کائنات کی سب سے بڑی کہکشاں دریافت، حیرت انگیز حقائق

لائلپورسٹی- 05دسمبر2022: ہماری کائنات میں ہزاروں لاکھوں کہکشائیں ہیں اب ایک نئی اور سب سے بڑی کہکشاں دریافت ہوئی ہے جس کی حجم نے ماہرین فلکیات کو حیران کردیا ہے۔ کائنات پراسراریت کا مجموعہ ہے آئے روز اس کے کسی نہ کسی اسرار سے پردہ اٹھتا ہے اور دنیا ایک نئے جہان سے روشناس ہوتی ہے۔ یہ دریافتیں ماہرین فلکیات کے لیے علم وتحقیق کے نئے در کھولتی ہیں۔ حال ہی میں ہماری فلکیاتی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی کہکشاں دریافت ہوئی ہے جو حجم کے لحاظ سے اب تک دریافت ہونے والی سب سے بڑی کہکشاں ہے اور اس کی جسامت نے خود ماہرین فلکیات کو حیرت زدہ کردیا ہے۔

اس کہکشاں کے حجم کے لیے اگر فلکیاتی پیمانہ دیکھا جائے تو یہ 5 میگا پارسیک ہے یعنی یہ کہکشاں اپنے ایک سے دوسرے کنارے تک ایک کروڑ 63 لاکھ نوری سال تک وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کائنات کی سب سے بڑی کہکشاں کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس نئی دریافت ہونے والی کہکشاں کو ایکیونیئس کا نام دیا گیا ہے جو ایک ریڈیائی گلیکسی ہے اور ہم سے تین ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگرچہ ماہرین اس پر مزید تحقیق کررہے ہیں لیکن کہکشاں کے متعلق ابتدائی معلومات سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ چپٹی بیضوی شکل کی ہے اور اس کہکشاں ہے جس کا بلیک ہول ہمارے سورج سے کوئی 40 کروڑ گنا زیادہ کمیت رکھتا ہے۔

سائنسداں متفق ہیں کہ ایلکیونیئس کے مرکز میں ایک بہت بڑا بلیک ہول ہے جو سرگرم ہے اور اطراف کے مادے کو نگل رہا ہے۔ تاہم کچھ بچ جانے والا مادہ آینوائز پلازمہ کی بوچھاڑ کی صورت مٰں خارج ہو رہا ہے جس سے ریڈیائی سگنل بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ’دیوہیکل ریڈیائی کہکشائیں‘ کہا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے یورپ میں واقع لوفریکوئنسی ایرے (لوفار) سے اس کا ڈٰیٹا جمع کیا ہے۔ لوفار 20 ہزار ریڈیو اینٹینا کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو پورے یورپ میں 52 مقامات پر پھیلا ہوا ہے۔ تاہم اس کا ڈیٹا دیگر ریڈیائی اجسام کے سگنل سےبھرا ہوتا ہے اور اسے کمپیوٹر پر صاف کیا جاتا ہے تاکہ صرف ریڈیو کہکشاں کا منظر ہی سامنے آسکے۔

فلکیاتی دنیا میں ریڈیائی کہکشائیں خود کائناتی معمہ مانی جاتی ہیں۔ ان کی ساخت بھی دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ ان میں ایک بڑی مرکزی کہکشاں ہوتی ہے جس کے گرد ستاروں کی جھرمٹ گردش کرتی ہے۔

نمیبیا کی چراہ گاہوں کے پُراسرار دائروں کا معمہ حل ہوگیا

وِنڈہُک ، نیمبیا-5دسمبر2022: برِاعظم افریقا کے جنوبی ملک نمیبیا کی چراہ گاہوں میں موجود عجیب و غریب دائروں نے سائنس دانوں کو تقریباً پانچ دہائیوں تک الجھائے رکھا لیکن ایک نئی تحقیق میں اس پُراسرار معاملے پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ نمیب کے ساحلی علاقے پر موجود سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں موجود یہ دائرے تقریباً 80 سے 140 کلومیٹر طویل رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ دیمک اس معاملے کی ذمہ دار ہیں لیکن پرسپیکٹِیوز اِن پلانٹ اِکالوجی، ایوولوشن اینڈ سسٹیمیٹکس نامی جرنل میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ دائرے گھاس محدود پانی کی رسد کی وجہ سے خود بناتی ہوں۔ سائنس دانوں نے متعدد صحرائی علاقوں میں کبھی کبھار ہونے والی بارش اور گھاس کی جڑوں اور شاخوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اور ممکنہ طور پر دیمک کے جڑوں کو نقصان پہنچانے کے امکانات کے پیشِ نظر یہ اخذ کیا کہ یہ پراسرار دائرے پانی کی کمی کی وجہ سے بنے۔

محققین کو، جن میں سے چند کا تعلق جرمنی کی یونیورسٹی آف گوٹِنجن سے تھا، معلوم ہوا کہ گھاس خود کو اس طریقے خود ہی ترتیب دیتی ہیں تاکہ باقی رہنے کے لیے پانی کو بانٹ سکیں۔ سائنس دانوں نے ان دائروں کے اندر اور ان کی اطراف مٹی کی نمی کی پیمائش کرنے کے لیے سینسر لگائے تاکہ 30 منٹ کے دورانیوں میں مٹی میں پانی کی موجودگی ریکارڈ کی جاسکے۔ پیمائش 2020 کے خشک موسم سے شروع کی گئیں جو 2022 کے بارشوں کے موسم کے اختتام تک جاری رہا۔

نتائج میں معلوم ہوا کہ بارشوں کے بعد 10 دن کے اندر ہی دائرے میں موجود گھاس مرجھانا شروع ہوگئیں تھیں جبکہ دائروں میں گھاس کے کونپلیں موجود نہیں تھیں۔ بارشوں کے 20 دنوں کے اندر دائرے کی گھاس مکمل طور پر مرجھا چکیں تھیں جبکہ اطراف کی گھاس ہری بھری تھی۔