان نہایت خوش آئند ہے۔ اب اس بیان پر اُنہیں اپنے تین سالہ دور میں سختی سے کاربند رہنا ہوگا۔پاک فوج اور آئی ایس آئی ملک کے دفاع اور سیکورٹی کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ ایسے اداروں کا اندرونی طور پر تنازعات اور خصوصاً سیاسی تنازعات سے پاک رہنا بہت ضروری ہے۔ ماضی میں فوج کے ڈنڈے اور آئی ایس آئی کو جس طرح گاہے گاہے سیاسی جوڑتوڑ، حکومتیں بنانےو گرانے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا گیا، اُسے اب پاکستان کی اُس تاریخ کا حصہ بن جانا چاہئے جسے بحیثیت قوم ہمیں اب کبھی نہیں دہرانا۔
ایک طرف اگر فوج اور آئی ایس آئی کو اپنے متنازعہ کردار سے پیچھے ہٹنا ہے تودوسری جانب یہ سیاستدانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے سیاسی فیصلوں کیلئے نہ تو فوج اور آئی ایس آئی کی طرف دیکھیں اور نہ ہی اُن اداروں کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کریں یعنی ایک طرف فوج کو سیاستدانوں کو اپنے ڈنڈے سے ہانکنے اور دوسری طرف سیاستدانوں کو فوج کے ڈنڈے سے ہانکے جانے کی تاریخ کو دفن کرنا ہوگا۔
ویسے ہمارے سیاستدانوں کے بیانات جو مرضی ہوں، ماضی قریب تک تقریباً تمام بڑی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی نظریں فوج پر ہی مرکوز رہیں کہ وہاں سیاست کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے! ہماری سیاسی جماعتوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا سلیقہ آنا چاہئے۔ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے چاہئیں بلکہ باہمی سیاسی تنازعات اور اختلافات پر بھی آپس میں مل بیٹھ کر گفتگو کریں، اس کیلئے پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کریں، گالی اور اختلاف برائے اختلاف کی بجائے دلیل اور اصول کی بنیاد پر سیاست کریں۔
سیاست دانوں کو حکومت میں آ کر آئین کے مطابق حکمرانی کرنے کا گر سیکھنا چاہئے تاکہ جو کچھ آئین میں لکھا ہے اس کے ثمرات عوام کو بھی ملیں اور جو خرابیاں ہمارے گورننس سسٹم میں موجود ہیں اُنہیں دور کیا جائے یہی بہتر طرزِحکمرانی کا بہترین نسخہ ہے ،جس پر سیاستدانوں کو عمل کرنا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جنرل باجوہ کا دور تنازعات اور الزامات کے ساتھ ختم ہوگیا: تجزیہ کار

کراچی-30نومبر2022 (ٹی وی رپورٹ): جئیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا چھ سالہ دور تنازعات اور الزامات کے ساتھ ختم ہوگیا، عمران خان کے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل مچ گئی،وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے کہا کہ عمران خان نے ہماری حکومت گرانی تھی مگر اپنی حکومت گرانے کا اعلان کردیا، تمام آپشنز اور قانونی پہلوؤں کا بغور جائزہ لے لیا ہے ، پی ٹی آئی واقعی کوئی اقدام کرتی ہے تو ہم اپنے آپشنز پر عمل کریں گے
میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دنیا کی چھٹی سب سے بڑی فوج کی کمان نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو منتقل کردی ہے، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ہے، تاریخ جنرل قمر جاوید باجوہ کو صرف کمان کی تبدیلی کیلئے یاد نہیں رکھے گی بلکہ اس لیے یاد رکھے گی کہ وہ تین سال کیلئے آرمی چیف بنے مگر توسیع کے ذریعہ چھ سال تک اپنے عہدے پر فائز رہے، المیہ یہ رہا کہ ایک جمہوری ملک میں چھ سال تک آرمی چیف نہیں بدلا گیا مگر ایک ہی آرمی چیف کے ہوتے ہوئے چار منتخب وزیراعظم اور ایک نگراں وزیراعظم آیا،شہباز شریف وہ چوتھے وزیراعظم ہیں جن کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی مدت ملازمت کے آخری آٹھ ماہ کام کیا-
جنرل قمر جاوید باجوہ کا چھ سالہ دور پاکستان کی حالیہ تاریخ کا سب سے متنازع ترین دور رہا جس نے ملک کو سیاسی و معاشی عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا، اب نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اس سیاسی اور معاشی عدم استحکام میں اپنے ادارے کی ساکھ کو کس طرح بحال کریں گے یہ دیکھنا اہم ہوگا، جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی کمان اس نکتہ پر چھو ڑ کر گئے ہیں کہ فوج اب سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی، مگر صرف اس بات سے اس حقیقت کو بدلا نہیں جاسکتا کہ جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے اگر فوج نے سب سے زیادہ سیاسی مداخلت کی ہے تو وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں کی ہے
اس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے، پاکستان کی تاریخ میں فوج کی جانب سے اتنی کھلے عام سیاسی مداخلت کی گئی کہ جہاں یہ تاثر بھی ختم ہوگیا کہ یہ مداخلت قومی مفاد کے نام پر کی جارہی ہے، یہ بات زبان زدعام تھی کہ یہ سب کچھ اپنی تعیناتی، توسیع اور دس سال تک ملک کے نظام کو چند لوگوں کے سپرد کرنے کیلئے کیا جارہا ہے، جب یہ پلان ناکام ہوگیا تو گزشتہ چھ برسوں میں سے پانچ سال تک جنرل قمر جاوید باجوہ کے زیرنگرانی اور جنرل فیض حمید کی حمایت کے ساتھ فوج کی قیادت نے جس جماعت کیلئے سب کچھ مینج کرنے کی کوشش کی اور ایک ہائبرڈ رجیم کو تشکیل دیا گیا وہ جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف بھی جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید کررہی ہے -
اور ان کی ریٹائرمنٹ کے دن کو یوم نجات کے طو ر پر منارہی ہے، جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کو یوم دفع قرار دے رہی ہے، تضحیک آمیز اور نازیبا ٹرینڈز چلائے جارہے ہیں، پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے ہیش ٹیگ یوم دفع لکھ کر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ گمنامی میں جانے سے پہلے جو بدنامی کمائی ہے وہ ختم نہیں ہوگی۔
دعا اور کوشش :جاوید چوہدری
لائلپورسٹی- 20نومبر2022: میرے ایک دوست نے اسلام آباد میں اپنا گھر ایک جاپانی فیملی کو کرائے پر دے رکھا ہے‘ یہ فیملی سات سال سے اس گھر میں رہ رہی ہے‘ میرے دوست کو بے شمار لوگوں‘ کمپنیوں اور خاندانوں نے تین گنا کرائے کی آفر کی لیکن میرے دوست نے جاپانی فیملی سے گھر خالی کرانے سے انکار کر دیا۔
میں نے دو دن قبل اس سے اس قربانی کی وجہ پوچھی تو اس کا جواب تھا‘ جاپانی خاندان نے میرا گھر اتنا صاف ستھرا رکھا ہوا ہے کہ میں بھی اس کی اتنی کیئر نہیں کر سکتا‘ میں نے ہنس کر کہا‘ یہ جاپانیوں کی قومی عادت ہے‘ یہ روزانہ اپنا گھر فرش سے لے کر چھت تک صاف کرتے ہیں‘ جاپانیوں کے گھر چھوٹے ہوتے ہیں‘ اس کی وجہ صفائی پسندی ہے۔
یہ لوگ اپنے گھروں کی صفائی خود کرتے ہیں چناں چہ یہ چھوٹے گھر پسند کرتے ہیں تاکہ صفائی آسانی اور تفصیل سے ہو سکے‘ بڑے گھر پر زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے‘ یہ جوتے بھی باہر اتار کر گھر میں داخل ہوتے ہیں‘ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور واش روم کو تولیے سے صاف کر کے چمکا کر باہر آتے ہیں‘ یہ ان کی قومی عادت ہے‘ میرے دوست نے ہنس کر جواب دیا‘ میں سمجھ رہا تھا شاید میرا کرایہ دار ایسا ہے۔
میں نے جواب دیا‘ ہرگز نہیں‘ آپ کسی بھی جاپانی کو گھر دے دیتے اس نے اس کا اسی طرح خیال رکھنا تھا‘ جاپانی لوگ اپنی گاڑی کو بھی معشوقہ بنا کر رکھتے ہیں شاید اسی لیے پوری دنیا میں جاپانی گاڑیوں کی ری سیل ویلیو زیادہ ہوتی ہے‘ جاپانیوں کی عادت ہے یہ جدید ترین گاڑی خریدتے ہیں۔
گیراج میں کھڑی کرتے ہیں اور خود ٹرین اور بس پر سفر کرتے ہیں‘ یہ صرف ویک اینڈ پر گاڑی نکالیں گے‘ چند کلومیٹر چلائیں گے‘ واپس آئیں گے‘ گاڑی کو خوب مل مل کر صاف کریں گے اور دوبارہ گیراج میں کھڑی کر دیں گے۔
جاپانی اپنا بھی بے تحاشا خیال رکھتے ہیں‘ جاپان میں 60 ہزار لوگوں کی عمریں سو سال سے زیادہ ہیں اور 98 فیصد بابے ورکنگ کنڈیشن میں ہیں‘ یہ روزانہ کام بھی کرتے ہیں اور دوڑتے بھاگتے بھی ہیں‘ جاپانیوں کی اچھی صحت اور لمبی عمر کی سات وجوہات ہیں اور دنیا کا کوئی بھی شخص یہ عادتیں اپنا کر اپنی صحت اور عمر میں اضافہ کر سکتا ہے‘ جاپانیوں کی پہلی عادت باتھ ہے۔
دنیا جہاں کے لوگ غسل (شاور) کرتے ہیں جب کہ جاپانی گرم پانی کے باتھ لیتے ہیں‘ یہ روزانہ باتھ ٹب میں لیٹتے ہیں‘ جاپان میں گرم پانی کے تیس ہزار تالاب ہیں‘ لوگ ایڈوانس بکنگ کرا کر ان تالابوں میں باتھ لیتے ہیں‘ شاور سے صرف آپ کا جسم صاف ہوتا ہے جب کہ باتھ ٹب میں بیٹھنے یا لیٹنے سے انسان کی جلد کے سیلز میں انرجی بھی آ جاتی ہے مسلز کو سکون بھی ملتا ہے اور ٹینشن اور اینگزائٹی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے دنیا کی تمام پرانی تہذیبوں میں شہروں اور دیہات کے درمیان تالاب ہوتے تھے‘ پنجاب میں بھی جوہڑ ہوتے تھے اور پورا شہر اور گائوں ہر شام ان میں تیراکی کرتا تھا‘ یورپ میں آج بھی تیراکی لازمی ہے‘ مغربی دنیا کے ہر گھر میں باتھ ٹب بھی ہوتا ہے اور اس کی وجہ شاور اور باتھ کا فرق ہے‘ جاپانی یورپ سے بھی چند ہاتھ آگے ہیں لہٰذا یہ روزانہ باتھ لیتے ہیں‘ دوسری عادت‘ جاپانی صفائی کے نشئی ہیں۔
جاپانی خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو یہ اپنے گھر‘ گاڑی اور گلی کی دو تین گھنٹے صفائی کرے گا‘ جاپان میں بچے اپنے اسکول کی صفائی خود کرتے ہیں‘ یہ اسکول آنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے فرش‘ کھڑکیاں‘ دروازے‘ واش رومز‘ لان‘ گیٹ اور کھیل کے میدان صاف کرتے ہیں اور ان کی کلاسیں اس کے بعد شروع ہوتی ہیں‘ یہ لوگ چلتے چلتے بھی صفائی کرتے رہتے ہیں‘ سڑکوں سے کچرا اٹھا کر ڈسٹ بین میں پھینکیں گے‘ پرانی دیواریں پینٹ کر دیں گے‘ سرکاری درختوں کی کانٹ چھانٹ کر دیں گے اور یہ کام ان کے ارب پتی لوگ بھی کرتے ہیں۔
ٹوکیو میں جرائم پیشہ لوگوں کے گینگز بھی ہیں‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ گینگز بھی گند نہیں ڈالتے‘ یہ اگر کسی کو قتل بھی کریں گے تو فرش باقاعدہ صاف کر کے واپس جائیں گے‘ تیسری عادت پورا ملک روزانہ ایکسرسائز کرتا ہے‘ جاپانی ایکسرسائز ریڈیو کیلس تھینکس (Radio Calisthenics) کہلاتی ہے‘ یہ اجتماعی ایکسرسائز ہے۔
حکومت نے یہ 1928 میں متعارف کرائی تھی اور پوری جاپانی قوم سو سال سے بلاناغہ سال کے 365 دن یہ ایکسرسائز کرتی ہے‘ ریڈیو ایکسرسائز دفتروں اور گھروں دونوں میں کی جاتی ہے اورہر عمر کے لوگ کرتے ہیں‘ یہ 30 ایکسرسائز کا سیٹ ہے اور یہ تین منٹ اور 32 سکینڈ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن آپ کا پورا جسم ایکٹو ہو جاتا ہے لہٰذا جاپانی پوری دنیا میں ایکٹو اور فٹ سمجھے جاتے ہیں‘ چوتھی عادت لوگ صبح جلدی جاگتے ہیں اور سورج کی طرف منہ کر کے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
جاپانی زمانہ قدیم میں سورج کی پوجا کیا کرتے تھے اور پوجا کے لیے صبح اٹھ کر سورج کا استقبال ضروری ہوتا تھا چناں چہ جلدی جاگنا ان کے ڈی این اے میں شامل ہو چکا ہے‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا کے تمام مذاہب میں صبح کی نماز موجود ہے اور اس کی وجہ انسان کو صبح کی برکتوں سے متعارف کرانا ہے‘ انسان کے جسمانی کلاک میں صبح کا رول انتہائی اہم ہے اور جاپانی اس حقیقت سے واقف ہیں چناں چہ یہ صبح جلدی اٹھتے ہیں اور سورج کی روشنی کو انجوائے کرتے ہیں‘ پانچویں عادت یہ لوگ انتہائی سادہ خوراک کھاتے ہیں۔
یونیسکو نے 2013میں جاپانی خوراک کو دنیا کی بہترین خوراک قرار دیا تھا‘ آپ آج یہ خوراک شروع کر دیں آپ کی زندگی اور صحت دونوں میں اضافہ ہو جائے گا‘ جاپانی خوراک ایک سوپ اور تین سائیڈ ڈشنز پر مشتمل ہوتی ہے‘ یہ لوگ روزانہ تھوڑے سے ابلے ہوئے چاول‘ مچھلی‘ سلاد‘ فرمینٹڈ سبزیاں‘ گریک اسٹائل دہی اور بینز کھاتے ہیں‘ کھانا نیچے بیٹھ کر آہستہ کھاتے ہیں اور ڈنر کے دوران خوش گوار گفتگو کرتے ہیں۔
یہ لوگ کھانے کے دوران منفی بات نہیں کرتے اور جھگڑتے بھی نہیں ہیں جب کہ ہماری ہر ڈائننگ ٹیبل پر لڑائی بھی ہوتی ہے اور ہم سب سے زیادہ غیبت بھی کھانے کے دوران کرتے ہیں‘ چھٹی عادت‘ یہ لوگ ماچا چائے پیتے ہیں‘ ماچا (Matcha) سبز رنگ کے پتے ہوتے ہیں‘ یہ لوگ ان کا پائوڈر بناتے ہیں اور یہ پائوڈر گرم پانی میں گھول کر پی جاتے ہیں‘ ماچا میں وہ تمام معدنیات اور وٹامنز موجود ہوتے ہیں جن کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔
جاپانی یہ چائے استعمال کرتے رہتے ہیں بالخصوص بزرگ جاپانی اس کے عادی ہیں اور ساتویں عادت جاپانی ہائیکنگ کرتے ہیں‘ جاپان میں سیکڑوں چھوٹی بڑی پہاڑیاں ہیں‘ جاپانی لوگ ہفتے میں کم از کم ایک بار ان پہاڑیوں پر ہائیکنگ ضرور کرتے ہیں‘ ہائیکنگ سے انسان کی ٹانگیں‘ مسلز اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں‘ آپ پہاڑی علاقوں کے لوگوں کو دیکھیں آپ کو ان کی عمریں بھی لمبی ملیں گی‘ یہ لوگ شہر کے لوگوں کے مقابلے میں صحت مند بھی ہوں گے اور ان کے جوڑ بھی مضبوط ہوں گے۔
پہاڑی لوگ ہڈیوں کے امراض کا کم شکار ہوتے ہیں‘ میری سائوتھ افریقہ میں ہڈیوں کے ایک سرجن سے ملاقات ہوئی‘ اس نے انکشاف کیا‘ میرے پاس آج تک کوئی رنر اور کوئی ہائیکر نہیں آیا‘ ائیرمارشل نور خان نے 88سال عمر پائی‘ یہ آخری دنوں تک روزانہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر ہائیکنگ کرتے تھے۔
میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کے گھٹنوں میں درد نہیں ہوتا‘‘ ائیرمارشل صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’میں نے بھی لوگوں سے سنا تھا ہائیکنگ سے گھٹنوں میں درد ہو جاتا ہے لیکن میرے گھٹنوں میں آج تک نہیں ہوا‘‘ جاپانی بھی اس راز سے واقف ہیں لہٰذا یہ کم از کم ہفتے میں ایک دن ہائیکنگ ضرور کرتے ہیں۔
دنیا میں بلیو زونز کے نام سے پانچ ایسے علاقے ہیں جہاں لوگوں کی عمریں سو سال سے زیادہ ہیں‘ یہ لوگ ورکنگ کنڈیشن میں بھی ہیں اور یہ کسی قسم کی دوا بھی استعمال نہیں کرتے‘ یہ علاقے جاپان کا جزیرہ اوکی ناوا (Oki Nawa)‘ اٹلی کا علاقہ سارڈینیا (Sardinia)‘ کوسٹا ریکا کا شہر نی کویا (Nicoya)‘ یونان کا شہر آئیکیریا (Ikaria) اور کیلیفورنیا کا ٹائون لومالینڈا ہے‘ دنیا جہاں کے سائنس دان ان بلیو زونز پر ریسرچ کر رہے ہیں۔
اب تک کی ریسرچ کے مطابق یہ لوگ متحرک ہیں‘ مطمئن اور شاد ہیں‘ سادہ زندگی گزارتے ہیں‘ نیچر کے قریب ہیں‘ جلد سو جاتے ہیں‘ جلد اٹھتے ہیں‘ صبر اور شکر کرتے ہیں اور قہقہے لگاتے رہتے ہیں لہٰذا یہ صحت مند بھی ہیں اور ان کی عمریں بھی لمبی ہیں‘ہمارا ایمان ہے زندگی اور موت کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اگر یہ نہ چاہے تو شداد بھی گھوڑے کی رکاب سے پائوں زمین پر نہیں رکھ سکتا اور یہ اگر چاہے تو فرعون اور نمرود کو بھی اپنے پسندیدہ نبیوں کے سامنے چھوٹ دے دیتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم انسانوں کی کوشش ہونی چاہیے۔
ہم جتنی دیر بھی زندہ رہیں ہم اپنی زندگی کی قدر بھی کریں اور صحت مند رہنے کی کوشش بھی کریں‘ بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیار اپنے نائب انسان کو بھی دے رکھے ہیں اور ان اختیارات میں پہلا اختیار زندگی گزارنے کا فیصلہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زندگی کو مثبت یا منفی گزارنے کا اختیار انسان کو دے رکھا ہے لہٰذا اچھائی اور بہتری کی کوشش بھی کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا بھی کرتے رہیں‘ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا‘ کوشش نہ کرنا بے وقوفی اور کوشش کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرنا تکبر ہوتا ہے چناں چہ میرا مشورہ ہے جاپانیوں کی طرح کوشش اور دعا ساتھ ساتھ چلاتے رہیں‘ آپ کبھی گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔
پی ٹی آئی اور صدر مملکت نئے آرمی چیف کے تقرر پر اعتراض نہیں اٹھائینگے:انصار عباسی
اسلام آباد (انصار عباسی) پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی نئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تنازع پیدا کرے گی اور نہ ہی وزیراعظم شہباز شریف کے ذریعے ہونے والی آرمی چیف کی تقرری پر صدر عارف علوی کوئی رکاوٹ ڈالیں گے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پی ٹی آئی رہنما نے دی نیوز کو بتایا کہ عمران خان اور پارٹی قیادت نئے آرمی چیف کے تقرر کو متنازع نہیں بنائے گی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ صدر مملکت بھی تقرری کا عمل پرسکون انداز سے مکمل ہونے کو یقینی بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آرمی چیف کو بغیر کسی پریشانی کے قبول کریں گے چاہے وزیراعظم جسے عہدے پر مقرر کریں۔ اس موقف سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تحریک انصاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی موجودہ پالیسی کو برقرار نہیں رکھنا چاہتی۔
انہوں نے کچھ حکومتی حلقوں کے اس خدشے کو مسترد کر دیا کہ عمران خان کے حالیہ بیانات کی وجہ سے شاید صدر مملکت آرمی چیف کے تقرر میں تاخیر کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ صدر مملکت کوئی مسئلہ پیدا نہیں کریں گے، اور یہ پارٹی پالیسی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی پالیسی پر پارٹی میں بحث ہوئی ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی پالیسی نہیں رکھنا چاہئے۔
پی ٹی آئی لیڈر نے کہا کہ عمران خان نے اپنے گزشتہ چار سے پانچ خطاب میں آئی ایس آئی کے میجر جنرل کا نام تک نہیں لیا جسے وہ ارشد شریف کے قتل اور خود پر حملے کے معاملے میں ہدف بنائے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم آفس سے نکال باہر کیے جانے کے بعد سے عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سخت انداز سے ٹکرانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ انہوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تمام اہم کھلاڑیوں کو ہدف بنائے رکھا اور اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ ان پر دبائو ڈالا جائے تاکہ موجودہ حکومت کو ہٹا کر جلد الیکشن کرائے جائیں۔
اپنی حکومت کو امریکی سازش کے تحت ہٹانے اور شہباز شریف کی حکومت لانے میں امریکا کا ساتھ دینے کے معاملے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے بعد عمران خان اور ان کی پارٹی کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق روزانہ خراب ہوتا چلا گیا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر عوام میں کھل کر تنقید کرنے کے بعد عمران خان کے حامیوں اور سوشل میڈیا ٹیم نے فوج کی اعلیٰ قیادت اور ادارے کیخلاف مہم کا سلسلہ شروع کر دیا۔
معاملہ اس وقت حد سے پار چلا گیا جب عمران خان نے اداروں پر ارشد شریف کے قتل کا الزام عائد کیا جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی۔ عمران خان کو اس کے بعد بھی نہ روکا جا سکا اور جب ان پر وزیر آباد میں حملہ ہوا تو انہوں نے آئی ایس آئی کے میجر جنرل کا نام لیا کہ حملہ کرنے والے تین افراد میں ایک یہ بھی ہیں۔ میجر جنرل کے علاوہ، انہوں نے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کا نام بھی لیا۔
نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے عمران خان نے پہلے یہ کہا کہ موجودہ حکومت اور وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اختیار نہیں کہ وہ آرمی چیف کا تقرر کریں۔ ان کی رائے تھی کہ موجودہ آرمی چیف کو آئندہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے آنے تک توسیع دینا چاہئے کیونکہ یہ تقرری نئی حکومت کا کام ہے۔
جب موجودہ آرمی چیف نے اشارہ دیا کہ وہ مزید توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے تو عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ پس پردہ بات چیت میں اعلیٰ فوجی عہدے کیلئے امیدوار سمجھے جانے والے ایک لیفٹیننٹ جنرل کے نام پر اعتراض کیا۔ بعد میں وہ اس بات سے بھی دستبردار ہوگئے اور اب عمران خان کی پالیسی یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف چاہے کسی کو بھی آرمی چیف مقرر کر دیں، اسے قبول کیا جائے گا۔
میں نے شوگر کیسے کنٹرول کی:جاوید چوہدری
لائلپورسٹی- 18نومبر2022:مجھے شوگر کا مرض پہلے لاحق ہوا تھا یا صحافت کا عارضہ‘ میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا تاہم یہ طے ہے یہ دونوں امراض لاعلاج ہیں۔ انسان جس طرح ایک بار صحافی بننے کے بعد تاحیات صحافی ہی رہتا ہے خواہ وہ کتنا ہی سمجھ دار اور تجربہ کار کیوں نہ ہو جائے بالکل اسی طرح آپ اگر ایک بار شوگر کے مریض بن گئے تو پھر آپ قبر تک اس سے جان نہیں چھڑا سکتے۔
میں بھی یہ سمجھتا تھا مگر میں آج شوگر کے عالمی دن پر یہ جسارت کر رہا ہوں میں نے اس مرض کو کم از کم 80 فیصد کنٹرول کر لیا ہے‘ گومیرے دوست گرو زاہد عرفان اور ڈاکٹر خالد جمیل دعویٰ کر رہے ہیں میں سو فیصد ’’نان ڈائیابیٹک‘‘ ہو چکا ہوں مگر میں خوف یا شوگر سے محبت کی وجہ سے اپنے آپ کو 20 فیصد کا مارجن دے رہا ہوں۔
میری رپورٹس ماشاء اللہ سو فیصد ٹھیک ہیں‘ شوگر کا تین مہینے کا ٹیسٹ ایچ بی اے ون سی ایک سال سے پانچ اعشاریہ سات ہے‘ خون کے باقی تمام ٹیسٹ بھی شان دار ہیں اور میں اس وقت عملاً ’’زیرو میڈی سن‘‘ ہوں اور میں اللہ کے لاکھ لاکھ کرم سے کسی قسم کی کوئی دوا استعمال نہیں کر رہا اور چون سال کی عمر میں 25 سال کی عمر سے بہتر زندگی گزار رہا ہوں۔
سوال یہ ہے میں اس لیول پر کیسے آیا؟ یہ ایک طویل داستان ہے اور میں یہ داستان آپ کو اس نیت سے سنا رہا ہوں شاید آپ میری طرح اس مرض کو شکست دے لیں‘ آپ بھی شاید اللہ کے کرم سے ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔
میں اپنی داستان 1993 سے اسٹارٹ کرتا ہوں‘میں شوگر کا مریض ہوں‘ مجھے یہ اطلاع 1993 میں ملی تھی‘ میں اس وقت 25 سال کا نوجوان تھا اور مجھے عین جوانی میں یہ مرض لاحق ہو گیا‘ میں کیوں کہ فطرتاً ضدی انسان ہوں‘ کام یابی یا موت میرے سامنے بس دو ہی آپشن ہوتے ہیں چناں چہ میں نے شوگر کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔
میں نے بھی دنیا کے 90 فیصد مریضوں کی طرح شروع میں ادویات لیں لیکن مرض کنٹرول نہ ہو سکا چناں چہ انسولین شروع کر دی‘ 20 سال انسولین لگاتا رہا اور انسولین‘ فوڈ مینجمنٹ‘ ایکسرسائز اور پازیٹو تھنکنگ سے جیسے تیسے شوگر کے برے اثرات سے بچتا رہا لیکن پھر اس مرض کے اثرات نظر آنے لگے‘ زیادہ اور طویل واک کی وجہ سے گھٹنوں میں درد ہو گیا اور چلنے پھرنے میں دقت ہونے لگی‘ ٹانگوں اور پائوں کو خون سپلائی کرنے والی وینز بھی دب گئیں چناں چہ میں پتلون نہیں پہن سکتا تھا۔
میرے پاس کھلے ٹرائوزر اور شلوار قمیض کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ میری دونوں آنکھوں کا ریٹنا بھی متاثر ہونے لگا‘ مجھے دھندلا نظر آتا تھا‘ میرے چہرے کی سکن بھی بری طرح تباہ ہو گئی اور میں اچھا خاصا ’’فٹے منہ‘‘ ہو گیا‘ میں اب گھٹنوں اور کولیسٹرول کی ادویات کھانے پر بھی مجبور ہو گیا اور مجھے آنکھوں میں انجیکشن بھی لگوانا پڑ گئے اور میری واک بھی بند ہو گئی‘ میرے پاس صرف دو آپشن تھے‘ میں مرض کے ہاتھوں میں سرینڈر کر دیتا یا پھر میں نئے سرے سے اس کے ساتھ جنگ شروع کر دیتا۔
میں کیوں کہ فطرتاً ڈھیٹ اور ضدی ہوں لہٰذا میں نے نئے سرے سے جنگ کا فیصلہ کر لیا‘ میں نے شوگر کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا امریکا اور یورپ میں انقلاب آ چکا ہے‘ ہزاروں لوگ شوگر سے مستقل جان چھڑا کر اب ایک صحت مند زندگی گزار رہے ہیں‘ مجھے پتا چلا ڈاکٹر جیسن فنگ‘ ڈاکٹر ولیم ڈیوس اور ڈاکٹر ایرک برگ نام کے ڈاکٹر ہزاروں لوگوں کی زندگی بدل چکے ہیں‘ کیٹو ڈائٹ‘ لوکارب اور انسولین ریزسٹینس کے نام سے نئی تھیوریاں آ چکی ہیں‘ بھارت میں بھی درجنوں ویل نیس سینٹر لوگوں کو ٹریننگ دے کر انھیں ’’شوگر فری‘‘ بنا رہے ہیں۔
میں پڑھتا گیا اور میری آنکھیں کھلتی چلی گئیں‘ پاکستان میں ڈاکٹر خالد جمیل نے اس پر کام کیا تھا‘ یہ گردوں کے سرجن ہیں‘یہ خود بھی شوگر کے مریض تھے‘ ڈاکٹرز نے انھیں بھی جواب دے دیا تھا لہٰذا یہ بھی لوکارب اور کیٹو ڈائیٹ پر شفٹ ہوئے اور شوگر کے عذاب سے باہر آ گئے‘ ڈاکٹر صاحب نے اب اپنے آپ کو دوسروں کی رہنمائی کے لیے وقف کر دیا ہے‘ میرا ان سے رابطہ ہو گیا‘ اس دوران زاہد عرفان سے بھی ملاقات ہوئی‘ یہ بھی خوف ناک شوگر کے بعد شوگر فری زندگی گزار رہے تھے‘ میں نے انھیں گرو کا خطاب دیا اور پھر ان دونوں کی مدد سے کام شروع کر دیا۔
شوگر ری ورسل کا فارمولا بہت آسان ہے‘ ہم لوگ اناج زیادہ کھاتے ہیں‘ ہماری خوراک روٹی‘ چاول‘ دالوں‘ چینی اور کوکنگ آئل پر مشتمل ہے اوریہ پانچوں چیزیں شوگر‘ بلڈ پریشر‘ یورک ایسڈ‘ جوڑوں کا درد اور موٹاپا پیدا کرتی ہیں اورآپ اگر ان کے ساتھ سگریٹ نوشی بھی کرتے ہیں یا شراب پیتے ہیں تو پھر آپ کے بچنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہو جاتے ہیں‘ میں اللہ کے رحم سے شراب اور سگریٹ سے پوری زندگی محفوظ رہا لہٰذا میرا ایشو صرف خوراک تھی۔
میں نے روٹی‘ چاول‘ چینی‘ دالیں اور کوکنگ آئل چھوڑ دیااور خود کو سبزیوں‘ گوشت‘ مچھلی‘ انڈوں‘ دیسی گھی اور تازہ پھلوں پر شفٹ کر دیا‘ میرا جسم اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں تھا لہٰذا میرا وزن تیزی سے گرنے لگا‘ میرا وزن دو ماہ میں 13 کلو کم ہو گیااور میں دیکھنے والوں کو بیمار دکھائی دینے لگا‘ میں خود بھی گھبرا گیا لیکن جب ٹیسٹ کرائے تو وہ تمام شان دار تھے چناں چہ میرے پاس اس کے بعد دو آپشن تھے‘ میں صحت مند دکھائی دوں یا پھر صحت مند ہو جائوں۔
میں نے دوسرا آپشن لے لیااور کسی تنقید کی پروا نہیں کی اور یوں میں چھ ماہ میں نان ڈائیا بیٹک بھی ہو گیا اور میرے گھٹنوں کا درد بھی ختم ہو گیا‘ آنکھیں بھی ٹھیک ہو گئیں اور میںبیس سال چھوٹا بھی دکھائی دینے لگا‘ میں آج نہ ہونے کے برابر انسولین لگاتا ہوں‘ یہ نہ بھی لگائوں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن کیوں کہ 22 سال سے انسولین لگا رہا ہوں اور میری باڈی کو اس کی عادت پڑ چکی ہے لہٰذا میں تھوڑے سے یونٹس لگا کر خود کو مطمئن کر لیتا ہوں‘ ایکسرسائز کرتاہوں‘ کم کھاتا ہوں‘ نیند پوری لیتا ہوں‘ خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور اللہ کی نعمتیں گن گن کر اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔
گرو زاہد عرفان ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتا تھا‘ میں نے اس کی منت کر کے اس سے نوکری چھڑا دی اور یہ اب ’’مائینڈ چینجر‘‘ کے ساتھ مل کر لوگوں کو ٹریننگ دے رہا ہے‘ ہمارا پیغام بڑا سادہ ہے‘ دنیا کی ہر بیماری کچن سے اسٹارٹ ہوتی ہے اور یہ کچن ہی سے ٹھیک ہوسکتی ہے‘ آپ کا اگر وزن زیادہ ہے یا آپ بلڈ پریشر‘ شوگر‘ گردوں اور دل کے امراض کے شکار ہیں تو آپ بس خود سے یہ سوال پوچھ لیں ’’آپ بیمار کیسے ہوئے؟‘‘
آپ چند لمحوں میں بیماری کی جڑ تک پہنچ جائیں گے‘ یقین کریں 90 فیصد امراض کچن سے اسٹارٹ ہوتے ہیں اوریہ کچن ہی سے ختم ہوتے ہیں لہٰذا آپ کو میدانوں اور پارکوں میں پاگلوں کی طرح دوڑنے کی ہرگز ضرورت نہیں‘ آپ بس خوراک کنٹرول کر لیں‘ آپ کی تمام بیماریاں کنٹرول ہو جائیں گی‘ انسان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں‘ یہ خوراک اور ایکسرسائز سے بیماریوں کو کنٹرول کر لے یا پھر یہ ادویات کھاتا رہے۔
پہلے آپشن میں آپ کی کوالٹی آف لائف بہتر ہو جاتی ہے جب کہ دوسرے آپشن میں آپ کی ادویات بھی بڑھتی رہتی ہیں اور آپ کی کوالٹی آف لائف بھی دن بدن گرتی چلی جاتی ہے‘ آپ آج سے ستر اسی سال پیچھے چلے جائیں‘ آپ کو لوگ سادہ کھانا کھاتے اور کھیتوں میں کام کرتے نظر آئیں گے‘ اس زمانے میں پورے شہر میں ایک آدھ ڈاکٹر ہوتا تھا لیکن آج ہرگلی میں دس دس ڈاکٹرز ہیں اور ہم میں ہر شخص شام کو کیمسٹ سے دوائیں خرید کر گھر آتا ہے‘ کیوں؟
آپ نے کبھی سوچا؟ میرے والد نے ایک دوائی شروع کی تھی اور وہ انتقال سے قبل 16 دوائیں کھا رہے تھے اور ان کی صحت بھی بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی تھی لہٰذا آپ کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے آپ دوائیں کھائیں یا پھر خوراک کو دوا بنا لیں‘ میرا مشورہ ہے آپ اپنا علاج کچن اور ڈائننگ ٹیبل پر کریں اور اگر اس کے باوجود کوئی کسر رہ جائے تو پھر ایکسرسائز کریں‘ آپ کی زندگی بدل جائے گی اور میں خود اس کی مثال ہوں۔
نوٹ: ہم نے گرو زاہد عرفان کے ساتھ مل کر شوگر سے نجات کا ایک فوڈپلان بنایا ہے‘ آپ +92 334 9534185 پر واٹس ایپ کر کے حسنین پاشا سے اس کی ویڈیو منگوا سکتے ہیں‘ آپ اس پلان پر عمل کریں اور ہمیں دعا دیں‘ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی زندگی اور صحت دے۔
آرمی چیف جنرل باجوہ کے تیزی سے اختتام پذیر ہوتے 6؍ سالہ دور کا جائزہ


اسلام آباد (تجزیہ / ارشاد بھٹی) آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل قمر جاوید باجوہ کا دور تیزی سے اپنے اختتام کو بڑھ رہا ہے۔ جس وقت پاکستان کمان کی تبدیلی کی تیاری کر رہا ہے اس وقت یہ ضروری ہے کہ موجودہ آرمی چیف کے 6؍ سالہ دور کا جائزہ لیا جائے کیونکہ جنرل باجوہ کی جانب سے اپنے دور میں کیے گئے فیصلوں کے نہ صرف مسلح افواج بلکہ مجموعی طور پر ملک پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل باجوہ کو ایک موضوع کو طور پر لیا جائے تو ان کئی مباحثے بھی ہوتے ہیں تو ان پر تنقید بھی ہوئی ہے۔ جنرل باجوہ کے دور میں فوج کو اس کے سیاست میں کردار کی وجہ سے سخت اسکروٹنی کا سامنا رہا جبکہ جنرل باجوہ کو بھی سیاست دانوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی سخت باتوں کا سامنا رہا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جنرل باجوہ کچھ مثالیں قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ عمومی طور پر جس معاملے کی وجہ سے مسلح افواج کو تنقید کا سامنا رہتا ہے وہ ہے دفاعی بجٹ۔ جنرل باجوہ کے دور میں دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہ مسلح افواج کی قیادت کی جانب سے کیا جانے والا محتاط فیصلہ تھا۔ جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھیں تو مسلح افواج کے بجٹ میں کمی آئی جو 1970ء کی دہائی میں 6.5؍ فیصد تھا جو 2021ء میں 2.54؍ فیصد تک آ گیا۔ مالی سال 2021-22ء کے دوران دفاعی سروسز کو 8487؍ ارب روپے کے مجموعی بجٹ وسائل میں سے 1370؍ ارب روپے دیے گئے جو مجموعی بجٹ وسائل کا 16؍ فیصد ہے۔ اس 16؍ فیصد رقم میں سے پاک فوج کو 594؍ ارب روپے ملتے ہیں یعنی مجموعی بجٹ وسائل کے حساب سے دیکھیں تو پاک فوج کو 7؍ فیصد رقم ملتی ہے۔ 2019ء میں بھی پاک فوج نے ملکی معیشت کی خاطر100؍ ارب روپے کم لیے تھے۔ اگرچہ پاک فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے لیکن اخراجات کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ بہت کم ہیں۔ امریکا اپنے ہر فوجی پر تین لاکھ 92؍ ہزار، سعودی عرب تین لاکھ 71؍ ہزار، بھارت 42؍ ہزار، ایران 23؍ ہزار جبکہ پاکستان اپنے ہر فوجی پر صرف ساڑھے 12؍ ہزار ڈالرز سالانہ خرچ کرتا ہے۔ کم دفاعی بجٹ کے باوجود پاک فوج نے اپنے معیار پر سمجھوتا نہیں کیا اور آج گلوبل فائر پاور انڈیکس میں طاقتور ترین افواج میں پاک فوج کا نواں نمبر ہے۔ مالی سال 2020-21ء میں پاک فوج نے سرکاری خزانے میں براہِ راست ٹیکسوں کی مد میں 28؍ ارب روپے جمع کرائے۔ فوجی فائونڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ جیسے ویلفیئر ادارے اپنی آمدنی کا 73؍ فیصد حصہ شہداء، جنگ کے زخمیوں، معذور فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے ہیں۔ ان اداروں کے 17؍ فیصد ملازمین ایسے ہی فوجیوں کے اولاد ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، یہ ادارے سویلینز کو بھی ملازمت دیتے ہیں۔ 2021ء میں صرف فوجی فائونڈیشن نے مختلف فلاحی سرگرمیوں کی مد میں ایک ارب روپے خرچ کیے۔ فوجی گروپ ملک کے سب سے بڑے ٹیکس دہندہ اداروں میں شامل ہے جس نے 2020-21ء میں ٹیکسوں، ڈیوٹیز اور لیویز کی مد میں قومی خزانے میں 150؍ ارب روپے جمع کرائے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں فوجی فائونڈیشن ٹیکسوں کی مد میں سرکاری خزانے میں ایک ہزار ارب روپے جمع کرا چکا ہے۔ اسی طرح ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) ایک ایسا ادارہ ہے جو پاک فوج سے کوئی مالی معاونت وصول نہیں کرتا۔ 8؍ ڈی ایچ ایز کے ملازمین کی تعداد 15؍ ہزار ہے اور ان میں سے 30؍ سے 35؍ فیصد سابق فوجی ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران ڈی ایچ ایز نے ٹیکسوں کی مد میں 20؍ ارب روپے جمع کرائے ہیں۔ این ایل سی کے ساڑھے 6؍ ہزار ملازمین ہیں اور یہ ادارے گزشتہ پانچ سال میں 6؍ ارب روپے ٹیکس جمع کرا چکا ہے۔ ایف ڈبلیو نامی ادارہ مختلف شعبہ جات میں کام کرتا ہے جس میں سڑکوں، ریلوے لائنوں، فضائی پٹیوں، ڈیموں، کینال اور بیراجوں، ٹنل کی تعمیر، کان کنی اور رہائشی و صنعتی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔ کرتاپور بارڈر کراسنگ، مکران کوسٹل ہائی وے، سکھر بیراج کی مرمت، وغیرہ جیسے کام بھی اسی ادارے نے کیے ہیں۔ اسلام آباد میں وبائی امراض کے مریضوں کیلئے اسپتال کی تعمیر 40؍ دن میں اسی ادارے نے کی تھی۔ ایف ڈبلیو کا تکنیکی تعلیم کا ادارہ (ایف آئی ٹی ای) 34؍ ہزار طلبہ و طالبات کو تربیت دے چکا ہے۔ پاکستان کی معاشی فلاح کیلئے پاک فوج نے کارکے کاراڈینز یوٹیرم تنازع طے کیا تھا۔ اس نام کی ترک کمپنی کرپشن میں ملوث تھی اور سویلین و ملٹری قیادت پر مشتمل کور کمیٹی نے تحقیقات سے پتہ لگایا کہ یہ کمپنی ترکی، سوئٹزرلینڈ، لبنان، پانامہ اور دبئی میں بھی کرپشن کر چکی ہے۔ یہ شواہد عالمی ٹریبونل میں پیش کیے گئے جہاں پاک فوج نے انتہائی مناسب انداز سے یہ تنازع طے کرکے پاکستان کے 1.2؍ ارب ڈالرز بچائے جو عالمی ٹریبونل پر پاکستان پر عائد بطور جرمانہ عائد کیے تھے۔ اگر یہ تنازع طے نہ ہوتا تو پاکستان کی جی ڈی پی دو فیصد تک سکڑ جاتی۔ 14؍ اگست کو صدر پاکستان نے آئی ایس آئی کے تین افسران کو ستارۂ امتیاز دیا جنہوں نے یہ تنازع طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی شاندار خدمات کی وجہ سے ہی پاکستان ریکو ڈک کا تنازع طے کرنے میں کامیاب رہا اور ان ہی کی ذاتی کاوشوں سے پاکستان 11؍ ارب ڈالرز کے ہرجانے سے بچ گیا۔ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات گزشتہ کچھ برسوں سے زیادہ گہرے ہوئے ہیں اور جنرل باجوہ کے ویژن نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سی پیک کو درپیش خطرات سے پاک فوج زبردست انداز سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے جبکہ کئی سازشوں کو بھی ناکام کیا گیا ہے۔ چائنیز وزیر برائے نیشنل ڈیفنس جنرل وائی فینگ ہی نے پاک فوج کی مخلصانہ کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔ چائنیز دفتر خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کی قیادت میں پاکستان کی سالمیت کو بالا اور مستحکم رکھنے کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے گی اور علاقائی امن و استحکام کیلئے کوششیں جاری رکھے گی۔ جنرل باجوہ پاک فوج کے غیر معمولی قائد ہیں۔ 2020ء میں جب پاکستان کو کورونا کی وبا کا سامنا تھا، جنرل باجوہ کی کمان میں پاک فوج نے اس بیماری سے نمٹنے کیلئے قابل تحسین اقدامات کیے۔ این سی او سی کا قیام سویلین اور عسکری وسائل کو یکجا کرکے بیماری سے موثر انداز سے نمٹنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا۔ آرمی چیف کی ہدایت پر بڑے فوجی اسپتالوں میں کورونا ٹیسٹنگ لیبارٹریاں قائم کی گئیں جبکہ ایس او پیز پر عمل کیلئے این سی او سی اور وزارت داخلہ کے اشتراک سے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کیا گیا۔ 2017 میں کراچی کی اربن فلڈنگ کے دوران 188؍ فوجیوں، پانی نکالنے کی 21 مشینوں (پمپ) اور 30؍ کشتیوں کو فوراً خدمات کی انجام دہی کیلئے روانہ کیا گیا۔ 2018ء میں لاہور کی اربن فلڈنگ کیلئے 200 فوجیوں نے 26 پمپس اور 19 کشتیوں کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ اسی طرح 2020ء میں سندھ، پنجاب اور کے پی میں سیلاب زدہ علاقوں میں خدمات انجام دینے کیلئے 4؍ ہزار فوجیوں نے 100؍ پمپس اور 105؍ کشتیوں کی مدد سے خدمات انجام دیں اور 10؍ ہزار لوگوں کی جان بچائی۔ 50؍ شیلٹر اور 75؍ میڈیکل کیمپ قائم کیے گئے۔ ٹڈی دل سے نمٹنے میں بھی پاک فوج نے زبردست کردار ادا کیا۔ نیشنل لوکسٹ کنٹرول سینٹر قائم کیا گیا جبکہ این ڈی ایم اے کو بھی اس تباہی سے نمٹنے کیلئے شامل کیا گیا۔ ٹڈی دل کے حملے نے خوراک کی سیکورٹی کو درپیش خطرات سے نمٹنے میں حکومت کی تیاریوں کو بے نقاب کر دیا۔ فصلوں اور کھیتوں پر اسپرے کیلئے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے پاس 1990 کی دہائی میں 20؍ سے 22؍ طیارے تھے اور آج ان کی تعداد صرف 3؍ ہے۔ فضائیہ نے اپنے طیارے اور چار ہیلی کاپٹرز کی مدد سے ٹڈی دل کیخلاف آپریشن کیا۔ 10؍ ہزار فوجیوں نے اس کارروائی میں حصہ لیا جس میں ٹریکٹر اور کار پر نصب مشینوں کی مدد سے بھی فصلوں پر اسپرے کیا گیا۔ اس کے علاوہ، مختلف ملکوں کے ساتھ جنگی مشقوں کی وجہ سے قومی اور معاشی سطح پر پاکستان کے کئی ملکوں کے ساتھ تعلقات مستحکم ہوئے۔ کامیاب فوجی تربیت اور مشقوں کی وجہ سے روس کے ساتھ تعلقات بحال ہوئے۔ ایسی ہی کامیابیوں میں پاک اردن فجر الشرق جنگی مشقیں، نائیجیرین فورسز کے ساتھ جنگی مشقیں، پاک سعودی مشقیں، پاک چین مشقیں، برطانیہ، بحرین، ترکی، مراکش کے ساتھ جنگی مشقیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاک بحریہ کی امن 21 مشقوں میں نیٹو کے اتحادیوں جیسا کہ امریکا اور برطانیہ نے بھی روس کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیا جن میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی مشق کی گئی۔ اس کے علاوہ، امریکا کے ساتھ فالکن ٹالون 2022ء فضائیہ مشقیں بھی کی گئیں۔ اس کے علاوہ، جنرل باجوہ کی قیادت میں پاک فوج نے گزشتہ 6؍ سال کے دوران کئی اہم بین الاقوامی معاملات و مسائل حل کیے ہیں۔ کرتاپور راہداری کا معاملہ ان میں سے ایک ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا مسئلہ حل کرنے کیلئے بھی جنرل باجوہ نے اہم کردار ادا کیا اور پاکستان گرے لسٹ نے نکلنے میں کامیاب رہا۔ قطر، سعودی عرب، امریکا، برطانیہ اور یورپ کیساتھ تعلقات میں استحکام و مضبوطی لانے کیلئے بھی فوجی قیادت نے اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے غیر ملکی زر مبادلہ پاکستان آیا۔ فوجی قیادت کی وجہ سے ہی آئی ایم ایف، سعودی عرب اور دیگر ممالک پاکستان کو قرضہ دینے پر رضامند ہوئے جبکہ قطر سے گیس کا ٹھیکہ بھی ملا۔ افغان بحران سے نمٹنے میں بھی فوجی قیادت نے اہم کردار ادا کیا اور امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا۔ اس کے علاوہ، کے پی میں بھی قبائلی علاقوں میں انضمام کا معاملہ فوجی قیادت کی وجہ سے ہی طے پایا۔ مغربی بارڈر پر باڑ لگانے اور ملک کو دہشت گرد حملوں اور عسکریت پسندوں سے بچانے کی کامیابی کا سہرا بھی پاک فوج کی قیادت کے سر ہے۔
پاکستان میں فالٹ لائنز ایک طویل عرصے سے موجود ہیں: اسد درانی

اسلام آباد-6نومبر2022 (صالح ظافر) سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (ڈی جی آئی ایس آئی) ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں فالٹ لائنز ایک طویل عرصے سے موجود ہیں اور عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد ’مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ اب مزید گہرے ہو گئے ہیں‘۔
ایک بھارتی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ عمران پر قاتلانہ حملے نے پاکستان میں فالٹ لائنز کو مزید گہرا کر دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ فالٹ لائنز ایک طویل عرصے سے موجود ہیں اور مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ اب مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قبل از وقت انتخابات درحقیقت عمران خان کا مطالبہ ہے لیکن جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ اگلے سال اکتوبر میں ہونے تک انتظار کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انہیں کچھ سخت اقدامات اٹھانے پڑے جنہوں نے عمران خان کے حق میں کام کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ ان کا دور اقتدار تھا جس نے بنیادی طور پر اقتصادی میدان میں کچھ سنگین نقصان پہنچایا تھا۔ جنرل درانی نے کہا کہ موجودہ حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگلے چند مہینوں میں یہ کچھ مثبت نتائج دکھانے کے قابل ہوجائے گی۔
ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں عمران خان، جو کبھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر حمایت تھے، چیلنج کرنے والے کیسے بن گئے؟ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے یاد دلایا کہ فوج کے تمام زیر حمایت، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف، جو پہلے دو تھے، اس کے چیلنجر بن گئے تھے۔
اسد درانی نے کہا کہ سال کے شروع میں جب پارلیمنٹ میں شکست کو ٹالنے کے لیے فوج نے عمران خان کی مدد کرنے سے انکار کیا تو وہ بھی اسی راستے پر چل پڑے۔ تاہم اس بار لوگوں کے مزاج کا اندازہ لگاتے ہوئے، کہ ان کے پاس یہ ’گیمز آف تھرون‘ کافی ہے، عمران نے ان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف جذبات کو کیش کیا ہے۔ عمران خان نے جان لیوا حملے کی کوشش کا الزام شہباز شریف پر لگانے کے علاوہ ایک آئی ایس آئی جنرل کا نام بھی لیا ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فلیش پوائنٹ نہیں ہے؟ ریٹائرڈ جنرل نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ پاک فوج کا سیاسی کردار زندگی سے بڑا رہا ہو لیکن یہ شاید ہی کبھی موثر کنٹرول میں تھی سوائے اس کے جب اس نے براہ راست حکومت کی۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ عمران نے آئی ایس آئی کے ایک جنرل کا نام کیوں لیا۔
درانی کی توجہ اس مفروضے کی جانب مبذول کرائی گئی کہ یہ واضح ہے کہ عمران خان نے اپنی مقبولیت اور بھیڑ جمع کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے جنگ کو تیز کیا ہے اور جان کی بازی لگادی ہے۔ عمران اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کے امکان کے بارے میں ان کے تبصرے لئے گئے کہ ڈیڈ لاک کو توڑنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
جنرل نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ بیک چینلز کھلے رکھے ہوئے ہیں لیکن اندازہ نہیں ہے کہ آیا یہ تعطل کو توڑنے میں مدد کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کو بے مثال اقدام قرار دیتے ہوئے ان سے پوچھا گیا کہ ان کے اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے درمیان کیا غلط ہوا؟
انہوں نے کہا کہ انہیں بھی حیرت ہوئی لیکن پھر عین ممکن ہے کہ عمران کے اقتدار سے محروم ہونے اور محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کے بعد ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رنجش عروج پر پہنچ گئی۔ اس ماہ کے آخر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے آدمی کو سول ملٹری توازن کو برقرار رکھنے میں دشواری سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے کہا کہ ’توازن‘ زیادہ تر وقت فوج کے حق میں تھا۔
آؤ صلح کریں۔گل نو خیز اختر

لائلپورسٹی- 5 نومبر ، 2022: کورونا کے دنوں کی بات ہے۔ ماسک پہننے پر شدید پابندی چل تھی۔ ایک دن گھر سے فون آیا کہ ملازم کے بھائی ارشادکو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ ارشاد سڑک کنارے پندرہ بیس تربوز سجا کر بیچ رہا تھا لیکن اس نے ماسک نہیں لگایا ہوا تھا لہٰذا پولیس اسے گرفتار کرکے تھانے لے گئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ارشاد کی والدہ کا فون آیا۔ روتے ہوئے بولیں کہ میرے بیٹے کو موت سے بچا لیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ کیسی موت؟ گلوگیر آواز میں بولیں کہ تھانے والوں نے کہا ہے کہ چونکہ تمہارے بیٹے نے ماسک نہیں لگایا تھا لہٰذا شام تک اسے مقابلے میں پار کر دیا جائے گا۔ میں نے بمشکل ہنسی روکی اور تسلی دی کہ حوصلہ رکھیں وہ شام تک گھر آجائے گا۔ اور پھر یہی ہوا، شام کو ارشاد کپڑے جھاڑتا ہوا گھر پہنچ گیا۔تربوز البتہ اُس کے بحق سرکار ضبط ہوگئے۔
ایک روز گلی میں شور اٹھا، پتا چلا کہ گھر کے آگے گاڑی کھڑی کرنے پر دو گھروں میں لڑائی ہوگئی ہے۔ دونوں طرف کے فریقین نے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ مکے برسائے۔ گالم گلوچ ہوئی اور اسی اثناء میں ایک فریق نے ون فائیو پر کال کردی۔ پولیس آئی اور دونوں فریقین کو تھانے لے گئی۔ شام کو اِن گنہگار آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دونوں فریق گلے میں بانہیں ڈالے تھانے سے برآمد ہوئے اور تحریری یقین دہانی کرائی کہ آئندہ وہ ’اچھے بچے‘ بن کر رہیں گے۔
پولیس، تھانے، کچہری۔ بظاہر یہ انصاف کے ادارے ہیں لیکن انصاف کے حصول کے لئے یہاں کن کن مراحل سے گزرنا پڑتاہے، آپ سب جانتے ہیں۔ ہر انسان کبھی نہ کبھی آپے سے باہر ہوجاتاہے اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ اس غلطی کا سب کو پچھتاوا ہوتا ہے، کچھ لوگ سوری بھی کرلیتے ہیں لیکن یہ سوری ایسی ہوتی ہے گویا ’’جائو تمہیں معاف کیا‘‘۔ سوری تین مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ’’میں معافی چاہتا ہوں، آئندہ ایسی حرکت نہیں ہو گی، میں اپنی غلطی کو ٹھیک کروں گا۔‘‘ ہمارے ہاں عموماً سوری کہتے وقت دوسرے اور تیسرے پوائنٹ پر عمل کرنے کا رواج ہی نہیں، اسی لئے لڑائی دوبارہ ہوتی ہے اور پہلے سے زیادہ خونخوار ہوتی ہے۔
میاں بیوی کی لڑائیاں، ہمسائیوں کی لڑائیاں، کرائے داروں کی لڑائیاں، بچوں کی لڑائیاں، لین دین کیلئےلڑائیاں، سڑک پر لڑائیاں، بہن بھائیوں کی لڑائیاں۔ ہر جگہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی لڑائی چل رہی ہوتی ہے۔یہ وقتی غبار بعد میں اُتر جاتا ہے لیکن اَنا کی تسکین اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک لڑائی کو طول نہ دیا جائے۔ کورٹ کچہری میں آپ کو سینکڑوں لوگ ایسے ملیں گے جنہوں نے اپنا وقت اور پیسہ برباد کرکے بھی کچھ حاصل نہیں کیا۔ درحقیقت یہی لوگ عدالتوں پر بوجھ ہیں۔ جینوئن مقدمات ایسے ہی چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑوں کے کیسز کی وجہ سے التوا کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی بوجھ کو کم کرنے کے لئے برادرم قاسم علی شاہ فائونڈیشن نے ایک محبت بھرا کام شروع کیا ہے۔ یہ ازدواجی تنازعات کے شکار لوگوں کو عدالتی معاملات میں الجھانے کی بجائے فریقین میں صلح کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ یہ تمام کام بلامعاوضہ کیا جاتا ہے۔
سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محترم انوار الحق صاحب نے قاسم علی شاہ صاحب کے ساتھ مل کر ’آئو صلح کریں‘ کے نام سے اس پروگرام کا آغاز کیا اور یہ کام اتنی خوبصورتی سے جاری ہے، جسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ انوارالحق صاحب جس طرح فریقین سے رابطہ کرتے ہیں اور انتہائی محبت سے انہیں بلوا کر صلح کرواتے ہیں وہ لائق تحسین ہے۔ آپ بھی بہت سے ایسے جوڑوں کو جانتے ہوں گے جو معمولی سی بات پر بگڑتے ہیں اور نوبت طلاق تک آن پہنچتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے جوڑوں میں محبت کی شادی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بعض کیسز میں تو ایسی شادی کی مدت ایک سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ اب ہوتا کیا ہے، میاں بیوی میں لڑائی ہوتی ہے اور صلح کی خواہش رکھنے کے باوجود کوئی فریق نہیں چاہتا کہ وہ اس میں پہل کرے۔
ایک فریق بچے لے جاتا ہے، دوسرا فریق کیس کر دیتا ہے۔ عدالتوں کے چکر شروع ہوجاتے ہیں اور اس سارے چکر میں بچے پس کر رہ جاتے ہیں۔ وہ جوڑے جن کے گھروں میں تنگدستی کی وجہ سے نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچتی ہے وہ جب عدالت کا رُخ کرتے ہیں تو پتا نہیں ان کے پاس پیسہ کہاں سے آ جاتا ہے۔ جتنا پیسہ وہ اپنے کیسوں پر خرچ کرتے ہیں اتنا اپنی ازدواجی زندگی کو بچانے کے لئے لگادیتے تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ جسٹس(ر) انوار الحق صاحب ’جوڑوں کے درد‘ کا علاج کرتے ہیں۔ یہ اُنہیں سمجھاتے ہیں کہ ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو معاف کریں اور اپنے گھر اجڑنے سے بچائیں۔
جو جھگڑے گھر کی چاردیواری میں ہوتے ہیں اُنہیں اُسی کے اندر سلجھایا جاسکتا ہے۔ عموماً شوہر طیش میں ہوتو کہتا ہے’نکل جائو‘ اور بیوی کا دماغ گھوم جائے تو کہتی ہے’دو مجھے طلاق‘۔ یہ دونوں جملے صرف غصے کی شدت ظاہر کرنے کے لئے ہوتے ہیں لیکن جن گھروں میں اِنہیں حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے وہاں اِن پر فوراً عمل بھی ہو جاتا ہے اورکچھ دن بعد عدالتی نوٹس بھی موصول ہو جاتا ہے۔ طلاق کے اکثر معاملات کے پیچھے ’ماسک نہ پہننے‘ جیسی معمولی وجہ ہوتی ہے لیکن پریشانی یوں پال لی جاتی ہے گویا’پولیس مقابلہ‘ ہونے ہی والا ہے۔
اس مقابلے سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صلح کریں، سوری کریں۔ لیکن یہ سوری ایسی نہ ہو کہ سوری کرنے کے بعد پھر سے خود کو بے قصور ثابت کیا جائے۔کام مشکل نہیں، تھوڑی سی ہمت اور سارے مسئلے حل۔ تو گزارش ہے کہ تین مرحلوں والی سوری کریں اور اپنا پیسہ اور وقت بچائیں۔
عمران خان کا دشمن؟
انصار عباسی
لائلپورسٹی- 4نومبر2022:عمران خان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں وہ اپنا نقصان کرنے کیلئے خود ہی کافی ہیں۔ عمران خان کے مخالفوں نے ان کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہ کی کہ ان کی انتہائی نامقبول حکومت کو ختم کر کے خود اقتدار سنبھال لیا اور حالات پہلے سے بدتر ہوگئے، مہنگائی بڑھ گئی، ڈالر بہت مہنگا ہو گیا، معیشت مزید زوال پذیر ہوگئی۔ ایک طرف اتحادیوں کی حکومت میں آنے سے اُن کو کافی سیاسی نقصان ہوا تو دوسری طرف عمران خان نے جھوٹ پر مبنی امریکی سازش کا ایسا بیانیہ بنایاکہ اُن کی مقبولیت کی یہ حالت ہو گئی کہ جہاں جلسہ کرتے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے، جو ضمنی الیکشن ہوئے اُن میں تحریک انصاف ہی بہت بڑی تعداد میں کامیاب ہوئی۔
گویا مقبولیت کے لحاظ سے یہ واضح ہو گیا کہ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں عمران خان اورتحریک انصاف کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اتحادی حکومت کو بےشمار مسائل کا سامنا ہے ، معیشت کی حالت اتنی خراب ہے کہ کوئی معجزہ ہی اُنہیں حکومت میں رہ کر اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ دلوا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس چیلنج کا ن لیگ کو سامنا ہے۔ ایسے میں جب سب کچھ عمران خان کی اپنی حکومت کی تمام تر نااہلیوں اور ناکامیوں کے باوجود اُن کے حق میں جا رہا تھا اور وہ عوامی طور پر بے حد مقبول بھی ہوگئے تو اُنہوں نے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھلی جنگ شروع کر دی۔ ایسی ایسی باتیں اپنے جلسوں، جلوسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں اداروں کے خلاف کرنے لگے کہ بھارت میں اُن کی تعریفیں ہونے لگیں۔
چند ایک بھارتیوں نے تو عمران خان اور تحریک انصاف کو چندہ تک دینے کی باتیں شروع کر دیں تاکہ عمران خان اپنی ہی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف حملوں کو جاری رکھ سکیں۔ ایک ریٹائرڈ بھارتی میجر جو اپنے یو ٹیوب چینل میں پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہتا ہے، وہ تو یہ بھی کہہ چکا کہ عمران خان نے اپنی فوج اور آئی ایس آئی کو جتنا نقصان پہنچایا وہ تو بھارت اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتا تھا۔ عمران خان کہتے تو ہیں کہ اُنہیں پاکستان کی فوج سے محبت ہے، کیوں کہ یہ فوج پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے لازم ہے لیکن جو کچھ وہ، اُن کی جماعت اور اُن کا سوشل میڈیا اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ کر چکے اور کر رہے ہیں وہ واقعی کوئی دشمن بھی نہیں کر سکتاتھا۔ گزشتہ چھ مہینوں کے دوران فوج اور اُس کی ہائی کمانڈ کے خلاف جس جس طرح کی سوشل میڈیا کیمپین چلائی گئی اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور حال ہی میں تو حد ہی ہو گئی کہ بغیر ثبوت کے اپنی ہی فوج پر کینیا میںہلاک ہونے والے صحافی ارشد شریف کے قتل کا پر الزام لگا دیا۔
عمران خان کی سیاسی تاریخ کو دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس کو اپنا مخالف سمجھ لیں اُس پر کسی بھی قسم کا الزام لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ لیکن مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ اُن کا یہی رویہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے اور وہ اس لیے کہ اُن کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اُن کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو ناکام بنوا سکتی تھی لیکن اُنہیں نے ایسا نہیں کیا۔ خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے الزمات اور دھمکیوں میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ فوج اور آئی ایس آئی پر دباؤ بڑھا کر جلد الیکشن کے لیے رستہ نکال سکتے ہیں۔ خان صاحب کی اپنی سوچ ہے لیکن میری ذاتی رائے میں اُنہوں نے اداروں کےساتھ جس خطرناک ٹکراو کی پالیسی اپنائی ہے اس کا اُن کو سیاسی طور پر نقصان ہی ہو گا فائدہ کسی صورت نہیں ہوسکتا۔
ایک سیاسی رہنما اگر بہت مقبول ہو اور اُس کی پارٹی ضمنی انتخابات بھی بڑی اکثریت سے جیت رہی ہو تو اُسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ فوج اور آئی ایس آئی سے ایسی لڑائی مول لے جس سے اُسے سرا سر سیاسی نقصان کا ہی خدشہ ہے۔ ایسے رویے سے صرف اُس رہنما کے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا اس سیاست سے پاکستان اور اس کے اہم ترین دفاعی اداروں کا نقصان تو نہیں ہو رہا ۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے اس دباؤ کے ذریعے جو توقع کیے بیٹھے ہیں اُس کا نہ صرف یہ کہ پورا ہونا ناممکن نظر آتا ہے بلکہ وہ مستقبل کیلئے بھی اسٹیبلشمنٹ کا اعتبار کھو رہے ہیں۔
جو کچھ عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا وہ ادارے کبھی نہیں بھول سکتے۔ خان کو چاہیے تھا کہ اپنے تعلقات اور معاملات کواسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر بناتے بجائے اس کے کہ ان تعلقات کو اتنا خراب کر دیتے کہ اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ اداروں اور عوام کے درمیان تعلقات کو شدید نقصان پہنچا دیا۔ ابھی خان کو یہ باتیں سمجھ نہیں آئیں گی لیکن کچھ وقت گزرنے دیں بعد میں وہ یہی کہیں گے کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
لائلپورسٹی- 24اکتوبر2022: صبح فون دیکھا تو پہلا میسج دوست مومنہ کا موصول ہوا اور پھر ہر طرف سے یہ ہی خبر سننے کو ملی کہ ارشد شریف کو شہید کر دیا گیا۔ جسے سن کے حیرت و دکھ کی انتہا نہ رہی۔ کہ میرے وطن پہ یہ کیسے کالے سائے آپڑے ہیں۔ کہ ہر روز ایک سے بڑھ کر ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آ رہا ہے۔
تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ملک کے نامور صحافی ارشد شریف کو کینیا میں سر میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔
نہ مقتل اپنا تھا نہ دیس اپنا تھا
ہم جس سے مارے گئے وہ تیر اپنا تھا
ارشد شریف اے آر وائی نیوز سے کافی عرصہ تک وابستہ رہے۔ اور ایک حق گو صحافی کے طور پہ جانے جاتے تھے۔ ارشد شریف کے والد نیول کمانڈر تھے اور بھائی میجر تھے، دونوں کی شہادت 2011 میں ہوئی، ارشد شریف اور اہلخانہ مبینہ طور پر دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ارشد شریف کا اپنا ایک سیاسی اختلافی اور کسی جماعت کے ساتھ حمایتی رویہ بھی ہو گا۔تاہم سوشل میڈیا پر اس واقعہ کا جو سبب کہی اُن کہی میں ٹرینڈ بنا ہوا ہے اس افسوسناک واقعہ کے اس کے علاوہ بھی کئی پہلو ہو سکتے ہیں۔
تاہم اب تک کی غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ارشد شریف کو کینیا کی پولیس نے نیروبی کے قریب سر میں گولی مار کر اس وقت قتل کیا جب ان کے ڈرائیور کی جانب سے مبینہ طور پر چیک پوائنٹ پر قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس حوالے سے کینییا کی پولیس کا کہنا ہے۔ کہ پاکستانی صحافی اپنے ڈرائیور کے ساتھ مگادی سے نیروبی کی جانب سفر کر رہے تھے کہ جہاں پولیس راستے میں روڈ بلاک کر کے چیکنگ کر رہی تھی۔
کینیا پولیس کے ایک آفیسر کی جانب سے جاری بیان میں ارشد شریف کے پولیس کی فائرنگ سے قتل ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ غلط نشاندہی پر پاکستانی صحافی کا قتل ہوا اور اس حوالے سے مزید معلومات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ یاد رہے کہ اس واقعہ کے اس بیک گراؤنڈ پہ خود کینیا کے صحافی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور اس کی بنیاد پہ ایک غیر ملکی نامور شخصیت کے قتل کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
کینیا کئی دوسرے افریقی ممالک کی طرح کئی جرائم پیشہ گروہوں کا حامل ملک ہے ۔ یہاں سے بھی بین الاقوامی دہشت گردی اور انڈر ورلڈ دنیا کے تانے بانے ملتے ہیں ۔یہاں یہ پہلو بھی مدنظر رہے کہ کینیا میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں بھی کا منظم نیٹ ورک ہے۔
عوام کی ایک رائے کے مطابق میں ارشد شریف کے جن حلقوں سے اختلاف تھے۔ اس صورت حال سے کسی بظاہر بے تعلق گروہ کا کسی مفاد کے لیے یہ قدم اٹھانا تا کہ پاکستان میں دبی چنگاریوں کو بھیانک آگ میں بدلا جا سکے بھی ممکن ہے۔
بہر حال جو واقعہ گھڑا گیا ہے۔ وہ خود اپنے اوپر شکوک وشبہات پیدا کر رہا ہے۔ کیا ارشد شریف کوئی مجرم پیشہ بیک گراؤنڈ رکھتے تھے یا کسی جرم میں ملوث تھے۔ کہ جنہیں چیک پوسٹ پہ روکا مگر نہیں رکے؟؟ کیا وہ ذمہ دار انسان نہ تھے یا قوانین نہ جانتے تھے؟؟ کیا وہاں کی پولیس اتنی فرض ناآشنا ، غیر ذمہ دار اور گئی گزری ہے۔ کہ ایک شریف پر امن شہری کو سر عام سر میں گولی مار دے؟؟؟؟
اگر پولیس گاڑی روکنا چاہتی تھی۔ تو ٹائروں پہ برسٹ کیوں نہ مارا گیا۔ جو ایک سینڈرڈ طریقہ ہے۔ پولیس ہی نے کیوں ایسا کیا۔؟؟ ویسے پولیس تو کیسی ملک کی گورنمنٹ کے ماتحت ہوتی ہے۔ اور اگر گورنمنٹ چاہے۔ کہ کسی کو مار دیا جائے۔ تو پولیس تو یہ کام کرے گی ہی۔
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ کہ وہ کونسے حالات تھے۔جن کی وجہ سے ایک حق گو محب وطن کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ان حالات کو پیدا کرنے والا کون تھا۔؟ سوال یہ بھی ہے۔ کہ ارشد شریف جب امارت چلے گئے تو وہاں سے بھی ہجرت پہ کس نے مجبور کر دیا اور کینیا جیسے ملک جانے کا ہی مشورہ کیوں دیا گیا۔ ؟کچھ ذرائع کے مطابق ارشد شریف جلد ہی کوئی اہم ڈاکو منٹری بھی منظر عام پہ لانے والے تھے۔ جو کئی رازوں کا پردہ چاک کرنے والی تھی۔
ان حالات میں جب کہ پورے ملک میں ایک سچ گو، محب وطن کی شہادت پہ صف ء ماتم بچھی ہوئی تھی۔ نواز شریف کیک کاٹ کے دیوالی منانے میں مصروف تھے۔ مزید مریم صفدر کی غیر انسانی سوچ پہ مبنی دھمکی آمیز ٹویٹ بھی قابل غور ہے۔ "اچھا تو نہیں لگ رہا، مگر یہ سب کے لئیے سبق ہے۔"
جو بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے۔ کہ کسی کے باپ, کسی کے بھائی، کسی کے بیٹے ، کسی کے سہارے اور ایک پر امن محب وطن اور حق کی آواز بلند کرنے والے انسان اور صحافت کے ستارے کو ہمیشہ کے لیئے خاموش کروا دیا گیا۔
میری اپیل ہے۔ کہ اس غیر انسانی اور سفاک عمل کی شفاف تحقیقات کی اشد ضرورت ہے۔ اور تحقیقات کی صورت میں نتیجہ تک کسی بھی جذباتی غیر زمہ دارانہ بیان بازی سے اجتناب ملک قوم سماجی حالات اور اداروں کے مفاد کے لیے بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشد شریف کی مغفرت فرمائیں۔ صحافتی حلقوں کے لیے یہ ایک بڑا نقصان ہے۔ سب مقتدر حلقوں کو بشمول صحافتی بین الاقوامی تنظیموں کے اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کے لیے نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ تاکہ وہ سچ سامنے آ سکے۔ جو بظاہر پوشیدہ ہے۔
خدا حافظ ارشد شریف، لوگ شاید کبھی آپ کو بھول جائیں مگر تاریخ آپ کو ایک باوفا حق پرست کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
وفا کے رستے کا ہر مسافر
گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے
#سیدہ سعدیہ عنبرؔ جیلانی
ارشد شریف قتل کیس کے مشکوک کردار خرم احمد اور وقار احمد کون؟

کراچی-27اکتوبر2022 (رفیق مانگٹ): ارشد شریف قتل کیس میں کینیا میں ان کے میزبان خرم احمد اور اس کے بھائی کا کردار مشکوک ہے۔ خرم احمد نیروبی میں مقتول سینئر صحافی ارشد شریف کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا۔ ترکی کے میڈیا ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کے صحافی علی مصطفیٰ نے کینیا میں شوٹنگ رینج کے مالک خرم احمد اور ان کے بھائی وقار احمد کے مشکوک کردار کے حوالے سے ایک ٹوئٹر تھریڈ پوسٹ کی۔ علی مصطفیٰ نے لکھا وقار احمد اور خرم احمد سے تفتیش کی ضرورت ہے کیونکہ ارشد شریف کے قتل میں ملوث دو اہم ملزمان ہیں-
وقار خاص طور پر ایسا لگتا ہے کہ وہ کلیدی آدمی ہے جس کے قریب ہی ایک ہٹس اینڈ ہومز ریزورٹ ہے جہاں جرم ہوا تھا۔ اس نے ارشد کی لاش کو جلد بازی میں پہنچانے کا بھی انتظام کیا۔ ارشد شریف نے قتل ہونے سے چند گھنٹے قبل وقار احمد کی ملکیت والی AMMODUMP شوٹنگ رینج کا دورہ کیا - اس شوٹنگ رینج کے یو ٹیوب پیج پراس کی حیثیت کو یوں اجاگر کیا گیا۔ سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ایک اہم جگہ جو اپنی شوٹنگ کی مہارت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ایمو ڈمپ کی اپنی ویب سائیٹ کے مطابق ان کا کام دفاعی سازوسامان فراہم کرنا ہے ،وہ عالمی سطح کے مینوفیکچرز سے مہلک ہتھیاراور دیگرلوازمات کی فراہمی کی خدمات انجام دیتے ہیں۔
علی مصطفی کا کہنا ہے پولیس کی فائرنگ سے بچ جانے والا ڈرائیور خرم احمد، وقار احمد کا بھائی ہے، جو AMMODUMP شوٹنگ رینج کا مالک ہے جہاں ارشد قتل ہونے سے پہلے جا رہا تھا اور جہاں اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کولے جایا گیا تھا۔ صحافی نے ایک میڈیا رپورٹ بھی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کینیا کے سٹیزن ٹی وی چینل کی اس رپورٹ میں وقار احمد کی AMMODUMP شوٹنگ/فائرنگ رینج کے تفصیلی مناظر ہیں جس کا ارشد نے اس دن دورہ کیا تھا جس دن وہ مارا گیا تھا اور جہاںاس کا مالک وقار احمد باقاعدگی سے کینیا کے سیکیورٹی اہلکاروں کی میزبانی کرتا تھا۔ترکی کے صحافی نے وقار احمد کے لنکڈ ان پروفائل کا امیج شیئر کیا جس کے مطابق وہ ہٹز اینڈ ہومز کینیا کے آپریشنل ڈائریکٹر ہیں اور ان کی تصویر کے ساتھ پروفائل تھا، جو اب ہٹائی جاچکی ہے۔کینیا کے سب سے بڑے اخبار’دی نیشن ‘ کے مطابق ویسٹ سب کاؤنٹی کے کاموکورو شاپنگ سینٹر میں چھائی ہوئی خوفناک خاموشی نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے آخری لمحات کے تاریک راز چھپا رکھے ہیں۔
اموڈمپ کیونیا ایک تفریحی مقام ہے جس میں شوٹنگ رینج بھی ہے۔کانٹاکورا کے ذیلی مقام کے اسسٹنٹ چیف میتھیاس کاموکورو کا گھر اس شوٹنگ رینج کے پاس واحد رہائشی کمپاؤنڈ ہے، اور یہ اس جگہ سے چند میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سے فائرنگ ہوئی۔اس نے اخبار کو بتایا کہ وہ رات 9 بجے تین گولیوں کی آوازوں سے بیدار ہوئے لیکن انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ جی ایس یو کے تربیت یافتہ افراد کی طرف سے ہے اس لئے وہ سو گیا تھا۔صبح مجھے گاؤں والوں نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے کل رات ڈاکوؤں کو گولی مار دی ہے۔ اخبار کے مطابق کاموکورو شاپنگ سینٹر میں، کچھ افراد ہلکے لہجے میں فائرنگ واقعے پر بات کررہے تھے اور انہیں اجنبیوں پر شک تھا۔
ان کا کہنا تھا ایشیائی نژاد افراد اکثر اس علاقے میں آتے ہیں، خاص طور پر ویک اینڈ پر۔ اخبار لکھتا ہے کہ اتوار کی شام جب ارشدشریف اس مقام کے لئے نکلا تو اسے کیا معلوم تھا کہ وہ موت کے جال میں پھنس جائیں گے۔ اس نے اپنا دن اس جگہ گزارا تھا، یہ مقام ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں مقبول ہے۔اخبار نے انتظامیہ سے انٹرویو کی کوشش کی تو انہوں نے انکار کردیا کہ ہم اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ معاملہ ابھی بھی پولیس کے زیر تفتیش ہے، اس مقام پر خیمہ دار لاج، شوٹنگ رینج،روڈ بائیکنگ ٹریلز اور کیمپنگ سائٹ ہے۔
یہ گیم ڈرائیوز اور فارم ٹورز بھی پیش کرتا ہے ارشد شریف کوفیڈر روڈ اور نیروبی مگڈی روڈ کے سنگم پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ احمد لینڈ کروزر چلا رہا تھا۔پولیس رپورٹ کے کچھ حصے میں لکھا گیا ہے،مگڈی پولیس اسٹیشن کو دس بجے اطلاع دی گئی کہ افسران پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا اور 50 سال کی عمر کے پاکستانی شہری کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ گاڑی چلا رہا تھا۔گاڑی 25 کلومیٹر تک آگے کے دائیں ٹائر کے بغیر چلائی گئی، جوگولی لگنے سے پھٹ گیا۔اس کے بعد احمد نے نقار(وقار) احمد کوکال کی۔
انڈیپنڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق اس کیمپ میں کوینیا نامی شوٹنگ رینج سمیت اس سے متصل ایک ڈیفنس گیئرز (دفاعی سامان) کی ایک دکان بھی واقع ہے۔اس کیمپ میں کوینیا شوٹنگ رینج کی وجہ سے کینیا کے سکیورٹی اہلکاروں سمیت شوٹنگ کے شوقین افراد جا کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں، جس کے لیے فیس مقرر ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق ایمو ڈمپ لمیٹڈ نامی کمپنی کینیا میں دفاعی سامان کی سپلائی کی رجسٹرڈ کمپنی ہے۔ اس کمپنی کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی۔ یہ کمپنی کینیا میں رجسٹرڈ ہے اور ملٹری سپلائز کے کاروبار سے وابستہ ہے۔
بورس جانسن بمقابلہ عمران خان
محمد بلال غوری
یہ گورے بھی نجانے کس مٹی سے بنے ہیں۔گاہے ان کے ہاں رائج بے رنگ ،بے بو اور بے ذائقہ جمہوریت پرحیرت ہوتی ہے۔عوام کی طرف سے کوئی بھی مطالبہ سامنے آجائے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس کے حق میں تیار کی گئی یادداشت پر دستخط کردے تو حکمران نتائج کی پروا کئے بغیر اس پر ریفرنڈم کروادیتے ہیں اور یہ ریفرنڈم بھی ایوب خان،ضیاالحق یا پرویز مشرف کے جعلی ریفرنڈم جیسا نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر ڈیوڈ کیمرون کسی قانون کے تحت ریفرنڈم کروانے کے پابند نہیں تھے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ اس حوالے سے ریفرنڈم کروائیں گے کہ برطانیہ کے عوام یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں ۔لیکن سیاسی وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے ناں ۔وہ کوئی بھی جواز پیش کرکے بریگزٹ سے متعلق فیصلے پر ٹا ل مٹول سے کام لے سکتے تھے ۔
لیکن انہوں نے قدآور سیاسی شخصیات کی طرح یوٹرن لینے کے بجائے جون 2016ء میں ریفرنڈم کرواکے ہی دم لیا۔برطانوی باشندوں نے جوش جذبات میں نیا برطانیہ بنانے اور حقیقی آزادی حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یورپ برطانیہ کو لاڈلا اور بگڑا ہوا بچہ سمجھ کر اس کے ناز نخرے اُٹھا رہا تھا مگر اس نازبرداری کا مطلب یہ لیا گیا کہ یورپی یونین نے اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
ریفرنڈم میں کثرت رائے کی بنیاد پر یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ ہوگیا۔بریگزٹ کی اس آپا دھاپی میں نہ صرف ڈیوڈ کیمرون کی چھٹی ہوگئی بلکہ آج حقیقی آزادی کا خواب عذاب بن چکا ہے اور برطانوی شہریوں کی اکثریت اس فیصلے پر پچھتا رہی ہے۔غلطی کا احساس تو ریفرنڈم کے بعد ہی ہوگیا تھا اور یہ آوازیں اُٹھنے لگی تھیں کہ اس حوالے سے ایک اور ریفرنڈم کروایا جائے لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔یورپی یونین نے اس حوالے سے پیچھے ہٹنے کا موقع نہ دیا اور یوں یکم جنوری 2021ء کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہوگیا۔
اس ایک غلط فیصلے کی وجہ سے برطانیہ اس قدر عدم استحکام کا شکار ہوا کہ 6سال میں 4وزرائے اعظم کو گھر جانا پڑا ۔ڈیوڈ کیمرون کے بعد تھریسا مے وزیراعظم بنیں ۔جولائی2019ء میں ان کی سبکدوشی کے بعد بورس جانسن برسراقتدار آئے ۔بورس جانسن کی چھٹی ہوگئی تو لز ٹرس نے قیادت سنبھالی ۔محض 45دن بعد ہی لز ٹرس نے ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تو اب ایک پاکستانی نژاد ہندوخاندان سے تعلق رکھنے والے رشی سانک کو وزیراعظم بنایا گیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ رشی سانک کے دادا رام داس سانک کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔وہ 1935ء میں یہاں سے نیروبی چلے گئے ۔
رام داس سانک کے بیٹے یعنی رشی سانک کے والد یش سانک 60ء کی دہائی میں برطانیہ آئے اور یہیں آباد ہوگئے ۔انگریزوں نے جس خطے پر برسہا برس تک حکومت کی ،وہاں سے آئے خاندان کے ایک فرد کا وزیراعظم بننا بذات خود حیران کن معاملہ ہے لیکن بریگزٹ کی بات کریں تو برطانیہ نے اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سیاسی عدم استحکام کی بہت بھاری قیمت چکائی۔برطانوی پائونڈ کی قدر مسلسل گرتی چلی گئی اور معیشت کا بھاری پتھر یوں پھسلا کہ ڈھلوانوں کا سفر ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
لیکن خراب معاشی صورتحال کے باوجود نہ تو کسی وزیراعظم نے اپوزیشن پر سیاسی عدم استحکام اور غیر ملکی سازش کا الزام عائد کیا اور نہ ہی رخصت ہوتے وقت کسی نے یہ کہا کہ اب اس ملک کو تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔کسی موقع پر یہ خدشہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ غیر جمہوری قوتیں اس صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں ۔برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن جو ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان کے دوست بھی ہیں ،ان کی ایوان وزیراعظم سے رُخصتی تو بہت ناقابل یقین انداز میں ہوئی۔
برطانوی وزرائے اعظم 10ڈائوننگ اسٹریٹ میں پرائم منسٹر آفس کے اوپر چھوٹے سے فلیٹ میں رہائش اختیار کرتے آئے ہیں ۔جب ٹونی بلیئر وزیراعظم بنے تو وہ 11ڈائوننگ اسٹریٹ کی بالائی منزل پر موجود نسبتاً بڑے فلیٹ میں منتقل ہوگئے کیونکہ ان کے بچے زیادہ تھے اور 10ڈائوننگ اسٹریٹ کی رہائش کم پڑ رہی تھی۔اس کے بعد 4کمروں پر مشتمل یہی فلیٹ وزرائے اعظم کے لئے مختص ہوگیا۔جولائی 2019ء میں بورس جانسن وزیراعظم بنے تو وہ بھی اپنی فیملی کے ہمراہ یہاں منتقل ہوگئے۔اس فلیٹ کی تزئین و آرائش کے لئے سرکاری خزانے سے 30ہزار پائونڈ مختص ہوتے ہیں مگر بورس جانسن نے اپنی سرکاری رہائشگاہ کی آرائش و زیبائش پر 2لاکھ پائونڈ خرچ کر ڈالے۔
جب اس فضول خرچی پر اپوزیشن اور میڈیا نے شور مچایا تو ابتدائی طور پر بورس جانسن نے سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا اور متعلقہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا ۔لیکن جب یہ معاملہ بگڑتا ہوا محسوس ہوا تو بورس جانسن نے یہ تاویل پیش کی کہ فلیٹ کی تزئین و آرائش کے لئے اضافی رقم سرکاری خزانے سے خرچ نہیں کی گئی بلکہ ان کے چاہنے والوں کے عطیات کو استعمال کیا گیا ہے۔
اب اس پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔ برطانوی قوانین کے مطابق اگر کوئی رُکن پارلیمنٹ کسی سے فنڈز وصول کرتا ہے یا قرض لیتا ہے تو 28دن کے اندر اسے ڈکلیئر کرنا لازم ہے تاکہ سب کو یہ بات معلوم ہو کہ فنڈز یا قرض دینے والی کاروباری شخصیات کے حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے کیا مفادات ہوسکتے ہیں اور ان رقوم کے عوض کسی قسم کا کوئی فائدہ تو نہیں اُٹھایا جا رہا ۔چنانچہ الیکٹورل کمیشن نے بورس جانسن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا۔
یہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد وزیر خزانہ رشی سانک اور وزیر صحت ساجد جاوید سمیت 44مشیروں اور وزرا نے وزیراعظم پرعدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد انہیں گھر جانا پڑا۔مگر ہمارے ہاں ایک وزیراعظم نے کروڑوں روپے مالیت کے تحائف بیچ ڈالے،انہیں اپنی آمدن کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا ،الیکشن کمیشن نے بدعنوانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ڈس کوالیفائی کردیا مگروہ اب بھی ریاست مدینہ کے قیام کے لئے لانگ مارچ کر رہے ہیں۔
نفسیات کی جنگ اور حکومت غیر متزلزل
اسلام آباد (تجزیہ:… اعزاز سید) سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے بعد پاکستان کی سیاست ایک اور نئی گرما گرمی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اتحادی حکومت کو اس اعلان سے فرق نہیں پڑا اور وہ اپنی آئینی مدت مکمل کرنے اور موجودہ آرمی چیف کے ریٹائر ہونے سے قبل نیا آرمی چیف مقرر کرنے کے معاملے میں پرعزم ہے۔
اسلام آباد کے قابل بھروسہ ذرائع بتاتے ہیں کہ اتحادی حکومت کا طرز حکمرانی نون لیگ کے قائد نواز شریف کے طرز سیاست جیسا ہے۔ وفاقی سطح پر اپنی 32؍ سالہ سیاست (بشمول تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے کے ساتھ) کے نتیجے میں نواز شریف اب سخت جاں ہو چکے ہیں۔ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سیاست کے حوالے سے اپروچ بڑی ہی سادہ ہے، وہ ایک فوکل پوائنٹ بناتے ہیں اور اسی پر قائم رہتے ہیں چاہے کچھ ہو جائے۔ اس وقت بھی ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔
اس مرتبہ فوکل پوائنٹ وزیراعظم شہباز شریف کی نئے آرمی چیف کے تقرر کے معاملے میں بالادستی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اس معاملے پر سمجھوتے کیلئے تیار نہیں اور کسی کو بھی وزیراعظم کی اتھارٹی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان کو کئی لوگ آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ اس عہدے کیلئے عمران خان کی من پسند شخصیت کون ہے کیونکہ انہیں امید ہے کہ وہ شخص ان کے آئندہ عام انتخابات میں حکومت میں واپسی کو یقینی بنا سکتا ہے۔
اسی دوران آرمی چیف کے تقرر سے پہلے وہ اپنی عوامی حمایت بھی دکھانا چاہتے ہیں۔ سینیارٹی کے لحاظ سے دیکھیں تو آرمی چیف کے عہدے کیلئے پہلے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آتے ہیں۔ انہیں 2018ء میں آئی ایس آئی چیف لگایا گیا تھا لیکن ان کے عہدے کی معیاد کم رہی۔
منیر کی جگہ 8؍ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے اصرار پر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اس عہدے پر لگا دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا نام آتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران وہ اہم عہدوں جیسا کہ ڈی جی ایم او پر کام کر چکے ہیں جس نے ٹی ٹی پی کیخلاف آپریشن کی قیادت کی۔ وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کی ٹیم میں بھی شامل تھے۔
اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کا نام ہے۔ وہ بھارتی امور کے حوالے سے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ فی الوقت چیف آف جنرل اسٹاف ہیں۔ اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود کا نام آتا ہے جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر ہیں۔ اس سے قبل وہ پشاور میں الیون کور میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور پاک افغان بارڈر کی سیکورٹی بھی دیکھتے رہے ہیں۔
آرمی چیف کے عہدے کی دوڑ میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام بھی شامل ہے اور وہ عمران خان کے من پسند ہونے کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جنرل عاصم منیر کی جگہ سنبھالی اور وہ عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے درمیان کشیدگی کا سبب بھی بنے۔
اگرچہ ’’سیاست زدہ‘‘ ہونے کے معاملے میں ان کے چانسز بہت کم ہیں لیکن کوئی معجزہ ہی انہیں اس عہدے پر لا سکتا ہے۔ عمران خان کے منصوبے کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان حکومت پر سیاسی و عوامی دباؤ ڈال کر انہیں آرمی چیف کے عہدے پر تعیناتی موخر کرنے یا پھر مخصوص افسر کے عہدہ سنبھالنے سے روکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے اعلان نے ان کے اپنے ساتھیوں کو حیران کر دیا۔ ان کے ایک قریبی ساتھی نے پہلے تو یہ تک کہہ دیا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے عمران خان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن عمران خان نے اعلان کو دہرایا اور جمعہ کو مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا۔
عمران خان کے کچھ ساتھیوں نے اعتراف کیا ہے کہ لانگ مارچ کی تیاریاں کم ہیں اور پارٹی ورکرز کنفیوز ہیں کہ آگے کیسے بڑھیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے اتحادیوں کو علم نہیں کہ انتظامی سہولت کیسے دیں۔
فیصل واوڈا نے بیان داغ دیا کہ لانگ مارچ میں مجھے لاشیں اور خون نظر آ رہا ہے، ایسی باتیں ہیں جنہوں نے مارچ کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور شرکا میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ طاقتور کھلاڑی اپنے ظاہری اور باطنی کارڈز کھیل رہے ہیں، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔
کیا قائداعظم غلط تھے؟جاوید چوہدری
لائلپورسٹی- 25اکتوبر2022:قائداعظم محمد علی جناح سے کسی نے پوچھا تھا ’’آپ پاکستان کس کے لیے بنا رہے ہیں؟‘‘ قائداعظم نے جواب دیا ’’ہندوستان کی مسلمان قوم کے لیے‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’کیا ہندوستان کے مسلمان قوم ہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا ’’ نہیں ہیں لیکن یہ بن جائیں گے‘‘ اور پوچھنے والے نے پوچھا ’’یہ کتنے عرصے میں قوم بنیں گے؟‘‘ قائداعظم نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’سو سال لگیں گے۔‘‘
میں نے یہ واقعہ مدت پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا‘ کتاب کا نام کیا تھا اور یہ کس نے لکھی تھی میں یہ بھول گیا ہوں لیکن یہ واقعہ میرے دماغ سے چپک کر رہ گیا اور مجھے جب بھی یہ یاد آتا ہے تو میں دیر تک سردھنتا رہتا ہوں‘ قائداعظم کوا للہ تعالیٰ نے واقعی وزڈم (بصیرت) سے نواز رکھا تھا۔
وہ اس قوم اور اس قوم کے ایشوز سے پوری طرح واقف تھے‘ آپ آج بھی ان کی تقریریں نکال کر دیکھ لیں آپ کو ان میں پاکستان کا ماضی‘ حال اور مستقبل صاف نظر آ جائے گا‘ مثلاً آپ قائداعظم کے دو مشہور ترین اقوال کو لے لیں‘ یہ قول بچے بچے کو ازبر ہیں‘ قائداعظم نے قوم کو 80 سال قبل مشورہ دیا تھا ’’کام‘ کام اور کام‘‘ آپ قائد کی تشخیص ملاحظہ کیجیے۔
وہ 80 سال قبل جانتے تھے میں جس قوم کی قیادت کر رہا ہوں وہ ٹھیک ٹھاک کام چور ہو گی چناں چہ انھوں نے ہمیں وصیت کی‘ بیٹا بس ایک ہی کام کرو‘ کام‘ کام اور کام لیکن آپ ہماری کام چوری دیکھیے‘ ہم سب کچھ کریں گے مگر کام نہیں کریں گے‘ آپ اس ملک میں کسی شخص سے کام کرا کر دکھا دیں‘ میں پھولوں کے ہار لے کر آپ کے گھر آ جاؤں گا۔
آپ کام کو بھی چھوڑ دیجیے‘ ہم کام نہیں کرتے‘ کوئی ایشو نہیں مگر مسئلہ یہ ہے ہم کسی دوسرے کو بھی نہیں کرنے دیتے‘ ہماری گلی میں ایک اینٹ اکھڑی ہو‘ لوگ روز ٹھڈا کھائیں گے اسے ٹھیک نہیں کریں گے لیکن اگر کسی نے اسے ٹھیک کرنے کی غلطی کر دی تو پھر پورا محلہ اس کے خلاف جہاد شروع کر دے گا‘ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو ہر گھرمیں صرف ایک شخص جیسے تیسے کچھ نہ کچھ کرتا نظر آئے گا۔
باقی سارا خاندان چارپائیاں توڑ رہا ہو گا اور جب خاندان توڑ توڑکر تھک جائے گا تو پھر اسی کے خلاف اعلان جہاد کر دے گا جس نے سب کا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور یہ ایک آدھ خاندان کی کہانی نہیں‘ یہ پورے معاشرے‘ پورے ملک کا المیہ ہے لہٰذا ہم اگر کام یاب ہونا چاہتے ہیں یا اس ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں قائداعظم کی وصیت پر عمل کرنا ہوگا یعنی کام‘ کام اور بس کام‘ ہم سب کام کریں گے تو ہی یہ قوم‘ قوم بنے گی‘ہم تب ہی ترقی کرسکیں گے‘ آپ اب قائداعظم کا دوسرا فقرہ بھی ملاحظہ کیجیے۔
قائداعظم نے 75 سال قبل کام کے بعد ایک ہی فقرے میں اس قوم کے تین المیوں کا ذکر کیا تھا اور وہ تھے ’’یونٹی‘ فیتھ اور ڈسپلن‘‘ ہم اسے اردو زبان میں ’’اتحاد‘ ایمان اور تنظیم‘‘ کہتے ہیں اور یہ ہمارا نیشنل موٹو بھی ہے‘ آپ قائداعظم کی وزڈم دیکھیے‘ وہ 75 سال پہلے بھانپ گئے تھے ہمارے ڈی این اے میں یونٹی (اتحاد) نہیں ہے‘ ہم ایک منقسم قوم ہیں لہٰذا ہمیں اپنے اندر یونٹی پیدا کرنا ہوگی۔
کیا قائداعظم کی یہ تشخیص بھی غلط تھی؟ کیا ہم آج بھی یونٹی کے بحران کا شکار نہیں ہیں؟ ہم شروع میں بنگالی اور پنجابی میں تقسیم تھے‘ ہمارا وہ نفاق ہمارا آدھا ملک کھا گیا مگر ہم اس کے باوجود باز نہ آئے اور ہم نے ملک میں بلوچی‘ سندھی‘ پنجابی اور پشتونوں کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا دی‘ یہ تقسیم مزید آگے بڑھی اور ہم نے قوم کو شیعہ اور سنی اورپھر سنیوں کو بھی اہل حدیث‘ بریلوی‘ دیوبندی اور وہابی میں تقسیم کر دیا‘ ہمارا قرآن ایک ہے۔
رسولؐ بھی ایک ہے لیکن ہماری مسجدیں الگ الگ ہیں‘ کیا دنیا میں کوئی قوم اس بے اتفاقی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر ہمیں اپنا نفاق گلیوں‘ محلوں اور خاندانوں تک پھیلا دینا چاہیے اور اگر نہیں تو پھر ہمیں بہرحال قائداعظم کی تشخیص پر غور کرنا ہوگا‘ ہمیں لانگ مارچ اور سول ملٹری تقسیم ختم کر کے یونٹی اختیار کرنا ہو گی‘ آپ اب فیتھ کو بھی لے لیجیے‘ ہم نے فیتھ کا ترجمہ ایمان کر رکھا ہے جب کہ اس کا اصل ترجمہ یقین ہوتا ہے۔
ہم نے کیوں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پکوڑوں‘ کھجوروں اور شربت کو بھی اسلام کا حصہ بنا دیا تھا چناں چہ ہم نے فیتھ کو بھی ایمان ڈکلیئر کر دیا جب کہ اصل حقیقت یہ ہے قائداعظم نے کوئی اسلامی ملک نہیں بنایا تھا‘ آپ نے صرف ایک ایسا ملک بنایا تھا جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو گی۔
قائداعظم اگر اسلامی ملک بناتے تو پھر ملک کے پہلے وزیر قانون ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل اور پہلے وزیرخارجہ ایک احمدی سرظفر اللہ چوہدری نہ ہوتے‘یہ حقیقت ہے قائداعظم کی نظر میں فیتھ کا مطلب ایمان نہیں تھا‘ یقین تھا اور جنرل ضیاء الحق کے اسلامی انقلاب تک سرکاری اسٹیشنری پر فیتھ کا مطلب یقین ہی لکھا جاتا تھا۔
ہمارے قومی ترانے میں بھی کسی جگہ ایمان‘ مذہب یا اسلام کا لفظ نہیںآیا تاہم یقین کا لفظ ضرور موجود ہے اور وہ ہے ’’مرکز یقین شادباد‘‘ہم اپنے ترانے میں 75 برسوں سے نظام کی تعریف بھی ’’قوت اخوت عوام‘‘ کرتے آ رہے ہیں اور اخوت کیا ہوتی ہے؟ یونٹی چناں چہ اگر قائداعظم کی نظر میں فیتھ کا مطلب ایمان ہوتا تو پھر حفیظ جالندھری یقینا مرکز ایمان شادباد لکھتے اور یہ نہیں ہوا لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں یہ ترجمہ غلط ہوا تھا اور فیتھ بہرحال یقین ہوتا ہے اور قائداعظم جانتے تھے ہم من حیث القوم یقین کی دولت سے محروم ہیں اور اگر ہم زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اوپر یقین کرنا ہوگا۔
آپ اب دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا قائداعظم کی یہ آبزرویشن بھی غلط تھی؟ کیا ہم من حیث القوم یقین سے محروم نہیں ہیں؟ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی شخص کے پاس کھڑے ہو جائیں اور آپ اس سے کچھ بھی پوچھ لیں آپ کو اس کے لہجے میں کھوکھلا پن ملے گا‘ وہ یقین سے محروم ہو گا‘ آپ کل کسی سے کسی جگہ کا ایڈریس ہی پوچھ لیں آپ کو چند سیکنڈ میں پتا چل جائے گا‘ ہم یقین پر کتنا یقین کرتے ہیں۔
قائداعظم کی تیسری تشخیص ڈسپلن (نظم وضبط) تھا‘ یہ جانتے تھے یہ ایک ایسی قوم کی قیادت کر رہے ہیں جو آنے والے دنوں میں نظم وضبط کے شدید بحران کا شکار ہو گی لہٰذا آپ آج دیکھ لیں کیا ہمارے ملک میں کسی بھی جگہ ڈسپلن پایا جاتا ہے؟ ہم مسجدوں میں بھی ڈسپلن پیدا نہیں کر سکے۔
ہم آج بھی گند صاف کرنے والے کو چوہڑا کہتے ہیں (جب کہ اصل چوہڑے گند پھیلانے والے ہوتے ہیں) لوگ اپنا واش روم‘ اپنی پلیٹ اور اپنا جوتا بھی صاف کرنا پسند نہیں کرتے اور یہ قطار میں کھڑا ہونا اور اپنی باری کا انتظار کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں‘میں ایئرپورٹس پر صاحب لوگوں کو دیکھتا ہوں ان کے بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ بھی کسی دوسرے نے اٹھا رکھے ہوتے ہیں جب کہ دوسرے ملکوں میں صدر اور وزراء اعظم اپنے بیگ خود کیری کرتے ہیں۔
یہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں اور اپنے لان کی گھاس بھی خود کاٹتے ہیں‘ ملک میں وقت پر پہنچنا‘ وقت پر کام ختم کرنا اور وعدے کا پاس یہ ممکن ہی نہیں‘ آپ وقت کے پابند کسی وزیر‘ سیکریٹری یا بڑے غلام علی خان کا نام لے لیں‘ یہ لوگ غیرملکی فنکشنز میں بھی وقت کی پابندی نہیں کرتے‘ آپ وقت کو چھوڑ دیجیے‘ آپ وزیرقانون کو دیکھ لیجیے‘ یہ بھی قانون کی پابندی نہیں کرے گا۔
ہمارا جج بھی خود کو قانون سے بالاتر سمجھے گا اور اسپیکر بھی آئین کی پاس داری نہیں کرے گا‘ ملک آج بھی افسر اور ماتحت دو حصوں میں تقسیم ہے‘ سرکاری دفتروں میں افسروں کے واش رومز پر بھی آفیسر لکھا ہوتا ہے اور آفیسروں کے واش رومز میں ماتحت کو ہاتھ دھونے کی اجازت بھی نہیں ہوتی‘ ہم ملک میں آج تک لوگوں کو سرخ لائٹ پر نہیں روک سکے‘ ہم پارلیمنٹیرینز کو پارلیمنٹ‘ فوج کو آئین اور عوام کو قانون کا ماتحت نہیں بنا سکے۔
ہمارا قانون آج بھی اِف اور بٹ دو لفظوں کے گرد گھوم رہا ہے‘ بیوروکریسی if یا But لگا کر ناممکن سے ناممکن کام کو بھی ممکن اور آسان سے آسان ترین ایشو کو بھی مسئلہ کشمیر بنا دیتی ہے اور کوئی اس سے سوال تک نہیں کر سکتا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ چار سال کے عدالتی فیصلے دیکھ لیں۔
ایک ہی مقدمے پر ایک ہی عدالت تین تین قسم کے فیصلے جاری کر رہی ہے اور مجال ہے کوئی اس پر سوال اٹھا سکے لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا ہمارے ملک میں عالم دین اسلام‘ پارلیمنٹیرین پارلیمنٹ‘ جج قانون اور سول اینڈ ملٹری بیوروکریسی آئین کے ڈسپلن میں نہیں ہے لہٰذا آپ پھر خود فیصلہ کر لیجیے کیا قائداعظم اس معاملے میں بھی غلط تھے؟
میری عاجزانہ درخواست ہے آپ ملک میں کوئی تیر نہ چلائیں‘ عمران خان کوئی لانگ مارچ لے کر نہ آئیں اور پی ڈی ایم بھی کوئی نیا پہیہ ایجاد نہ کرے‘ آپ بس قائداعظم کے دو اقوال پر عمل کر لیں‘ قوم کو کام پر لگا دیں اور ملک میں یونٹی‘ فیتھ اور ڈسپلن پیدا کر دیں یہ ملک دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ کچھ بھی کر لیں‘ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور آخری بات اسلام دنیا کا واحدمذہب ہے جس میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمارا رب جانتاتھا ہم مسلمان گندے بہت ہوں گے چناں چہ اس نے صفائی کو ایمان کا حصہ بنا دیا کہ شاید ہم ایمان تلاش کرتے کرتے ہی صاف ہو جائیںگے‘ شاید ہم اسی طرح اپنے ہاتھ دھو کر خشک کر لیں۔
خفیہ ملاقاتیں اور عمران خان
حذیفہ رحمٰن
لائلپورسٹی- 23اکتوبر 2022تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہمیشہ ریاستِ مدینہ کی مثال دیتے ہیں۔سوچا آج اپنے قارئین کو ریاستِ مدینہ کی ایک جھلک دکھا دوں۔نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد جب ریاستِ مدینہ میں خلفائے راشدینؓ کا دور شروع ہوا تو اس میں عدل و انصاف،قانون کی حکمرانی اور جواب دہی اقتدار کے لازمی جزو تھے۔خلفائے راشدینؓ نے ہمیشہ خود کو جواب دہی کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا۔خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب خلافت کا بار اٹھایاتو صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر ان سے کوئی خطا ہوجائے تو انہیں فوراً روک دیا جائے۔
اسی طرح ریاستِ مدینہ میں جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کا دور شروع ہوا تو آپ ہمیشہ بغیر رعایت کے بے لاگ انصاف فرماتے رہے۔فاتح مصر حضرت عمرو بن عاص ؓ کے بیٹے عبداللہ کو(جس نے کسی شخص پر بلاوجہ تشدد کیا تھا)آپ نے اس کے باپ کے سامنے کوڑے لگوائے ۔فاتح شام حضرت خالد بن ولیدؓکو معزول کیا۔فاتح ایران سعد بن ابی وقاصؓ سے جواب طلبی کی۔اسی طرح حضرت عمرؓ جب کسی صوبے یا شہر کا سربراہ(والی) مقرر کرتے تو پہلے اس کی جائیداد اور اندوختہ کا حساب لیتے تھے اور جب و ہ اپنے منصب سے الگ ہوتا یاا س کے متعلق دورانِ تقرران کو اگر یہ علم ہوجاتا کہ اس کے پاس کوئی غیر معمولی دولت جمع ہوگئی ہے تو وہ اس کا محاسبہ کرتے اور پوچھتے کہ یہ دولت تمہارے پاس کہاں سے آئی ہے؟
یہ ریاستِ مدینہ کی حقیقی شکل تھی۔حضرت عمرؓ سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے جو کرتا پہنا ہوا ہے، یہ ایک کپڑے سے تو نہیں بنتاتو آپؓ نے وضاحت کی کہ یہ میرا اور میرے بیٹے کا حصہ ہے۔عہدے کے دوران جب بھی کوئی تحفہ یا قیمتی چیز کسی نے دی تو اس کو مالِ غنیمت میں جمع کرایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’یہ تحفہ مجھے میرے عہدے کی وجہ سے ملا ہے،اس لئے اس تحفے پر میرا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ایسا تو ریاستِ مدینہ میں کبھی تصور بھی نہیں تھا کہ چوری چھپے حاکمِ وقت قیمتی تحفے تحائف گھر لے جائے اور پھر انہیں مہنگے داموں فروخت کردے۔لیکن ابھی توشہ خانہ تحائف میں ہونے والی بددیانتی کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ اعجاز الحق صاحب نے قوم کی توجہ سنجیدہ ترین موضوع سے ہٹانے کے لئے ایک ایسا شوشہ چھوڑ دیا،جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔حالانکہ یہ غیر مناسب طرزِ سیاست ہے کہ جب اہم ترین معاملات پر قوم اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تو آپ ایک نان ایشو کو اہم ترین ایشو بنا کر قوم کی توجہ ہٹانے کی کوشش کریں۔
کہاں حاکمِ وقت کی جانب سے بددیانتی کرکے کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی تحفے گھر لے جانے پر جواب دہی ہورہی ہے اور کہاںآپ نے غیرمرئی دنیا کی باتیں شروع کردی ہیں۔ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ خان صاحب وہی سرخ رنگ کی ڈائری ساتھ لے کر گئے ہیں مگر ڈائری سے پہلے بہت کچھ گھر جاچکا تھا ،جس کا حساب کتاب غالباً اس چھوٹی سی ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔اعجاز الحق جیسے سیاستدان کویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی پروپیگنڈا کا شکار ہوں اور ایک منتخب وزیراعظم کے متعلق یہ کہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے ایک ایم پی اے ملک احمد خان کے ساتھ گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر آرمی ہاؤس جاتے تھے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ شہباز شریف کار کے بجائے ہمیشہ بڑی گاڑی میں سفر کرتے ہیں اور لاہور سے اسلام آباد کے طویل سفر کے دوران کمر کی تکلیف کے باعث گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹ جاتے ہیں،تاکہ طویل سفر میں زیادہ دیر گاڑی میں بیٹھنے سے کمرپر بوجھ نہ آئے۔شاید اعجاز الحق لاعلم ہیں کہ بلٹ پروف گاڑی کی کوئی ’’ڈگی‘‘نہیں ہوتی ۔
پنجاب میں اعجاز الحق کے دوست عمران خان کی حکومت ہے۔سیف سٹی کا ریکارڈ نکلوا کر چیک کرلیں کہ کبھی شہباز شریف نے بلٹ پروف گاڑی کے علاوہ بھی کسی دوسری گاڑی پر سفر کیا ہو۔شہباز شریف تو دن کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے خوشگوار تعلقات کو تسلیم کرتے ہیں۔ہمیشہ اداروں کی سپورٹ کرتے ہیں ۔انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں بقول اعجاز الحق کے گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر آرمی ہاؤس جائیں ؟آج جب پوری قوم نے ایک فیصلہ کیا،ایک ایسا شخص جو کہ صبح شام اپنے مخالفین کو چور ،ڈاکو کہتا تھا اوربات بات پر ریاستِ مدینہ کی بات کرتا تھا ، ایسے میں اس کی چوری رنگے ہاتھوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پکڑ لی تو آپ نے انتہائی مضحکہ خیز شوشہ چھوڑ دیا ،جو کہ آپ ایسے سیاست دان کے لیے مناسب نہیں تھا ۔
ویسے شہباز شریف کو بھی دائیں بائیں نظر دوڑانی چاہئے کیونکہ اعجاز الحق نے تو ایک منفی شوشہ ضرور چھیڑا ہے مگر آج سے کئی ماہ پہلے جب شہباز صاحب وزیراعظم نہیں بنے تھے تب بھی آپ کی جماعت کے ہر رکن اسمبلی کے منہ پر یہی الفاظ ہوتے تھے کہ فلاں رکن صوبائی اسمبلی بنیادی طور پر شہباز شریف اور جنرل باجوہ(اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان پل کا کردار اداکررہے ہیں۔کوئی دوست اگر آ پ کے لئے کوئی اہم کام سرانجام دے ہی رہا ہے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی چاہئےکہ پارٹی کی میٹنگز اور ساتھی اراکین سے ایسی معلومات شیئر نہ کرے،کیونکہ جب معلومات ہاتھ سے نکل جاتی ہیں توپھر اعجاز الحق ہوں یا کوئی اور... اس کا استعمال اپنی مرضی سے من گھڑت باتیں شامل کرکے کرتا ہے کیوں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
شہد کی مکھی:جاوید چوہدری
ندیم حسن آصف سے میری زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں‘ یہ پنجاب کے ہوم سیکریٹری رہے‘ لاہور کے کمشنر بھی تھے اور کچھ عرصہ میاں شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری بھی تعینات رہے۔میری وزیراعلیٰ آفس میں ان سے سرسری سی ملاقاتیں رہی تھیں‘ یہ 2013میں سی ڈی اے کے چیئرمین بنے تو مجھے دعوت دی اور میری ان سے پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی‘ ملاقات کی وجہ بہت دلچسپ تھی‘ ان کا کہنا تھا آپ نے دنیا دیکھی ہے‘ آپ مجھے مشورہ دیں میں اسلام آباد کو مزید کیسے خوب صورت بنا سکتا ہوں؟
یہ سوال دلچسپ تھا لہٰذا میں نے انھیں دنیا کے مختلف شہروں کی روایات اور انتظامات بتانا شروع کر دیے اور ندیم حسن آصف ڈائری میں نوٹس بناتے چلے گئے‘ یہ میٹنگ بعدازاں چھ سات میٹنگز میں تبدیل ہوگئی اور میں اپنی بساط کے مطابق اپنی معلومات ان کے ساتھ شیئر کرتا رہا لیکن آخر میں وہی ہوا‘ کچھ ہونے سے پہلے ہی ندیم صاحب کا تبادلہ ہو گیا‘ یہ سیکریٹری ٹو پریذیڈنٹ بنے۔
آخر میں کیبنٹ سیکریٹری بنے اور پری میچور ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد ہمارا رابطہ تقریباً ختم ہو گیا مگر پھر 2019 میں آئی بیکس کا پہلا ٹور مصر گیا‘ ہم 95 لوگ تھے‘ وہ ٹور ختم ہو گیا لیکن اس میں ہمیں سردار کامران مل گئے‘ سردار صاحب جینوئن پڑھے لکھے‘ سمجھ دار اور تجربہ کار انسان ہیں‘ یہ مختلف اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو طبی آلات فراہم کرتے ہیں۔
کامران صاحب نے گفتگو کے دوران انکشاف کیا ندیم حسن آصف ان کے چھوٹے بھائی ہیں اور یہ روزانہ لنچ اکٹھے کرتے ہیں‘ شفیق عباسی اور طارق باجوہ بھی اس لنچ میں شامل ہوتے ہیں‘ سردار کامران کے توسط سے ندیم حسن آصف سے رابطوں کا دوسرا دور شروع ہوا‘ ان سے لاہور میں ملاقاتیں شروع ہوگئیں ‘ چھ ماہ قبل سردار صاحب کے گھر ان سے طویل ملاقات ہوئی‘ ہم دیر تک قہقہے لگاتے رہے تھے۔
وہ ہمارے ساتھ مراکو جانا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا میں مراکو نہیں گیا‘ میری خواہش ہے میں آپ لوگوں کے ساتھ فیض شہر جائوں اور دنیا کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹی دیکھوں‘ میں نے کہا‘ یہ بہت معمولی خواہش ہے‘ آپ جب چاہیں ہمارے ساتھ چلیں‘ گروپ نہ بنا تو میں اور آپ دونوں اکیلے چلے جائیں گے‘ یہ وعدہ ہو گیا اور زندگی چپ چاپ آگے بڑھتی رہی لیکن پھر اچانک جمعرات 20 اکتوبر کی صبح پتا چلا ندیم حسن آصف انتقال کر گئے ہیں‘ یہ خبر میرے لیے شاکنگ تھی‘ میں نے انھیں چند ماہ قبل صحت مند اور ٹھیک ٹھاک دیکھا تھا لہٰذا یقین نہیں آیا۔
ندیم حسن آصف صحت مند تھے‘ عمر 65 سال تھی اور 65 سال کی عمر آج کے دور میں زیادہ نہیں ہے‘ یورپ میں لوگ 70 سال کی عمر میں زندگی کا دوسرا فیز شروع کرتے ہیں لہٰذا ندیم صاحب اس لحاظ سے جوان تھے‘ واک کرتے تھے‘ قہقہے لگاتے تھے اور یہ ان چند بیوروکریٹس میں بھی شامل تھے جنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ نوکری کی کوشش نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا میں نے جتنی نوکری کرنی تھی‘ کر لی‘ میں اب آزاد زندگی گزاروں گا اور یہ آزاد زندگی گزارنے لگے‘ اپنی مرضی سے اٹھتے تھے‘ اپنی مرضی سے سوتے تھے اور مرضی کے لوگوں سے ملتے تھے‘ زندگی مزے سے گزر رہی تھی لیکن پھر 2021 کے وسط میں انھیں پیشاب کی تکلیف ہونے لگی‘ پیشاب رک رک کر آتا تھا‘ ٹیسٹ کرائے تو پراسٹیٹ پھولا ہوا تھا‘ ادویات شروع کیں ‘ حالت مزید خراب ہونے لگی‘ مزید ٹیسٹ ہوئے اور پراسٹیٹ کا کینسر نکل آیا تاہم ڈاکٹروں کا کہنا تھا یہ خطرناک نہیں ہے‘ ہم اسے ادویات سے کنٹرول کر سکتے ہیں‘ ادویات شروع ہوئیں لیکن کینسر دنوں میں جگر تک پہنچ گیا‘ سردار کامران نے علاج اور ادویات تلاش کرنا شروع کیں۔
پتا چلا جرمنی نے کینسر کی نیوکلیئر میڈیسن بنا لی ہے‘ جرمن کمپنی سے رابطہ کیا گیا‘ پتا چلا دوا کے ٹرائل چل رہے ہیں اور کمپنی ابھی صرف دو ملکوں کو دوا دے رہی ہے‘ برطانیہ اور پاکستان‘ سردار کامران نے مزید معلومات حاصل کیں‘ معلوم ہوا ایک ڈوز دس لاکھ روپے میں آتی ہے‘ کم از کم آٹھ ڈوز لگیں گی اور دوا چھ سے آٹھ ہفتوں میں پاکستان پہنچے گی بہرحال قصہ مختصر سردار کامران نے دوا منگوا لی لیکن اس دوران ندیم حسن ہمت ہار گئے۔
انھوں نے کھانا پینا بند کر دیا اور دنوں میں وہیل چیئر پر آ گئے‘ دوست احباب نے موٹی ویٹ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا کہنا تھا میں قدرتی طریقے سے واپس جانا چاہتا ہوں‘ مجھے ڈاکٹروں اور دوائوں کے چکر میں نہ ڈالیں‘ یہ دو بار اسپتال لے جائے گئے لیکن دونوں مرتبہ انھیں دوا کی پہلی خوراک نہ لگائی جا سکی‘ سردار کامران کے دوست احباب سینئر ڈاکٹر ہیں۔
ڈاکٹروں نے صورت حال دیکھ کر کہا ’’ندیم حسن کے معاملے میں ایک چیز اچھی ہے‘ اسے درد نہیں ہو رہا لہٰذا یہ جتنی دیر چل سکتے ہیں انھیں چلنے دیں‘ زیادہ تنگ نہ کریں کیوں کہ ان کے مرض کا علاج ممکن نہیں ہے‘‘ چناں چہ یہ چلتے رہے اور اس دوران 19 اور 20 اکتوبر کی درمیانی رات اُس سفر پر روانہ ہو گئے جہاں سے کسی کی واپسی ممکن نہیں۔
یہ میرے احباب میں اس نوعیت کی چوتھی موت ہے‘ میرے صحافی دوست مسعود ملک پراسٹیٹ کینسر کا شکار ہوئے اور دنوں میں دنیا سے رخصت ہو گئے‘ میرے دوست خاور محمود کو اچانک کینسر کا پتا چلا‘ یہ جرمنی گئے‘ علاج کراتے رہے لیکن طبیعت نہ سنبھل سکی تو مجھ سے جولیٹ کے شہر کا نام پوچھا‘ ورونا گئے‘ جولیٹ کے مجسّمے کے ساتھ تصویر بنوائی‘ بلیک فاریسٹ میں چند دن گزارے‘ کراچی واپس آئے‘ اپنی کمپنی بند کی‘ اثاثے بچوں میں تقسیم کیے اور ایک صبح خبر آئی خاور محمود ہم میں نہیں رہے۔
ڈاکٹر اسلم میرے بہت قریبی دوست تھے‘ وہ دنوں میں ہم سے رخصت ہو گئے اور اب ندیم حسن بھی ان میں شامل ہو گئے‘ احباب کی موت انسان کو ہمیشہ دکھی کر دیتی ہے‘ میں بھی دکھی ہو جاتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچنے لگتا ہوں ان لوگوں کے بھی چند خواب تھے‘ زندگی سے ان کے بھی کچھ تقاضے تھے‘ یہ بھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کیا یہ لوگ اپنی وش لسٹ پوری کر سکے؟ کیا یہ کامیاب ہونے کے بعد بھی وہ زندگی گزار سکے جس کا خواب باندھ کر یہ سفر پر روانہ ہوئے تھے؟
یہ سوال ہر بار مجھے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے متعارف کرا جاتا ہے‘ یہ کائنات 200 ارب کہکشائوں پر مشتمل ہے اور ایک کہکشاں میں کم از کم ساڑھے چار سو ارب سیارے ہوتے ہیں‘ ہماری کہکشاں ملکی وے سے قریب ترین کہکشاں کینس میجرڈورف ہم سے 25 ہزار نوری سال پر واقع ہے اور ہم اگر ایک نوری سال کو وقت میں تبدیل کر یں تو یہ ایک لاکھ 86 ہزار سال بنیں گے‘آپ اسے 25 ہزار سے ضرب دے کر دیکھ لیں!
ہمارے سولر سسٹم میں مریخ ہماری زمین کا ہمسایہ ہے اور اس ہمسائے پر لینڈ کرنے کے لیے بھی ہم اگر فضا میں دس کلومیٹر فی سیکنڈ کی اسپیڈ سے اڑیں تو ہمیں سات ماہ لگتے ہیں اور یہ ہم سے قریب ترین ہے اور اس پوری کائنات میں اب تک زندگی کا سراغ صرف زمین پر ملا ہے اور ہم اس زمین کے گولڈن ٹائم میں زندہ ہیں چناں چہ زندگی کی نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہو گا‘ ہمیں اس زندگی کے ایک ایک لمحے سے لطف اٹھانا چاہیے۔
دوسری حقیقت زندگی عارضی ہے‘ یہ کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے‘ ہمارے سامنے لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور لوگ سال بعد انھیں مکمل طور پر بھول جاتے ہیں چناں چہ جو بھی کرنا چاہتے ہیں آپ وہ آج کر لیں، کل کا انتظار نہ کریں‘ کائنات کے اس سسٹم میں کل کا لفظ فٹ ہی نہیں ہوتا‘ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی زندگی دے لیکن اس کی کیا گارنٹی ہے آپ لمبی عمر کے باوجود اپنی مرضی کی زندگی بھی گزار سکیں گے؟ انسان کے اعضاء ساٹھ سال کے بعد ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
آپ اگر ستر سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا چاہیں گے یا بسوں اور کشتیوں پر دنیا کا سفر کرنا چاہیں گے تو یہ مشکل ہو جائے گا‘ یہ آج میں رہ کر کرنے والے کام ہیں‘ ان کی قضا نہیں ہوتی چناں چہ آپ یہ آج ہی ادا کر لیں‘ کل ہر شخص کی زندگی میں ہر روز طلوع نہیں ہوتا اور تیسری حقیقت موت برحق ہے‘ دنیا کا ہر شخص فوت ہوتا ہے اور وہ ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ زندگی کی توفیق کم لوگوں کو دیتا ہے۔
آپ اگر زندہ ہیں تو پھر زندگی گزاریں‘ زندہ ہونے کا ثبوت دیں‘ مُردوں جیسی زندگی گزار کر دنیا سے نہ جائیں‘یہ کیا بات ہوئی آپ آئے تو کسی کو پتا نہ چلا‘ آپ رہے تو کسی کو پتا نہیں تھا اور آپ چلے گئے تو بھی کسی کو خبر نہیں ہوئی‘ آپ ایسی زندگی نہ گزاریں، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ ہم انسان ہیں، ہمیں کم از کم شہد کی مکھی سے بہتر زندگی گزارنی چاہیے۔
یہ بے چاری ساری زندگی پھولوں کا رس اکٹھا کرتی رہتی ہے لیکن جب شہد پک کر تیار ہو جاتا ہے تو انسان مکھیاں اڑا کر سارا شہد چٹ کر جاتا ہے‘ آپ یقین کریں آپ نے زندگی میں جو کمایا‘ جو بنایا‘ وہ شہد ہے‘ اس کے صرف آپ ہی حق دار ہیں لہٰذا یہ شہد خود کھائیں‘ اس سے خود لطف اٹھائیں ورنہ کسی دن آپ بھی شہد کی مکھی کی طرح اڑا دیے جائیں گے اور آپ کا مال‘ آپ کی کمائی کوئی اور چاٹ جائے گا۔
شخصیت پرستی؟ڈاکٹرخالد جاوید جان
لائلپورسٹی- 22اکتوبر2022:سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کسی بھی معاشرے کے لیے خوفناک نتائج کا حامل ہوتا ہے، جس سے نہ صرف مذہب کا تقدّس بری طرح پامال ہوتا ہے بلکہ سیاست بھی عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے کا ذریعہ بننے کی بجائے فروعی مسائل یا نان ایشوز کی نذر ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہو کر انتشار ، انارکی اور بالآخر خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں۔
آج کل پاکستان ایسی ہی ہیجانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا عمل جنرل ضیا نے شروع کیا، جس نے اپنے ہر غیر آئینی عمل کو مذہب کا جامہ پہنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پاکستان مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوگیا۔ جو آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جنرل ضیاء کے بعد گو اکثر حکمرانوں نے مذہب کے استعمال کا سلسلہ جاری رکھا لیکن اس ضمن میں عمران خان سب پر بازی لے گئے ۔ اگرچہ مذہب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کا ایک انتہائی ذاتی اور پاکیزہ اظہار ہے جس پر تبصرہ کرنے کا کسی تیسرے فرد کو حق حاصل نہیں ہونا چاہیے ۔
لیکن جب کوئی شخص محض اپنے ذاتی ، گروہی یا سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو چوراہے میںلے آئے تو پھر مذہبی تقدّس کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ ایسا کرنے والے کے اپنے کردار اور مذہبی علم کا جائزہ لیا جائے کہ کیا کہنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے ، اس میں کوئی منطق ، دلیل یا سچائی موجود ہے بھی یا نہیں ؟ شخصیت پرستی کی اسلام اور دیگر مثبت مکاتبِ فکر میں اس لیے شدّت سے ممانعت کی گئی ہے کہ شخصیت پرستی بھی بُت پرستی کی ہی ایک شکل ہوتی ہے، جس میں آپ اس شخص کو جسے آپ پسند کرتے ہیں، انسانی درجے سے اٹھا کر اس درجے پر لے جا تے ہیں جہاں آپ کو اس کے عیب بھی کارنامے دکھائی دیتے ہیں ۔
عمران خان کی ذاتی زندگی اور سیاسی زندگی میں گفتار اور کردار کی ایک وسیع خلیج حائل رہی ہے ۔ ماضی کے پلے بوائے اور حال کے مبیّنہ مشکوک سرگرمیوں کے حامل (آڈیو اور ویڈیو ٹپس کے حوالے سے )عمران خان کی ساری زندگی قول و فعل کے تضادات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک ہی سانس میں ریاست ِ مدینہ ، مغرب کے جمہوری نظام ، سعودی عرب کے شاہی نظام اور چین کے ون پارٹی سسٹم کے قائل نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ان تمام نظاموں کا سطحی علم رکھتے ہیں بلکہ ان تمام نظاموں میں جہاں شخصی اقتدار نمایاں ہے اس نظام کے زیادہ قریب ہیں۔
اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں انہوں نے جس طرح اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا اور میڈیا میں احتجاجی آوازوں کو کچلا ، اس کی ایک مثال سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے عمران خان کے دورِ ستم میں دیا ۔ جب انہیں اس وجہ سے وقت سے پہلےملا زمت سے فارغ کردیا گیا جب انہوں نے عمران خان کے کہنے پر ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم نہیں کیے تھے۔ جس پر انہوں نے بشیر میمن سے کہا تھا کہ سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کی حکم عدولی کی کوئی جرأ ت نہیں کر سکتا ۔وہ ریاست ِ مدینہ کے داعی رہے اور انصاف کے سب سے بڑے علم بردار ۔
لیکن اپنے دور میں انہوں نے ہر معاملے میں غلط بیانی کی اور اسے یو ٹرن کا نام دیکر بڑا لیڈر ہونے کا دعویٰ کیا۔تاہم جس طرح سابق خاتونِ اوّل نے اپنی قریبی دوست فرح گوگی کے ذریعے پنجاب پر عملاََ حکمرانی کی اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ آٹا ،چینی ، گیس اور ادویات اسکینڈلز میں ملوّث اپنے ساتھیوں کو نوازا، ملک کی معیشت کو تباہ کیا۔ ہر ادارے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ، ملک کی خارجہ پالیسی پر بے سرو پا بیانات دیکر پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دیا۔
اور جب پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ گیا تو آئینی عمل کے ذریعے اپنی حکومت کی تبدیلی کو جس طرح انہوں نے غیر آئینی طریقے سے روکنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش ناکام ہو گئی تو ایک معمول کے سائفر کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے ’’ امریکی سازش‘‘ میں تبدیل کر دیا۔
نہ انہوں نے نہ ہی ان کے حامیوںنے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ سازش بتا کر نہیں کی جاتی ۔ بعد میں سائفر کا پول بھی کھل گیا تو خان صاحب اپنے اقتدار میں لانے والوں کے در پے ہو گئے۔ ایسے فاشسٹ رویّوں سے ریاست ِ مدینہ تو نہیں البتہّ پاکستان کو نازی ہٹلر کا جرمنی بنایا جا سکتا ہے۔
ہم کوئلے سے پٹرول کیوں نہیں بناتے؟جاوید چوہدری
لائلپور سٹی/ٹورنٹو-7اکتوبر2022: پروفیسر اطہر محبوب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ہیں‘ یہ چند دن قبل اسلام آباد آئے‘ مجھے عزت بخشی اور میرے گھر بھی تشریف لائے‘ یہ میری ان سے دوسری ملاقات تھی‘ پروفیسر صاحب پڑھے لکھے اور انتہائی سلجھے ہوئے خاندانی انسان ہیں‘ مجھے مدت بعد سلجھی اور علمی گفتگو سننے کا موقع ملا اور میں ابھی تک اس کی سرشاری میں ہوں‘ پروفیسر صاحب کا خاندان آٹھ سو سال سے علم‘ انصاف اور دین سے وابستہ ہے۔
آباؤ اجداد بغداد کے عباسی خاندان کے قاضی القضاء تھے‘ تاتاریوں کے حملوں کے بعد بغداد سے ہندوستان ہجرت کی‘ اترپردیش کے شہر گورکھ پور کو اپنا مسکن بنایا اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہو گئے‘ دادا قاضی منظور الحق ہجرت کر کے پاکستان آئے‘ سندھ‘ ایبٹ آباد اور گڑھی شاہو لاہور تین شہروں میں علم کے پیاسوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرتے رہے‘ میاں نواز شریف‘ شہباز شریف اور عباس شریف تینوں ان کے شاگرد رہے ہیں۔
پروفیسر اطہر کے والد قاضی محبوب الحق ایئرفورس کے فائٹر پائلٹ تھے‘ وہ پہلے امریکی فائٹر جہاز مارٹن بی 57 کے پائلٹ تھے‘ قاضی محبوب الحق امریکا میں ٹریننگ لینے والے ابتدائی پاکستانی پائلٹوں میں بھی شامل تھے‘ پروفیسر اطہر محبوب ان کے صاحب زادے ہیں‘یہ ملک کے مختلف کنٹونمنٹس کے مختلف اسکولوں سے ہوتے ہوئے فرانس اور امریکا کے اعلیٰ اداروں تک پہنچے‘ انجینئر بنے‘ پی ایچ ڈی کی‘ تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوئے اور اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ہیں۔
ان کے والد فوج کے مختلف ٹرینی اداروں کے سربراہ رہے ‘ خاندان کے بے شمار افراد آج بھی ایئرفورس‘ نیوی اور فوج میں شامل ہیں‘ ڈاکٹر اطہر محبوب کی تربیت فوجی‘ علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی لہٰذا ان کی سوچ میچور اور گفتگو میں بے انتہا گہرائی ہے‘ میں نے زندگی میں ان جیسا پڑھا لکھا‘ متوازن اور علمی شخص بہت کم دیکھا۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے دوران ذکر کیا ساؤتھ افریقہ نے 1950 کی دہائی میں کوئلے سے پٹرول بنانے کی ٹیکنالوجی ڈویلپ کر لی تھی‘ چین نے یہ ٹیکنالوجی سیکھ کر اب چھوٹے چھوٹے پلانٹس بنا لیے ہیں۔
ہمارے پاس تھر میں اتنا کوئلہ موجود ہے جس سے ہم پانچ سو سال تک اپنی انرجی کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں‘ ہم اس کوئلے سے پٹرول کیوں نہیں بناتے؟ میں نے فوراً عرض کیا‘ سر آپ پاکستان میں پہلے انسان ہیں جس سے میں نے یہ بات سنی‘ ہمارے سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریٹس حتیٰ کہ سائنس دان تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ میں نے ان سے عرض کیا میں دو ہفتے قبل ساؤتھ افریقہ گیا تھا‘ میں نے وہاں ساسول (Sasol) کے پٹرول پمپس دیکھے تھے‘ مجھے ڈاکٹر کاشف مصطفی نے بتایا تھا‘ ساسول نے 1960 کی دہائی میں کوئلے سے پٹرول اور ڈیزل بنانا شروع کیا تھا۔
- انیس سو اسی کی دہائی تک یہ کمپنی پورے ملک کی آئل کی ضرورت پوری کرتی تھی‘ یہ آج بھی کام کر رہی ہے اور لوکل آبادی کے زیادہ تر لوگ ان سے پٹرول خریدتے ہیں‘ میں نے ریسرچ کی تو پتا چلا کوئلے سے بیک وقت بجلی‘ پٹرول اور گیس تینوں بن سکتی ہیں‘ ان تینوں کا بنیادی عنصر کیوں کہ کاربن ہوتا ہے اور کاربن کوئلے میں سب سے زیادہ ہوتی ہے چناں چہ اسے بڑی آسانی سے گیس اور پٹرول میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف میری بات سے اتفاق کیا بلکہ بڑی تفصیل کے ساتھ کوئلے کو گیس اور پٹرول میں تبدیل کرنے کا طریقہ بھی بتایا‘ میں نے ان سے پوچھا کیا ’’ہم تھر کے کوئلے سے اپنی ضرورت کے مطابق پٹرول اور گیس بنا سکتے ہیں؟‘‘ ان کا فرمانا تھا ’’ہم نہ صرف اپنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں بلکہ ہم ایکسپورٹ بھی کر سکتے ہیں بس اس میں صرف ایک قباحت ہے اور وہ ہے فضائی آلودگی‘ کوئلہ آلودگی بہت پیدا کرتا ہے لیکن اس کا علاج بھی ممکن ہے‘ چین نے آلودگی روکنے کے لیے بھی ٹیکنالوجی بنا لی ہے‘ ہم اگر آلودگی کنٹرول کر لیں تو ہم کم از کم توانائی کا مسئلہ ضرور حل کر سکتے ہیں۔‘‘
اب سوال یہ ہے جنوبی افریقہ کو یہ آئیڈیا کہاں سے آیا؟ آپ کو اس کے لیے 1950کی دہائی میں جانا ہوگا‘ 1950 میں جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ شروع ہوئے اور گوروں نے کالوں سے تمام انسانی حقوق چھین لیے‘ یہ ایک غیرانسانی اور غیراخلاقی فیصلہ تھا چناں چہ سیاہ فام باشندوں نے بغاوت شروع کر دی‘پورے ملک میں ہنگاموں کا آغاز ہو گیا۔
دوسری طرف اقوام متحدہ نے جنوبی افریقہ پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں جس کے بعد امپورٹس ایکسپورٹس دونوں بند ہو گئیں اور جنوبی افریقہ میں خوف ناک بحران پیدا ہو گیا‘ یہ بحران اگر ایشیا یا تیسری دنیا کے کسی ملک میں آیا ہوتا تو وہ یقیناً لیٹ جاتا لیکن جنوبی افریقہ نے کمال طریقے سے اس مصیبت کو اپنے لیے نعمت میں تبدیل کر لیا اور یہ ملک دس سال میں ہر قسم کی امپورٹ سے آزاد ہو گیا۔
ساؤتھ افریقہ میں تیل نہیں نکلتا تھا‘ حکومت نے فوری طور پر سائنس دانوں کی مدد لی اور انھوں نے چند برسوں میں کوئلے سے پٹرول اور گیس بنانا شروع کر دی‘ ان لوگوں نے بجلی کے پلانٹس بھی کوئلے پر شفٹ کر دیے‘ یہ لوگ خوراک بھی ملک کے اندر پیدا کرنے لگے اور مشینوں اور گاڑیوں کے کارخانے بھی ملک میں لگا لیے یوں امپورٹس کا مسئلہ حل ہو گیا لیکن ملکوں کو غیرملکی سرمایہ بھی چاہیے ہوتا ہے اس لیے بھی ان لوگوں نے کمال بندوبست کیا‘ جنوبی افریقہ میں لی سوٹو (Lesotho) نام کا ایک علاقہ ہے‘ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں چند لاکھ لوگ رہتے تھے۔
جنوبی افریقہ نے وہاں آزاد حکومت قائم کر کے اسے الگ ملک بنا دیا‘ لی سوٹو میں تجارتی کمپنیاں بنیں‘ یہ کمپنیاں جنوبی افریقہ سے مال خریدتیں‘ ان پر میڈ ان لی سوٹو کی مہریں لگتیں اور پوری دنیا کی منڈیوں تک پہنچا دیتیں‘ اقوام متحدہ اس بدمعاشی سے واقف تھی لیکن یہ تکنیکی طور پر بے بس تھی‘ یہ کسی آزاد اور قانونی ملک کی تجارت پر پابندی نہیں لگا سکتی تھی اور یوں ساؤتھ افریقہ میں اقتصادی پابندیوں کے باوجود ترقی کا عمل جاری رہا‘ میرا پرانا تھیسس ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو گرم اور سرد دو علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے‘ دونوں علاقوں کے لوگوں کے ڈی این اے میں بڑا فرق ہے۔
ٹھنڈے علاقے کے لوگ سائنسی دماغ کے ہوتے ہیں‘ یہ مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں جب کہ گرم علاقے کے لوگ فلسفی ہوتے ہیں‘ یہ سوچتے اور بولتے زیادہ ہیں‘ آپ کسی دن ڈیٹا جمع کرلیں۔
آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے دنیا کی 95 فیصد ایجادات ٹھنڈے علاقوں میں ہوئیں اور یہ گوروں نے کیں جب کہ دنیا کے 98 فیصد مذاہب اور فلسفوں نے گرم علاقوں میں جنم لیا‘ احادیث کی چھ کتابیں بھی سینٹرل ایشیا کے علماء نے مرتب کیں اور یہ سفید فام تھے اور دنیا پر زیادہ عرصہ حکومت بھی سفید فام باشندوں نے کی اور اس کی بنیادی وجہ ٹیکنالوجی تھی‘گورا ڈی این اے قسم کی ٹیکنالوجی جلدی بنا لیتا ہے جب کہ ہم گندمی یا سیاہ فام لوگ صرف سوچتے اور بولتے رہ جاتے ہیں۔
دنیا اس وقت بھی سفید فاموں اور ٹیکنالوجی کے ہاتھ میں ہے اور یہ زیادہ تر ٹھنڈے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں چناں چہ موسم اور ڈی این اے بھی دنیا میں تفریق کی وجہ ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہم اگر سفیدفام نہیں ہیں یا گرم علاقوں میں پیدا ہو گئے ہیں تو ہم نئی ٹیکنالوجی اور ماڈلز سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے‘ ہمیں اٹھانا چاہیے کیوں کہ علم اور عقل عالمی میراث ہیں‘ دنیا کے تمام انسانوں کو اس پر برابری کا حق حاصل ہے۔
ہم تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں‘ ملکی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور کساد بازاری انتہا کو چھو رہی ہے‘ ملک سیاسی افراتفری کا شکار بھی ہو چکا ہے‘ حکومت اپنا سیاسی مستقبل بچانے میں مصروف ہے۔
عمران خان ’’میں یا پھر کوئی بھی نہیں‘‘ کے عمل سے گزر رہے ہیں لہٰذا ملک اس وقت اللہ کے آسرے پر ہے‘ یہ چلتا ہے یا نہیں چلتا اس وقت کسی کو اس کی کوئی پروا نہیں‘ کاش اس وقت چند صحیح الدماغ لوگ اکٹھے ہو جائیں‘ یہ سب کو اکٹھا بٹھائیں‘ رولز آف گیم طے کریں اور ملک کو راہ راست پر لے آئیں‘ ہم زیادہ نہ کریں تو کم از کم ملک کے بنیادی مسئلے ہی طے کر کے ان سے متعلق ادارے بنا دیں اور ان اداروں کو ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے بالاتر کر دیں۔
کوئلے سے بجلی‘ گیس اور پٹرول بنانے کا ادارہ بنائیں‘ زراعت کے شعبے کے لیے بھی پالیسیاں بنا کر بیس سال کے لیے فکس کر دی جائیں‘ تعلیم کا شعبہ اور نصاب بھی فکس کر دیا جائے‘ آبادی کنٹرول کا محکمہ بھی آزاد اور پالیسی لانگ ٹرم ہو اور کاروباری شعبے کے لیے بھی تمام پالیسیاں اور ٹیکس سلیبز ایک ہی بار فکس کر دی جائیں اور پھر انھیں کسی بھی صورت میں چھیڑا نہ جائے۔
آپ بالکل اسی طرح احتجاج کے رولز بھی طے کر دیں‘ کسی کو سڑک‘ شہر اور پل بند کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور جو یہ کرے اسے بھاری جرمانہ بھی کیا جائے اور اس کی سیاست اور کاروبار پر بھی پابندی لگا دی جائے‘ یہ ملک پھر چل سکے گا ورنہ آپ یقین کریں ہم 2023میں بیٹھ کر 2022کو یادکیا کریں گے اور کہا کریں گے واہ وہ بھی کیا زمانہ تھا‘ چیزیں مہنگی تھیں لیکن دستیاب تھیں مگر اب پٹرول ہے۔
گیس ہے‘ بجلی ہے اور نہ ہی خوراک ہے صرف عمران خان اور مریم نواز کی تقریریں ہیں‘ہم اگر اس زمانے میں جانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن اگر ہم یہ ملک چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں عقل سے کام لینا پڑے گا‘ یہ یاد رکھیں زندہ رہنا‘ ترقی کرنا اور مطمئن زندگی گزارنا یہ عقل کے بغیر ممکن نہیں اور ہم عقل سے مکمل عاری ہو چکے ہیں۔
دس ارب ڈالر کا سوال ہے بابا- جاوید چوھدری
میں آپ کو چند لمحوں کے لیے ایک بار پھر ماضی میں لے جاتا ہوں‘ مارچ 2022 تک اسد مجید امریکا میں ہمارے سفیر تھے‘ ان کی مدت ملازمت ختم ہو رہی تھی‘ انھوں نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں۔ 7 مارچ کو امریکا کے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو کے ساتھ ان کا الوداعی لنچ تھا‘لنچ پر اسد مجید نے شکوہ کیا ’’میری مدت ختم ہو گئی لیکن آپ نے صدر جوبائیڈن کی ہمارے وزیراعظم سے بات نہیں کرائی‘‘ یہ سنتے ہی ڈونلڈ لو نے شکوؤں کی پٹاری کھول دی‘ ان کا کہنا تھا‘ عمران خان نے2020 کے امریکن صدارتی الیکشنز میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سپورٹ کیا تھا۔
آپ لوگوں کی طرف سے امریکا مخالف ٹویٹس بھی آتی رہیں اور عمران خان نے فلاں جگہ پر یہ کہہ دیا اور یہ فلاں جگہ پر یہ کہتے رہے لہٰذا میں صدر کو کس منہ سے فون کرنے کا کہتا وغیرہ وغیرہ‘ بہرحال یہ میٹنگ ختم ہو گئی‘ سفیر اسد مجید نے واپسی پر ملاقات کا احوال لکھا اور سائفر سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کو بھجوا دیا۔
سفیر نے مراسلے کے آخر میں لکھا ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہو رہے ہیں‘ امریکی انتظامیہ ہم سے ناراض ہے‘ ہمیں اپنی سفارت کاری پر توجہ دینی ہو گی‘ پروٹوکول کے مطابق ہمارے سفارت خانوں کے زیادہ تر مراسلے سیکریٹری خارجہ‘ ڈی جی آئی ایس آئی اورجی ایچ کیو جاتے ہیں‘آرمی چیف کا اسٹاف مراسلے پڑھ کر اہم ترین کی سمری بناتا ہے اور یہ سمری بعدازاں آرمی چیف کو بھجوا دی جاتی ہے‘ یہ مراسلہ بھی پراسیس سے گزر کر آرمی چیف تک پہنچ گیا‘11 مارچ 2022 کو کامرہ ائیربیس میں جے10سی لڑاکا طیاروں کی لانچنگ تھی۔
وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں اس تقریب میں مدعو تھے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وہاں یہ مراسلہ وزیراعظم کو دیا اور ان سے کہا ’’سر میں آپ کو بار بار عرض کر رہا تھا آپ ٹویٹس اور بیانات میں احتیاط کیا کریں‘ آپ اپنی مرضی کیا کریں لیکن اوپنلی بات نہ کیا کریں‘ آپ اب اس کا نتیجہ دیکھ لیں‘‘۔
وزیراعظم نے مراسلہ کھولا‘ پڑھا‘ مسکرائے اور آرمی چیف سے کہا ’’جنرل صاحب اس قسم کے مراسلے آتے رہتے ہیں‘ آپ اسے سیریس نہ لیں‘‘ اور ساتھ ہی کاغذ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا‘ عمران خان نے بعدازاں27مارچ کوپریڈ گراؤنڈکے جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر کہا ’’باہر سے حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے‘ لکھ کر دھمکی دی گئی‘‘ وزیراعظم کی وہ تقریر حیران کن تھی۔
وزارت خارجہ سے لے کر جی ایچ کیو تک افراتفری مچ گئی اور ’’دھمکی اور سازش‘‘ کی تلاش شروع ہو گئی‘ تحقیق کے بعد پتا چلا یہ کاغذ وہی تھا جو آرمی چیف نے کامرہ میں وزیراعظم کو دیا تھا اور یہ سائفر یا مراسلہ نہیں تھا‘ یہ محض سمری تھی اور یہ مختلف دفتروں اور میزوں سے ہوتی ہوئی آرمی چیف تک پہنچی تھی اور آرمی چیف نے وہ گڈ فیتھ میں وزیراعظم کو دکھائی تھی مگر عمران خان نے اسے سیاسی کارڈ بنا دیا۔ یہ کہانی کا ایک حصہ تھا‘ آپ اب دوسرا حصہ بھی ملاحطہ کر لیجیے‘ 28 ستمبر 2022 کو عمران خان اور پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور 30 ستمبر کو عمران خان‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی آڈیو ریکارڈنگز لیک ہوئیں۔
یہ آڈیوز وزیراعظم آفس میں ریکارڈ ہوئی تھیں اور ان میں وزیراعظم عمران خان پرنسپل سیکریٹری سے کہہ رہے ہیں ’’اب ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر‘ نام نہیں لینا امریکا کا‘ صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر‘‘ اور اس کے بعد پرنسپل سیکریٹری وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہیں آپ میٹنگ بلائیں‘ اس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فارن سیکریٹری سہیل محمود یہ خط پڑھ دیں‘ میں اسے ریکارڈ پر لے آئوں گا‘ منٹس میرے ہاتھ میں ہیں‘ میں خط کو دھمکی بنا دوں گا-عمران خان میٹنگ کی وجہ پوچھتے ہیں تو پرنسپل سیکریٹری بتاتے ہیں ہمارے پاس خط کی آفیشل کاپی نہیں ہے‘ ہمیں اسے آفیشل بنانے کے لیے میٹنگ کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ‘ آپ اب اگر کامرہ اور خط کی بیگ گرائونڈ کو ذہن میں رکھ کر اس گفتگو کا تجزیہ کریں تو آپ کو محسوس ہوگا وزیراعظم کو جوں ہی سمری ملی انھوں نے اسی وقت اس پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ انھوں نے اس کھیل میں اپنے پرنسپل سیکریٹری کو شامل کیا اور اعظم خان نے انھیں سمری کو آفیشل بنانے کا مشورہ دینا شروع کر دیا تھا۔
دوسری آڈیو میں عمران خان شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو اعتماد میں لیتے ہیں اور اسد عمر کہتے ہیں یہ تو میٹنگ کی ٹرانسکرپشن ہے‘ یہ لیٹر نہیں اور عمران خان کہتے ہیں آپ اسے چھوڑ دو‘ پبلک کو لیٹر اور ٹرانسپکرپشن کا فرق پتا نہیں‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا اس کے بعد میٹنگ ہوئی تھی اور کیا اس میں سیکریٹری خارجہ نے وہ سائفر پڑھا تھا؟ میری معلومات کے مطابق میٹنگ ہوئی تھی لیکن سیکریٹری خارجہ نے سائفر پڑھنے سے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہنا تھا میں سرکاری حیثیت میں یہ نہیں کر سکتا‘ سفارت خانوں کے سائفر سیکریٹری خارجہ کے لیے ہوتے ہیں‘ ہم صرف سائفرز کی سمریاں بنا کر متعلقہ محکموں کو بھجواتے ہیں‘ ہم اپنا سسٹم کسی کے لیے بھی اوپن نہیں کر سکتے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بعدازاں سیکریٹری خارجہ پر دبائو ڈالا اور سیکریٹری خارجہ نے آفیشل چینل سے سائفر کی سمری وزیراعظم آفس بھجوا دی اور یہ سمری اب ریکارڈسے غائب ہے‘ بہرحال قصہ مختصر وزیراعظم نے پریڈ گرائونڈ کے جلسے میں سمری لہرائی اور اسے لیٹر قرار دے دیا تاہم اصل سائفر31 مارچ2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آیا تھا‘ یہ اجلاس عمران خان کے مطالبے پر بلایا گیا تھا۔
سائفر کی کاپی تمام شرکاء کے سامنے رکھی گئی تھی لیکن وہ کاپی ساتھ لے جا سکتے تھے اور نہ اس کے نوٹس بنا سکتے تھے‘ اسے صرف پڑھا جا سکتا تھا اور وہ پڑھا گیا اور آخر میں ایک متفقہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں یہ ڈکلیئر کیا گیا ’’پاکستان کے خلاف کوئی غیرملکی سازش نہیں ہوئی‘‘ اس میٹنگ کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات بھی ہوئی تھی اور عمران خان نے آرمی چیف سے کہا تھا ’’جنرل صاحب بس ڈیمارش ہو گیا‘ یہ بات اب یہاں ختم ہو جائے گی‘‘ اور تمام لوگ خوشی خوشی گھروں کو واپس لوٹ گئے لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی‘ وہ خط‘ مراسلہ یا سائفر آگے بڑھتا چلا گیااور اس میں سے نیوٹرلز کا طعنہ بھی نکلا‘ امپورٹڈ حکومت کے ہیش ٹیگ نے بھی جنم لیا‘ میر صادق اور میرجعفر بھی پیدا ہوئے‘ غدار اور سازشی کا بیانیہ بھی بنا اور آخر میں اس سے گیدڑ اور شیر بھی نکل گیا اور آپ دیکھیے گا اب دسمبر میں چار لوگوں کے نام بھی لیے جائیں گے۔
یہ تھی سائفر کم سمری کم خط کی کہانی لیکن ہم اگر یہ ایشو وزیراعظم ہائوس کی آڈیو لیکس کے سامنے رکھ کر دیکھیں تو ہمیں چیونٹی اور ہاتھی کا تناسب محسوس ہو گا‘ وزیراعظم کا آفس اور ہائوس دونوں ملک کی اہم ترین جگہیں ہیں‘ وہاں بگنگ ہونا اور پھر اس کا یوں لیک ہو جانا یہ ملکی تاریخ کا خوف ناک ترین واقعہ ہے۔
افریقہ کے انتہائی پس ماندہ ممالک میں بھی ایسے واقعات نہیں ہوتے جب کہ ہم دنیا کی واحد اسلامی نیو کلیئر پاور ہیں اور ان آڈیوز کی لیکس نے ثابت کر دیا ہمارے ملک کا کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی دفتر محفوظ نہیں‘ ہمارے اہم ترین دفتروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ریکارڈ بھی ہو تا ہے اور اس کی ریکارڈنگز پوری دنیا کے سامنے بھی آ سکتی ہیں‘ یہ بھی ثابت ہو گیا ملک دشمن لوگ اور ٹیکنالوجی ہمارے وزیراعظم تک بھی پہنچ جاتی ہے اور ہم لیکس کے بعد بھی انھیں پکڑ نہیں سکتے چناں چہ پریشانی کی اصل بات عمران خان کی گفتگو نہیں۔
وزیراعظم ہاؤس اور آفس کی سیکیورٹی ہے اور اس واقعے نے ثابت کر دیا ہم اس معاملے میں بہت کم زور ہیں‘ اب سوال یہ ہے یہ ریکارڈنگز کس نے کیں اور کیسے کیں؟ اس میں چند امکانات پیش کیے جا سکتے ہیں‘ پہلا امکان یہ ہے یہ ہمارے اپنے لوگوں کا کام ہو‘ ہمارے اداروں نے بگنگ کے آلات لگائے‘ ریکارڈنگز کیں اور یہ ریکارڈنگز بعدازاں سائبر اٹیک یا ہیکنگ کے ذریعے چوری ہو گئیں یا پھر سیاسی اختلافات اداروں کے اندر پہنچ چکے ہیں اور اندر موجود کسی شخص نے ریکارڈنگز اوپن کر دیں۔
دوسرا امکان یہ کام کسی بیرونی طاقت یا ادارے نے کیا‘ آج کے دور میں وزٹنگ کارڈز‘ خطوں‘ برتنوں اور دھاگوں کے ذریعے بھی ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے‘ وزٹنگ کارڈز میں بھی مائیکرو چپ لگ جاتے ہیں اور دھاگے کی شکل میں بھی چپس آ گئے ہیں اور آپ ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے سے لیزر گن کے ذریعے بھی ریکارڈنگ کر سکتے ہیں‘ دور سے کوئی شخص لیزر بیم مارتا ہے‘ لیزر کھڑکی کے شیشے سے اندر جاتا ہے اور سامنے موجود لوگوں کی گفتگو ریکارڈ ہو جاتی ہے اور تازہ ترین ٹیکنالوجی سیٹلائیٹ بھی ہے۔
آپ سیٹلائیٹ کے ذریعے کسی بھی ایسی ڈیوائس کو ریکارڈنگ مشین میں تبدیل کر سکتے ہیں جس میں چپ لگی ہو لہٰذا آج کے زمانے میں ریکارڈنگز زیادہ مشکل کام نہیں لیکن وی وی آئی پی عمارتوں اور شخصیات کو ریکارڈنگ سے بچانا یہ کمال ہوتا ہے اور ہم بحیثیت قوم اس میں مار کھا رہے ہیں‘ دنیا بھر میں سرکاری عمارتوں یا دفتروں میں موبائل فون نہیں جا سکتے‘ صدر اور وزیراعظم بھی موبائل فون کیری نہیں کر سکتے لیکن پاکستان میں ویٹرز اور سویپرز بھی جیب میں موبائل فون رکھ کر صدر اور وزیراعظم کے دفتر میں گھس جاتے ہیں۔
ہماری پوری سرکار موبائل فونز پر چل رہی ہے لہٰذا پھر سیکیورٹی کہاں ہو گی؟ معلومات کو خفیہ کہاں رکھا جا سکے گا اور تیسرا امکان پاکستان تحریک انصاف نے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوتے ہوتے وزیراعظم آفس میں ریکارڈنگ ڈیوائسز لگا دیں‘ وزیراعظم کی ریکارڈنگز کیں اور وہ نشر کر دیں اور حکومت نے جواب میں عمران خان اور اعظم خان کی آڈیو ریلیز کر دی۔
یہ تین امکانات ہیں‘ حقیقت کیا ہے؟ ہم دعوے سے نہیں کہہ سکتے لیکن یہ چیز طے ہے ان آڈیو لیکس نے ملک کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیااور یہ ثابت کر دیا پاکستان ایک غیرمحفوظ ملک ہے‘ اس میں صدر‘ وزیراعظم اور آرمی چیف کی گفتگو بھی محفوظ نہیں لہٰذا سوال یہ ہے کیا ہم ان حالات میں قائم رہ سکتے ہیں؟ یہ دس ارب ڈالر کا سوال ہے!۔
ایوان صدر میں چیف نیازی ملاقات۔ حقائق اور نتائج: سلیم صافی
لائلپورسٹی- 23ستمبر2022:گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے میری کوشش رہی کہ میں سیاست اور صحافت کا موضوع سیلاب زدگان کو بنائوں۔ اس مقصد کیلئے میں نے جیو تک کے خلاف ٹویٹ کئے لیکن بدقسمتی سے تمام سیاستدان بالعموم اور عمران خان بالخصوص سیلاب اور سیلاب زدگان کو نمبر ون ایشو بنانے نہیں دے رہے ہیں۔ بلکہ سوائے حامد میر صاحب کے ہمارے اہلِ صحافت کے لئے بھی وہ مسئلہ نمبرون نہیں بن رہا۔
ایوان صدر میں آرمی چیف اور عمران خان کی ملاقات، کیوں اور کیسے ہوئی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ان سب سوالوں کا جواب اور متعلقہ معلومات کافی دنوں سے میرے سینے میں دفن تھیں تاہم اس وجہ سے میں اس طرف نہیں جارہا تھا کہ کہیں سیلاب زدگان پر توجہ نہ دینے کے جرم میں کہیں میں بھی شریک نہ ہوجائوں لیکن بدقسمتی سے عمران خان باز آرہے ہیں نہ ان کے ترجمان اور نہ ان کاحامی میڈیا۔
پہلے ایوان صدر میں اس خفیہ میٹنگ کی خبر لیک کی، پھر عمران نیازی نے اپنے رویے سے ایسا تاثر دیا کہ جیسے انہیں پھر اسٹیبلشمنٹ نےگود لے لیا۔ پھر ساتھ ایک اور جھوٹی خبر پھیلا دی کہ آرمی چیف ایک کورکمانڈر کی گاڑی میں جاکر ایک سیف ہاؤس میں عمران نیازی سے ملے ہیں۔ کچھ ریٹائرڈ فوجیوں کے ذریعے یہ جھوٹ بھی پھیلایا گیا کہ میٹنگ کی کوشش پی ٹی آئی نہیں بلکہ فوج کی طرف سے ہوئی۔
اب یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی جب نیازی صاحب کی خواہش پوری نہیں ہوئی تو انہوں نے دوبارہ یوٹرن لیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کا نام جلسوں میں لے کر فوج کو(عوام کے سامنے) آنکھیں دکھانے لگے۔ اس لئے آج میں بھی سیلاب سے صرف نظر کرکے اس حوالے سے حقائق سامنے لانے پر مجبور ہوا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد شاید ہی کوئی روز ایسا گزرا ہو کہ جب نیازی صاحب یا ان کے کسی نمائندے نے کسی نہ کسی چینل سے آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کا منت ترلہ نہ کیا ہو۔
ان کا یہی مطالبہ رہا کہ وہ ماضی کی طرح انہیں گود لے کر موجودہ حکومت کو رخصت کرکے دوبارہ انتخابات کروادیں تو وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ ان رابطوں کے دوران انہوں نے جنرل قمرجاوید باجوہ کو گارنٹی کے ساتھ ایکسٹینشن کی آفر بھی کی لیکن وہ نیوٹرل رہنے پر اصرار کرتے ہوئے ملاقات سے انکار کرتے رہے۔ نہ چیف کے رشتہ داروں کو چھوڑا گیا ، نہ سابق فوجی افسران کو اور نہ ان کے ذاتی دوستوں کو ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ افغانستان کے لئے امریکہ کے سابق نمائندے زلمے خلیل زاد سے بھی آرمی چیف کو درخواستیں کروائی گئیں کہ وہ عمران نیازی سے ایک ملاقات کرلیں۔
واضح رہے کہ امریکی نیوکانز کے رکن زلمے حکومت کی تبدیلی کے ایک ماہ بعد پاکستان آئے تھے اور نیازی صاحب سے خفیہ اور طویل ملاقات کی تھی۔ علاوہ ازیں پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی دن رات منت ترلے میں لگے رہے جبکہ عارف علوی بھی ہمہ وقت اسی کام میں لگے رہے لیکن آرمی چیف پھر بھی ملنے کو تیار نہیں تھے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ ایک دن اچانک عارف علوی آرمی چیف کے گھر جاپہنچے اور کافی دیر تک منت ترلہ کرکے انہیں اپنے گھر یعنی ایوان صدر میں اپنے لیڈر عمران نیازی سے ملاقات پر آمادہ کیا۔
چنانچہ نیازی صاحب سے شدید مایوس اور دکھی جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم شہباز شریف کو مطلع کرکے اس ملاقات کیلئے ایوان صدر گئے۔ حسبِ عادت عمران نیازی نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایم کیوایم اور باپ پارٹی کو الگ کروا کر موجودہ حکومت ختم کردیں اور فوری انتخابات کروا لیں۔ جواب میں انہیں بتایا گیا کہ پہلے ہی پی ٹی آئی کے لئے غیرآئینی کردار ادا کرنے کی وجہ سے فوج بہت بدنام ہوئی ہے اور وہ دوبارہ یہ غلطی نہیں کرسکتی۔
ان کے سامنے اعدادوشمار رکھ کر بتایا گیا کہ اگر وہ اقتدار میں رہتے تو جون تک ملک ڈیفالٹ کرجاتا جبکہ امریکی سازش کے جھوٹے بیانیے سے بھی انہوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ عمران نیازی اصرار اور عارف علوی وغیرہ بیچ بچاؤ یا منت ترلہ کرتے رہے تو جواب میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی تمام احسان فراموشیوں اور فوج میں تقسیم کی کوشش کے باوجود فوجی قیادت ان کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتی اور نہ یہ چاہتی ہے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو جو بھٹو یا نواز شریف وغیرہ کے ساتھ ہوا لیکن فوج انہیں فوری طور پر الیکشن نہیں دے سکتی۔
وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ موجودہ سیٹ اپ نے آئی ایم ایف سے ڈیل کرکے وقتی طور پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشی استحکام آگیا ہے۔ اب بھی ڈالر اور مہنگائی کنٹرول میں نہیں آرہے ہیں۔ روزانہ فوج اور حکومت کوششیں کرکے چند ارب کا انتظام کرتی اور ملکی انتظام چلاتی ہے جبکہ اوپر سے سیلاب نے کسر پوری کردی ۔ تاہم اگر اتحادی جماعتوں کا آپس میں کوئی مسئلہ آجاتا ہے اور حکومت خود ٹوٹ جاتی ہے یا پھر اگر معاشی استحکام کے بعد متفقہ طور پر سیاسی جماعتیں قبل ازوقت انتخابات کراتی ہیں تو فوج نہ رکاوٹ بنے گی اور نہ مداخلت کرے گی۔
انہیں یہ بھی کہا گیا کہ اس وقت بھی دو صوبوں اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومت ہے اور مشورہ دیا گیا کہ بہتر ہوگا کہ وہ پارلیمنٹ میں دوبارہ جائیں اور مفاہمت کے ذریعے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور نئے انتخابات کا راستہ نکالیں۔ وہ اگر پاپولر ہورہے ہیں تو فوج ان کا راستہ نہیں روکے گی اور اگر وہ اگلے انتخابات جیتتے ہیں تو آرام سے جیت لیں۔ فوج اسی طرح لاتعلق رہے گی جس طرح پنجاب کے ضمنی انتخابات میں لاتعلق رہی۔
یوں یہ میٹنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئی۔ شاید اس کے بعد بھی تناؤ میں کمی آتی لیکن عمران خان نے پہلے اس میٹنگ کی خبر کو لیک کرایا۔ پھر اس کے بارے میں یہ جھوٹا تاثر دیا کہ جیسے یہ میٹنگ فوج کی خواہش یا مجبوری تھی ۔ پھر کچھ عرصہ چالاکی کا مظاہرہ کرکے یہ جھوٹا تاثر دیا کہ فوج کے ساتھ ان کی پھر ڈیل ہوگئی ہے۔ اس سے انہوں نے حکومت اور فوج کو آپس میں بدگمان کرنے کی کوشش کی۔
پھر جنرل فیض حمید کے ذریعے ایک اور خفیہ میٹنگ کی جھوٹی خبر پھیلا دی اور ظاہر ہے ان خبروں سے تمام ادارے متاثر ہوتے رہے لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ نومبر سے پہلے کسی صورت نئے انتخابات نہیں ہوسکتے اور کسی بھی صورت ان کے ہاتھوں ان کے پسند کے نئے آرمی چیف کی تقرری کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی تو وہ دوبارہ بلیک میلنگ پر اتر آئے۔
پہلے کورکمیٹی میں اپنے ان لوگوں کو کھری کھری سنائیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان پر پابندی لگائی کہ وہ آئندہ کوئی بات نہیں کریں گے۔ حالانکہ ان میں پرویز خٹک جیسوں کو بھی سننا پڑیں جو خود عمران خان کے نمائندے کے طور پر جاتے تھے۔ پھر چکوال کے جلسے میں ایک بار پھر شیر نظر آنے کی کوشش کی اور فوج اور آئی ایس آئی کو خوب سنائیں۔
اگرچہ اب کی بار آئی ایس پی آر کی طرف سے ان کی دھمکیوں پر کوئی ردعمل نہیں آیا لیکن میری معلومات کے مطابق فوج کی صفوں میں غصے کی جو لہر اب دوڑ گئی ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے فوج کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے اور عمران خان مزید اس سلسلے کو کہاں تک لے جاتے ہیں۔
عمران خان کا آخری ہتھیار: احتشام بشیر
لائلپورسٹی-23ستمبر2022: جب سے تحریک انصاف حکومت کا تختہ الٹا ہے تب سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان موجودہ وفاقی حکومت کے خلاف آرام سے نہیں بیٹھے۔ اقتدار کے تخت سے نیچے آنے کے بعد عمران خان مسلسل عوامی رابطہ مہم میں ہیں۔ جلسے، مظاہروں، مختلف تقریبات سے خطاب میں عمران خان کا نشانہ وفاقی حکومت میں شامل جماعتیں رہی ہیں۔ عمران خان نے شریف برادران، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کو نشانے پر لینے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانے پر رکھا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے شہر شہر جاکر جلسے کیے۔ انہوں نے اپنا بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا کہ کس طرح ان کی حکومت کے خلاف سازش کی گئی۔ بقول عمران خان بیرونی سازش کے ذریعے امپورٹڈ حکومت کو ملک پر مسلط کیا گیا۔ عمران خان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہوا اور انھیں عوام میں پذیرائی ملی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی تحریک میں تیزی آتی جارہی ہے اور لہجہ بھی سخت ہوتا جارہا ہے۔
ماضی میں حکومت مخالف جتنی بھی تحاریک چلیں، ماسوائے مارشل لاء دور، حکومتوں کے خلاف وہ کامیاب ہوئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک ماضی میں جمہوری حکومتوں کے خلاف تحریک میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ رہا ہے اور جس تحریک کے پیچھے اسٹیبلمشنٹ کی تھپکی نہ ہو تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ 1988 میں طویل غیر جمہوری دور کے بعد جب الیکشن ہوئے تو بے نظیر کو ہٹانے کےلیے نواز شریف نے تحریک کا آغاز کیا۔ اسی طرح نواز شریف جب برسراقتدار آئے تو پھر پیپلزپارٹی ن لیگ حکومت کے خلاف میدان میں اتری۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے جب نواز حکومت کا خاتمہ کیا تو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں حکومتوں کو ہٹانے کے اقدام کے سامنے کھڑی ہوگئیں، لیکن پھر بھی ملک کا کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا۔
جنرل مشرف کے دور میں بھی میر ظفر اللہ خان جمالی (مرحوم) اپنا دورِ اقتدار مکمل نہ کرسکے اور مختصر مدت کےلیے چوہدری شجاعت حسین کو وزیراعظم بناکر شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کےلیے راہ ہموار کی گئی۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو خیال کیا جارہا تھا کہ وہ واحد وزیراعظم ہوسکتے ہیں جو اپنی مدت پوری کریں گے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کا خیال تھا کہ عمران خان کو لانے والے ان کی حکومت کو ختم نہیں کریں گے۔ لیکن لانے والے واپس بھجوا بھی سکتے ہیں اور کچھ ایسا ہی ہوا۔
ملک میں جب بھی جمہوری حکومت کو چلتا کیا گیا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ہی لگا، چاہے وہ پیپلزپارٹی کی حکومت تھی یا نواز لیگ کی۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دبے الفاظ میں حکومتوں کی رخصتی کا ذمے دار اسٹیبلشمنٹ کو گردانا۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد دو کام پہلی بار اس ملک میں ہوئے، ایک تو تحریک انصاف کی حکومت رخصت ہونے پر اس طرح خوشی نہیں منائی گئی جس طرح ماضی کی حکومتوں کو ہٹانے کے وقت عوام میں خوشی پائی جاتی تھی۔ دوسرا عمران خان کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آئے۔ اس سے قبل کوئی سیاسی لیڈر اس طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر نہیں بولا۔ اور یہ بھی ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ عمران خان کی تقاریر پر آئی ایس پی آر کو بیانات جاری کرنے پڑے۔ لیکن عمران خان کی شعلہ بیانی ابھی تک نہیں رک سکی۔
عمران خان کے خلاف مقدمات بنائے گئے، ان کی گرفتاری کی خبریں سامنے آنے لگیں لیکن جس طرح ماضی میں سیاستدان کو سلاخوں کے پیچھے دیکھا جاتا تھا ابھی تک عمران خان کے خلاف اس طرح کی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ مقدمات تو بنتے جارہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ انھیں ریلیف بھی ملتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ شکوک و شہبات بھی جنم لے رہے ہیں کہ عمران خان ابھی تک لاڈلا ہے۔ اور اس خدشے کا اظہار مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز بھی کرچکی ہیں۔ عوامی جلسوں میں ملکی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی حکومت مخالف تحریک میں تیزی آرہی ہے۔ ملک بھر میں جلسوں کے بعد اب عمران خان حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ پشاور، خانیوال اور پھر لاہور میں وکلا سے خطاب کے دوران عمران خان نے ورکرز کو تیار رہنے کی ہدایت کی۔ وہ کسی بھی وقت اسلام آباد کی کال دے سکتے ہیں۔ عمران خان کی کوشش ہے کہ نومبر سے پہلے حکومت کا خاتمہ ہو اور موجودہ حکومت آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ نہ کرسکے۔
اسی لیے انہوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ نئی حکومت کے قیام تک موجودہ آرمی چیف ہی کام کرتے رہیں۔ اسی لیے حالیہ جلسوں میں عمران خان کی تقریر کا محور آرمی چیف کی تقرری ہی ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت بھی ڈٹ چکی ہے۔ حکومت واضح کرچکی ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اور وزیراعظم شہاز شریف آئین اور قانون کے مطابق نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔ یعنی دونوں طرف سے برف پگھل نہیں رہی۔
عمران خان کشتیاں جلاکر آگے بڑھ رہے ہیں لیکن انھیں روکنے کی کوشش کی جارہی ہے، انھیں سمجھایا جارہا ہے کہ اداروں سے لڑنا نقصان دہ ہے۔ معاملات کو سدھارنے کےلیے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس وقت اعجازالحق کردار ادا کررہے ہیں۔ اسی لیے عمران خان نے سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں کور کمیٹی کے ارکان کو کسی سے بھی مذاکرات سے روک دیا ہے۔
عمران خان کی شعلہ بیانی رک نہیں پارہی جو معاملات کو سدھارنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ عمران خان کو اسلام آباد مارچ کےلیے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسی لیے ابھی تک وہ اسلام مارچ کا اعلان نہیں کرسکے۔ انھیں بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد مارچ آخری ہتھیار ہے، اس کے بعد دوسرا ہتھیار نہیں رہتا۔ اگر عمران خان اسلام آباد میں جاکر بیٹھ بھی جاتے ہیں، جیسا کہ وہ پہلے کرچکے ہیں اور حکومت اپنی مدت بھی پوری کرلیتی ہے تو عمران خان کی جدوجہد کا کیا فائدہ ہوا؟ اسی لیے عمران خان کے قریبی ساتھی انھیں اسلام آباد مارچ کے بجائے حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
ہماری عمریں کیوں چھوٹی ہیں؟جاوید چوہدری

سمندروں میں انتہائی گہرائی میں ٹوری ٹاپسیس ڈوہرنائی نام کی ایک جیلی فش پائی جاتی ہے‘ یہ اس وقت زمین کی واحد لافانی مخلوق ہے‘ اسے موت نہیں آتی اور یہ ازل سے ابد تک قائم رہتی ہے۔ یہ جیلی فش 95 فیصدپانی سے بنی ہے‘ اس کا دماغ‘ دل اور پھیپھڑے نہیں ہیں‘ جسم میں صرف ایک ٹیوب ہے جس کے ذریعے یہ خوراک لیتی اور باہر نکالتی ہے‘ ٹی ڈوہرنائی اپناحیاتیاتی عمل مکمل کر کے بوڑھی ہوتی ہے‘ سمندر کے اندر گہرائی میں چٹانوں کے ساتھ چپک جاتی ہے اور پھر اچانک اس کا بوڑھا جسم انگڑائی لے کر دوبارہ جوان ہو جاتا ہے اور یہ ایک بار پھر پانی میں تیرنا شروع کر دیتی ہے‘ سائنس دان مدت سے اس کے ڈی این اے پر تحقیق کر رہے ہیں۔
اس کے لافانی ہونے کی وجوہات تلاش کر رہے ہیں‘ ان کا دعویٰ ہے ہم جس دن جیلی فش کا ڈی این اے سمجھ گئے ہم اس دن انسان کو بھی لافانی بنا دیں گے لیکن یہ معجزہ کب وقوع پذیر ہو گا؟ ہم سردست کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم دو چیزیں ثابت ہو رہی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اورہم نے ہر جان دارچیز کو پانی سے زندگی بخشی‘‘ (سورۃ الانبیاء‘ آیت 30) ٹوری ٹاپسیس ڈوہرنائی نے یہ حقیقت ثابت کر دی حیات پانی سے پیدا ہوئی اور دوسرا اگر زندگی زمین سے ختم بھی ہو جائے تو بھی یہ جیلی فش کے ذریعے دوبارہ جنم لے لے گی اور زمین کی رنگا رنگی ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔
آپ کے لیے شاید‘ شاید یہ بات نئی ہو ہم زمین پر حیات کا پانچواں باب ہیں‘ ہم سے پہلے اس زمین سے چار مرتبہ زندگی ختم ہو چکی ہے اور یہ مکمل خاتمے کے بعد ایک بار پھر دوبارہ سر اٹھا لیتی ہے‘ زندگی زمین سے چوتھی مرتبہ آج سے 65ملین سال پہلے ختم ہوئی تھی۔ آسمان سے دیوہیکل شہاب ثاقب ٹوٹ کر زمین پر گرا تھا اور اس نے زمین سے زندگی کاصفایا کر دیا تھا‘ میکسیکو خلیج کی پیدائش اور ڈائنو سار کا خاتمہ اسی حادثے کا نتیجہ تھا لیکن زندگی نے ایک بار پھر آنکھ کھولی اور یہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی 2022 تک پہنچ گئی‘ یہودیوں کا عقیدہ ہے وقت کا موجودہ سسٹم صرف چھ ہزار سال تک محیط ہے اور انسان نے پانچ ہزار 7 سو 79 سال گزار لیے ہیں باقی صرف 221 سال بچے ہیں‘ ان کے بعد ایک بار پھر قیامت آئے گی اور قیامت کے بعد زمین پر زندگی کا ایک اور سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
یہ باتیں کس حد تک درست ہیں میں نہیںجانتا لیکن آج کے اعدادوشمار بتاتے ہیں پاکستانیوں کی عمریں بہرحال سارک کے باقی ملکوں کے شہریوں سے کم ہیں‘ ہم پاکستانیوں کی اوسط عمر 67 اشاریہ 64سال ہے یعنی تقریباً 68 سال جب کہ ہمارے مقابلے میں بھارتی شہریوں کی اوسط عمر ساڑھے ستر سال‘ بنگلہ دیش ساڑھے 73 سال‘ بھوٹان پونے73 سال‘ نیپال پونے 71سال اور سری لنکا کی اوسط عمر ساڑھے 77سال ہے‘ ہم اگر ان اعدادوشمار کو تھوڑا سا پھیلا لیں تو ہانگ کانگ کے لوگوں کی اوسط عمر دنیا میں سب سے زیادہ ہے‘ اس چھوٹے سے ملک میں لوگ عموماً سوا 85سال زندہ رہتے ہیں۔
جاپان میں 85‘ مکاؤ میں پونے 84‘ سوئٹزرلینڈ میں سوا 84 اور سنگا پور میں اوسط عمر 84سال ہے یوں یہ سات ملک دنیا میں اوسط عمر کے لحاظ سے بلند ترین ہیں جب کہ دنیا کے 25 ملکوں کے شہری 80 سے 84 سال زندہ رہتے ہیں اور 39 ملکوں کی اوسط عمر 80سال ہے۔ہم اگر ان اعدادوشمار کا تجزیہ کریں تو ہماری عمریں یورپ‘ امریکا اور فارایسٹ کے ممالک سے بھی کم ہیں اور ہم سارک ملکوں میں بھی پست ترین مقام پر ہیں‘ ہانگ کانگ کے لوگ ہم سے 18سال زیادہ زندہ رہتے ہیں‘ ہم سارک ممالک کے دوسرے شہریوں کے مقابلے میں بھی پانچ دس سال جلدی لڑھک جاتے ہیں‘ کیوں؟میں زیادہ وجوہات نہیں جانتا لیکن جہاں تک عمومی تاثر ہے ہماری اوسط عمر میں کمی کی چھ موٹی موٹی وجوہات ہیں۔
ہماری کم عمری کی پہلی وجہ اسٹریس ہے‘ ہم اوپر سے لے کر نیچے تک اسٹریس فل زندگی گزار رہے ہیں‘ آپ صدر سے ریڑھی بان تک لوگوں کو دیکھ لیں‘ آپ کو ہر شخص کے چہرے پر تناؤ اور کندھوں پر بوجھ نظر آئے گا‘ ہمارے ملک کے خوش خال ترین لوگ بھی ٹینشن کا پہاڑ لے کر بستر سے اٹھتے ہیں اور سارا دن کوشش کر کے اس پہاڑ میں اضافہ کرتے ہیں اور پھر تھک کر ایک بار پھر لیٹ جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کے علماء‘ پیر اور حکیم تک ٹینشن اور اینگزائٹی کی ادویات کھاتے ہیں اور یہ پڑھی لکھی بات ہے ٹینشن دنیا کی تمام بیماریوں کی ماں بھی ہے اور یہ انسانی زندگی میں کمی کا باعث بھی بنتی ہے اور ہم من حیث القوم اس کا شکار ہیں‘ دوسری وجہ عدم استحکام ہے‘ دنیا کا کوئی بھی جان دار عدم استحکام میں زندہ نہیں رہ سکتا‘ ہم انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے دماغ بھی دے رکھا ہے‘ ہم چیزوں کو وقت سے پہلے دیکھ سکتے ہیں لہٰذا عدم استحکام ہمارے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے۔
ہم ’’کل کیا ہو گا؟‘‘ اور ’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ جیسی صورت حال میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے‘ ہمیں ہر چیز ٹائم اور شیڈول کے مطابق چاہیے ہوتی ہے اور ہم بدقسمتی سے من حیث القوم دہائیوں سے عدم استحکام کا شکار ہیں‘ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں‘ ہمارے ملک کے بڑے سے بڑے عہدیدار کو بھی یہ یقین نہیں میں کل اس عہدے پر رہوں گا یا نہیں‘ گاہک یہ نہیں جانتا میںجو چیز خرید رہا ہوں یہ مجھے کل بھی دستیاب ہو گی یا نہیں‘ تاجر کو صنعت کار پر یقین نہیں‘ صنعت کار کو بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور پانی کا یقین نہیں اور کیا ہم یہ تمام اشیاء کل بھی عوام کو دے سکیں گے حکومت کو بھی اس کا یقین نہیں ہو گا چناں چہ ہم اوپر سے نیچے تک عدم استحکام کا شکار ہیں۔
ہمارے ملک میں چیف جسٹس کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا میں کل کہاں ہوں گا؟ لہٰذا اس ملک میں کسی کو بھی شہباز گل بنتے دیر نہیں لگتی‘ تیسری وجہ ہماری زندگی میں کوئی انٹرٹینمنٹ نہیں‘ مذہبی تقریریں‘ سیاسی گفتگو اور افواہیں ہماری سب سے بڑی تفریح ہوتی ہیں اور ہم جی بھر کر اس تفریح سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ آپ کسی بھی شخص سے مل لیں آپ کو وہ کسی نہ کسی مذہبی پیغام کا حوالہ دے گا‘ وہ کوئی نہ کوئی سیاسی فلسفہ بیان کرے گا اور آپ کے کان میں کوئی نہ کوئی افواہ انڈیل دے گا‘ ہمارے لوگوں کو یہ تک معلوم ہے چیف جسٹس آف پاکستان عمران خان کو معاف کر دیں گے۔
صدر اکتوبر میں وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ مانگ لیں گے اور آصف علی زرداری آرمی چیف کو زبردستی ایکسٹینشن دلوا دیں گے اور لوگ یہ بھی جانتے ہیں ہمارے موجودہ سیلاب قدرتی نہیں ہیں‘ ہمیں ایک عالمی سازش کے ذریعے پانی میں ڈبویاگیا لہٰذا آپ خود سوچیے لوگ جب کتابوں‘ اسپورٹس‘تیراکی‘ واک اور مکالمے کے بجائے سیاست‘مذہب اور افواہ کو تفریح بنا لیں گے تو پھر یہ کتنا عرصہ صحت مند رہ لیں گے؟ ہانگ کانگ میں ہر شخص کتاب پڑھتا ہے‘ ایکسرسائز کرتا ہے اور غیرضروری سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتا ہے چناں چہ وہاں عام سا شخص بھی پچاسی چھیاسی سال صحت مندانہ زندگی گزار لیتا ہے جب کہ ہم ان تمام علتوں سے پرہیز کرتے ہیں‘ چوتھی وجہ ہم خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں۔
پاکستان میں کسان کو بھی خالص اناج‘ گوالے کو بھی ملاوٹ سے پاک دودھ‘ قصائی کو بھی صحت مند گوشت‘ اور باغبان کو بھی خالص پھل نہیں ملتا‘ آپ بڑے سے بڑے ریستوران میں چلے جائیں‘ آپ کو اے کوالٹی خوراک نہیں ملے گی‘ ہم گوشت‘ سبزیوں‘ دالوں‘ اناج اور کوکنگ آئل کی شکل میں زہر کھاتے ہیں‘ ہمارے ڈاکٹرز تک اپنے لیے ادویات دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں اور منرل واٹر بھی گرم کر کے پیتے ہیں چناں چہ پھر ہماری زندگی طویل کیسے ہو سکتی ہے؟ پانچویں وجہ ہم من حیث القوم منفی اور احسان فراموش ہیں‘ آپ کسی محفل میں چلے جائیں آپ کو ہر شخص دوسرے کے بارے میں منفی بات کرتا ملے گا‘ لوگ اب اپنے بارے میں بھی اچھی بات نہیں کرتے اور ہم اوپر سے لے کر نیچے تک احسان فراموش بھی ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے۔
کیا ہم نے قائداعظم سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر تک کسی شخص کے احسان کا بھرم رکھا‘ کیا ہم نے اپنے اوپر احسان کرنے والے کسی شخص کی عزت کی‘ ہمیں مشکل وقت میں جو بھی شخص سہارا دیتا ہے ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ اور یہ بھی لکھی پڑھی بات ہے احسان یاد رکھنے والوں اور دوسروں کے بارے میں مثبت سوچنے والوں کی عمریں لمبی ہوتی ہیں اور چھٹی اور آخری چیز‘ دنیا میں شاکر لوگ اچھی اور طویل زندگی گزارتے ہیں‘ شکر خوشی اور عمر دونوں میں اضافہ کرتا ہے لیکن ہم اس معاملے میں کنجوس قوم ہیں‘ ہمیں جو مل گیا ہم اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور پوری زندگی اس کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں جو ہمیں نہیں مل سکا چناں چہ پھر ہماری زندگی میں برکت کہاں سے آئے گی؟
آپ بھی اگر اپنی زندگی میں یہ چھ تبدیلیاں کر لیں تو آپ بے شک جیلی فش نہیں بنیں گے لیکن آپ ان شاء اللہ ہانگ کانگ کے کروڑوں وانگ اور چائی کی طرح 85سال تک صحت مند اور خوش گوار زندگی ضرور گزاریں گے۔
مسلم لیگ ن کی شکست کی وجوہات
لاہور کے فیلڈ جرنلسٹ پریس کلب کے علاوہ اکثر گڑھی شاہو کے ٹی اسٹال پر محفل جماتے ہیں۔ یہ بھی ایک معمول کی شب تھی، عید کے بعد آبائی علاقوں سے واپسی کے بعد صحافی احباب گڑھی شاہو میں چائے کی محفل جمائے بیٹھے تھے۔ تذکرہ لاہور اور پنجاب کی سیاست کا ہوا۔ ایک نوجوان صحافی نے دعویٰ کیا کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ کو عبرتناک شکست ہوگی۔ تمام سینئر صحافیوں نے نوجوان صحافی کی کلاس لینا شروع کی۔ اگلے روز پروگرام کی ریکارڈنگ کےلیے لاہور کے حلقوں کا دورہ کیا، جہاں عوام سے ملاقات ہوئی۔ اسی ملاقات اور عوامی سروے کے بعد نوجوان صحافی کے دعوے میں صداقت نظر آنے لگی۔
سوال یہ ہے کہ سینئر صحافیوں کے تجزیے غلط کیوں ہوئے؟ مسلم لیگ ن جو جیت کےلیے پراعتماد تھی اس نے فوری نتائج تسلیم کیوں کیے؟ مسلم لیگ ن کی شکست کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ کیا عمران خان دوبارہ سے عوام میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں؟ ان سوالات کا جواب اپریل سے جولائی تک ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال میں ہے۔ ملک کے بیشتر صحافی اور تجزیہ نگار محض سیاست دانوں کے دعوؤں اور ماضی کی روایات پر انحصار کرتے رہے، انہوں نے فیلڈ میں جاکر عام آدمی کی نبض کا جائزہ نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ کیونکہ میدان میں سب کچھ بدل چکا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اقتدار سے علیحدگی کے فوری بعد عوام سے رجوع کیا۔ عوام کو یہ باور کرایا کہ انہیں سازش کے تحت نکالا گیا۔ انہوں نے الیکٹیبلز کے خلاف مہم چلائی۔ اپنے معاشی فیصلوں اور غلطیوں کا سارا ملبہ مخلوط حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے۔
لاہور اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ناکامی کی چھ وجوہات ہیں۔ پہلی اور سب سے بنیادی وجہ اپریل سے جولائی تک ملک میں بڑھنے والی مہنگائی، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ تھی۔ اتحادی حکومت عوام کو اس مہنگائی کی وجہ بتانے میں ناکامی رہی جبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے عوام کو اپنے بیانیے کے ذریعے یقین دلایا کہ مہنگائی کی وجہ مخلوط حکومت ہے اور ان کے دور حکومت میں تو سب بہترین چل رہا تھا۔ یعنی مسلم لیگ ن کے مشکل معاشی فیصلوں نے پارٹی کے گڑھ پنجاب میں اسے عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔
مسلم لیگ ن کی شکست کی دوسری بڑی وجہ الیکٹیبلز یا پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینا تھی۔ مسلم لیگ ن نے عدم اعتماد کے دوران ان منحرف اراکین کے ساتھ ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے کی تعمیل بھی۔ مگر نچلی سطح پر پارٹی کے نظریاتی ورکرز اور ووٹرز نے ان منحرف اراکین کو قبول نہیں کیا اور ن لیگ کے ووٹرز کی اکثریت گھروں سے ہی نہیں نکلی۔ لاہور کے حلقوں میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ اس کی واضح مثال ہے۔
مسلم لیگ ن کی شکست کی تیسری بڑی وجہ ٹکٹ کی غیر منصفانہ تقسیم پر اہم افراد کا پارٹی چھوڑنا بھی ہے۔ مسلم لیگ ن کی شکست کی چوتھی بڑی وجہ اپریل میں عدم اعتماد کی صورت میں کی جانے والی تاریخی غلطی تھی، جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد کھوجانے والی تحریک انصاف کو دوبارہ سے سانسیں ملیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے بھرپور انداز میں عوام سے رابطہ کیا۔ وہ نیا بیانیہ دینے میں کامیاب ہوئے۔ یعنی تحریک انصاف کا بیانیہ بھی ن لیگ کی شکست کی بڑی وجہ بنا۔ چھٹی اور ایک اور اہم وجہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اپنے ووٹرز کو نکالنا بھی ہے۔ کل سارا دن مختلف حلقوں میں مسلم لیگی کیمپس کی ویرانی سے ظاہر تھا کہ پنجاب میں ہوائیں بدل چکی ہیں۔
ان انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف ن لیگ سے زیادہ سیاسی دکھائی دی، جہاں اس نے ماضی کے بجائے اب کی بار اپنے ورکرز کی اکثریت کو ٹکٹس جاری کیے۔ وہیں انہوں نے الیکشن روایتی انداز کے بجائے سائنسی بنیادوں پر لڑا۔ لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس کےلیے خصوصی سیل قائم کیے۔ ورکرز کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچانے کےلیے میسیجز اور واٹس ایپ گروپس کے علاوہ پارٹی کارکنان کا سہارا بھی لیا۔ عام کارکنان سے لے کر مرکزی اور صوبائی قیادت پولنگ اسٹینشنز اور حلقوں میں موجود رہی۔ کارکنان سے براہ راست رابطہ کرکے ووٹنگ کےلیے انہیں تیار کیا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی اسی طریقہ کار کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، وزرا نے استعفے بھی دیے مگر بہت دیگر ہوچکی تھی۔
پنجاب میں اب ایک بار پھر دنگل سجے گا، منڈی لگے گی یا صرف وعدوں سے ہی بیوپار ہوگا؟ بظاہر تو پرویز الہیٰ کے وزیر اعلیٰ بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں مگر پنجاب میں شکست کا کلنک مٹانے کےلیے مسلم لیگ ن بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی۔ ان انتخابات سے اچھائی کے کئی پہلو بھی نکلے ہیں۔ یہ انتخابات پاکستانی تاریخ کے پہلے الیکشن تھے جنہیں شفاف قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ تاریخ میں پہلی بار ناکام ہونے والی سیاسی جماعت نے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح عوام نے الیکٹیبلز کی اکثریت کو مسترد کرکے مستقبل میں سیاسی جماعتوں کو بلیک میلنگ سے روکنے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ یعنی عوام ہی الیکٹیبلز کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کا ووٹر یقیناً مبارکباد کا مستحق ہے۔ مسلم لیگ ن نے پارٹی ٹکٹ کے حامل الیکٹیبلز کو ووٹ دینے سے انکار کرکے یقیناً بغاوت کی ابتدا کردی ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرنے والے اس بار تو عوام نے مسترد کردیے ہیں مگر کیا مستقبل میں ایسے افراد کا مستقل راستہ روکا جاسکتا ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں عوام کی جانب سے فراہم کردہ بنیاد پر جمہوریت کی ایک مضبوط عمارت کھڑی کریں، سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرنے والے اور اشاروں پر وفاداریاں بدلنے والے سیاستدانوں کا راستہ روکیں۔ تبھی ووٹ کو عزت ملے گی اور تبھی ہی جمہوریت کو استحکام میسر آئے گا۔
سید امجد حسین بخاری
بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
پیچھے نہ ہٹیں مارے جائیں گے: جاوید چوہدری
یہ 31 مارچ 2022ء کی بات ہے‘ پرویز خٹک نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کیا اور ان سے گلہ کیا ’’جنرل صاحب آپ نے ہمیں بالکل تنہا چھوڑ دیا‘‘ آرمی چیف پرویز خٹک کا بہت احترام کرتے ہیں‘ یہ وزیراعظم عمران خان کو ہمیشہ مشورہ دیتے تھے۔ ’’ آپ کے پاس صرف ایک ہی سیاست دان ہے اور وہ ہے پرویز خٹک‘آپ ان کی وجہ سے کے پی کے سے دوسری بار جیتے ہیں‘ آپ ان سے کام کیوں نہیں لیتے؟‘‘ لیکن عمران خان کا جواب ہوتا تھا ’’یہ میری بات نہیں مانتا‘‘ اس کے جواب میں آرمی چیف کا جواب ہوتا تھا۔
’’چیف کی حیثیت سے میرے پاس حتمی اختیارات ہیں‘ میں کسی بھی وقت کسی بھی تھری سٹار جنرل کو کھڑے کھڑے فارغ کر سکتا ہوں اور میرے فیصلے کے خلاف اپیل تک نہیں ہو سکتی لیکن میں اس کے باوجود اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرتا جب تک میرے تمام ساتھی متفق نہ ہو جائیں‘ مخالف رائے کو برداشت کرنا لیڈر کی بڑی کوالٹی ہوتی ہے‘ آپ بھی ساتھیوں کی رائے برداشت کیا کریں‘‘۔ مگر اس مشورے کے باوجود عمران خان نے پرویز خٹک سے اپنا فاصلہ کم نہیں کیا تاہم یہ عدم اعتماد سے قبل پرویز خٹک کی صلاحیتوں کو ماننے پر مجبور ہو گئے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
میں 31 مارچ کی طرف واپس آتا ہوں‘ پرویز خٹک نے گلہ کیا اور آرمی چیف نے جواب دیا ’’آپ حکم کریں‘ ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ پرویز خٹک نے آرمی چیف کو وزیراعظم ہاؤس آنے کی دعوت دے دی۔ آرمی چیف ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس پہنچے‘ ان کی وہاں پرویز خٹک‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سے ملاقات ہوئی اور ان تینوں نے وزیراعظم کے مشورے سے فوج کو ذمے دار ی سونپی آپ پی ڈی ایم سے بات کریں‘ یہ اگر عدم اعتماد واپس لے لیں تو ہم اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کی طرف چلے جاتے ہیں‘ آرمی چیف نے پی ڈی ایم کی قیادت سے رابطہ کیا اور اسلام آباد کے بی میس میں ملاقات طے ہو گئی‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی دونوں اس میٹنگ میں موجود تھے۔
آرمی چیف نے پی ڈی ایم کو مشورہ دیا‘ آپ نے عمران خان کو گرا لیا ہے‘ آپ اب اس کے سینے پر چڑھ کر بھنگڑا نہ ڈالیں‘ حکومت آپ کو راستہ دے رہی ہے‘ آپ یہ آفرقبول کر لیں‘ آپ کی عزت میں اضافہ ہو گا‘ میاں شہباز شریف‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن خاموش رہے لیکن خالد مقبول صدیقی‘ خالد مگسی اور شاہ زین بگٹی نے انکار کر دیا‘ ایم کیو ایم کا کہنا تھاکراچی میں ہماری 14 سیٹیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں‘ ہمیں اپنی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کے لیے وقت چاہیے۔
خالد مگسی کا جواب تھا‘ میں بلوچستان کا بڑا زمین دار ہوں‘ ہزاروں ایکڑ کا مالک ہوں‘ مجھے اقتدار یا پیسہ نہیں چاہیے‘ عزت چاہیے اور عمران خان نے مجھے وہ نہیں دی‘ میں اس شخص کو عزت کے ساتھ نکلنے نہیں دوں گا جب کہ شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا‘ میں عمران خان کا معاون خصوصی تھا لیکن یہ میرا نام تک نہیں جانتا‘ یہ مجھے شیزان بگٹی کہتا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کی رائے ففٹی‘ ففٹی تھی جب کہ ن لیگ نئے الیکشن کی طرف جانا چاہتی تھی‘ پی ڈی ایم کا فیصلہ تھا، فیصلہ جو بھی ہوگا متفقہ ہو گا اور تمام اتحادی عدم اعتماد واپس لینے پر متفق نہ ہو سکے‘ یہ میٹنگ ساڑھے پانچ گھنٹے جاری رہی اور آخر میں بے نتیجہ رہی‘ اسٹیبلشمنٹ نے اس دن اپوزیشن کو فیس سیونگ دینے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش فیل ہو گئی‘ اپوزیشن نے وہ گولڈن چانس مس کر دیا اور یہ آج اس پر بری طرح پچھتا رہے ہیں۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو عمران خان نے 27 مارچ 2022 ء کو پریڈ گراؤنڈ جلسے میں جو امریکی مراسلہ لہرایا تھا، اس کی بیک گراؤنڈ بھی بتاتا چلوں‘ امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید7 مارچ کو الوداعی میٹنگ کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو سے ملاقات کے لیے گئے‘ میٹنگ لنچ پر ہوئی‘ سفیر نے ڈونلڈ لو سے گلہ کیا ’’میں اس افسوس کے ساتھ واپس جا رہا ہوں آپ نے صدر جوبائیڈن کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات نہیں کرائی‘‘۔
جواب میں ڈونلڈ لو نے عمران خان کی وہ ساری تقریریں‘ بیان اور ٹویٹس دہرا دیے جو انہوں نے امریکا کے خلاف جاری کیے تھے اور اس کے بعدکہا‘ آپ لوگ الیکشن کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی سپورٹ کرتے رہے لہٰذا میں کس منہ سے صدر سے فون کے لیے بات کرتا بہرحال پاکستان میں اگر عدم اعتماد کام یاب ہو جاتی ہے اور نیا وزیراعظم آ جاتا ہے تو میں کوشش کروں گا‘ سفیر اسد مجید نے ایمبیسی واپس آ کر ڈونلڈ لو سے اپنی ملاقات کا احوال لکھ کر بھجوا دیا۔
فارن سیکرٹری سہیل محمودنے پروسیجر کے مطابق مراسلہ وزیراعظم ہاؤس‘ آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو بھجوا دیا‘ مراسلہ جی ایچ کیو کے پراسیس سے ہوتا ہوا آرمی چیف تک پہنچ گیا‘11 مارچ کو کامرہ ائیربیس میں جے10سی لڑاکا طیاروں کی لانچنگ کی تقریب تھی‘ وزیراعظم عمران خان بھی اس میں مدعو تھے‘ آرمی چیف نے تقریب کے دوران مراسلہ عمران خان کو دکھایا اور ان سے کہا ’’سر میں آپ سے بار بار درخواست کر رہا تھا‘ آپ ہاتھ ہلکا رکھیں‘ سفارتی تعلقات نازک ہوتے ہیں‘ آپ اب یہ مراسلہ دیکھ لیں‘‘۔
عمران خان نے خط پر نظر دوڑائی‘ اسے تہہ کر کے جیب میں رکھا اور کہا ’’جنرل صاحب آپ اسے چھوڑیں‘ اس قسم کے خط آتے جاتے رہتے ہیں‘‘ وزیراعظم نے اس دن دیر میں جلسے سے خطاب کرنا تھا‘ یہ تقریب سے جلد جلسے کے لیے روانہ ہونا چاہتے تھے‘ آرمی چیف نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ’’سر آپ لیڈر ہیں‘ آپ وزیراعظم ہیں‘ آپ دوسرے لیڈروں کو برے ناموں سے نہ پکارا کریں‘ مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہنا زیادتی ہے‘آپ افہام وتفہیم کی بات کیا کریں‘‘۔
وزیراعظم نے ہاں میں سر ہلایا لیکن جلسے میں جا کر کہہ دیا ’’میری ابھی جنرل باجوہ سے بات ہورہی تھی‘ انہوں نے کہا فضل الرحمان کو ڈیزل نہ کہنا‘ میں تو نہیں کہہ رہا لیکن عوام نے اس کا نام ڈیزل رکھ دیا ہے‘‘ اور یہ سن کر اسٹیبلشمنٹ نے سر پکڑ لیا‘ عمران خان نے 27مارچ کو بعد ازاںپریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں وہی خط لہرا دیا جس کی کاپی آرمی چیف نے انہیں صرف سمجھانے کے لیے دی تھی اور یہاں سے سازشی بیانیے کا شور شروع ہو گیا۔
میں واپس آتا ہوں‘ پی ڈی ایم کے پاس 31 مارچ کی رات گولڈن چانس تھا یہ دلدل میں گرنے سے بچ سکتی تھی لیکن یہ لوگ اقتدار کے لالچ اور خوش فہمیوںکے سیلاب میں بہہ گئے‘ ان کا خیال تھا یہ ملک کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بحری جہاز بنا دیں گے مگر آنے والے وقت نے ان کے تمام اندازے اور خوش فہمیاں کھول کر رکھ دیں‘ یہ ہر دن بے عزت اور عمران خان مضبوط ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ حکومت آج صرف وفاق تک محدود ہو چکی ہے‘ یہ لوگ پنجاب جیسے پانی پت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
میاں نواز شریف نے اس دوران پی ڈی ایم کو دلدل سے نکالنے کی کوشش کی‘ لندن میں 11 مئی کو پارٹی میٹنگ ہوئی اور فیصلہ ہو گیا میاں شہباز شریف 19 مئی کو وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے مگر یہ اسمبلی نہیں توڑیں گے اور اتحادی اگر کسی اور کو وزیراعظم منتخب کرنا چاہیں تو انہیں موقع دیا جائے گا‘ وزیراعظم کی الوداعی تقریر بھی تحریر ہو گئی لیکن عمران خان نے عین وقت پر 25 مئی کے لانگ مارچ کی کال دے کر بازی پلٹ دی اور میاں نواز شریف نے حکومت جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اس فیصلے کے باوجود حکومت تگڑی نہ ہو سکی‘ یہ حکومت نہ بن سکی‘ حکومت نے عمران خان کو گرفتار کیا‘ بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمہ بنایا‘ یہ فرح گوگی اور احسن جمیل کو بیرون ملک سے لا سکی
شہزاد اکبر کے خلاف 50 ارب روپے کا کیس بنا سکی‘ پنجاب کا ضمنی الیکشن جیت سکی اور نہ یہ سپریم کورٹ میں اپنا کیس جیت سکی‘ یہ حکومت کی خوف ناک سیاسی شکستیں تھیں‘ دوسری طرف رہی سہی کسر مفتاح اسماعیل نے پوری کر دی‘ ان کی پالیسیاں‘ تقریریں اور وعدے ن لیگ کے لیے تابوت بنتے چلے گئے‘حکومت سے کوئی پوچھے وہ شخص جو کراچی میں اپنی سیٹ نہ نکال سکا‘ جس نے 2017ء میں بھی معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا اور جس نے سندھ میں پارٹی کو دفن کر دیا تھا‘آپ کو اس میں نہ جانے کیا خوبی نظر آئی آپ نے اسے وزارت خزانہ کا قلم دان سونپ دیا اور اس نے وہ کام کر دکھایا جو عمران خان ساڑھے تین سال میں نہیں کر سکا۔
میاں نواز شریف اب ایک بار پھر حکومت چھوڑنے اور نئے الیکشن کی طرف جانے کا سوچ رہے ہیں لیکن میرا خیال ہے یہ اب پچھلی غلطیوں سے بھی بڑی غلطی ہو گی‘ پارٹی نانی کا نکاح کر چکی ہے‘ یہ اب اسے نبھانے کی کوشش کرے‘ حکومت تگڑی ہو‘ یہ جھوٹ کے بازار میں مزید نفیس بننے کی غلطی نہ کرے‘ یہ بولڈ سیاسی اور معاشی فیصلے کرے شاید یہ اس سے بچ جائے لیکن یہ اگر پیچھے ہٹی تو یہ بری طرح ماری جائے گی‘ یہ پھر بچ نہیں سکے گی اور جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے یہ طویل عرصے بعد پہلی مرتبہ مکمل نیوٹرل ہوئی ہے‘ یہ دونوں کو ’’لیول پلے انگ فیلڈ‘‘ دے رہی ہے‘ اس نے خود کو سیاسی جوڑ توڑ سے مکمل الگ کر لیا ہے‘ حکومت کو اب اس نیوٹریلٹی کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ اسے فوج کو دوبارہ سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے‘ یہ ملک‘ فوج اور حکومت تینوں کے لیے مفید ہو گا ورنہ مکمل تباہی ہے۔
بس یہ حکومت بھی گئی: جاوید چوہدری
ایم کیو ایم (قدیم) کے زمانے میں پارٹی کے قائد الطاف حسین ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح لندن میں ہوتے تھے اور پارٹی پاکستان میں‘ قائد محترم لندن سے خطاب فرمایا کرتے تھے اور پارٹی قائدین‘ سینیٹرز‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز سمیت پورا ملک اس لائیو خطاب سے لطف اندوز ہوتا تھا اور ان میں سے جو بھی شخص حکم عدولی کرتا تھا وہ سیکٹر کمانڈر کی درگت کا نشانہ بنتا تھا۔
پارٹی کی انتہائی سینئر اور قابل احترام قیادت تک اس عظیم مرمت کا نشانہ بنی‘ میڈیا میں سے بھی کسی چینل میں الطاف حسین کی تقریر نہ دکھانے کی ہمت نہیں تھی لہٰذا وہ تماشا لائیو پوری قوم کو دکھایا اور سنایا جاتا تھا اور جو چینل انکار کرتا تھا یا درمیان میں اشتہار چلانے کی غلطی کر بیٹھتا تھا اس کے دفتر پر حملہ ہو جاتا تھا‘ پارٹی نے کس کے ساتھ اتحاد بنانا ہے اور کب اس اتحاد سے نکلنا ہے۔
کب سڑکیں اور شہر بند کرنا ہے یہ فیصلہ بھی الطاف حسین کرتے تھے اور کسی کو دم مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی‘ قائد اپنے سینئر وزراء‘ رابطہ کمیٹی کے ارکان اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو اکثر لندن بلا لیتے تھے۔
یہ لوگ جھک کر قائد کو ملتے تھے‘ قائد ان کے کندھے پر تھپکی دیتا تھا‘ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتا تھا اور پھر انھیں فرش پر بٹھا دیتا تھا اور پھر یہ تصویریں میڈیا کو ریلیز کر دی جاتی تھیں‘ قائد اپنے ایم این ایز کو اشارہ کرتا تھا اور یہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے کھڑے ہو کر پورے شریف خاندان کو گالیاں دے دیتے تھے‘ یہ سلسلہ اگست 2016 تک ایم کیو ایم (قدیم)کے ایم کیو ایم پاکستان بننے تک جاری رہا یہاں تک کہ الطاف حسین پر پابندی لگ گئی اور پارٹی تین چار گروپوں میں تقسیم ہو کر ’’نفیس‘‘ ہو گئی۔
آپ اب اس صورت حال کو میاں نواز شریف اور ن لیگ کے ساتھ کمپیئر کر کے دیکھیں‘ پارٹی کے تاحیات قائد نے 10 مئی کو اپنے وزیراعظم اور سینئر وزراء کو لندن طلب کیا اور یہ تمام لوگ بارہ گھنٹے کے نوٹس پر لندن حاضر ہو گئے۔
وزیراعظم جھک کر قائد سے ملے‘ قائد نے اپنے وزیراعظم کو تھپکی دی اور تصاویر میڈیا کو ریلیز کر دی گئیں‘ یہ یقینا چھوٹے بھائی کا بڑے بھائی سے محبت کا اظہار ہو گا لیکن اس محبت کو میڈیا میں ریلیز کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ روپیہ اور اسٹاک ایکسچینج ’’فری فار آل‘‘ تھی‘ روپیہ روزانہ تین روپے گر رہا تھا‘ اسٹاک ایکس چینج تین دن میں اڑھائی ہزار پوائنٹس نیچے آگئی۔
ملک میں ’’حکومت جا رہی ہے‘‘ جیسی سنسنی پھیل گئی‘ آصف علی زرداری پریس کانفرنس پر مجبور ہو گئے‘ اتحادیوں نے ایک دوسرے سے کانا پھوسی شروع کر دی‘ سفارت کار حیرانی سے دائیں بائیں دیکھنے لگے اور پارٹی گھبراہٹ میں میڈیا سے غائب ہو گئی لیکن لندن میں تین دن تک میٹنگز پر میٹنگز چلتی رہیں اور ہر میٹنگ سے پہلے سینئر ترین قائدین سے حلف لیا جا رہا تھا۔
اس ایکسرسائز کا مقصد کیا تھا؟ شاید میاں نواز شریف عوام‘ اتحادیوں‘ پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے طاقت کا اصل سرچشمہ میں ہوں‘ حکومت‘ اتحاد اور پارلیمنٹ کا فیصلہ پی ڈی ایم یا شہباز شریف نے نہیں کرنا میں نے کرنا ہے اور قائد کی اس سیاسی لذت میں معیشت کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو گیا‘ سوال یہ ہے یہ کام جب الطاف حسین کرتے تھے تو ن لیگ ایم کیو ایم کا مذاق اڑاتی تھی اور آج اگر یہ لوگ اس ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی بنا رہے ہیں۔
قائد لندن میں بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلانا چاہتے ہیں تو کیا ن لیگ کو اس عظیم کارنامے پر مبارک باد پیش کرنی چاہیے؟ ملک میں اس وقت عملاً دو وزیراعظم‘ دو وزیرخزانہ ‘دو وزراء اعلیٰ اور دو صدور ہیں‘ میاں شہباز شریف وزیراعظم ہیں لیکن پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے سے لے کر وزارتیں دینے اور واپس لینے تک کے فیصلے میاں نوازشریف لندن سے کر رہے ہیں۔
مفتاح اسماعیل وزیرخزانہ ہیں لیکن فیصلہ سازی اسحاق ڈار کے ہاتھ میں ہے‘ حمزہ شہباز 12 کروڑ لوگوں کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن پی کے ایل آئی اور مری کے حالات سے لے کر افسروں کے تبادلے تک تمام فیصلے میاں شہباز شریف کر رہے ہیں اور عارف علوی صدر ہیں لیکن صدارتی اختیارات عمران خان استعمال کر رہے ہیں‘ اس صورت حال میں صرف دو عہدے بچے ہیں‘ آرمی چیف اور چیف جسٹس اگر خدانخواستہ یہ بھی اسی صورت حال کا شکار ہو گئے تو ملک کا کیا بنے گا؟۔
یہ صورت حال مزید کتنا عرصہ چل سکے گی؟ میرا خیال ہے یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی‘ حکومت کسی بھی وقت ختم ہو جائے گی‘ کیوں؟ اس کے چھ بڑے اشارے ہیں‘ پہلا اشارہ ‘یہ سسٹم اگر چل سکتا تو میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار واپس آ چکے ہوتے‘ یہ اگر نہیں آ رہے تو اس کا مطلب ہے ن لیگ نے اسمبلیاں توڑنے اور نئے الیکشن میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
دوسرا اشارہ ‘پنجاب میں حکومت بنے 17 دن ہو چکے ہیں لیکن سب سے بڑا صوبہ ابھی تک کابینہ کے بغیر چل رہا ہے‘ یہ حقیقت بھی بول رہی ہے صوبائی کابینہ کے معاملے پر ڈیڈ لاک موجود ہے اور یہ ڈیڈ لاک حکومت کو جلد فارغ کر دے گا‘ تیسرا اشارہ ‘عمران خان اپنی تقریروں سے ملک کو تنور میں جھونک رہے ہیں‘ ہم سب تیزی سے سیاسی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن کوئی عمران خان کو روک نہیں رہا‘ کیوں؟ کیوں کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کی طرف مگر کوئی بھی یہ ڈھول اپنے گلے میں باندھنے کے لیے تیار نہیں‘ میاں نواز شریف نے عمران خان کی ذمے داری اپنے سر لینے سے انکار کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے یہ جن کی تخلیق ہے وہ جانے اور یہ جانے‘ ’’ریچھ جانے اور قلندر جانے‘‘ ہمیں اس سے الجھنے کی کیا ضرورت ہے لہٰذا اگر حکومت کا چلنے کا ارادہ ہوتا تو پی ٹی آئی کے لیے اکیلا رانا ثناء اللہ ہی کافی تھا مگر یہ لوگ گالیاں کھا کر بھی خاموش بیٹھے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ اس کارخیر کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے حکومت یہ ہیں لہٰذا عمران خان ان کی ذمے داری ہیں‘ حکومت کو چلانا ہماری ڈیوٹی نہیں‘ چوتھا اشارہ‘ یہ تاثر ن لیگ کے اندر بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ’’ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔
ہم سازش کا شکار ہو گئے ہیں‘‘ یہ لوگ اب کھلے عام کہہ رہے ہیں ہم پر پہلے کیس بنا کر ہمیں بدنام کیا گیا اور اب ہماری سیاسی ساکھ کا جنازہ بھی نکال دیا گیا‘ عمران خان حکومت جب مکمل طور پر ناکام ہو گئی تو اسے نکال کر ہیرو بنا دیا گیا اور پھر ہمارا سر چٹان کے نیچے دے دیا گیا‘ یہ لوگ ان تین ٹیلی ویژن چینلز کا نام بھی لیتے ہیں جو دن رات عمران خان کو کوریج دے رہے ہیں‘ ان کا کہنا ہے یہ چینل ریاست کے زیر اثر ہیں۔
ریاست انھیں کیوں نہیں روک رہی؟ یہ پی ٹی آئی کے ان ایم این ایز کا حوالہ بھی دیتے ہیں جو ریاست کے امیدوار ہیں‘ یہ لوگ آج بھی پی ٹی آئی میں کیوں ہیں اور یہ عمران خان کے ایجنڈے کا جھنڈا اٹھا کر کیوں پھر رہے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں عمران خان کو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور دس سیاسی جماعتوں کی قبر کھودی جا رہی ہے‘ پانچواں اشارہ‘ پاکستان روزانہ چار لاکھ 32 ہزار بیرل پٹرول خرچ کرتا ہے۔
ہم ملک میں صرف 70 ہزار بیرل پٹرول پیدا کرتے ہیں لہٰذا ہمیں روزانہ 3 لاکھ 62 ہزار 985 بیرل پٹرول امپورٹ کرنا پڑتا ہے‘ اس کی ویلیو روزانہ 39 ملین ڈالر بنتی ہے‘ ہم اگر 39 ملین ڈالر کو 30 سے ضرب دیں تو یہ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر بنتے ہیں جب کہ گیس اور باقی امپورٹس اس کے علاوہ ہیں اور دوسری طرف ہمارے پاس ڈالر تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور دوست ممالک اور آئی ایم ایف ہمیں امداد دینے کے لیے تیار نہیں ہیں چناں چہ ہم اگر فوری فیصلے نہیں کرتے تو ہم ڈیڑھ ماہ بعد پٹرول امپورٹ نہیں کر سکیں گے اور یوں بجلی بھی بند ہو جائے گی‘ ٹرانسپورٹ بھی رک جائے گی۔
گاڑیاں بھی نہیں چلیں گی اور فلائیٹس بھی معطل ہو جائیں گی‘ ہمارے پاس بچنے کا ایک ہی حل ہے‘ ہم پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں لیکن ن لیگ اس غیرمقبول فیصلے کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں‘ یہ چاہتی ہے یہ فیصلے تمام اتحادی مل کر کریں‘ اکٹھی پریس کانفرنس میں کریں اور چھٹا اور آخری اشارہ‘ اتحادی وزارتوں کو انجوائے کر رہے ہیں لیکن یہ حکومت کو ڈیفنڈ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ن لیگ خود کو کلوژیم میں بھوکے شیروں کے درمیان اکیلا محسوس کر رہی ہے لہٰذا میاں نواز شریف نے حکومت کے خاتمے اور نئے الیکشن کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے یہ سسٹم ایک دو ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکے گا‘ یہ لوگ عبوری حکومت بنا کر مشکل فیصلے اس کے کندھوں پر ڈال دیں گے اور اگر اسٹیبلشمنٹ یہ حکومت رکھنا چاہتی ہے تو پھر اسے کھل کر حکومت کا ساتھ دینا ہوگا‘ عمران خان کی ذمے داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھانا ہو گی اور اتحادیوں کو وزیراعظم کے ساتھ بٹھا کر کڑوے فیصلوں کے کڑوے گھونٹ بھی بھرنا ہوں گے ورنہ یہ حکومت گئی اور اس کے بعد ہم سری لنکا ہوں گے۔
’’صدر ایوب! ہمیں چین کی جاسوسی کرنے دیں‘‘
سید عاصم محمود

شام کا وقت ہے۔ دریائے پوٹومیک سے آنے والی ٹھنڈی ہوا دل و دماغ کو طراوت بخش رہی ہے۔ آج امریکا کے پہلے صدر، جارج واشنگٹن کی رہائش گاہ ’’ماؤنٹ ورنون‘‘ پر بہت چہل پہل ہے۔ اس رہائش گاہ کو حال ہی میں ’’قومی یادگار‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ دراصل آج رات ماؤنٹ ورنون میں مہمان پاکستانی صدر، ایوب خان کے اعزاز میں سرکاری عشائیے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
یہ امریکا کی تاریخ میں پہلا اور آخری موقع تھا کہ بانی صدر جارج واشنگٹن کی رہائش گاہ پر عشائیے کا اہتمام ہوا۔ یہ خوبصورت اور شاندار قومی یادگار امریکی ریاست ورجینیا کی فیئرفیکس کاؤنٹی میں واقع ہے۔
صدرایوب خان کے میزبان امریکی صدر، جان ایف کینیڈی تھے جنھوں نے محض چھ ماہ قبل حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ تاہم ان کے اقتدار کا آغاز کچھ اچھا نہیں ہوا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے معاصر ملک،کیوبا پر حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ مگر وہ بری طرح سے ناکامی کا شکار ہوا۔ پھر ویانا، آسٹریا میں سوویت وزیراعظم، نکتیا خروشیف کے ساتھ نوجوان امریکی صدر کی ملاقات بھی سودمند ثابت نہ ہوئی۔
صدر کینیڈی پر یہ شدید دباؤ
ان ناکامیوں کے باعث صدر کینیڈی پر یہ شدید دباؤ تھا کہ وہ کوئی نمایاں کارنامہ کر دکھائے۔ آخر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے صدر نے امریکا کا دورہ کیا، تو صدر کینیڈی کو اپنے جوہر دکھانے کا سنہرا موقع مل گیا۔
صدر ایوب خان 11 جولائی 1961ء کو امریکا پہنچے۔ اسی دن بروز منگل ماؤنٹ ورنون میں پاکستانی مہمانوں کے لیے زبردست عشائیے کا بندوبست کیا گیا۔ اس موقع پر امریکی صدر اپنے پاکستانی معاصر سے ایک اہم مطالبہ منوانا چاہتے تھے۔ صدرایوب خان کو ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیہ دینے کا خیال امریکی صدر کی حسین و جمیل بیگم، جیکولین کینیڈی کو آیا۔ دراصل ایک ماہ قبل ہی وہ آسٹریا کے دورے پر شون برون محل (Schönbrunn Palace)میں دیے گئے سرکاری عشائیے میں شریک ہوئی تھیں۔
یہ شاہی محل آسٹریا کے سابق ہپسابرگ بادشاہوں کی رہائش گاہ تھا جو سترہویں صدی میں تعمیر ہوا۔ شاہی محل کی شان و شوکت اور چکاچوند نے امریکی خاتون اوّل کو ازحد متاثر کیا۔ایک ہفتے بعد امریکی جوڑا فرانس پہنچا۔ وہاں بھی فرانسیسیوں نے ورسائے کے عظیم الشان محل میں امریکی جوڑے کو دعوت عشائیہ دی۔ فرانسیسی شاہی محل کے تزک و احتشام نے بھی خاتون اول پر گہرا تاثر چھوڑا۔
امریکا میں کوئی شاہی محل یا اسی قسم کی پرشکوہ عمارت نہیں تھی، تاہم جیکولین کینیڈی کی نظریں پہلے امریکی صدر کے خوبصورت مینشن پر جا ٹکیں۔ دریائے پوٹومیک کے کنارے واقع یہ وسیع و عریض مینشن امریکی قصرصدارت ،وائٹ ہاؤس سے چند میل دور ہے۔ خاتون اوّل کو محسوس ہو گیا کہ اس تاریخی رہائش گاہ کی شاندار تاریخ اور دریا کا ساتھ شام کے وقت کا ماحول پاکستانی و مقامی مہمانوں پر سحر طاری کر دے گا۔
پاکستانی مہمانوں کے لیے خاص اہتمام
جیکولین کینیڈی نے پھرجون1961ء میں ماؤنٹ ورنون کا دورہ کیا۔ وہ قرب و جوار کا مشاہدہ کر کے جاننا چاہتی تھیں کہ کیا وہاں سرکاری عشائیے کی اہم تقریب منعقد ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے رہائش گاہ کے منتظم سے بھی مشورہ کیا۔ منتظم نے انھیں بتایا کہ اسی تجویز پر عمل درآمد کے لیے کئی چیلنجوں سے عہدہ براں ہونا پڑے گا۔ دراصل مینشن اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس کے اندر سرکاری عشائیے جیسی بڑی تقریب منعقد ہو سکے۔ لہٰذا نشستوں کا اہتمام برآمدے میں کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پھر اس زمانے میں ماؤنٹ ورنون میں بجلی نہیں تھی۔ نیز اس کا سامان بھی قدیم نوعیت کا تھا۔
اس میں جدید سہولیات سے لیس باورچی خانہ تھا اور نہ ریفریجریٹر! چناںچہ فیصلہ ہوا کہ کھانا وائٹ ہاؤس میں تیار کرا کے یہاں لایا جائے۔ وائٹ ہاؤس کے ملازمین ہی کو مہمان نوازی بھی کرنا تھی۔غرض ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیے کی تقریب منعقد کرنے کی خاطر بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے۔ چونکہ امریکی خاتون اوّل کی یہی خواہش تھی لہٰذا منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں اور بحریہ کے دستوں نے علاقوں کی سکیورٹی سنبھال لی۔ جبکہ فورٹ مائرز سے امریکی بری فوج کا ایک دستہ بھی ماؤنٹ ورنون آ پہنچا۔ اس دستے نے فوجی بینڈ بجا کر مہمانان گرامی کا شاندار استقبال کرنا تھا۔
امریکی خاتون اوّل نے نیشنل سیمفونی آرکسٹرا کو بھی سرکاری عشائیے کے لیے بلوایا۔ کھانے کے بعدارکان آرکسٹرا نے اپنے کمالات سے پاکستانی مہمانوں کو محظوظ کرنا تھا۔ نیز برآمدے میں پنڈال بنانے کے لیے آرائش وزیبائش کرنے والی مشہور کمپنی، ٹفنی اینڈ کمپنی(Tiffany’s) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے پھولوں اور دیگر آرائشی اشیا کی مدد سے نہایت خوبصورت پنڈال تیار کیا جہاں بیٹھ کر سبھی نے کھانا کھایا۔
تاریخی تقریب
مہمان کشتیوں کے چھوٹے سے جلوس کی صورت ماؤنٹ ورنون پہنچے۔ سب سے آگے صدارتی کشتی ’’ہنی فٹنر‘‘ خراماںخراماں تیر رہی تھی۔ اس کے بعد امریکی بحریہ کے وزیر (سیکرٹری) کی کشتی تھی۔ کشتیوں کا یہ قافلہ واشنگٹن میں واقع بندرگاہ سے روانہ ہوا۔ دریائے پوٹومیک میں سفر کرتا پندرہ میل طے کر کے ماؤنٹ ورنون پہنچا۔
مہمانوں میں جو نوجوان تھے، وہ کشتیوں سے اتر کر پیدل ہی ماؤنٹ ورنون کی سمت چل پڑے۔ ان میں سب سے نمایاں امریکی صدر کے چھوٹے بھائی اور اٹارنی جنرل، رابرٹ کینیڈی تھے۔ پاکستانی صدر ،ان کی دختر اور میزبان لیموزین میں بیٹھ کر اپنی منزل تک پہنچے۔مہمانوں کی فہرست میں سب سے اوپر صدر مملکت پاکستان اور ان کی دختر، بیگم نثار اختر اورنگ زیب کا نام تھا۔ دیگر مہمانوںمیں پاکستانی وزیرخارجہ، وزیرخزانہ اور تب امریکا میں پاکستانی سفیر، عزیز احمد شامل تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عزیز احمد نے جب یہ سنا کہ سرکاری عشائیہ وائٹ ہاؤس نہیں ماؤنٹ ورنون میں ہو رہا ہے، تو وہ کچھ پریشان ہو گئے۔ انھیں محسوس ہوا جیسے امریکی پاکستانی مہمانوں کو کمتر سمجھ رہے ہیں۔ لیکن امریکیوں نے انھیں سمجھایا کہ پاکستانی مہمانوں کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون میں عشائیہ دینا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقتاً یہ تقریب تاریخی درجہ حاصل کر لے گی۔ جب بات پاکستانی سفیر سمجھ گئے، تو ان کی جان میں جان آئی۔
واشنگٹن کی ’’کریم‘‘
اس سرکاری عشائیے میں نئی امریکی حکومت کے سبھی نمایاں اور درخشندہ ستارے شریک ہوئے۔ صدر، نائب صدر اور اٹارنی جنرل تو بیگمات کے ساتھ آئے ہی، سیکرٹری خارجہ، ڈین رسک، سیکرٹری دفاع، رابرٹ میکنامارا اور سیکرٹری بحریہ، جان کونلے بھی اپنی بیویوں کے ساتھ آئے۔
امریکی افواج کے کمانڈر، چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل لیمن لمنتز بھی بیگم کے ساتھ عشائیے میں تشریف لائے۔ غرض یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستانی مہمانوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں واشنگٹن کی ’’کریم‘‘ جمع ہو گئی۔وہاں امریکی حکمران طبقے کا ہر اہم رکن موجود تھا۔
اس تقریب میں سب سے زیادہ پرجوش ہستی سی آئی اے کے ڈائریکٹر، ایلن ڈیولاس کی تھی۔ وہ کینیڈی خاندان کے پرانے واقف کار تھے۔ اسی لیے صدر کینیڈی برسراقتدار آئے، تو انھوں نے ایلن کو بدستور ڈائریکٹر سی آئی اے بنائے رکھا، حالانکہ ان کی تقرری سابقہ ریپبلکن صدر نے کی تھی۔
یہ ایلن ڈیولاس ہی ہیں جنھوں نے کیوبا پر ناکام حملے (بے آف پگ معاملے) کی منصوبہ بندی انجام دی تھی۔ یہ پلان کامیاب نہ ہو سکا تاہم امریکی صدر اب بھی اپنے ڈائریکٹر پر اعتماد کرتے تھے۔ اسی لیے پاکستان سمیت دیگر بیرون ممالک میں جاری سی آئی اے کے خفیہ آپریشن بدستور اپنا کام کرتے رہے۔ پاکستان میں جاری امریکی خفیہ ایجنسی کے خفیہ آپریشنوں کو صدرایوب خان کی منظوری حاصل تھی۔
دو خفیہ اور اہم آپریشن
کھانے کا وقت رات آٹھ بجے تھا۔ اس سے قبل مہمانان گرامی نے پہلے امریکی صدر کے مینشن کا دورہ کیا۔ اس دوران مہمان مالٹے اور دیگر پھلوں کے رس سے لطف اندوز ہوئے۔ دونوں صدور موقع کی مناسب سے رسمی لباس میں ملبوس تھے۔ جب یہ مرحلہ ختم ہوا، تو صدر کینیڈی نے پاکستانی صدر کو ساتھ لیا اور دونوں تنہا باغ میں چہل قدمی کرنے لگے۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکی صدر نے اپنا مطالبہ ایوب خان کے سامنے پیش کیا۔
اس زمانے میں سی آئی اے نے پاکستان میں دو نہایت خفیہ اور اہم آپریشن شروع کر رکھے تھے۔ ایک آپریشن تو سال بھر پہلے ہی طشت ازبام ہو گیا جب سوویت یونین نے امریکا کا یوٹو طیارہ مار گرایا۔ یہ طیارہ سوویت یونین کی جاسوسی کر رہا تھا۔ اس کو پشاور میں پاک فضائیہ کی ائیربیس،بڈھ بیر سے اڑایا جاتا تھا۔ اس خفیہ منصوبے کا نام ’’آپریشن گرینڈ سلام‘‘ تھا۔
یوٹو طیارہ گرانے کے کچھ عرصے بعد پیرس میں امریکی صدر آئزن ہاور اور سوویت وزیراعظم خروشیف کے مابین ملاقات ہوئی۔ سوویت لیڈر یوٹو طیارہ سے جاسوسی کرانے پر امریکی صدر سے معذرت چاہتے تھے۔ جب آئزن ہاور نے انکار کیا، تو بدمزگی پیدا ہو گئی اور ملاقات کا انجام اچھا نہیں ہوا۔
اس واقعے کے بعد سی آئی اے نے سوویت یونین کی فضاؤں میں پاکستان سے بھیجے گئے یوٹو طیارے بھجوانے بند کر دیے، تاہم پاکستانی سرزمین پہ ایک اور خفیہ آپریشن جاری رہا۔ یہ آپریشن بھی سابقہ امریکی صدر، آئزن ہاور کے زمانے میں شروع ہوا اور اب تک انجام پا رہا تھا۔ اس کے ذریعے چین کے خلاف سرگرمیاں جاری تھیں۔
چین تبت کو اپنا حصہ سمجھتا تھا۔اس لیے 1951ء میں کمیونسٹ چین نے تبت پہ قبضہ کر لیا۔تاہم تبتی اپنے ملک کو آزاد و خودمختار مانتے تھے۔وہ چین کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے لگے۔ امریکا ان تبتیوں کا حامی تھا۔ چناںچہ مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ کے قریب ایک ہوائی اڈے سے امریکی ان تبتیوں کو اسلحہ اور دیگر ضروری سامان بذریعہ ہوائی جہاز بھجوانے لگے۔
بعدازاں سی آئی اے امریکی ریاست کولوریڈو میں تبتیوں کو چھاپہ مار جنگ کی تربیت دینے لگی۔ یہ تبتی گوریلے بھی مشرقی پاکستان کے راستے ہی بذریعہ ہوائی جہاز تبت میں اتارے جاتے۔کچھ عرصے بعد سی آئی اے نے یوٹو طیارے بھی پاکستانی ائیربیس پر پہنچا دیے۔ یہ طیارے پھر چین کی فضاؤں میں اڑ کر مختلف عسکری مقامات کی تصاویر لینے لگے۔
امریکی حکومت کی مدد
سی آئی اے کے اس آپریشن کو بھی صدر ایوب خان کی منظوری حاصل تھی۔ دراصل تب پاکستانی سوویت یونین اور چین، دونوں کو بھارت کا دوست سمجھتے تھے۔ دشمن کا دوست بھی مخالف ہوتا ہے کہ مصداق پاکستانی حکومت دونوں ممالک کو اپنا حریف تصور کرتی تھی۔ پھر وہ ان کے کمیونسٹ نظریات سے بھی متفق نہ تھی۔اِدھر امریکا پچھلے دس سال سے پاکستان کو بھاری مالی وعسکری امداد دے رہا تھا۔
اس مالی تعاون سے کئی اہم نوعیت کے سرکاری منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے۔1954ء میں سیبر طیارے دئیے جن کی وجہ سے پاک فضائیہ طاقتور ہو گئی۔1960ء میں امریکا کی بھاگ دوڑ کے باعث سند ھ طاس معاہدہ انجام پایا جس سے پانی کا مسئلہ طے ہوا۔ غرض اس زمانے میں امریکی حکومت کئی لحاظ سے پاکستان کی مالی ،عسکری و معاشی مدد کر رہی تھی۔چناں چہ پاکستانی حکومت نے بھی ضروری سمجھا کہ کمیونسٹ ممالک کے خلاف امریکی مہمات میں اس کا ساتھ دیا جائے۔
مشرقی پاکستان میں چینیوں کی جاسوسی کا خفیہ مشن جاری تھا کہ ایک رکاوٹ آڑے آ گئی۔جب جنوری 1961ء میں صدر کینیڈی برسراقتدار آئے، تو انھوں نے بھارتیوں کی خوشنودی کے لیے اعلان کیا کہ بھارت کو نصف ارب ڈالر کی معاشی مدد دی جائے گی۔ اس اعلان نے صدر پاکستان، ایوب خان کو برافروختہ کر دیا۔ وہ جنوبی ایشیا میں بھارت نہیں پاکستان کو امریکا کا قریب ترین اتحادی سمجھتے تھے۔ اسی لیے ناراض ہو کر انھوں نے ڈھاکہ ائیربیس سے امریکی طیاروںکے اڑنے پر پابندی لگا دی۔ یہ دو ماہ پہلے کا واقعہ تھا۔
تنہائی میں ملاقات کریں
آج کے برعکس اس زمانے میں پاکستان سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے اہم ملک سمجھا جاتا تھا۔ نیز صدر ایوب خان خارجہ امور میں آزادی سے فیصلے کرتے تھے کیونکہ پاکستان معاشی طور پہ خاصا مضبوط تھا۔اس نے عالمی و مقامی مالی اداروں کے قرض نہیں دینے تھے جن میں سے بیشتر امریکی وبرطانوی بینکار چلاتے ہیں۔ لہٰذا امریکی جہازوں کی اڑان پر پابندی لگا کر انھوں نے اپنی ناراضی ظاہر کر دی۔ وہ صدر کینیڈی کی بھارت نوازی پر خوش نہیں تھے۔
تاہم پاکستانی صدر نے یہ ضرور خیال رکھا کہ دونوں مملکتوں کے مابین شکر رنجی پس پردہ ہی رہے اور عوام کے سامنے نہیں آنے پائے۔ بس وہ امریکیوں کو بتانا چاہتے تھے کہ بھارت کی طرف ان کا جھکاؤ پاکستان کو پسند نہیں آیا اور یہ منفی عوامل کا حامل بھی ہے۔
جب یہ طے پا گیا کہ پاکستانی صدر کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون پر سرکاری عشائیہ ہوگا، تو سی آئی اے کے ڈائریکٹر، ایلن ڈیولاس اپنے صدر سے ملے۔ انھوں نے صدر کینیڈی کو مشورہ دیا کہ وہ ایوب خان سے تنہائی میں ملاقات کریں اور تب اپنی مانگیں سامنے رکھیں۔ مسٹرایلن کو یقین تھا کہ صدرکینیڈی اپنی پُرکشش شخصیت اور رومانوی ماحول کے بل بوتے پر پاکستانی حکمران سے اپنا مطالبہ منوا لیں گے۔ ان کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔
صدرکینیڈی چاہتے تھے کہ ایوب خان امریکی طیاروں کی اڑان پر لگائی پابندی واپس لے لیں ۔ پاکستانی صدر نے کچھ مزاحمت کرنے کے بعد میزبان کی بات مان لی۔ یوں چین کے خلاف جاری امریکی سرگرمیوں میں پاکستان پھر اس کا اتحادی بن گیا۔ یہی وجہ تھی کوہ اس زمانے میں چینی حکومت پاکستان کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔
اپنی یہ بات منوا لی
تاہم ایک تجربے کار لیڈر ہونے کے باعث صدر ایوب خان نے مفت میں امریکی صدر کا مطالبہ قبول نہیں کیا… انھوں نے بھی اپنی یہ بات منوا لی کہ مستقبل میں کبھی امریکا نے بھارت کو اسلحہ فروخت کیا، تو وہ پہلے پاکستان سے ضرور مشورہ کرے گا۔ افسوس کہ بظاہر خود کو سچا اور مخلص کہنے والے امریکی حکمران اس وعدے پر پورے نہیں اترے۔ جب اگلے سال چین اوربھارت کی جنگ ہوئی، تو صدرکینیڈی نے ایوب خان سے کیا گیا اپنا عہد توڑا اور بالابالا بھارتیوں کو اسلحہ بھجوا دیا۔ امریکیوں کی اس بدعہدی نے ایوب خان کو بہت مایوس کر ڈالا۔
لیکن ابھی ماؤنٹ ورنون میں سرکاری عشائیہ آب و تاب سے جاری تھا۔ مقررہ وقت پاکستانی مہمان گرامی کی خدمت میں چکن کا خصوصی فرانسیسی سالن ’’پولٹ چاسر‘‘ (Poulet Chasseur) چاولوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس کے ساتھ پھلوں کے رس تھے۔ میٹھے کے طور پر کریم میں ڈوبی رس بھریاں کھائی گئیں۔
کمیونسٹوں کے جال میں
صدرکینیڈی جس میز پر براجمان ہوئے وہاں سفید ساڑھی میں ملبوس بیگم اورنگ زیب بھی بیٹھی تھیں۔ جبکہ صدر ایوب خان جس میز پر بیٹھے وہاں حسین و جمیل جیکولین کینیڈی تشریف فرما تھیں۔ اس موقع پر پاکستانی صدر نے خطاب کرتے ہوئے دنیا والوں کو خبردار کیا: ’’ایشیا میں کوئی بھی ملک سیدھی راہ پر نہیں چلا، تو وہ کمیونسٹوں کے جال میں پھنس سکتا ہے۔‘‘ صدرکینیڈی نے اپنی تقریر میں ایوب خان کو ’’پاکستان کا جارج واشنگٹن‘‘ قرار دیا۔ سرکاری عشائیہ رات بارہ بجے ختم ہوا۔ اب مہمانان گرامی کو سڑک کے راستے واپس واشنگٹن پہنچایا گیا۔
صدرکینیڈی کی کابینہ میں بعض وزیر تبت میں جاری سی آئی اے آپریشن کے خلاف تھے۔ بھارت میں امریکی سفیر، جان کینتھ گلبرٹ کا بھی خیال تھا ’’اس آپریشن سے امریکا کو فائدہ نہیں ہوگا، الٹا میلے کچیلے تبتی قبائلی ہمارے گلے پڑ جائیں گے۔‘‘ بعض کا کہنا تھا کہ جواباً چینی بھی امریکیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔
ان خدشات کے باوجود صدرکینیڈی نے سی آئی اے آپریشن جاری رکھا اور اس سے امریکیوں کو فوائد بھی ملے۔ مثال کے طور پر تبتی گوریلوں نے چین کے سرکاری دفاتر پر حملے کیے، تو وہاں سے انھیں ڈھیروں سرکاری دستاویزات ملیں۔ انھوں نے دستاویز امریکا کے حوالے کر دیں۔ اس زمانے میں امریکی کمیونسٹ چین کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ لہٰذا ان دستاویز سے امریکی حکومت کو چینی حکومت کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں۔
چین کی فضاؤں میں امریکی یوٹو طیارے کی اڑانیں بھی کامیاب رہیں۔ ان کی مدد سے امریکیوں کو چینی ایٹمی منصوبے کے متعلق معلومات ملیں جو لوپ نور ٹیسٹ فیسلٹی میں خفیہ طور پر جاری تھا۔ تاہم آپریشن کے مخالف امریکیوں کی ایک پیشین گوئی نے حقیقت کا چولا پہن لیا۔
پاکستان نہیں بھارت
چین کا حکمران طبقہ پاکستان نہیں بھارت کو اپنا حقیقی دشمن سمجھتا تھا۔وجہ یہ کہ تبت میں خانہ جنگی بنیادی طور پہ بھارت کی پشت پناہی کی وجہ سے جاری تھی۔ بھارت کے ساتھ چین کے سرحدی تنازعات بھی تھے۔ اس لیے جب امریکا اور بھارت کے مابین دوستی بڑھنے لگی، تو چینی حکومت کو سخت تاؤ آیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ نہرو حکومت امریکیوں کی آشیرباد سے چینی سرحدی علاقے پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ چناںچہ چین نے دونوں قوتوں کو سبق سکھانے کے واسطے اکتوبر 1962ء میں بھارت پر حملہ کر دیا۔
یہ حملہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ اول اس کی وجہ سے چین اور بھارت کی دشمنی کا آغاز ہوا جو کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ دوم پاکستان اور چین قریب آ گئے۔ بعدازاں ان کے مابین ایسی مستحکم دوستی نے جنم لیا جو پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ گویا 1962ء کا سال جنوبی ایشیا کے لیے کایا پلٹ دینے والا ثابت ہوا۔
اگلے سال ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنے تو انھوں نے چین کا دورہ کیا۔وہ چینی رہنما، ماوزے تنگ اور وزیراعظم، چو این لائی سے ذاتی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب رہے۔جلد ہی دونوں ممالک نے باہمی مسائل حل کیے اور ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔1965ء میں صدر ایوب خان نے چین کا دورہ کیا اور یوں دونوں پڑوسیوں کے مابین ایسے تعلق کا آغاز ہوا جسے ہمالیہ سے بلند اور بحیرہ عرب سے گہرا قرار دیا گیا۔
اعزاز جو پاکستانی صدر کو ملا مگر…
ابھی مگرجولائی 1961ء چل رہا ہے جب پاکستانی صدر امریکی میزبانوں کی شاندار مہمان نوازی سے لطف اندوز وہو رہے تھے۔ماؤنٹ ورنون میں پاکستانی مہمانوں کو جو سرکاری عشائیہ دیا گیا، اسے امریکی اخبارات نے نمایاں جگہ دی۔ کینیڈی جوڑا اس تقریب کے ذریعے جو کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ انھیں پانے میں کامیاب رہا۔ سیاسی طور پر صدرکینیڈی کو یہ کامیابی ملی کہ مشرقی پاکستان میں جاری خفیہ تبت آپریشن کو نئی زندگی مل گئی جسے نئی حکومت کی بڑی فتح سمجھا گیا۔ جبکہ عشائیے کے ذریعے کینیڈی جوڑے کو دارالحکومت میں اپنے معاشرتی تعلقات بڑھانے میں مدد ملی۔
جیسا کہ بتایا گیا، یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور کے صدر نے کسی مہمان حکمران کے اعزاز میں ماؤنٹ ورنون جیسی تاریخی جگہ پر سرکاری عشائیہ دیا۔ یہ اعزاز پاکستان کے صدر ہی کو نصیب ہوا۔ یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ محض ساٹھ برس قبل عالمی سطح پر پاکستان کو عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
اس زمانے میں جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملائشیا جیسے نوآزاد ایشیائی ملک ترقی کا اپنا ماڈل پاکستانی ماڈل کے مطابق استوار کر رہے تھے۔ان ملکوں کے محب وطن ، دیانت دار اور اچھے منتظم حکمرانوں نے تو پاکستانی ماڈل پہ عمل کرتے ہوئے اپنے ممالک کو خوشحال اور ترقی یافتہ ریاستوں میں بدل دیا جہان شہریوں کو ہر قسم کی سہولیات میسّر ہیں۔صد افسوس کہ پاکستان میں حکمران طبقہ جلد ذاتی مفادات، کرپشن اور نااہلی کا نشانہ بن کر نہ صرف منزل کھو بیٹھا بلکہ اس نے ملک وقوم کو تنزلی کے گڑھے میں دکھیل دیا۔امجد اسلام امجد ہمیں یاد دلاتے ہیں:
کروڑوں لوگ تھے جن کا
نہ کوئی نام لیتا تھا، نہ کچھ پہچان باقی تھی
ہر اک رستے میں وحشت تھی
سبھی آنکھوں میں حسرت تھی
نہ آباء سی ہنر مندی، نہ اگلی شان باقی تھی
کھلا سر پر جو اس اعلان کا خوشبو بھرا سایا
تو ان کی جاں میں جاں آئی
دہن میں پھر زباں آئی
بہتر سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ، “پاکستان” مت بھولو

شریف گھرانے میں پڑنے والی دراڑ اب نمایاں دکھائی دے رہی ہے۔ نواز اور مریم ، شہباز شریف اور حمزہ سے فاصلے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اوّل الذکر ریاست اور حکومت کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے سامنے مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔ ثانی الذکر اس ’’محاذ آرائی ‘‘ کو سیاسی خود کشی سے تعبیر کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی طے کردہ حدود کے اندر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس اختلاف کا پہلا عوامی اظہار این اے 120 کے ضمنی انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آیا جب حمزہ شہباز سامنے سے ہٹ گئے اور مریم نواز کو انتخابی مہم چلانی پڑی۔ اس سے پہلے یہ حلقہ حمزہ شہباز، جو پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی انتخابی مشینری چلارہے ہیں، کی نگرانی میں تھا۔ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں فتح کے مارجن نے شہباز شریف کے موقف کو درست ثابت کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصاد م کی راہ سے گریز بہتر ہے ۔ باپ اور بیٹی سیاسی طور پر ’’شہادت اور مظلومیت ‘‘ کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے بھاری انتخابی کامیابی کی امید لگائے ہوئے تھے ، لیکن ایسا نہ ہوا۔
پی ایم ایل (ن) کے ووٹ کو سہ رخی پیش رفت نے نقصان پہنچایا۔ ایک ، اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکائو رکھنے والی دو مذہبی جماعتیں سیاسی اکھاڑے میں اترتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کا کم از کم دس فیصدووٹ بنک لے اُڑیں۔ دوسری، پی ایم ایل (ن) کے اہم کارکنوں، جو الیکشن کے مواقع پر ووٹروں کو تحریک دے کر گھروں سے باہر نکالنے کی مہارت رکھتے ہیں، کی اچانک ’’گمشدگی‘‘ ، اور تیسری، دودرجن کے قریب ایسے امیدواروں کا الیکشن میںحصہ لینا جن کے ووٹ چند ہزار سے زیادہ نہیں تھے لیکن اگر وہ نہ ہوتے تو یہ ووٹ مجموعی طور پر پی ایم ایل (ن) کے امیدوار کو ملتے ۔
اب حمزہ نے ٹی وی پر آکر شریف خاندان میں نمایاں ہونے والے اختلافات کا اعتراف کیا ہے ۔ تاہم وہ اور مریم اب ہونے والے نقصان کی تلافی کی کوشش کررہے ہیں۔ حمزہ کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات ایسی خلیج نہیں جسے پُر نہ کیا جاسکے ، نیز اُنہیں اور ان کے والد صاحب (شہباز شریف ) کو امید ہے کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں نوازشریف اور مریم کو تصادم اور محاذآرائی کے راستے سے گریز پر قائل کرلیں گے ۔ دوسری طرف مریم کا کہنا ہے کہ اُنھوںنے اپنے چچا، شہباز شریف اور کزن، حمزہ کے ساتھ چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک شاندار سہ پہر گزاری ، نیز خاندان میں اختلاف کی خبریں مخالفین کی خواہش تو ہوسکتی ہیں لیکن ان میںحقیقت کا کوئی عنصر موجود نہیں۔
اس دوران اسٹیبلشمنٹ کا موڈ جارحانہ ہے ۔ نوازشریف کو عہدے سے ہٹانے کے بعد اب یہ ان ٹی وی اینکروں اور چینلوں کی آواز خاموش کرارہی ہے جو نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یا ریاسست کے بیانیے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے ۔ کیبل آپریٹروں پر دبائو ڈالنے سے لے کر پریشانی پیدا کرنے والے چینلوں کی نشریات روکنے تک، ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جارہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوںکی حب الوطنی کو مشکوک بناتے ہوئے اُنہیں غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے ۔
حالیہ دنوں ایک غیر معمولی مداخلت بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔ آرمی چیف نے عوامی سطح پر دئیے جانے والے ایک بیان میں ’’بیمار معیشت ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا کہ اس سے ’’نیشنل سیکورٹی ‘‘ کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ معیشت کی خراب صورت ِحال کوئی نئی بات نہیں، کئی عشروں سے ہمیں اسی ’’بیماری ‘‘ کا سامنا ہے ۔ تاہم آج معیشت کی صورت ِحال اتنی خراب نہیں جتنی ماضی میں کئی ایک مواقع پر تھی۔ شریف حکومت اور اس کے فنانس منسٹر اسحاق ڈار پر اسٹیبلشمنٹ کے توپچیوں کا لگا یا جانے والا ایک الزام یہ بھی ہے۔
پی ایم ایل (ن) کو فخر ہے کہ اس نے نہ صرف معیشت کی حالت بہتر کی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے بھی امکانات پیدا کیے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے انچارج، وزیر ِد اخلہ احسن اقبال نے دوٹوک انداز میں ان الزامات کو مسترد کردیا، جبکہ وزیر ِاعظم عباسی نے فوراً ہی آرمی چیف سے ملاقات کی اور اُنہیں حقیقی صورت ِحال کے متعلق بریفنگ دی اور معیشت کے بارے میں اُن کے خدشات رفع کیے ۔ تاہم ایک بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت چند سال پہلے کی جانے والی مداخلت سے کم اہم نہیں جب سندھ کی سیاسی اشرافیہ پر کئی بلین ڈالر بدعنوانی کے الزامات تھے ( جو ثابت نہ ہوسکے ) اور اس بدعنوانی کا تعلق دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے نتیجے میںآصف زرداری کے کچھ اہم معاونین کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ، ایک چیف منسٹر کو عہدہ چھوڑنا پڑا اور صوبے پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔
لیکن اگر نوازشریف کے لیے سیاسی موسم خراب ہے تودوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی براہ ِراست مارشل لا لگانے کی پوزیشن میں نہیں۔ تمام تر افواہیں اپنی جگہ پر ، لیکن اب اسلام آباد میں ’’ماہرین ‘‘ کی حکومت مسلط کرنا کسی کے بس میں نہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس بات کو یقینی بنائے بغیر کہ کیا پی ٹی آئی اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے گی، دونوں مرکزی جماعتوں، پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی ناراضی مول لے رکھی ہے ۔ درحقیقت یہ دومرکزی دینی جماعتوں، جماعت ِاسلامی اور جے یو آئی پر بھی مکمل طور پر تکیہ نہیں کرسکتی ۔ پی ایم ایل (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی اس کی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہورہیں۔ نہ ہی یہ براہ ِراست مداخلت کے لیے موجودہ عدلیہ کی تائید پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرسکتی ہے ۔
انتہائی کھولتے ہوئے عالمی حالات میں اقتدار کی سیج کانٹوں کا بستر ہے ۔ چنانچہ مارشل لا کو خارج ازامکان سمجھیں۔موجودہ حالات میںٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ آئین میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ تھیوری کے اعتبار سے صرف ایک صورت میں ایسا ہوسکتا ہے جب پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا جائے اور ایک نگران حکومت قائم کی جائے جس کی توثیق عدلیہ کردے ۔ لیکن آج کے ماحول میں اس کی کوشش وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلق کو نقصان پہنچائے گی،اور یہ اقدام ریاست، معاشرے اور معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ قوم کا المیہ یہ ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کا احتساب کرنے والے خود احتساب سے ماورا ہیں ۔ چنانچہ اعتماد کا فقدان اپنی جگہ پر موجود ہے ۔